ایس اے ساگر
مکہ معظمہ میں کعبہ کے طواف کے دوران ہوورڈ بورڈ کی سواری عجوبہ بنی ہوئی ہے جبکہ مغرب میں ہوور بورڈ کی مقبولیت سے متاثر ہوکر ایک برطانوی نوجوان نے اپنے گیراج میں ایک انوکھی سواری بنائی ہے جسے انہوں نے ’ ہوور بائک‘ کہا ہے جو ہوا میں پرواز کرسکتی ہے۔ اگرچہ ابھی یہ ابتدائی مراحل میں ہے لیکن اس میں پہیوں کی جگہ دو طاقتور پنکھے لگائے گئے ہیں جو سائیکل کو اوپر اٹھاتے ہیں اور اس طرح وہ آگے بڑھتی ہے۔ یوٹیوب پر موجود ویڈیو میں عازمین حج کو ہوورڈ کے ذریعہ طواف کرنے والوں کو لوگ تعجب سے دیکھ رہے ہیں جبکہ اسی یوٹیوب پر کولن فرز کو اپنی سائیکل بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور پھراسے ایک سرسبز میدان میں پرواز کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن ابتدائی مراحل میں ہونے کی وجہ سے سائیکل بے قابو دکھائی دیتی ہے لیکن اس بات کو ممکن ضرور بناتی ہے کہ اس ایجاد کو کارآمد بنا کر مزید بہتربنایا جاسکتا ہے۔
یہ منصوبہ برطانیہ میں فورڈ کمپنی کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے جس میں ٹرانسپورٹ کے نئے ذرائع پر زور دیا گیا ہے۔ اڑن سائیکل میں دو عدد پیراجیٹ موٹر لگائی گئی ہیں جو بڑے بڑے پنکھوں کو چلاتی ہیں جو پورے ڈھانچے کو اوپر اٹھاتا ہے۔ ہر پنکھا70 کلوگرام کا تھرسٹ یعنی دھکیلنے کی قوت پیدا کرتا ہے۔ کولن کے بقول یہ پروپیلرز سائیکل کو زمین سے چند فٹ اوپر ہی اٹھاتا ہے لیکن ان کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سائیکل مزید اوپر اٹھ سکتی ہے کیونکہ یہ زمین کی بجائے ہوا کو استعمال کرکے بائیک کو آگے دھکیلتی ہے۔ بائیک کا چیسس بہت ہلکا پھلکا لیکن مضبوط ہے۔ کولن کے مطابق اس میں نہ ہی پہیئے ہیں، نہ بریک ہے بلکہ صرف دو ایکسی لیٹر ہیں ۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ یہ بہت شور کرتی ہے اور اس کو مستحکم کرنے کا نظام موجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ پرواز کے دوران ہموار نہیں رہتی۔ لیکن کولن نے اسے چلانے پر مہارت حاصل کرلی ہے۔
بیت اللہ کا ہوور بورڈ
پر سوار ہوکر
ہائی ٹیک طواف
ایس اے ساگر
HIGH-TECH TAWAF
ON
HOVERBOARD IN, HARAM E KAABA,
MECCA
By S A Sagar
A man has been seen performing Tawaf around the Ka’bah on a self-balancing smart scooter which has been nicknamed a hoverboard. The self-balancing scooters are the latest craze and this pilgrim decided to take one to the Masjid Al Haram to perform Tawaf.
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1189387594436545&id=194131587295489
No comments:
Post a Comment