Friday 26 August 2016

آزاد رہ کر

اللہ تعالی نے مولویوں کو عجیب الفطرت بنایا ہے، یہ کبھی تولہ اور کبھی ماشہ ہوتے ہیں، تو کبھی شاخ گل اور کبھی آتش فشاں- آئیے آج کی تحریر میں علمائے امت کے انہی روپ ریکھاؤں کا تجزیہ کرتے ہیں-

مولوی مہتمم کی نظرمیں :

مولوی اگرکسی ادارےکامدرس ہوتو وہ مہتمم کے لئے 'بہو' کی طرح ہوتا ہے اور مہتمم 'ساس' کی طرح-جس طرح کھڑوس ساس اپنی بہو پر خطرناک نظریں ڈالتی ہے، اسی طرح مہتمم بھی اپنےمدرس پر 'پینی ' نظر رکھتا ہے- استاذ خواہ کتنی ہی محنت اور جفاکشی کا مظاہرہ کرے، مہتمم کے خیال میں وہ نکما اور نکھٹو ہے- تدریس کتنی ہی عمدہ اور معیاری کیوں نہ ہو، یہ دیوث مدرس کی محنتوں میں بلاوجہ کیڑے نکالتا ہے- مہتمم خود تو وزارت عظمی کے مزے لوٹتا ہے، مگر مولوی کی تن خواہ بڑھاتے وقت ملک الموت سے پالا پڑجاتا ہے- جان نکلنےلگتی ہے-بے چارے غریب ملّا کمائی اور 'آوک' کا کوئی دوسراراستہ بھی نہیں نکال سکتا، ورنہ اسے 'باب الخروج' دکھا دیاجائےگا- مہتمم نماز نہ پڑھے توکوئی مضائقہ نہیں، مگر مولوی نہ پڑھے تو دائرۂ اسلام سے خارج اور مدرسہ سے برطرفی کا مستحق-

مولوی 'مولوی' کی نظر میں :

مدرسے میں کوئی نیا مولوی آجائے تو قدیم مولوی یہ سمجھتا ہےکہ 'سوتن' آگئی- اس کے پیچھے اس طرح پڑتا ہے کہ 'سی بی آئی' والے کیا پڑیں گے!! کس استاذ کے پاس طلبہ کی زیادہ آمدورفت ہے؟ کس مدرس کی طرف طلبہ کا رجوع زیادہ ہے؟ بس اسی ادھیڑبن میں قیمتی اوقات کاخون- مہتمم کی چاپلوسی کرکے کس طرح فلاں مدرس کو نکالا جائے؟ وہ کون سا حیلہ ہو کہ مدیر الجامعہ فلاں مولوی کو 'گول گول' گھما دے؟ انہی پیچ و تاب میں ہمہ وقت غلطاں- ایک دوسرے سے اس قدر نفرت کہ مخالفین اسلام کو مات دے جائیں- اس درجہ کدورت کہ اگر اسلام میں خونریزی جائز ہو تو یہ پہلا وار اپنی 'سخت جان سوکن ' پر کریں- ہر مولوی دوسرے کی نظر میں مفسد و مخرب- ہرایک دوسرے کی سیاست مکروہہ کا شکار-

مولوی طلبہ کی نظر میں :

مدرس اگر اولوالعزم اور سوزدروں کا حامل ہے اور طلبہ کو کچھ دینا چاہتا ہے، تووہ سب سے بڑا 'کرمنل ' ہے- ڈھیلا ڈھالا مدرس صوفی اور باخدا ہے، لیکن اصول پسند استاذ 'لکع ابن لکع'- ایسے مدرسین سے جان چھڑوانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں- اگر ایسے استاذ کے گھر کوئی آفت ٹوٹ پڑے تو طلبہ خوشیاں منائیں، مدرس کانام زبان پر آتےہی مغلظات بکیں، اس کی چپل اٹھاکر پھینک دیں، اور کوئی بس نہ چلے تو کسی حریف مدرس سے سازباز کرکے مہتمم تک ان کے نایاب قصور پہنچائیں-

مولوی عوام کی نظرمیں :

یہ لوگ چندہ خور اورزکوۃ خورہیں، انہیں تروی کرنا نہیں آتا، بلکہ ترقی کاخواب بھی ان کےبس کا روگ نہیں- یہ لوگ مال حرام کھانے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے- یتیموں کے نام پر مال سمیٹ کر اپنی بلڈنگیں کھڑی کرتےہیں، بینک بلینس سےاپنا بیک گراؤنڈ مضبوط کرتے ہیں- لیکن اگر مولوی خستہ حال ہوتو عوام کا تبصرہ بدل جائےگا- انھوں نے ہی قوم کو آگےبڑھنے سے روک دیا- اسلام کی غلط تشریح کرتے پھر رہے ہیں- یہ مولوی کیا ہوئے، جوگی ہوگئے، وغیر ذالک من الالزامات

مولوی مقتدی کی نظرمیں :

امام صاحب کی تقریر زوردار نہیں، وہ ادھر ادھر کے موضوعات پر بولتے ہیں، چھ نمبر پر بات نہیں کرتے- ارےانہوں نےتوچلہ بھی نہیں لگایا، انھیں بھگاؤ- ارے یہ تو پان کھاتا ہے اور سیلری بڑھانے کی بات کرتا ہے ،اسےچلتا کرو- یہ تو ہماری باتوں پر توجہ ہی نہیں دیتا، بس ٹیوشن کاٹینشن لئے رہتاہے ،اس لئے ہمیں اس کی قطعی ضرورت نہیں- ہماری نماز ان کے پیچھے نہیں ہوگی، اسےرخصت کرو

مولوی حکومت کی نظرمیں :


مولوی بس اسلام کی بات کرتاہے ،لہذا وہ........

تحریر:   مولانا فضیل احمد ناصری صاحب

No comments:

Post a Comment