توحید، کفر، شرک، الحاد، بدعت
و ضلالت کی تعریف اور ان کے اقسام
مع احکام قدرے وضاحت کے ساتھ
مطلوب ہے...
بحوالہ مدلل اس پر روشنی ڈالیں
الجواب وباللہ التوفيق
توحید کہتے ہیں ذات و صفات میں الله تعالی کو یکتا ماننا ، کہ اس کارخانۂ عالم کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہے، اور اس میں بلا شرکتِ غیر ہر حرکت و سکون اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، وہ فاعلِ مختار ہے، ذات و صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں.
توحید کے چار مراتب ہیں؛
۱)توحیدِ ذات: یعنی صرف الله تعالی کی ذات کو واجب الوجود ماننا، کسی اور کو اس صفت کے ساتھ متصف نہ ماننا.
(واجب وہ ہستی ہے جس کاعدم ممتنع ہو، اور وجود ضروری ولابدی ہو،
واجب لذاتہ وہ ہستی جس کا وجود ذاتی ہو یعنی خانہ زاد نہ ہو، وہ اپنے وجود میں غیر کا محتاج نہ ہو.)
۲)توحیدِ خلق: یعنی عرش آسمان، زمین، اور دیگر تمام جواہر کا خالق صرف الله ہی کا جانناـ
۳)توحیدِ تدبیر: یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ آسمان وزمین اور ان کے ذریعہ تمام چیزوں کا نظم و انتظام صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہی کائنات کامدبر و منتظم ہے، ان کے ساتھ کائنات کے نظم و انتظام میں کوئی شریک نہیں ہے، وہی پروردگار و پالنہار ہے، اس مرتبہ کا دوسرا نام توحیدِ ربوبیت ہےـ
۴)توحیدِ الوہیت: یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہیں، بندگی اور عبادت انھیں کا حق ہے، ان کے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق نہیں ـ
◀ایمان و کفر
ایمان کی تعریف علامہ آلوسی رحمہ اللہ : الایمان ھو التصدیق بما علم مجیئ النبی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم بہ ضروررتا تفصیلا فیما علم تفصیلا او اجمالا فیما علم اجمالا.
علامہ کشمیری رحمہ اللہ ایمان کی تعریف: تصدیق النبی بما جاء بہ النبی بالاعتماد علی النبی.
شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ : کتاب اللہ کا ظاہرا و باطنا اقرار کرنا اور اس کے معانی پر قرآن و حدث کے موافق عمل کرناـ
کفر کی تعریف علامہ غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تکذیب النبی فی شیئ مما جاء بہ
مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کفر؛ جن امور کی تصدیق ایمان میں ضروری ہے، ان میں سے کسی امر کی تکذیب کرنا.
دراصل تکذیب النبی کا نام ہی کفر ہے پھر اس کی چند صورتیں ہیں اور انھیں صورتوں کی وجہ سے کفر کی چند قسمیں ہوجاتی ہیں.
۱)کفر انکار: جو شخص دل و زبان سےشدت کے ساتھ اسلام کا انکار کرتا ہے، یہ کفرِ انکار ہے اسی پر عام کفار ہیں.
۲)کفرِ جحود: وہ یہ ہے کہ دل سے اسلام کو دین ِ حق سمجھتا ہو، اس کی حقانیت کا قائل ہو، مگر زبان سے اقرار نہیں کرتا، بلکہ انکار کرتا ہے، یعنی خوب جانتا ہے مگر مانتا نہیں جیسے کفرِ ابلیس اور عہد نبوی کے یہود.
۳) کفرِ عناد ؛ وہ یہ ہے کہ اسلام کو دل سے سچا جانتا ہے اور اس کا اقرار بھی کرتا ہے، لیکن دینِ حق کے علاوہ ادیانِ باطلہ سے بیزار نہیں ہوتا اور دین حق کی اتباع نہیں کرتا، جیسے ہرقل اور ابو طالب کا کفر
۴)کفرِ نفاق: وہ ہے کہ دل میں تکذیب و انکار ہے اور زبان پر دنیوی مصلحت اور اغراضِ فاسدہ کی بنا پر اقرار ہے، قادیانی، شیعہ وغیرہ.
۵)کفرِ الحاد و زندقہ : وہ یہ ہے کہ دین کو بھی سچا جانتا ہو، قرآن و حدیث کو بھی تسلیم کرتا ہو، مگر قرآن و حدیث کے کسی نصوص کی اس طرح تاویل کرے کہ جو قرآن و حدیث کے کسی قطعی تصریحات کے خلاف خود ساختہ قول پر محمول ہو. جیسے بعض متجددین کا کفر.
(توضیحات و جواہر الفقہ)
تفسیر القرطبی میں مذکور ہے:
”الالحاد: المیل والعدول، ومنہ اللحد فی القبر، لانہ میل الی ناحیة منہ“۔
اوراصطلاح میں:
ملحد اس شخص کو کہتے ہیں جوبظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر وتشریح کرتا ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین رحمہم اللہ، نیز اجماع امت کے خلاف ہے تو وہ ملحد ہے، مثلاً :ایک شخص قرآن کے حق ہونے کا تو اقرار کرتا ہے اور اس میں جنت ودوزخ کا جو ذکر آیا ہے، اس کو بھی مانتا ہے، مگر کہتا ہے کہ جنت سے مراد وہ فرحت ومسرت ہے جو مؤمنین کو اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور نار جہنم سے مراد وہ ندامت و اذیت ہے جو کافروں کو اعمال شنیعہ اور اخلاق ذمیمہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور کہتا ہے کہ جنت اور دوزخ کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں، تو یہ ملحد و زندیق ہے۔
”فان الزندیق یموّہ کفرہ ویروّج عقیدتہ الفاسدة ویخرجہا فی الصورة الصحیحة وہذا معنی ابطال الکفر“۔ (فتاوی شامی ۴/۲۴۲،ط:ایچ ایم سعید)
ترجمہ: ”زندیق اپنے کفر کی ملمع سازی کرتا ہے اور اس کو صحیح صورت میں ظاہر کرتا ہے، یہی معنی ہے کفر کو چھپانے کا“۔
یعنی اصطلاح میں عام طور سے 'الحاد' ایسے انحراف کو کہا جاتا ہے کہ ظاہر میں تو قرآن اور اس کی آیات پر ایمان وتصدیق کا دعویٰ کرے، مگر اس کے معانی اپنی طرف سے ایسے گھڑے جو قرآن وسنت کی نصوص اور جمہور امت کے خلاف ہوں اور جس سے قرآن کا مقصد ہی الٹ جائے، جیساکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
”وقال ابن عباس رضی اللہ عنہ : ہو تبدیل الکلام ووضعہ فی غیر موضعہ“۔
(تفسیر القرطبی، سورہ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 'الحاد' کلام کو تبدیل کرنے اور اس کو غیر محمل پر حمل کرنے کو کہا جاتا ہے“۔
(ماخوذ از نت)
◀شرک
شرک ایک گھناؤنا جرم ہے، جو عقل و دانش کے حوالے سے انسانی فطرت پر ایک بدنما داغ ہے، شرک سے انسان اپنے خالق پر سب سے بڑا افتراء باندھتا ہے، اور اپنی تخلیق اور فطری استعداد کے خلاف بغاوت کرتا ہے، اسی وجہ سے اس کو قرآن کریم میں ظلم عظیم کہا ہے، حدیث میں درجاتِ کبائرمیں سرفہرست رکھا گیا،
شرک کی تعریف میں شاہ وصی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: جو صفات خاص اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ مختص ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور میں ثابت کرنا،
حجۃ اللہ میں ان اس طرح تعریف فرمائی: شرک کی حقیقت یہ ہے کہ کسی بڑے آدمی ی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے، کہ اس سے جو آثارِ عجیبہ صادر ہوئے ہیں، وہ صرف اس وجہ سے صادر ہوئے ہیں کہ وہ صفاتِ کمالیہ میں کسی ایسی صفت کے ساتھ متصف ہے جوانسان میں نہیں پائے گئے، بلکہ واجب تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، ان کے علاوہ میں نہیں پائے جاسکتے.
بالفاظ دیگر عبادت وبندگی جوطریقہ اور جو افعال ذاتِ باری تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ مخصوص ہیں، وہ طریقہ و افعال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے بھی اختیار کرنا.
آسان لفظوں میں شرک غیر اللہ کی عبادت کرنے کا نام ہے،
اور عبادت غایت درجہ تذل، عاجزی و انکساری کا نام ہے، یعنی باری تعالی کے سامنے اس کی انتہائی تعظیم کرکے خود کے عمل سے خود کو غایت درجہ کا عاجز و ذلیل قرار دینا،
کون سا عمل غایتِ تذلیل ہے اور کون سا کم درجہ کا ہے یہ بات دو طرح سے متعین کی جاسکتی ہے،
۱)عمل کی حالت دیکھ کر جیسے سجدہ،
۲) نیت دیکھ کر جیسے قربانی کرناـ
شرک کی مزید وضاحت شرک کی ان صورتوں سے ہوجاتی ہے جن کو شاہ صاحب رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ میں بیان فرمایا:
۱)غیر اللہ کو سجدہ کرنا
۲)حوائج میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنا
۳)کسی کو اللہ کا بیٹا یا نبی کہنا
۴)علماء و مشائخ و تحلیل و تحریم کا اختیار دینا
۵)غیر اللہ کے لئے جانور ذبح کرنا
۶)غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑنا
۷)غیر اللہ کی قسم کھانا (لوگ بعض انسانوں کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے نام بابرکت ومحترم ہیں ان کے ناموں کی جھوٹی قسم کھانا مال و آل میں نقصان کا باعث ہے)
۸)غیر اللہ کے آستانوں کا حج کرنا
۹)غیر اللہ کی طرف بندگی کی نسبت کرنا.
من اراد جل التوضیح فلیراجع "رحمۃ الله الواسعۃ"
ایک قسم شرک کی اور ہے جس کو شرکِ اصغر اور شرک خفی کہتے ہیں، یعنی ریاکاری، یعنی عبادت تو الله کی کی جائے لیکن نیت میں غیر الله کو شریک کرلینا.
◀بدعت
بدعت: لغوی طور پر نئے چیز اور نئے کام کرنے کو بدعت کہتے ہیں،
اور اصطلاح شرع میں ایسی کام کو ایجاد کرنا جس کی مثال و نظیر قرونِ مشہود لہا بالخیر میں نہ ظاہرا موجود ہوں نہ کنایۃ اور نہ کسی سے مستنبط ہو، اور اس کو حصول ثواب کی نیت سے کیا جائے، اور نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله عنھم نے اس کی ضرورت ہونے کے باوجود نہیں کیا.
(یہ چند قیود ہیں تمام احترازی ہیں)
علامہ پالنپوری لکھتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ بدعت ہونے نہ ہونے کا مدار اس پر نہیں ہے کہ وہ کام خیر القرون میں ہوا ہے یا نہیں، بلکہ اس کا مدار اس پر ہے کہ اس کی اصل خیر القرون میں موجود تھی یا نہیں، اگر اصل موجود تھی اور شاخیں بعد میں پھوٹیں اور برگ و بار لائیں، تو وہ بدعت نہیں ہے، ہاں جس کام کا اس مبارک زمانہ میں اصل ہی موجود نہ ہو اس کا سارا وجود ہی مابعد زمانہ میں ہوا ہو تو وہ بدعت ہے.
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسلام میں کوئی ایسی بات نکالنا جس کی کتاب و سنت سے نہ ہو نہ واضح نہ خفی نہ مصرح نہ مستنبط وہ مرود ہے.
قال النووي : البدعة كل شيء عمل على غير مثال سبق ، وفي الشرع إحداث ما لم يكن في عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (مرقات)
خلاصہ یہ کہ غیر دین کو دین میں داخل کرنا بدعت ہے.
مذکورہ بالا تعریف سے معلوم ہوگیا کہ بدعت فقط سیئہ ہیں اس کا کوئی فرد حسن نہیں ہے،
لہٰذا بدعت کی یہ تقسیم کرنے کی ذرا حاجت نہیں کہ بدعت بعض تو سیئہ ہیں اور بعضے حسنہ اس لئے کہ نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا " کل بدعۃ ضلالۃ"
اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کا "نعمت بدعۃ ھٰذہ" کہنا لغوی معنی کے اعتبار سے تھا،لغوی مفہوم مطلق ایجاد کے معنی میں ہے اس میں تقسیم ہوسکتی ہے،
شرعی بدعت کے حوالہ سے مجدد الفِ ثانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
"اما ایں فقیر دریں مسئلہ بایشاں موافقت ندارد و ہیچ بدعت را حسنہ نمی داند و جز ظلمت و کدورت درآں احساس نمی نماید، قال علیہ وعلی آل علیہ الصلاۃ و السلام کل بدعۃ ضلالۃ"
بعض سلف سے جو تقسیم منقول ہے اس سے بدعتِ لغوی مراد جیسا کہ مرقاۃ مفاتیح میں ہے:
قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام في آخر كتاب " القواعد " : البدعة إما واجبة كتعلم النحو لفهم كلام الله ورسوله وكتدوين أصول الفقه والكلام في الجرح والتعديل ، وإما محرمة كمذهب الجبريةوالقدرية والمرجئة والمجسمة ، والرد على هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض كفاية ، وإما مندوبة كإحداث الربط والمدارس ، وكل إحسان لم يعهد في الصدر الأول ، وكالتراويح أي بالجماعة العامة والكلام في دقائقالصوفية ، وإما مكروهة كزخرفة المساجد وتزويق المصاحف يعني عند الشافعية وأما عند الحنفية فمباح ، إما مباحة كالمصافحة عقيب الصبح والعصر أي عند الشافعية أيضا ، وإلا فعند الحنفية مكروه ، والتوسع في لذائذ المآكل والمشارب ، والمساكن ، وتوسيع الأكمام.
والله تعالیٰ اعلم و علمه اکمل واتم
از مفتی یحی صاحب
استاذ حدیث و فقہ
دینیات فائن ٹچ
فقہی سمینار
آج کا سوال نمبر 188
6 ﺫی القعدۃ. 1437ھ مطابق 10 اگست 2016ع بروز چهار شنبہ
No comments:
Post a Comment