Friday, 15 July 2016

کیسے ہو ایمان پر خاتمہ؟

ایس اے ساگر
اہل سنت الجماعت کے نزدیک 
’’الإقرار بالقلب، والنطق باللسان، والعمل بالجوارح‘‘
(دل سے اقرار(تصدیق)، زبان کا قول (اقرار)، اور اعضاء وجوارح کے ساتھ عمل)۔
جو کہ تین امور پر مشتمل ہے:
1- دل سے اقرار (تصدیق)۔
2- زبان کا قول (اقرار)۔
3- اعضاء وجوارح کے ساتھ عمل۔
ایمان کی تعریف کی گئی ہے تو پھر یقیناً اس میں کمی زیادتی بھی ہوگی۔ کیونکہ دل کے اقرار وتصدیق میں تو تفاوت ہوتا ہے، لہذا محض کسی کا خبرپراقرار کرنا (ایمان لانا) معاینہ کرکے (دیکھ کر) اقرار  کرنے(ایمان لانے ) کے جیسا تو نہیں۔ اسی طرح سے ایک شخص کی خبر کا اقرار کرنا (یقین کرنا) دو اشخاص کی خبر کے اقرار کے جیسا تو نہیں اور اسی طرح (دوسری مثالیں)۔ اسی لئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
﴿رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى  ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ  ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ﴾ (البقرۃ: 260)
(اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ فرمائے گا ؟ (رب تعالی نے) فرمایا کیا تجھے یقین نہیں ! کہا کیوں نہیں، لیکن اس لیے کہ میرا دل مزید تسلی واطمئنان حاصل کر لے)
پس ایمان دل کے اقرار، اطمئنان وسکون سے بڑھتا ہے۔ اور انسان یہ بات تو خود اپنے نفس میں محسوس کرتا ہے جب وہ کسی وعظ ونصیحت کی مجلس میں ہوتا ہے، اور جنت وجہنم کا ذکر ہوتا ہے تو اس کا ایمان اس قدر بڑھ جاتا ہے گویا کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہا ہو۔ اور جب غفلت ہوجاتی ہے اور وہ اس مجلس  سے اٹھ جاتا ہے تو دل کے اس یقین میں کچھ تخفیف وکمی ہوجاتی ہے۔
اسی طرح سے قول کے اعتبار سے بھی ایمان بڑھتا ہے کیونکہ جو اللہ تعالی کا ذکر دس مرتبہ کرتا ہے وہ اس کی طرح تو نہیں جو سو بار کرتا ہے، کیونکہ جو دوسرا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے۔
اسی طرح سے عمل کا معاملہ ہے کہ اگر انسان اپنے اعضاء وجوارح سے کسی دوسرے سے زیادہ عمل کرتا ہےتو وہ زیادہ ہوجاتا ہے اور اس کا ایمان کمی سے زیادتی کی طرف بڑھتا ہے۔
اور یہ بات (یعنی ایمان میں زیادتی اور نقصان کا ثبوت) قرآن وسنت میں  (جابجا) آیا ہے، فرمان الہی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَةً    ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا   ۙ لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَيَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِيْمَانًا﴾ (المدثر: 31)
(اور ہم نے جہنم کا محافظ فرشتوں کے سوا کسی کو نہیں بنایا، اور ان کی تعداد ان لوگوں کی آزمائش ہی کے لیے بنائی ہے جنہوں نے کفر کیا، تاکہ وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے، اچھی طرح یقین کرلیں اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ایمان میں زیادہ ہو جائیں)
اور فرمایا:
﴿ وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِيْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ، وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾
(التوبۃ: 124-125)
(اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کو ایمان میں زیادہ کیا ؟ پس جو لوگ ایمان لائے، سو ان کو تو اس نے ایمان میں زیادہ کردیا اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں، اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس نے ان کو ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی میں زیادہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے)
اور صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا:
’’مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ‘‘([1])
(میں نے تم (عورتوں) سے بڑھ کر ناقص عقل اور دین والا نہیں دیکھا، ایک اچھے بھلے  عقل مند انسان کی عقل ماؤف کردیتی ہو)۔
تو اس سے ثابت ہوا کہ ایمان بڑھتا بھی ہے او رگھٹتا بھی ہے۔
لیکن ایمان میں زیادتی کے کیا اسباب ہيں؟
ایمان کی زیادتی کہ کچھ اسباب ہیں:
1- پہلا سبب: اللہ تعالی کی اس کے اسماء وصفات کے ساتھ معرفت۔ کیونکہ انسان کی جس قدر اللہ تعالی ،اس کے اسماء وصفات کی معرفت میں اضافہ ہوگا بلاشبہ اسی قدر اس کے ایمان میں بھی اضافہ ہوگا۔ اسی لیے اہل علم کو جو کہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات میں سے وہ کچھ جانتے ہیں جو ان کے علاوہ لوگ نہيں جانتے آپ اس اعتبار سےدوسروں کے مقابلے میں ایمان میں قوی پاتے ہیں۔
2- دوسرا سبب: اللہ تعالی کی کائناتی اور شرعی آیات ونشانیوں پر نظر کرنا(غوروفکر کرنا)۔ کیونکہ جب بھی انسان اللہ تعالی کی کائناتی نشانیوں کو دیکھتا ہے جو کہ اس کی مخلوق ہیں تو اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
﴿ وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ، وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 20-21)
(اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں، اور تمہارے نفسوں میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں )
اور اس پر دلالت کرنے والی آیات بہت ہیں یعنی وہ آیات کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کا اس کائنات پر تدبر وغوروفکر کے ذریعے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔
3- تیسرا سبب: کثرت طاعات (عبادات) کیونکہ انسان جس قدر کثرت سے طاعات کرے گا اس کے ذریعے وہ ایمان میں بڑھ جائے گا خواہ وہ طاعات (عبادات) قولی ہوں یا فعلی ہوں۔ پس ذکر کرنا ایمان میں کمیت (تعداد) اور کیفیت کے اعتبار سے اضافہ کرتا ہے، اسے طرح سے نماز، روزہ اور حج بھی ایمان میں کمیت وکیفیت کے اعتبار سے اضافے کا سبب ہیں۔
جبکہ ایمان میں نقصان وکمی کے اسباب ان کے بالکل برعکس ہیں:
1- پہلا سبب: اللہ تعالی کے اسماء وصفات سے جہالت ایمان میں نقص وکمی کا موجب ہے کیونکہ انسان کی  اگر اللہ تعالی کے اسماء وصفات کی معرف میں نقص ہوگا  تو اس کے ایمان میں بھی نقص ہوگا۔
2- دوسرا سبب: اللہ تعالی کی کائناتی اور شرعی آیات ونشانیوں پر تفکر کرنے سے اعراض کرنا۔ کیونکہ یہ ایمان میں نقص وکمی کا سبب ہے یا کم از کم ایک ہی جگہ پر رہنے اور اس کی نشوونما نہ ہونے کا سبب ہے۔
3- تیسرا سبب: معصیت (گناہ) کا ارتکاب کیونکہ معصیت کے ارتکاب کا انسان کے دل اور ایمان پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ‘‘([2])
(زانی جب زنا کررہاہوتا ہے اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا)۔
4- چوتھا سبب: ترک طاعت (عبادت) کیونکہ ترک طاعت ایمان میں نقص کا سبب ہے۔ لیکن اگر طاعت واجبہ ہو تو اسے بلاعذر ترک کرنا ایمان میں نقص ہے اور اس پر اسے ملامت بھی کیا جائے اور سزا وعقاب بھی ہوگا۔ اور اگر طاعت غیرواجبہ ہو یا پھر واجبہ تو ہو لیکن اسے کسی عذر کے سبب ترک کیا ہو تو یہ بھی نقص کا سبب ہے البتہ اس پر ملامت نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو ناقص عقل ودین قرار دیا اور ساتھ ہی ان کے دینی نقصان کی یہ علت (سبب) بیان کیا کہ جب انہیں حیض آتا ہے تو وہ نہ نماز پڑھ سکتی ہیں اور نہ روزہ رکھ سکتی ہيں۔ مگر ساتھ ہی اسے بحالت حیض میں نماز وروزہ چھوڑنے پر ملامت بھی نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے تو انہیں ترک کرنے کا حکم ہے، مگر چونکہ اس سے یہ عمل فوت ہوگیا جو مرد کرتے ہیں تو اس زاویے سے وہ اس سے کم ہوگئی۔
[1] صحیح بخاری 304۔
[2] صحیح بخاری 2475، صحیح مسلم 59۔
July 25, 2015 | الشيخ محمد بن صالح العثيمين, عقیدہ ومنہج, مقالات |
ایمان اور کفر کا دار ومدار خاتمہ پر ہے​
مومنین کی دو قسمیں ہیں
ہمارے علماء کرام رحمھم اللہ فر ماتے ہیں کہ مومنین کی دو قسمیں ہیں ۔ایک وہ مومن ہے جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں اور اسے دوست رکھتے ہیں ، دوسرے وہ مومن ہے جسے نہ اللہ تعالیٰ دوست رکھتے ہیں اور نہ اس سے محبت رکھتے ہیں بلکہ اس سے ناراض رہتے ہیں اور اسے اپنے دشمنوں میں شمار کرتے ہیں ۔جو شخص اللہ تعالیٰ کے علم میں آخر تک یمان پر قائم رہنے والا ہے اللہ تعالیٰ اس سے محبت بھی کرتے ہیں اور اسے دوست بھی رکھتے ہیں اور اس سے راضی بھی رہتے ہیں ۔اور جس کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق کفر پر ہو نے والا ہے اللہ تعالیٰ کا اس پر غضب ہو تا ہے ، وہ اس سے ناراض بھی ہو تے ہیں اور اسے یقینا اپنے دشمنوں میں بھی شمار کرتے ہیں ۔ یہ معاملہ اس کے ایمان کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے اس کفر وگمراہی کی وجہ سے ہو تا ہے جس پر اس کا خاتمہ ہو گا۔
کفار کی دو قسمیں :
کا فروں کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک وہ کافر ہے جس کو یقینا سزا ہو گی اور دوسرا وہ ہے جسے سزا نہیں ہو گی ۔ وہ کافر جسے سزا ہو گی وہی ہے جس کا خاتمہ کفر پر ہو گا ۔اللہ تعالیٰ اس سے ناراض بھی رہتے ہیں اور اسے اپنے دشمنوں میں بھی شمار کرتے ہیں ۔ اور جس کو سشا نہیں ہو گی وہ ایسا کافر ہے جس کا خاتمہ ایمان ہر ہو گا ،اللہ تعالیٰ نہ اس سے ناراض رہتے ہیں نہ اسے اپنے دشموں میں شمار کرتے ہیں بلکہ اس سے محبت کرتے ہیں اور دوستی رکھتے ہیں اس کے ساتھ یہ سلوک اس کے سابقہ کفر کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ اس ایمان کہ وجہ سے ہو گا جس پر اس کا خاتمہ ہو گا ۔اسی لئے کسی شخص کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر نی چاہئے ۔(تفسیر قرطبی ج ۱) اللہ تعالی ہم سب کا خاتمہ اسلام پر ایمان کے ساتھ فر مائے ۔
عجیب نسخہ
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تهانوی رحمة اللہ عليہ
سےکسی نے پوچھا کہ،
خاتمه بالایمان کا کامیاب نسخہ بتلائیے...
آپ رحمہ اللہ نے فرمایا،
مراقی الفلاح جو فقہ کی مشہور و معروف کتاب ہے، اس میں ایک حدیث ہے.
قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم من صلی رکعتی الفجر ای سنة فی بیت یوسع له فی رزقه ویقل المنازع بینه وبین اهله ویختم له بالایمان.او کما قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ
جو شخص فجر کی دو رکعت سنت اپنے گھر میں پڑهے
تو
1. اس کے رزق میں وسعت کردی جائے گی.
2. اور اس کے اور اس کے گھر والوں میں منازعات ( جھگڑے ) کم هوجائیں گے،
3. اور اس کا خاتمه ایمان پر ہوگا....
چار نسخے :
شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب رحمتﷲعلیہ فرماتے ہیں کہ ایمان پر خاتمہ کے چار نسخے ہیں
١  سڑکوں پر نظر بچا کر حسنِ خاتمہ کا سودا کرلو۔ اب آپ کہیں گے کہ اس کی کیا دلیل ہے؟ کیونکہ اہلِ علم حضرات کو دلیل چاہیے
ملا آں باشد کہ چپ نہ شود
لہٰذا اب دلیل بھی سن لیں۔ ملا علی قاری رحمۃﷲعلیہ  نے اس کی دلیل دی ہے کہ اے ملا حضرات اور میں بھی ملا ہوں، آپ کی برادری کا ہوں، تو ملا علی قاری رحمۃﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ
وَ قَدْ وَرَدَ اَنَّ حَلاَوَۃَ الْاِیْمَانِ اِذَا دَخَلَتْ قَلْباً لاَ تَخْرُجُ مِنْہُ اَبَداً
ﷲ جس کو ایک دفعہ حلاوتِ ایمانی دیتا ہے پھر واپس نہیں لیتا اور جب حلاوتِ ایمانی قلب سے نہیں نکلے گی تو اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا لہٰذا نظر بچانے پر خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ پس نظر بچا کر حسنِ خاتمہ کا فیصلہ کروالو
٢  حسنِ خاتمہ کا دوسرا نسخہ یہ ہے کہ کسی سے ﷲ کے لیے محبت کرلو، اب ﷲ والی محبت شیخ ہی سے زیادہ ہوتی ہے لہٰذا اس کا بھی خاتمہ ایمان پر ہوگا کیونکہ بخاری شریف کی روایت ہے جس نے ﷲ کے لیے کسی سے محبت کی
لاَ یُحِبُّہُ اِلاَّ ِﷲ
تو ﷲ تعالیٰ اس کو بھی ایمان کی حلاوت دیں گے جو کبھی واپس نہیں لیں گے اور خاتمہ ایمان پر ہوگا۔
ایمان پر خاتمہ کے دونسخے بتادئیے، ایک تو سڑکوں پر نظر بچانا ہے اور دوسرا کسی ﷲ والے سے محبت کرنا ہے، سڑکوں پر خواتین سے اپنے سوا تین نہ بجوائیے۔ مزاحاً کہتا ہوں کہ دیکھو! چابی مت کہو، کنجی کہو کیونکہ چابی کا وزن بھابھی سے مل جاتا ہے اور سوا تین بھی مت بولو کیونکہ سوا تین کا وزن خواتین سے مل جاتاہے، اس لیے تین بج کے پندرہ منٹ کہو، ان کے سایہ سے اور وزن سے بھی بچو۔ حضور صلیﷲعلیہ وسلم نے مدینہ شریف میں شراب کے مٹکے بھی تُڑ وا دئیے تھے کہ ہوسکتا ہے ظرف کو دیکھ کر مظروف یاد آجائے تو یہ لغات جو ہیں یہ ظرف ہیں ہوسکتا ہے کہ ان کو بولنے سے مظروف یاد آجائے، وزن یا دآجائے۔
٣  حسنِ خاتمہ کا تیسرا نسخہ مسواک ہے
مسواک کرنے سے بھی خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ علامہ شامی کی عبارت دیکھو فرماتے ہیں کہ
اِنَّ سُنَّۃَ السِّوَاکِ یُذَکِّرُ کَلِمَۃَ الشَّہَادَۃِ عِنْدَ الْمَوْتِ
یعنی مسواک کی سنت موت کے وقت کلمۂ شہادت کو یاد دلائے گی
٤ حسنِ خاتمہ کا چوتھا نسخہ اذان کے بعد کی دعا ہے،
اس کے پڑھنے سے کیا ہوگا؟ سرورِ عالم صلیﷲعلیہ وسلم فرماتے ہیں
حَلَّتْ بِہٖ شَفَاعَتِیْ
کہ جو اذان کے بعد کی دعا پڑھے گا میری شفاعت اس پر واجب ہوجائے گی۔
شارحینِ حدیث لکھتے ہیں کہ حَلَّتْ  بمعنی وَجَبَتْ کے ہے۔ ملا علی قاری رحمۃﷲعلیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جب حضور صلیﷲعلیہ وسلم کی شفاعت واجب ہوجائے گی تو
فِیْہِ  اِشَارَۃُٗ اِلٰی بَشَارَۃِ حُسْنِ الْخَاتِمَۃِ
یعنی اس میں حسنِ خاتمہ کی خوشخبری کی طرف اشارہ ہے
            

No comments:

Post a Comment