Thursday 7 July 2016

زندگی میں سادگی اپناؤ

ایس اے ساگر

زندگی میں سادگی اپناؤ جتنی سادہ تمھاری زندگی ہوگی اتنی پریشانیاں کم ہوں گی - بظاہر یہ جملہ زمانہ کی ہواؤں کیخلاف محسوس ہوتا ہے لیکن سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گواہ ہے.  دارالعلوم حیدرآباد کے استاذ مولانا محمد مجیب الرحمن دیودُرگی کے بقول آج ہر طرف سامانِ دنیا کی ریل پیل ہے، ہر کوئی عیش کوشی کا متمنی، ہر ایک دنیوی زندگی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کا خواہاں، ہر شخص سامانِ عیش وعشرت کا طلب گار، ہر کوئی دنیاوی آسائش میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کاخواہاں، امیر ہو کہ غریب ہر کوئی اسی فکر میں مست ومگن ہے کہ کیسے اسباب دنیا وسیع ہوں؟ نیز کیسے اس کی زندگی مادی وسائل کے اعتبار سے معیاری و مثالی بنے، بس اسی فکرِ دنیا میں عمر عزیز کٹ رہی ہے، اور دن بہ دن دوسری دنیا کے قریب ہورہے ہیں؛ حالانکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسباب عیش وعشرت اختیار کرنے میں اپنے آقا سرورِدوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل کو جانیں، اور اسوہٴ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنانے کی کوشش کریں کہ کیسے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسباب و وسائل کی وسعت پر قادر ہوتے ہوئے دنیوی عیش سے اعراض کیا، بقدر زیست دنیا استعمال کر کے اہل دنیا کے لئے انمٹ نقوش ثبت کر گئے، جن میں اہل دنیاکے لیے راہِ عمل ہے، کہ جسے اپنا کر ایک مسلمان اپنی اخروی زندگی سدھار سکتا ہے، بجائے اس کے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زہدانہ زندگی کے ان اہم واقعات کو اپنی زندگی کے لیے عملی نمونہ بناتے، اور اعمال کی انجام دہی میں یہ واقعات ہمارے لیے مہمیز کا کام دیتے ہم نے انھیں قصہ کہانی سمجھ لیا؛ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان واقعات کو عملی تحریک کا ذریعہ بنائیں، جب زندگی حالات سے دوچار ہو تو ان واقعات کے استحضار سے اپنے قلب ودماغ کو صبر وشکر کا عادی بنائیں۔ ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کل زندگی ہی روشن ابواب پر مشتمل ہے، انھیں میں ایک اہم اور روشن باب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زہدانہ زندگی کا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا زہد اختیاری ہے، اس میں اعتدال ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی مُسرفانہ زندگی سے بے زار ہے، اس میں قلب وزبان صبر وشکر کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، ہمارے لیے یہی اسوہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بچھونا:
          جب انسانی جسم راحت کا عادی ہوجائے تو اس پر مجاہدہ بہت ہی شاق ہوتا ہے، تکلیف ومشقت جھیلنا بڑا گراں گزرتا ہے، جس کی بناء پر مصائب میں الجھ کر مسکرانا اس کے لیے دشوار ہوتا ہے، راحتِ جسمانی کے لیے ایک بچھونا وبستر بھی ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بچھونے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں، ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسی چٹائی پر آرام کیا جس سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر کچھ نشانات آگئے، ابن مسعود سے رہا نہ گیا وہ بول پڑے کہ اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اجازت دیں تو میں نرم چٹائی بچھادوں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے دنیا کی کیا ضرورت ؟ میری اور دنیا کی مثال اس مسافر کی طرح ہے جو گرماں کے زمانے میں سفر کررہا ہو اور تھوڑی دیر کے لیے درخت کے سائے میں آرام کیا اور چل دیا، اسی طرح کے الفاظ آپ  صلی اللہ علیہ وسلمسے اس وقت بھی مروی ہیں جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نرم بستر بچھادیا تھا، (مشکوٰة: ۴۴۲) (الوفاء باحوال المصطفیٰ۲/۴۷۵ بیروت) اسی کو مولانا مناظر حسین گیلانی رحمہ اللہ نے بڑے عمدہ انداز میں یوں بیان فرمایا:
کہ خاک کے فرش کے سوا جس کے پاس کوئی فرش نہ تھا، وہ اگر خاک پے سویا تو کیا خاک سویا، جو تخت پر سوسکتا تھا وہ مٹی پر سویا تو اسی کا سونا ایسا خالص سونا ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں(النبی الخاتم:۵۲) نیز آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کی کیفیت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یوں بیان فرماتی ہیں:
          انَّمَا کَانَ فِرَاشُ رَسُوْل اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم الَّذِيْ یَنَامُ عَلَیْہِ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہ لِیْفٌ․آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کے پتے بھردیے جاتے تھے۔

لباس میں سادگی:

          حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو قمیص کپڑوں میں زیادہ پسند تھی، (الوفاء۲/۵۶۳) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابو بردہ رضی اللہ عنہ کو ایک موٹا سا جبہ اور ایک موٹا سا ازار نکال کر بتایا اور اس بات کی نشاندہی کردی کہ یہی وہ دونوں کپڑے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس دنیا سے پردہ فرماگئے۔ (الوفاء باحوال المصطفیٰ۲/۵۶۵)
          تکلّفات وتصنعات سے احتراز کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عمدہ سے عمدہ لباس سے گریزاں تھے، ایک صحابی نے ایک عمدہ لباس عطا کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی، اور نماز کے بعد فوراً اسے اتارا او ر لوٹا دیا، دوسرا سادہ لباس زیب تن فرمایا اور ارشاد فرمایا: لے جاوٴ اس سے میری نماز میں خلل واقع ہوا۔
(الوفاء: ۵۶۴)

طعام میں سادگی:

          ظاہری طور پر جسمِ انسانی کی بقاء کا ذریعہ غذا ہے؛ لیکن وہی غذا انسان کے لیے مفید ہے، جو بندگی پر قائم رکھنے کا سبب بنے؛ اس لیے کہ مقصو دِ اصلی اطاعت وبندگی ہے، جب مقصود اصلی سے صرفِ نظر کر کے غذا کے لیے دوڑدھوپ ہوگی تو ظاہر ہے اس میں حرمت وحلت کے پہلو کو بھی نظر انداز کیا جائے گا، یہ غذا انسان کے لیے مفید ہونے کے بجائے مضر ہوگی، جس میں سادگی کے بجائے تنوعات و تکلّفات شامل ہونگی، جس میں فضول خرچی واسراف کی بہتات ہوگی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کھانے میں انتہائی محتاط طریقہ اختیار کرتے تھے، حضرت عبد اللہ ابن عباس آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے طعام کی کیفیت کاتذکرہ اس طرح فرماتے ہیں: عموماً جو کی روٹی اور سرکہ استعمال کرتے(الوفاء باحوال المصطفیٰ ۲/۵۹۸) اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ دعا بھی فرماتے: اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتاً․ (مشکوٰة: ۴۴۰) اے اللہ آلِ محمد کے رزق کو بقدر زیست بنا، نیز جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے پہاڑوں کو سونا بنانے کی پیشکش کی گئی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اے میرے رب میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھر کھاوٴں اور ایک دن بھوکا رہوں؛ تاکہ جب کھاوٴں تو تیرا شکر کروں، اور جب بھوکا رہوں تو آپ کی جانب گریہ وزاروی میں لگا رہوں(مشکوة:۴۴۲) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طرزِ عمل وتربیت کا نتیجہ تھا کہ صحابہٴ کرام بھی اسی طرزِ عمل کو اپنانے کے لیے کوشاں رہتے؛ چنانچہ ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا، جس کے سامنے بھنی ہوئی مچھلی رکھی ہوئی تھی، آپ کو مدعو کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے انکار کردیا، اور فرمایا: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا سے پردہ فرماگئے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر نہ کھائی(مشکوٰة: ۴۴۷) حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف مال دارصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہیں، اس کے باوجود ایک دفعہ برتن میں روٹی اور گوشت لایا گیا، اس کو دیکھ کر رونے لگے، رونے کی وجہ دریافت کی گئی، تو فرمایا: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا سے پردہ فرماگئے؛ مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی، ہمارے لیے اس موٴخر شدہ میں خیر نہیں(الوفاء ۲/۴۸۱) ایک دفعہ عمر تقریر کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ لوگوں نے دنیا سے کیا کیا نفع اٹھایا؛ مگر میں نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا ہے کہ ایک ایک دن گزر جاتا؛ مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ردی کھجور بھی نہ ہوتی(الوفاء ۲/۴۸۰) یہ وہ افراد تھے جو اپنے لیے اسبابِ ِرزق کی وسعت کو خیر تصور نہ کرتے، خود حضرت عمر  ایک وسیع وعریض اسلامی ریاست کے مقتدر اعلی ہوتے ہو ئے انتہائی سادگی پسند تھے، اور دنیاوی تکلّفات سے گریزاں تھے۔
رہن سہن میں سادگی:
          آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  چاہے سفر میں ہوں یا حضر میں ہر گز ایسی ہیئت کو پسند نہ فرماتے جس سے نمایاں ہوکر ظاہر ہوں، جب آب  صلی اللہ علیہ وسلم  گھر میں ہوتے تو گھر کے کام کاج خود کر لیا کرتے، اپنی بکری کا دودھ دوہتے، نیز دیگر امور میں ہاتھ بٹاتے، جب راستہ چلتے تو خود آگے اور دوسروں کے پیچھے چلنے کو نا پسندفر ماتے؛بلکہ صحابہ کرام کو ساتھ ساتھ چلنے کی تلقین فرماتے، اسی طرزِ عمل کی بنا پر بعض دفعہ نوواردین آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پہچان میں شک وشبہ میں پڑ جاتے؛ چنانچہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ پہنچے تو اسی طرح کا واقعہ پیش آیا، الغرض آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی کل زندگی سادگی سے عبارت تھی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہر ہر عمل سے سادگی ظاہر ہوتی تھی، ایک مومن ہونے کے ناطے ہمیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سادگی پر مر مٹنے کی حسرت ہونی چاہئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زہد و سادگی کے بے شمار واقعات کتب حدیث وسیر میں مذکور ہیں، یہ تو سیرت نبویہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی چند جھلکیاں ہیں،آپ کی مکمل زندگی ہی سادگی سے عبارت ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت مطہرہ کے ان تابناک پہلووٴں کو اپنے لیے راہِ عمل کے طور پر متعین کریں، اپنی نجی وخانگی زندگی میں اپنائیں، اس طرح زندگی میں صالحیت آئیگی، اور معاشرہ پر بھی صالح اثرات مرتب ہوں گے، نیز ہم اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ سیرت کے چند جلسوں اور چند تقاریر ومضامین سے سیرت کا مقصود حاصل ہوجائے گا؛ بلکہ اس کے لئے مستقل جدوجہد اور عملی مشق کی ضرورت ہے، اور معمولات ِنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنانے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ امت کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے.

No comments:

Post a Comment