Thursday 7 July 2016

مبادا کہ ہوجائے نفرت زیادہ

’مقدمۂ شعر و شاعری‘ جیسی شہرہ آفاق تصنیف کے خالق خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی شاعری جدید شعری روایت کی بنیاد گزاری میں خشتِ اول کا درجہ رکھتی ہے ۔ حالی نے قدیم شعری روایت کو غیر مفید بلکہ دورازکار قرار دیتے ہوئے جدید شاعری کے دامن میں پناہ لینے کو وقت کی ضرورت تصور کیا ۔ حالی کی تنقیدی بصیرت اس وقت کھل کر سامنے آئی جب ان کے دیوان پر لکھا ہوا ان کا مقدمہ (مقدمۂ شعر و شاعری) منظر عام پر آیا ۔ حالی نے مقصدیت پر مشتمل شاعری کو روایتی موضوعات و مضامین والی قدیم شاعری پر فوقیت دی ۔ ان کی غزلوں سے زیادہ ان کی نظمیں مشہور ہوئیں ۔ خصوصاً مسدس مد و جزر اسلام ، چپ کی داد ، مناجات بیوہ ، برکھارت وغیرہ ۔ حالی نے بہت سی غزلیں اردو دنیا کو دیں ، جن میں سے بعض غزلیں بہت مقبول ہوئیں ۔ ان غزلوں کی مقبولیت کی وجہ سادگیٔ زبان ، سلاستِ بیان ، اور روزمرہ کا استعمال قرار دی گئی ۔ ساتھ ہی ان میں سماجی مسائل ، معاشرتی کج روی اور اخلاقی اقدار کے تعلق سے ایسے متعدد نکات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ، جسے زندگی کی صداقتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے ۔ حالی نے بعض ایسی اصلاحی غزلیں کہی ہیں ، جو ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لئے مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں ۔ انہی غزلیات میں سے چھوٹی بحر پر مشتمل ایک غزل مسلسل کا یہاں تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ غزل مکمل طور پر قوم و ملت کو نصیحت کرنے کے لئے حالی نے لکھی ۔ اس غزل کا پہلا شعر ضرب المثل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، جبکہ یہ پوری غزل نصائح اور پندو اندرز کا ایک خزینہ ہے ، جو ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لئے رہنمایانہ خطوط کا درجہ رکھتی ہے ۔ حالی کی زیر موضوع غزل اُنیس اشعار پر مشتمل ہے ۔ اگر اس غزل میں بیان کئے گئے نکات ، ہدایات اور نصائح پر کسی شخص نے مکمل طور پر عمل کرلیا تو یقین جانیئے ، اس کی زندگی کامیابی سے ضرور ہمکنار ہوسکتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب کسی شخص سے گاڑھی چھننے لگتی ہے یا کسی انسان سے بہت زیادہ قربت ، رسم و راہ اور سنگت بڑھ جاتی ہے ، تو ایک دن ایسا آتا ہے کہ اس شخص سے اچانک بہت دوری ، نفرت ، عداوت اور خصومت بڑھ جاتی ہے اور ایسا بارہا دیکھنے میں آتا ہے ۔ حالی اسی حقیقت کی منظرکشی کرتے ہوئے نہایت ناصحانہ انداز میں اپنی غزل کا مطلع کہتے ہیں ؎

بڑھاؤ نہ آپس میں ملّت زیادہ
مبادا کہ ہوجائے نفرت زیادہ

یہاں ملت کا مفہوم دین ، مذہب یا شریعت نہیں ہے بلکہ ملت کا مطلب ملاپ ، رسم و راہ  ،میل جول ، صحبت ، سنگت اور ملنساری ہے ۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے میں ایک لفظ ’مبادا‘ استعمال ہوا ہے ۔ مبادا فارسی لفظ ہے ، جس کے لغوی معنی ’کہیں ایسا نہ ہو ‘ ’خدانخواستہ‘ اور ’خدا نہ کرے‘ ہوتے ہیں ۔ عام طور پر مبادا لفظ کا صحیح استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حالی کے اس مصرعے کو بھی اہل قلم ’مبادا نہ ہوجائے نفرت زیادہ‘ پڑھتے اور لکھتے ہیں ۔ یہاں ’مبادا‘ کے بعد’ نہ‘ کا استعمال تحصیل حاصل ہے یعنی غیر ضروری ہے  ۔ اس لئے مبادا کہ ہوجائے نفرت زیادہ پڑھنا درست ہے ۔ حالی فرماتے ہیں کہ بہت زیادہ میل ملاپ بڑھانے  سے مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس لئے رسم و راہ اختیار کرنے میں اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جس شخص سے بہت زیادہ قربت ہوتی ہے ، ایک دن اسی سے سب سے زیادہ دشمنی ہوتی ہے ۔ اس تجربے سے ہر شخص گزرتا ہے ۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق دہلوی کا ایک نہایت مشہور شعر ہے ، جس میں انہوں نے تکلف کو سراسر تکلیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ لوگ آرام سے رہتے ہیں ، جو تکلف نہیں کرتے ۔ انھوں نے تکلّف کے حوالے سے جو شعر کہا ہے وہ یہ ہے ؎
اے ذوق تکلّف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے وہ ہیں ، جو تکلّف نہیں کرتے
خواجہ الطاف حسین حالی جنھیں شیفتہ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ، انھوں نے اس غزل کے دوسرے شعر میں کچھ اسی طرح کی بات کہنے کی کوشش کی ہے ، لیکن وہ ذوق کے مذکورہ شعر کی طرح پُر اثر شعر نہیں کہہ سکے ۔ خواجہ الطاف حسین حالی کا یہ شعر ذوق کے شعر کا چربہ معلوم ہوتا ہے ۔ حالی فرماتے ہیں ؎
تکلّف علامت ہے بیگانگی کی
نہ ڈالو تکلّف کی  عادت زیادہ
ایک مہمان جب کسی میزبان کے گھر جاتا ہے تو وہ کھانے پینے ، بات چیت کرنے یہاں تک کہ مسکرانے میں بھی تکلف سے کام لیتا ہے ۔ اسے ماحضر تناول کرنے میں تکلف سے کام لینا پڑتا ہے کہ کہیں میزبان پر یہ تاثر نہ قائم ہوجائے کہ اس کا مہمان خوش خوراک معلوم ہوتا ہے ،لیکن یہ تکلف غیر ضروری ہوتا ہے ۔ حالی کا کہنا ہے کہ تکلف سے اپنائیت نہیں بلکہ بیگانگی ٹپکتی ہے ۔ اس لئے اس کی عادت زیادہ مت ڈالو ورنہ خسارے میں رہوگے ۔ اس غزل کے تیسرے شعر میں یہ مفہوم پوشیدہ ہے کہ جو شخص جو اپنی عزت نہیں کرتا تو لوگ بھی اس کی عزت نہیں کرتے ہیں ۔ خود شناسی ضروری ہوتی ہے ۔ اس سے انسان اپنی نظر میں بھی محترم بن جاتا ہے ۔ حالی نے اسی مفہوم کو بڑی سادگی اور سلاست بیانی کے ساتھ یوں پیش کیاہے ۔

کرو دوستو پہلے آپ اپنی عزت
جو چاہو کریں لوگ عزت زیادہ
ایک محاورہ ہے ’’رخنہ ڈالنا‘‘ جس کا مفہوم خلل پیدا کرنا ، روڑا اٹکانا اور بھانجی مارنا ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک دوسرا محاورہ رخنہ (رخنے) نکالنا بھی استعمال ہوتا ہے یعنی نقص نکالنا ، عیب ڈھونڈنا ، نکتہ چینی کرنا ، حیلہ حوالا کرنا ، عذر کرنا ۔ لفظ ’’رخنہ‘‘ کے لغوی معنی نقص ، عیب ، فتنہ ، فساد ، خلل ، مزاحمت ، چھید ، سوراخ ، شگاف اور روزن کے ہوتے ہیں (فیروز اللغات)۔ حالی نے یہاں ’’رخنہ نکالنے‘‘ والا محاورہ استعمال کرکے بڑی نصیحت آموز بات کہی ہے ۔ انھوںنے اس فکری روش پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے جس کے تحت لوگ حسب  نسب اور ذات پات میں نقص نکالتے ہیں ، حالی کا کہنا ہے کہ وہ لوگ بے بنیاد اور بے سود باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ۔ کیونکہ حسب نسب کے اعتبار سے انسان کو برتری اور بزرگی حاصل نہیں ہوتی ، بلکہ اس کا عمل اسے اعلی ، بزرگ اور برتر بناتا ہے ۔ حالی ایسی بے بنیاد باتوں میں وقت ضائع کرنے کو رذالت سے تعبیر کرتے ہیں    ؎
نکالو نہ رخنے نسب میں کسی کے
نہیں اس سے کوئی  رذالت زیادہ
مثل مشہور ہے کہ ’’حرکت میں برکت ہے‘‘ یعنی کام کرنے سے ہی فائدہ ہوتا ہے ۔ کام کرتے رہیں تو خدا بھی مدد کرتا ہے ۔ معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں جو فراغت ، بہ فکری، آرام اور آسودگی کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور محنت سے کتراتے ہیں ، وہ لوگ کبھی بھی دنیا میں آرام و اطمینان کی زندگی نہیں گزار سکتے ہیں ۔ ’’فراغت سے بیٹھنا‘‘ ایک محاورہ ہے ۔ جس کا مفہوم آرام و اطمینان کے ساتھ بیٹھنا ۔ حالی نے اس محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے یہ نصیحت کی ہے ؎
فراغت سے دنیا میں دم بھر نہ بیٹھو
اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ
’’رام ہونا‘‘ یا ’’رام کرنا‘‘ بھی محاورہ ہے جس کا مفہوم کسی کو اپنا گرویدہ بنالینا یا کسی کو اپنی شخصیت سے متاثر کرنا ہوتا ہے  ۔ حالی نے زیر موضوع غزل کے بیشتر اشعار میں جن محاوروں کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے ، ان میں سے ایک محاورہ ’’رام ہونا‘‘ ہے ۔ حالی کا کہنا ہے کہ تم میٹھی زبان کا استعمال کرو ، کیونکہ اس سے دنیا رام ہوتی ہے اور اس میں کوئی دولت بھی خرچ نہیں ہوتی ہے ۔ فارسی زبان کا ایک بہت ہی مشہور محاورہ ہے ’’زبان شیریں ملک گیری‘‘ یعنی نرم زبانی سے بہت کام نکل جاتے ہیں ۔ میٹھی زبان سے دنیا فتح کی جاسکتی ہے ۔ میٹھی زبان کی خصوصیت کا اظہار جس انداز میں حالی نے کیا ہے ، اس پر ایک نگاہ ڈالئے ؎
جہاں رام ہوتا ہے میٹھی زباں سے
نہیں لگتی کچھ اس میں دولت زیادہ
جو لوگ ہر شخص سے ملتے ہوئے اپنی مصیبت اور تکلیف کا اظہار کرتے رہتے ہیں، حالی کی نظر میں وہ مزید مصیبت کو دعوت دیتے ہیں ، کیونکہ مصیبت کا ذکر سننے والا شخص مصیبت تو دور نہیں کرپاتا ہے ، ہاں اس کی دکھتی رگ اور کمزوری سے ضرور واقف ہوجاتا ہے اور اسے جب کبھی موقع ملتا ہے تو اس شخص کے بارے میں غلط بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی تضحیک ضرور کرتا ہے اسی لئے شاعر نے کہا ہے کہ ہر ایک سے اپنی مصیبت کا حال کہنا مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ہے    ؎
مصیبت کا ایک اِک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ
اپنی داد و دہش ، سخاوت اور بخشش کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں سے مخاطب ہو کر حالی کہتے ہیں کہ یہ کام مت کیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری اصل حقیقت یعنی کنجوسی منکشف ہوجائے اور تمہارا دعوی غلط ثابت ہوجائے ۔ اس لئے اپنی داد و دہش کا ذکر کم کیا کرو ؎

کرو ذکر کم اپنی داد و دہش کا
مبادا کہ ثابت ہو خسّت زیادہ
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان نام و نمود کی خاطرسخاوت کا اس قدر مظاہرہ کرنے لگتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کا محتاج ہوجاتا ہے اور دوسروں کے سامنے دست طلب پھیلانے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ اس لئے جب دولت آجائے تو اسے سنبھال کر رکھنا چاہئے ۔ خرچ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ حالی کہتے ہیں کہ نام و نمود کی خاطر پوری دولت مت لٹادو کہ تم خود ہی ایک دن مجبور محض بن جاؤ ۔
پھر اوروں کی تکتے پھروگے سخاوت
بڑھاؤ نہ حد سے سخاوت زیادہ
بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ دوستوں سے بار بار اپنی محبت جتاتے رہتے ہیں اور یہ کہتے رہتے ہیں کہ میں تم لوگوں کو بہت عزیز رکھتا ہوں ۔ تمہارے لئے کچھ بھی کرسکتا ہوں ، لیکن وقت آنے پر ان کے دعوے غلط ثابت ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے بار بار محبت جتانے کی عادت سے احتراز کرنا چاہئے ۔ بلکہ احسان کرکے احسان کو قطعاً نہیں جتانا چاہئے ۔ حالی کے لفظوں میں ؎
کہیں دوست تم سے نہ ہوجائیں بدظن
جتاؤ نہ اپنی محبت زیادہ
حالی کی اس پوری غزل میں نصیحتوں کی ایک دنیا پوشیدہ ہے ۔ ہر شعر اپنی جگہ ایک منفرد مفہوم رکھتا ہے ، جو پند و نصیحت کا ایک بہترین نمونہ ہے ۔ امیروں سے دوری بنائے رکھنے کی بات کرتے ہوئے شاعر نے بڑے پتے کی بات کہی ہے ۔ فقیری میں عزت سے رہنے کا جو نسخہ حالی نے جس شعر میں پیش کیا ہے ، اسے ملاحظہ کیجئے ؎
جو چاہو فقیری میں عزت سے رہنا
نہ رکھو امیروں سے ملّت زیادہ
خواجہ الطاف حسین حالی کا یہ نظریہ ہے کہ جو لوگ اپنی غربت چھپانے کی کوشش کرتے ہیں گویا وہ دولت سے نفرت کرتے ہیں ۔ اس لئے دولت سے نفرت کرنے والا شخص اپنی مفلسی ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتا ہے ۔ اس فلسفے کی تعبیر ملاحظہ کیجئے ؎
وہ افلاس اپنی چھپاتے ہیں گویا
جو دولت سے کرتے ہیں نفرت زیادہ
آدمی اپنے عیوب کو اپنی دولت و ثروت سے چھپانا چاہتا ہے ، لیکن اس کے عیوب اس کی دولت کے باعث نہیں چھپ پاتے ہیں ۔ حالی دعاگو ہیں کہ خدا تجھے دولت زیادہ دے تاکہ تم اپنے عیبوں کو چھپاسکو ، لیکن یہ سمجھ لو کہ چاہے جتنی بھی دولت تمہارے پاس آجائے اس سے تمہارے عیوب نہیں چھپ سکتے ہیں ، کیونکہ عیب تو ہنر سے چھپتے ہیں جو تمہارے پاس نہیں ہے تو پھر یہ کوشش بیکار ہے ؎
نہیں چھپتے عیب اتنی ثروت سے تیرے
خدا دے تجھے خواجہ ثروت زیادہ
یہ دنیا ایسی جگہ ہے کہ جہاں آرام سے رہنا ہے تو اس سے دل لگانا ہی پڑے گا اور ساتھ ہی اس سے ڈر کے بھی رہنا پڑے گا ۔ لیکن ان دونوں میں اعتدال قائم رکھنے کی ضرورت ہے  ۔حالی کہتے ہیں کہ دنیا سے الفت اور وحشت دونوں لازم ہے ، لیکن یاد رہے کہ دنیا سے نہ الفت زیادہ کرنی چاہئے اور نہ ہی اس سے زیادہ محبت رکھنی چاہئے ۔ دنیا سے دل لگانے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے شاعر کہتا ہے ؎
ہے الفت بھی وحشت بھی دنیا سے لازم
پہ الفت زیادہ ، نہ وحشت زیادہ
زیر بحث غزل میں ایک شعر حاصل غزل کا درجہ رکھتا ہے ، جو ضرب المثل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ حالی نے انسانی رتبہ ، فضیلت اور اس کی برتری کو بیان کرتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ ؎

فرشتہ سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اس شعر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کا درجہ فرشتہ سے افضل ہے ۔ فرشتہ بننا انسان کے بس کی بات نہیں ۔ کیونکہ فرشتہ معصوم اور بے گناہ ہوتا ہے اور انسان خطاؤں اور گناہوں کا مرکب ہوتا ہے ، لیکن صحیح معنوں میں انسان بننا بہت  مشکل ہوتا ہے  ۔انسان بنناف فرشتہ بننے سے بہتر ہے ۔ لیکن اس کے لئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسلامی عقیدہ کے مطابق نور سے بنی ہوئی ایک مخلوق کو فرشتہ کہا جاتا ہے ، جو معصوم ہوتی ہے ۔ انسان عناصر اربعہ (ہوا ، پانی ، مٹی ، آگ) سے مرکب ہوتا ہے ۔ انسان کا مفہوم ’’محبت کرنے والا ، اخلاق سے آراستہ‘‘ ہوتا ہے  ۔ ’’انسان بننا‘‘ ایک محاورہ بھی ہے ۔ اسی محاورے کو شاعر نے مذکورہ بالا شعر میں استعمال کیا ہے کہ آدمی سے انسان بننا بڑی دقت طلب اور مشکل ترین کام ہے ۔ اس میں کافی محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس شخص میں ہمدردی ، خلوص ، اخلاق ، مروت ، رواداری  ،تحمل ، بردباری ، انکساری ، شرافت اور آدمیت جیسی صفات پائی جاتی ہوں ، وہی شخص انسان بن سکتا ہے ، لیکن آج کل یہ تمام صفات تمام لوگوں میں کہاں پائی جاتی ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ حالی نے کہا کہ ’’فرشتہ سے بہتر انسان بننا۔ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ‘‘ ۔ اس شعر میں اتنی سادگی ، سلاست اور معنویت ہے کہ جس کے باعث اسے ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔
دنیا میں اہل علم و فن کی ناقدری کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ یہاں اہل علم و فن کی اس قدر عزت اور قدردانی نہیں ہوتی جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ، لیکن جس قدر بھی انھیں عزت و احترام حاصل ہوجاتا ہے ، وہ بھی کم نہیں ہوتا ۔ حالی نے لکھا ہے کہ ہم یہاں بے بھاؤ (مفت) فروخت ہوگئے مگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اپنی قیمت کچھ زیادہ ہی پائی ۔ تبھی وہ کہتے ہیں ؎
بِکے مفت میں ہم زمانہ کے ہاتھوں
پہ دیکھا تو تھی یہ بھی قیمت زیادہ
فانی زندگی میں انسان دنیا کے جھمیلوں میں اس قدر مصروف و منہمک ہوجاتا ہے کہ اسے اس بات کا علم تک نہیں ہوتا کہ وہ عمر کی اس آخری منزل میں پہنچ چکا ہے ، جہاں پر صرف اسے موت نظر آتی ہے ۔ حالی نے اس چل چلاؤ کے وقت کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
ہوئی عمر دنیا کے دھندوں میں آخر
نہیں بس اب اے عقل مہلت زیادہ
اس غزل کے مقطع میں حالی نے اپنے تخلص کا استعمال کیا ہے ۔ اپنی خاکساری کا اظہار کرتے ہوئے وہ اپنی غزل کو بے رنگ کہتے ہیں ۔ جس طرح کلاسیکی موسیقی کا ایک قدیم انداز دھرپد (دھرپت) ہے ، جس میں صرف راگ الاپا جاتا ہے ، لیکن اس میں کوئی خاص کشش نہیں ہوتی ، اسی طرح حالی نے اپنی غزل کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ اے حالی اپنی بے رنگ غزل کے راگ مت الاپو ۔ کیونکہ اس میں کوئی کشش نہیں ہے ۔ مقطع میں حالی فرماتے ہیں ؎
غزل میں وہ رنگت نہیں تیری حالی
الاپیں نہ بس آپ دُھرپَت زیادہ
حالی نے مذکورہ غزل میں جن موضوعات کو پیش کیا ہے ، وہ اس طرح ہیں ۔ حد سے زیادہ قربت کے منفی اثرات ، تکلف سے احتراز ، اپنی عزت آپ کرنا ، حسب و نسب میں کیڑے نکالنے والوں کی تنقید ، علم سے اکتساب شرافت ، کاہلی کی لعنت ، میٹھی زبان کی حکمرانی ، مصیبت کا ذکر دوسروں سے نہ کرنے کی نصیحت ، اپنی سخاوت کا ذکر بار بار نہ کرنے کی ہدایت ، حد سے زیادہ سخاوت کے خطرات ، محبت جتانے کی عادت نہ ڈالنا ، امیروں سے دوری بنائے رکھنا ، دولت سے نفرت نہیں کرنا ، دولت سے عیب چھپانے کی ناکام کوشش کرنا ، دنیا سے الفت اور وحشت دونوں رکھنا ، انسان بننا ، فرشتہ بننے سے بڑی چیز ، اہل علم کی ناقدری ، دولت اور عمر کی ناپائیداری اور حالی کی اپنی شاعری کے تئیں اپنے تاثرات وغیرہ ۔ اگر کوئی شخص ان بیش قیمت نصائح ، ہدایات اور نکات  پرجن کا ذکر اس غزل میں کیا گیا ہے ، عمل پیرا ہوجائے تو اس کی زندگی کامیابی کا نمونہ بن سکتی ہے ۔ یہ پوری غزل زندگی کے رہنمایانہ خطوط کا ایک بہترین مرقع ہے ۔ اس غزل میں محاروں کا بہترین استعمال ملتا ہے ۔ طرز بیان کی جدت ، آسان ترین زبان اور دلوں میں اتر جانے والی سہل الممتنع صنعت کا استعمال کرکے شاعر نے زبان پر قدرت کی بہترین مثال پیش کی ہے ۔ حالی کی یہ غزل ان کی کامیاب اور آسان ترین غزلوں میں سے ایک ہے ۔
صابر علی سیوانی

No comments:

Post a Comment