آج ہم جس دور میں سانسیں لے رہے ہیں یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے آج کا انسان چاند پر قدم رکه چکا ہے یہcosmic (کائناتی) بلندیاں اس کے سامنے سمٹی ہوئی نظرآتی ہیں اور انسان ہر چیز کیmicro and macro detail (چهوٹی اور بڑی جزئیات) معلوم کرنے کا متمنی ہے. یہی چیز آج سائنسی تحقیق کا محور بنی ہوئی ہے انسان کے اندر حقیقتوں کو جاننے کا مادہ اس وقت عروج پر ہے اسی وجہ سے بہت سے لوگ اسلام کو سائنسی پیمانے پر پرکهنے لگے، یہ انتہائی نقصان دہ ہے، ہاں اگر سائنس کی حقیقت کو جاننا ہے کہ یہ اپنی ultimate (آخری) منزل تک پہونچ چکی ہے یا نہیں تو اسے اسلام کی ترازو پر تولا جاسکتا ہے کیوں کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں کائنات کی صداقتیں بتادی ہیں. آج جب ہم قرآن کریم میں تدبر وتفکر کرتے ہیں تو ہمیں قرآن مجید میں بڑے سائنسی نکات ملتے ہیں کیمسٹری،فزکس ،زوالوجی، ٹیکنالوجی ،میکینکل انجینئرنگ، سول انجینئرنگ سب کی طرف اشارہ موجود ہے- انسان حیران ہوتا ہے کہ چودہ سوسال قبل جبکہ سائنسی شعور اتنا نہیں تها تو کیسے قرآن پاک میں یہ حکمتیں بیان کردی گئیں-اس سے قرآن پاک کی حقانیت ہمارے سامنے منکشف ہوتی ہیں
سائنس کیا ہے؟
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں
وعلم آدم الاسماء کلها
(اور اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام نام بتادیئے تهے)
اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ ابن عباس تحریر فرماتے ہیں کہ اس سے مراد دنیا کی چیزیں اور ان کی صفات تهیں- علامہ زمخشری صاحب تفسیر کشاف جن کا تذکرہ فرماتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
تیرے وجود پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
وہ فرماتے ہیں کہ اس علم الاسماء سے مراد چیزیں اور ان کی افادیت ہیں-امام رازی فرماتے ہیں کہ اسماء سے مراد اشیاء ہیں آج اس دور میں علم الاشیاء ہی کا نام سائنس ہے- کیمسٹری chemistry اور فزکس physics دنیا کی تمام چیزیں جن اجزاء اور عناصر سے مرکب ہیں ان کے خواص وتاثیرات کا جائزہ لینے کا نام کیمسٹری ہے-مزیدبراں اس کائنات کے اندر جوقوتیں کارفرما ہیں ان کا منظم مطالعہ کرنے کا نام فزکس ہے- اب قرآن کریم میں نظرغائر ڈالیے اللہ رب العزت خود انسان کو دعوت دے رہے ہیں{ انظرو ماذا فی السموات ومافی الارض } (تم دیکهو آسمان اور زمین میں تمہارے لیے کیا رکها ہے)
جب اللہ رب العزت خود فرمارہے ہیں اور انسان اللہ کے حکم کی تعمیل میں غوروفکر کرے گا تو کیا یہ اسلام کے خلاف ہے ہرگز نہیں-
زوالوجی اور ٹیکنالوجی :
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت (یہ کیوں نہیں دیکهتے کہ ہم نے اونٹ کو کیسے پیدا کیا؟) زوالوجی کا طالب علم یہی تو پڑه رہاہے کہ فلاں جانور کی پیدائش میں اللہ رب العزت کی کیا نشانیاں ہیں؟ یہ چیز کیسے پیدا ہوئی؟وہ چیز کیسے پیدا ہوئی؟
ٹیکنالوجی کیا ہے؟
سائنس نے تو چیزوں اور ان کی صفات کومرتب کردیاہے- اب ان چیزوں اور ان کی صفات سے pratically (عملی طور پر) فائدہ اٹهانے کانام ہی تو ٹیکنالوجی ہے- مثلا بجلی اور اس کے متعلقہ فوائد کو حاصل کرنے کا طریقہ electrical technology (الیکٹریکل ٹیکنالوجی) کہلاتا ہے لوہا اور دوسری دهاتوں کے ذریعہ فائدہ اٹهانے کو machanical technology (میکینکل ٹیکنالوجی) بلڈنگ وغیرہ شعبہ کو civil engeneering (سول انجینرنگ) کہا گیا ہے.
میکینکل انجینئرنگ کی مثال :
اللہ رب العزت نے حضرت دائود علیہ السلام کے لئے کوہے کو نرم کردیا تها قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے{ والنا له الحدید}
(اور ہم نے لوہے اس کے لیے نرم کردیا) دوسری جگہ فرمایا {وعلمنه صنعة لبوس لکم }(اور ہم نے اسے زرہیں بنانے کاعلم دیا) پس اگر ایک پیغمبر لوہے سے زرہیں بنارہا ہے تو آج کے دور میں اگر کوئی انجینیر اسی اسٹیل کو انسانوں کے فائدہ کے لیے استعمال کرے تو کیا وہ غیر اسلامی ہوگا قطعا نہیں ہوسکتا-
سول انجینئرنگ :
حضرت سکندرذوالقرنین نے دنیا میں ایک دیوار بنائی قرآن کریم میں ذکر ہے کہ دوپہاڑوں کے درمیان ایک راستہ تها جہاں سے ڈاکو آتے تهے اور قوم کو نقصان پہنچاتے تهے قوم نے کہا حضرت اس کا کچه انتظام کیجئے آپ نے دیوار بنانے کا ارادہ کیا اس وقت دیوار اینٹ اور پتهر کی بنائی جاتی تهی مگر ذوالقرنین نے اسٹیل کو استعمال کیا قرآن کریم نقل کرتا ہے
{ آتونی زبر الحدید }
(تم مجهے لا دو لوہے که ٹکڑے) آج کا سول انجینئر کیا کرتا ہے کنکریٹ کے اندر ڈالنے کے لیے لوہے کو ڈیزائن کرتا ہے. مسلمانوں ہمارے اسلاف نے ہر میدان کے اندربڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے مگر افسوس تم اپنی تاریخ ہی کو فراموش کیے بیٹهے ہو- اسلام کو جو عروج ملا اس میں مسلمان سائنسدانوں کی بهی محنت اور کوشش شامل ہے رئیس الاطباء بوعلی سینا نے "القانون فی الطب " نامی کتاب لکهی آج سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بهی آج کے سائنسی دور میں اس کتاب کو مستند سمجها جاتا ہے- ابن رشد نے سب سے پہلے تحقیق کی کہ جس آدمی کو ایک بار چیچک نکل جاتی ہے اس کو زندگی بهر دوبارہ چیچک نہیں نکلتی- علم ہندسہ میں نصیرالدین طوسی نے اقلیدس کی مبادیات کی شرح لکهی- علی بن عیسی نے تذکرة الکحالین رقم کی اور علم جراحی میں محذرات استعمال کرنے کی تجویز پیش کرنے والا پہلا شخص بنا- ہماری ملت میں جابر بن حیان، محمد ابن موسی الخوارزمی ، ابن الہیثم، ابن سینا ، ابن نفیس اور ابوحنیفہ دینوری اتنے بڑے بڑے سائنسدان گزرے ہیں کہ ان کا مرتبہ گلیلیو ، نیوٹن، جان والٹن آئن سٹائن سے کسی طرح بهی کم نہیں مگر مصیبت یہ تهی کہ ان مسلمان سائنسدانوں کی تحقیقات شخصی محنت کا نتیجہ تهیں- حکومت وقت نے اگر ان کی سرپرستی کی ہوتی تو یہ باتیں آج قانون بن کر ان کے ناموں سے مشہور ہوتیں-
لیکن حیف صد حیف کہ آج ہم پدرم سلطان بود کا نعرہ ہی لگانے میں ہیں ہمارے آبائو اجداد بڑی عزت والے تهے لیکن یہ کس قدر بری بات ہے کہ ان کی اولاد نکمی ہے ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر دنیا کو علم کے نور سے منورکرنا چاہئے-
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے
شعیب عالم قاسمی مظفرنگری
9997786088
Jazak ALLAHu Khair ....
ReplyDelete