Thursday 28 July 2016

کیا نہار منہ پانی پینا مفید ہے؟

ایس اے ساگر
ان دنوں نہ صرف سوشل میڈیا پر نہار منہ پانی پینے کے حیرت انگیز فوائد بتائے جارہے ہیں بلکہ بعض اخبارات نے بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے. دعوی ہے کہ نہار منہ پانی پینے سے پورے دن بدن توانا اور دماغ سرگرم رہتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق نہار منہ پانی پینے کے حیرت انگیز فوائد ہیں اوراگراس پر عمل کیا جائے تو نہ صرف ہماری صحت بہتر رہے گی بلکہ پورا دن چاک وچوبند اورچست بھی رہیں گے۔
نیند کے بعد پانی کی کمی دور
6 سے 8گھنٹے کی نیند کے بعد اگر ایک یا دو گلاس پانی نہار منہ پی لیا جائے تو اس سے بدن میں پانی کی کمی دور ہوجاتی ہے، بہت سے لوگ صبح اٹھ کر کافی پینا پسند کرتے ہیں لیکن اس سے مزید پیاس لگتی ہے جب کہ پانی پینے سے پورے دن تازگی برقرار رہتی ہے۔
فوری توانائی مہیا کرتا ہے :
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بدن میں سستی اور کم توانائی کی بڑی وجہ جسم میں پانی کی کمی بھی ہے، پانی جسم اور دماغ دونوں کے افعال کو بہتر بناتا ہے اور انسانی موڈ کو اچھا کرتا ہے، نیند کے بعد  بدن میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے اور نہارمنہ پانی پینے سے انسان دن بھر تروتازہ اور تندرست رہتا ہے۔
دماغ کے لئے طاقتور :
ہم جانتے ہیں کہ انسانی دماغ 73 فیصد پانی پر مشتمل ہوتا ہے اسی لئے پانی کی وافر مقدار دماغ کے لیے بہت ضروری ہے، اگر صبح کے وقت دو  گلاس پانی پی لیا جائے تو دن کی شروعات درست سمت میں ہوجاتی ہے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق صبح کے وقت ورزش، مناسب ناشتا اور وافر پانی بقیہ پورے دن کے معمولات پر اثر انداز ہوتا ہے اور انسان تندرست رہتا ہے۔ صبح کے وقت پانی سے بیماریوں کو بھگائیے
رات کو گہری نیند سے جسم کی ٹوٹ پھوٹ دور ہوجاتی ہے گویا بدن اپنی مرمت آپ کرتا ہے، سوتے وقت جسم سے زہریلے مرکبات بھی خارج ہوتے رہتے ہیں۔ صبح بیدار ہوتے ہی پانی پینے سے جسم سے زہریلے مرکبات خارج ہونے کا عمل تیز ہوجاتا ہے،  دماغ کے علاوہ پانی پھیپھڑوں اور گردوں کی کارکردگی بہتر بناتا ہے اور اسی لیے پانی کو بدن کے لیے شفاف خون قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
جسمانی نظام کی مجموعی بہتری :
انسانی جسم میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد تعمیری نظام کو استحالہ یا میٹابولزم کہا جاتا ہے، صبح پانی پینے سے جسم کے ضروری کاربوہائیڈریٹس اور پروٹین کو پورے جسم میں گردش کرنے کا راستہ مل جاتا ہے، پانی سے غذا جزوبدن بنتی ہے، ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور بدن سے مضر جسمانی مواد خارج ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ذیادہ پانی پینے سے بھوک کی شدت کم ہوتی ہے اور انسان کم کھانے سے موٹاپے کی طرف مائل نہیں ہوتا۔
من شرب الماءَ على الريقِ انتُقِصَت قوتُه
الراوي:
أبو سعيد الخدري 
المحدث:  
الهيثمي       -   المصدر:  مجمع الزوائد  -   الصفحة أو الرقم:  5/89خلاصة حكم المحدث:  فيه محمد بن مخلد الرعيني وهو ضعيف 
 لتحميل تطبيق الموسوعة الحديثية على الأندرويد: 
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.zad.hadith
..........................................................
یہ حدیث ضعیف ہے 
مجمع الزوائد .
ﺑﺎﺏ ﺷﺮﺏ ﺍﻟﻤﺎﺀ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺮﻳﻖ

ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﺨﺪﺭﻱ ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ : ﻣﻦ ﺷﺮﺏ ﺍﻟﻤﺎﺀ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺮﻳﻖ ﺍﻧﺘﻘﺼﺖ ﻗﻮﺗﻪ . ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ ﻓﻲ ﺍﻷﻭﺳﻂ ﻭﻓﻴﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺨﻠﺪ ﺍﻟﺮﻋﻴﻨﻲ ﻭﻫﻮ ﺿﻌﻴﻒ . ﻭﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻦ ﻛﺜﺮ ﺿﺤﻜﻪ ﺍﺳﺘﺨﻒ ﺑﺤﻘﻪ ﻭﻣﻦ ﺷﺮﺏ ﺍﻟﻤﺎﺀ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺮﻳﻖ ﺍﻧﺘﻘﺼﺖ ﻗﻮﺗﻪ . ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ ﻓﻲ ﺍﻷﻭﺳﻂ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﻃﻮﻳﻞ ﻫﻮ ﻓﻲ ﺍﻟﺰﻫﺪ ﻭﻓﻲ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﻣﻦ ﻟﻢ ﺃﻋﺮﻓﻬﻢ
مغالطہ میں پڑگئے عوام :
نہار منہ گرم پانی پینے کے اس قسم کے بے شمار فوائد سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اہل علم نزدیک حدیث کی مشہور کتاب طبرانی شریف کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے نہار منہ پانی پیا، اس کی طاقت کم ہوجائے گی۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چار چیزیں بدن کو مضبوط بنادیتی ہیں۔
1. گوشت کھانا ۔
2. خوشبو سونگھنا ۔
3. کثرت سے نہانا ۔
4. سوتی لباس پہننا اور
چار چیزیں بدن کو لاغر اور بیمار کردیتی ہیں۔ ان میں سے تین یہ ہیں ۔
1. نہار منہ پانی پینا ۔
2. ترش چیزیں کثرت سے کھانا ۔
3. فکر اور غم زیادہ کرنا
حکیم الامت کا موقف :
حکیم الامت حضرت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ بہشتی زیور میں رقمطراز ہیں ۔ صبح کو فوراً پانی نہ پیو اور یک لخت ہوا میں نہ نکلو۔ اگر بہت ہی پیاس ہے تو عمدہ تدبیر یہ ہے کہ ناک پکڑ کر پانی پیو اور ایک ایک گھونٹ کرکے پیو اور پانی پی کر ذرا دیر ناک پکڑے رہو، (اس دوران) سانس ناک سے مت لو۔ اسی طرح گرمی میں چل کر فوراً پانی مت پیو۔ خاص کر جس کو لُو لگی ہو، وہ اگر فوراً بہت سا پانی پی لے تو اسی وقت مرجاتا ہے۔ اسی طرح نہار منہ نہ پینا چاہئے اور بیت الخلاء سے نکل کر فوراً پانی نہ پینا چاہئے۔ ۔ جہاں تک ہوسکے، ایسے کنویں کا پانی پیو جس کی بھرائی زیادہ ہو (یعنی پانی زیادہ ہو) کھارا پانی اور گرم پانی مت پیو۔ بارش کا پانی سب سے اچھا ہے مگر جس کو کھانسی اور دمہ ہو ، وہ نہ پئے۔ کسی کسی پانی میں تیل ملا ہوا سا معلوم ہوتا ہے۔ وہ پانی بہت برا ہے۔ اگر خراب پانی کو عمدہ بنانا ہو تو اس کو اتنا پکاؤ کہ سیر کا تین پاؤ رہ جائے۔ پھر ٹھنڈا کرکے چھان کر پیو۔ گھڑوں کو ہر وقت ڈھانپ کر رکھو بلکہ پینے کے برتن کے منہ پر باریک کپڑا بندھا رکھو تاکہ چھنا ہوا پانی پینے میں آئے۔ برف گردوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ خاص کر عورتیں اس کی عادت نہ ڈالیں۔ کھاتے پیتے وقت ہرگز نہ ہنسو۔ اس سے بعض اوقاقت موت کی نوبت آجاتی ہے۔
بحوالہ، بہشتی زیور نواں حصہ صفحہ 682
کیا کہتی ہے جدید تحقیق؟
نہار منہ پانی پینا جوڑوں کے درد کا باعث ہوتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں گھٹنوں کے مریضوں کو نہار منہ پانی پینے سے منع کردیا جاتا ہے۔ آج سے تقریباً 35 سال پہلے نہار منہ پانی پینے کے فائدے اس قدر بیان کئے گئے تھے کہ لاتعداد لوگ نہار منہ پانی پینے کے عادی ہوگئے تھے۔ اور بہت سے لوگ تو اسے 'سنت' بھی کہنے لگے ہیں۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں میں نہار منہ پانی پینے کی ترغیب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دی گئی ہے ۔
آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ رمضان المبارک میں افطاری کے وقت کچھ نہ کھائیں اور صرف پانی پی لیں۔ آپ کی ٹانگیں تراویح میں کھڑا ہونے سے عاجز آجائیں گی۔
قلب کے لئے خطرناک :
مشہور و معروف طبیب حکیم محمد اجمل شاہ  بہترین نباض تسلیم کئے جاتے ہیں۔ نبض اور قارورہ دیکھ کر مرض سمجھ جاتے ہیں۔ مریض کو مرض بتانا نہیں پڑتا۔ غذاؤں سے علاج کرتے ہیں۔ رائیونڈ کے بزرگ، انڈیا اور کئی ممالک کے بزرگ، مولانا طارق جمیل صاحب وغیرہ ، ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ ان کے استاد حکیم صدیق شاہین صاحب مرحوم (گولڈ میڈلسٹ) فرمایا کرتے تھے کہ نہار منہ پانی پینا براہِ راست دل پر اثر انداز ہوتا ہے اور معدے کو ٹھنڈا کرتا ہے. حکیم اجمل شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس بات پر اطباء کا اتفاق ہے کہ درج ذیل موقعوں پر پانی نہیں پینا چاہئے۔
ا. نیند سے بیدار ہوکر (یعنی نہار منہ)
ج ۔  بیت الخلاء سے فراغت کے فوراً بعد (پیشاب پاخانہ یا غسل کے فوراً بعد)
د ۔  مشقت کے بعد (سفر، ورزش، بھاگ دوڑ محنت مزدوری وغیرہ کے بعد)
ہ ۔  رات کو سونے سے پہلے (یعنی پانی پیتے ہی نہ سونے کے لئے لیٹ جائیں) ج پانی کم یا زیادہ پینے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ صحت مند آدمی کو اعتدال سے کام لینا چاہئے اور بیمار آدمی کو طبیب کے مشورے پر عمل کرنا چاہئے۔
کیا کہتی ہے طب نبوی؟
پانی پینے میں آپ کا طریقہ سب سے کامل ترین ہے اگر ان طریقوں کی رعایت کی جائے تو حفظان صحت کے اعلی ترین اصول ہاتھ آجائیں آپ شہد میں ٹھنڈا پانی ملا کر پیتے تھے اس میں حفظان صحت کا وہ باریک نکتہ پنہاں ہے جہاں تک رسائی بجز فاضل اطباءکے کسی کی نہیں ہوسکتی اس لئے کہ شہد نہار منہ چاٹنے اور پینے سے بلغم پگھل کر خارج ہوتا ہے خمل معدہ صاف ہوجاتا ہے اور اس کی لزوجت (چپک) ختم ہوجاتی ہے اور فضلات دور ہوجاتے ہیں اور معدہ میں معتدل گرمی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے سدے کھل جاتے ہیں اور جو بات معدہ میں اس کے استعمال سے ہوتی ہے وہی گروہ جگر اور مثانہ میں اس کا اثر ہوتا ہے اور معدہ کے لئے یہ ہر شیریں چیز سے زیادہ مفید ہے البتہ معمولی طور پر جن لوگوں میں صفراءکا غلبہ ہوتا ہے انہیں اس سے ضرر پہنچتا ہے اس لئے کہ اس کی حد ت سے حدت صفراءدوگنی ہوجاتی ہے اور کبھی صفراءمیں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی مضرت کو دور کرنے کے لئے اس کو سرکہ کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جس سے غیر معمولی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور شہد کا پینا شکر وغیرہ کے دیگر مشروبات کے مقابل بہت زیادہ ہے بالخصوص جن کو ان مشروبات کی عادت نہ ہو اور نہ طبیعت اس کی خوگر ہو اس لئے کہ اگر وہ اس کو پیتا ہے تو اس سے وہ بات نہیں پیدا ہوگی جو شہد کے پینے سے ظاہر ہوتی ہے اس سلسلہ میں اصل چیز عادت ہے اس لئے کہ عادت ہی اصول کو منہدم کرکے نئے اصول مرتب کرتی ہے۔ اور جب کسی مشروب میں حلاوت وبرودت دونوں ہی موجود ہوں تو اس سے بدن کو غیر معمولی نفع پہنچتا ہے اور حفظان صحت کی سب سے اعلی تدبیر ہے اس سے ارواح واعضاءمیں بالیدگی آتی ہے اور جگر اور دل کو اس سے بے حد لگاﺅ ہے اور اس سے بڑی مدد حاصل ہوتی ہے اور اس میں جب دونوں وصف ہوں تو اس سے غذائیت بھی حاصل ہوتی ہے اور غذا کو اعضاءتک پہنچانے کا کام بھی ہوجاتا ہے اور جب غذا اعضاءتک پہنچ جائے تو کام پورا ہو جاتا ہے۔
آب سرد تر ہے یہ حرارت کو توڑتا ہے اور جسم کی رطوبات اصلی کی حفاظت کرتا ہے اور انسانی بدن کو بدل ما یتحلل کو پیش کرتا ہے اور غذا کو لطیف بنا کر رگوں میں پہنچاتا ہے۔
اطباءکا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آب سرد سے بدن کو غذائیت حاصل ہوتی ہے یا نہیں اس سلسلے میں اطبا ءکے دو قول منقول ہیں ایک جماعت کا خیال ہے کہ اس میں تغذیہ ہے اس لئے کہ مشاہدہ ہے کہ آب سرد کے استعمال کے بعد طبیعت میںجان آجاتی ہے اور جسمانی نمو ہوتا ہے خاص طور پر شدید ضرورت کے وقت پانی پینے سے غیر معمولی توانائی آجاتی ہے۔
لوگوں نے بیان کیا کہ حیوانات ونباتات کے درمیان چند چیزوں میں قدر مشترک ہے پہلی چیز 1. نمو‘
2. دوسری غذائیت اور
3. تیسری چیز اعتدال ہے اور نباتات میں حسی قوت موجود ہے جو اس میں اس کی حیثیت سے پائی جاتی ہے اسی لئے نباتات کا تغذیہ پانی سے ہوتا ہے پھر حیوان کے لئے پانی میںکوئی تغذیہ نہ ہو تو سمجھ سے بالا تر چیز ہے بلکہ پانی کو حیوان کی کامل غذا کا ایک حصہ ہونا چاہئے۔
لوگوں نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ہم تو یہ نہیں کہتے کہ پانی کا غذائیت میں کوئی حصہ نہیں بلکہ ہم تو صرف اس کا انکار کرتے ہیں کہ پانی سے تغذیہ نہیں ہوتا انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کھانے میں غذائیت پانی ہی کی وجہ سے ہوتی ہے اگر یہ چیز نہ ہوتی تو کھانے میں غذائیت پانی ہی کی وجہ سے ہوتی ہے اگر یہ چیز نہ ہوتی تو کھانے سے غذائیت ہی حاصل نہ ہوتی۔
لوگوں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ حیوانات و نباتات کا مادہ پانی ہے اور جو چیز کسی شے کے مادہ سے قریب ہوتی ہے اس سے تغذیہ حاصل ہوتا ہے تو ایسی صورت میں جب پانی ہی مادہ اصل ہو جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا۔
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ[الأنبياء : 30]
”ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو زندگی بخشی.“
تو پھر اس چیز کے تغذیہ سے کیسے ہم انکار کرسکتے ہیں جو مطلقاً مادہ حیات ہو مزید برآں ہم پیاسوں کو دیکھتے ہیں کہ جہاں ٹھنڈے پانی سے ان کی تشنگی بجھی ان میں دوبارہ جان آگئی اور ان کی قوت ونشاط اور حرکت تینوں بازیاب ہوگئے اگر کھانا نہ بھی ملے تو صبر کرلیتے ہیں بلکہ تھوڑے کھانے پر اکتفا کرلیتے ہیں اسی طرح ہم نے پیاسے کو دیکھا کہ کھانے کی زیادہ مقدار کھا کر بھی اس کی تشنگی نہیں جاتی اور نہ اس کے بعد اسے قوت کا احساس ہوتا ہے نہ غذائیت کا شعور ہوتا ہے ہمیں اس سے انکار نہیں کہ پانی غذا کو اجزائے بدن تک پہنچاتا ہے اور غذائیت کی تکمیل پانی ہی کے ذریعہ ہوتی ہے بلکہ ہم تو اس شخص کی بات بھی تسلیم نہیں کرتے جو پانی کے اندر قوت تغذیہ بالکل نہیں مانتا اور غالبا ہمارے نزدیک اس کی یہ بات امور وجدانی کے ہم پلہ ہے۔
ایک جماعت نے پانی سے تغذیہ کے حصول کا انکار کیا ہے اور انہوں نے ایسی چیزوں سے استدلال کیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ صرف پانی پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا اور پانی کھانے کے قائم مقام نہیں ہوسکتا اس سے اعضاءکو نمو نہیں ہوتا اور نہ وہ بدل مایتحلل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی طرح کی باتیں استدلال میں پیش کرتے ہیں جن کا قائلین تغذیہ نے بھی انکار نہیں کیا وہ تو کہتے ہیں کہ پانی میں غذائیت اس کے جوہر اس کی لطافت ورقت کے مطابق ہوتی ہے اور ہر چیز اپنی حیثیت ہی سے مفید تغذیہ ہوسکتی ہے چنانچہ مشاہدہ ہے آہستہ خرام ٹھنڈی تازہ ہوا بدن کو بھلی لگتی ہے اور اپنی حیثیت سے وہ ہوا تغذیہ بدن کرتی ہے اسی طرح عمدہ خوشبو سے بھی ایک قسم کا تغذیہ ہوتا ہے اس بیان سے پانی کی غذائیت کی حقیقت منکشف ہوگئی۔
حاصل کلام یہ کہ جب پانی ٹھنڈا ہو اور اس میں شہد کشمش یا کھجور یا شکر کی شیرینی آمیز ہو تو بدن میں جانے والی تمام چیزوں میں سے سب سے زیادہ نفع بخش ہوگا اور اسی سے صحت کی حفاظت ہوگی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ٹھنڈا شیریں مشروب بہت زیادہ مرغوب تھا اور نیم گرم پانی نفاخ ہوتا ہے اور اس کے مخالف عمل کرتا ہے۔
باسی پانی پیاس کے وقت پینا بہت زیادہ نافع اور مفید ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ابو الہیثم بن التیھان کے باغ میں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا کسی مشکیزہ میں باسی پانی ہے؟
ابو الہثیم نے باسی پانی پیش کیا. آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نوش فرمایا اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے الفاظ یوں ہیں،
اگر کسی مشکیزہ میں باسی پانی موجود ہو تو ہم منہ لگا کر پی لیں۔
باسی پانی خمیر آرو کی طرح ہے اور اسے اپنے وقت سے نہار منہ پیاجائے تو افطار صوم کی طرح ہے دوسری بات یہ کہ رات بھر گزرنے کی وجہ سے باریک سے باریک اجزاءارضی تہ نشین ہوجاتے ہیں اورپانی بالکل صاف شفاف ہوجاتا ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے پانی شیریں کیا جاتا تھا اور آپ باسی پانی پینا پسند فرماتے تھے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ آپ کے پینے کے لئے پانی سقیا کے کنویں سے لایا جاتا۔
مشکیزوں اور مٹکوں کا پانی مٹی اور پتھر وغیرہ کے برتنوں میں رکھے ہوئے پانی سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے بالخصوص جب چمڑے کا مشکیزہ ہو اسی وجہ سے آپ نے چمڑے کے پرانے مشکیزے کا باسی پانی طلب فرمایا اور دوسرے برتنوں کا پانی آپ نے نہیں مانگا اس لئے کہ چمڑے کے مشکیزے میں جب پانی رکھا جاتا ہے تو وہ دوسرے برتنوں کے مقابل زیادہ لطیف ہوتا ہے اس لیے کہ ان مشکیزوں میں مسامات ہوتے ہیں جن سے پانی رستا رہتا ہے اسی وجہ سے مٹی کے برتن کا پانی جس سے پانی رستا رہتا ہے دوسرے برتنوں کے بہ نسبت زیادہ لذیذ ہوتا ہے اور زیادہ ٹھنڈا ہوتا ہے کیونکہ ہوا ان مسامات سے گزر کر اس کو ٹھنڈا کردیتی ہے چنانچہ اللہ کی رحمتیں اور درود نازل ہوں اس ذات پر جو مخلوق میں سب سے کامل سب سے زیادہ شریف النفس اور سب سے افضل طور پر رہنمائی کرنے والی ہے جنہوں نے اپنی امت کے سب سے زیادہ نفع بخش اور بہتر امور کی طرف رہنمائی کی جو قلوب واجسام اور دین ودنیا ہر ایک کے لئے بہت زیادہ مفید اور نافع ہیں۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو سب سے زیادہ مرغوب شیریں اور ٹھنڈا مشروب تھا اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد شیریں پانی ہو جیسے چشمے، کنویں کے شیریں پانی ہوتے ہیں اس لئے کہ آپ کے سامنے شیریں پانی پیش کیا جاتا اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس سے مراد شہد آمیز پانی ہو یا چھوہارے اور کشمش کا مشروب مراد ہو لیکن بہتر بات یہی ہے کہ اس سے دونوں ہی معنی مراد ہوں تاکہ یہ سب کو شامل ہوجائے۔
صحیح حدیث میںآپ کے اس قول :
((ان کاعند ک ماءبات فی شن والا کرعنا))
یعنی (اگر تمہارے مشکیزہ کا باسی پانی موجود ہو تو ہم منہ لگا کر پی لیں)سے منہ لگا کر پانی پینے کا جواز نکلتا ہے خواہ پانی حوض کا ہو یا کسی مشکیزہ وغیرہ کا یہ کوئی خاص واقعہ ہو جس میں منہ لگا کر پانی پینے کی ضرورت پیش آئی ہو یا آپ نے اسے بیان جواز کے لئے ایسا کیا اس لئے کہ بہت سے لوگ اسے برا سمجھتے ہیں اور اطباءتو اسے حرام قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس سے معدہ کو نقصان پہنچتا ہے ایک حدیث جس کی صحت کا مجھے علم نہیں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں پیٹ کے بل پانی پینے سے منع فرمایا اور یہی کرع ہے اور اس بات سے منع فرمایا کہ ہم ایک ہاتھ کے چلو سے پانی پئیں آپ نے فرمایا کہ تم میں کا کوئی کتے کی طرح پانی نہ پئے اور رات میں کسی برتن سے پانی نہ پئے یہاں تک کہ اسے اچھی طرح دیکھ بھال کرلے ہاں اگر وہ بر تن ڈھکا ہوا ہو تو کوئی حرج نہیں....اور بخاری کی حدیث اس سے زیادہ صحیح ہے اگر یہ حدیث ہو تو ان دونوں کے درمیان کوئی تعارض نہیں اس لئے کہ اس وقت شاید ایک ہاتھ سے پانی پینے میں دشواری ہوئی تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ ہم منہ لگا کر پانی پی لیں گے اور منہ سے پانی پینا اس وقت ضرر رساں ہے جب پینے والا اپنے منہ اور پیٹ پر جھکا ہو جیسے کہ نہر اور تالاب سے پانی پیا جاتا ہے لیکن اگر کھڑے ہوکر کسی بلند حوض سے منہ لگا کر پانی پیا جائے تو ایسی صورت میں ہاتھ سے اور منہ لگا کر پانی پینے میں کوئی فرق نہیں......
ویسے پانی کی کثرت دماغ کو کمزور کرتی ہے.....کیونکہ پانی کی کثرت نزلہ اور بلغم پیدا کرتی ہے..اور اس سے دماغ کمزور ہوتا ہے....اور پانی زیادہ پینے کی ضرورت پیش آتی ہے زیادہ پیاس لگنے پر.اور زیادہ پیاس لگتی ہے زیادہ کھانے پر....لیکن غور کیجئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر.. کہ اس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیا ہے.فرمایا ہے کہ کھانا کم کھایا کرو...
واللہ اعلم باالصواب

1 comment: