Sunday 17 July 2016

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

ایس اے ساگر
ترکی میں 'فوجی بغاوت' سرد پڑ چکی ہے. ترکی کے میر جعفروں کو مہمیز بخشنے والے فتح اللہ گولن پر تو آخر میں تاثرات پیش کئے جائیں گے، انتشار کا فائدہ اٹھا کر ہتھیار پیچنے والے سفاک، رحم اور انسانیت کے دشمنوں کے خیمہ میں مایوسیوں کا غلبہ ہے جبکہ مثبت انداز فکر کیساتھ جینے والے عناصر میں نہ صرف جوش ہے بلکہ نیا حوصلہ بھی ہے. وطن عزیز میں دارالعلوم دیوبند کے علاوہ مولانا سلمان ندوی صاحب اور پڑوس کےرفیع عثمانی صاحب نے ‏برادر ملک ترکی کے صدر، وزیراعظم اور وہاں کی عوام کو مبارکباد پیش کی ہے.  اردو متن سماجی ویب سائٹس کے توسط سے منظر عام پر آچکا ہے. 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عالی جاہ صدر جناب رجب طیب اردگان صاحب صدر جمہوریہ تركی
اللہ تعالی آپ كو اپنی امان میں ركھے
السلام علیكم ورحمتہ اللہ وبركاتہ
ہم آپ كے لیے خیر و عافیت اور آپ كی حكومت كے لیے بقاو دوام اور ہر قسم كے شرور وفتن سے حفاظت كے لیے دعا گو ہیں۔
بلاشبہ قوم و ملت كے غداروں كی طرف سے فوجی انقلاب كی كوشش اور ملك كے امن و استحكام كی پامالی ایك خطرناك سازش ہے، اس كی جتنی مذمت كی جائے كم ہے۔ اللہ كا شكر ہے كہ اس نے اس اہم اور نازك موقع پر آپ كی زبردست نصرت فرمائی كہ آپ نے اس اس خطرناك سازش كو چند گھنٹوں میں اس طرح ناكام كردیا كہ جس كی تاریخ میں كوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔
ہم آپ كی جرأت وہمت اور بلندحوصلگی كو سلام كرتے ہیں اور غیرت مند تركی عوام كی بیداری وہوشیاری كو داد دیتے ہیں كہ جس نے باغیوں كے عزائم كو ناكام بنانے میں آپ كا بھرپور ساتھ دیا۔ نیز ملك میں جمہوری نظام كی بحالی كی ہم حمایت كرتے ہیں اور اپنی طرف سے ہر قسم كے تعاون كی یقین دہانی كراتے ہیں۔
اللہ تعالی آپ كی حكومت كو قائم ودائم ركھے اور آپ كے ملك اور آپ كی عوام كو ہر قسم كےشر سے محفوظ ركھے۔
ترکیوں میں بڑی خوبیاں
 ترکیوں میں بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیں یہاں نوجوان لڑکے جینز اور لڑکیاں اسکرٹ پہننے کے باوجود اپنی قومی زبان پر فخر کرتے ہیں اور آپس میں گفتگو بھی ترکی زبان میں کرتے ہیں، کچھ عرصہ قبل صدر اوبامہ نے ترکی کا دورہ کیا تو طلبا کے ایک پروگرام میں شریک کسی طالبہ نے صدر سے کہا کہ،
میں اپنی زبان میں آپ سے سوال کرنا چاہتی ہوں.
جس کے بعد ترجمہ کے لئے صدر کو کانوں میں ہیڈ فون لگانا پڑا اور اس طالبہ نے باوجود انگریزی جاننے کے ترکی زبان میں سوال کیا.
لندن کے امام عطاء اللہ خان فرماتے ہیں کہ2013 کے دوران میں نے اپنے کنبہ کے ساتھ ترکی کا پہلا سفر کیا اور وہاں چند دن کے قیام میں اس قوم کو دیکھنے کا موقع ملا، عام طور پر ترکی کے لوگ اپنے لباس اور شکل و صورت سے یوروپین ہی دکھتے ہیں. نماز اور مسجد سے بھی زیادہ تعلق نہیں رکھتے لیکن دینی اقدار کا احترام ان میں ہم سے زیادہ پایا جاتا ہے، ہم جس ہوٹل میں ٹہرے ہوئے تھے وہ دو بھائیوں کا تھا گورے چٹے سوٹ اور ٹائی میں ملبوس کسی طور پر بھی انگریزوں سے کم نظر نہیں آئے. استقبالیہ  پر ان سے ملاقات ہوئی. تعارف کے دوران  ان کو معلوم ہوا کہ میں امام ہوں. ان میں سے ایک نے فورا پوچھا،
آپ حافظ ہیں؟
میں نے سر ہلایا تو وہ فورا کھڑا ہوا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا،
"حافظ ، ماشاء اللہ."
اور پھر اس نے حافظ جی اور اس کے کنبہ کی دو مرتبہ ریسٹورنٹ میں پرتکلف دعوت کی، جمعہ کے دن وہ ہمیں قریبی مسجد میں لے گیا میں. بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں ترکیوں سے زیادہ مسجد کا احترام کرنے والی قوم نہیں دیکھی، جمعہ کا بیان خطبہ اور نماز کے بعد تک مسجد میں پن ڈراپ سائلنٹ کا سماں تھا اور سب انتہائی توجہ سے امام کا بیان اور خطبہ سنتے رہے، یہ منظر دیکھ میرے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی یہاں کا امام ہوتا یا کم از کم ہمارے مقتدی بھی ان جیسے ہوتے!
سب سے بڑی خوبی :
ترکیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے بہت پیار کرتے ہیں اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر آج بھی فخر کرتے ہیں استنبول میں ایک بہت بڑا ایڈوٹوریم ہے جہاں سلطان محمد الفاتح، جس نے خشکی پر کئی میل کشتیاں چلا کر قسطنطنیہ موجودہ ترکی کو فتح کیا تھا، کے تاریخی حملہ کا تصویری منظرنامہ بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا ہے جو واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور ہاں، ایک بات اور رہ گئی ، یہ بات لکھ کر رکھ لیں کہ نہ ترک قوم سے اسلام چھینا جاسکتا ہے، نہ ان کا ملک، نہ ان کی زبان اور نہ ان کی جمہوریت، ترک قوم کی اپنی ایک عظیم تاریخ ہے، فوج نے ترکی زبان کا عربی رسم الخط مٹا دیا تھا لیکن ترکی زبان آج بھی زندہ ہے، اذان، عربی خطبہ اور قرآن کی تعلیم پر پابندی لگائی گئی لیکن اس کے باوجود اس قوم کا ایمانی جذبہ ختم نہیں کیا جاسکا اور کل ترک قوم نے چند گھنٹوں میں دنیا کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ "دنیا والوں ہم ایک متحد قوم ہے ہم سے جمہوریت چھینی جاسکتی ہے اور نہ ہمارا مذہب اسلام.
کون سا اسلام ؟
سماجی روابط کی سائٹس پر بلا کسی لاگ لپیٹ کے کہا جارہا ہے کہ،
انھیں ملا عمر کا جہاد والا اسلام پسند نہیں،
انھیں طارق جمیل کا امن والا اسلام پسند نہیں،
انہیں ذاکر نائیک کا دلیل والا اسلام پسند نہیں،
انھیں مرسی کا جمہوریت والا اسلام پسند نہیں،
اور اب انھیں طیب اردگان کا اسلام بھی پسند نہیں،
میں نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی:
ولن ترضی عنک الیہود ولا النصاری حتی تتبع ملتہم.
آپ سے یہود و نصاری اس وقت تک راضی نہیں ہو ں گے جب تک آپ ان کے ملت (طریقہ کار یا مذہب) کی پیروی نہ کرلیں،
جب قرآن نے کھلم کھلا اعلان کیا ہے کہ آپ ان سے پسند کروا نے کے فراق میں نہ پڑیں، تو ہم مسلمان ان سے پسند کی امید ہی کیوں کرتے ہیں؟
ان سے پسند کروانے کے فراق میں ٹوپی کرتا پاجامہ تو کیا ہم نے ٹوائلٹ کے بیسن تک بدل دئے، پھر بھی
ھل من مزید
کی صدا ہر دن بلند ہو رہی ہے اور وہ محبوبہ پھر بھی راضی ہونے کے لئے تیار نہیں ہے 
محبت میں یک طرفہ دیوانے ہم ہی کیوں ہیں؟
کیسا تھا ماضی؟
سوشل میڈیا سے ہی پتہ چلا کہ ننھا بچہ کسی کوسٹ گارڈ کا بیٹا تھا، استنبول تعلیم حاصل کرنے پہنچا تھا، شہر کی سڑکوں پر غبارے بیچتا تھا
ٹیلنٹ کی تلاش میں سرگرداں رہنے اور دعوت کے فروغ کے نئے راستے ڈھونڈنے والے تحریکیوں کی نظر پڑی تو انھوں نے اس ہیرے کو اپنے اندر سمیٹ لیا، اسے پڑھایا، اپنی طلبہ تنظیم کا لیڈر بنایا، اپنے یوتھ ہاسٹل میں رکھا، بڑا ہوا تو استاد اربکان نے استنبول کے مئیر کا الیکشن لڑا دیا
فوکسڈ اور جرات مند اردگان نے صرف دو وعدے کئے اور اگلے الیکشن سے پہلے پورے کر دیے۔ اب کیا تھا؟ اگلا انتخاب 26 شہروں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ گیا
اردگان اپنے استاد محترم اپنے قائد اربکان سے چمٹا رہا اور جد و جہد کے ہر میدان میں پہلی صف میں نظر آیا.
پھر اسے لگا استاد کا زمانہ گزر گیا، استاد نئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا، اس نے استاد کے بجائے اللہ سے وفاداری کا فیصلہ کیا اور احترام سے اجازت چاہی
اب اردگان نے ہر شخص تک پہنچنے کا فیصلہ کیا
ہر شرابی
ہر زانی
ہر اسکرٹ پہنی لڑکی تک
ننگے ساحلوں تک اور سینما ہالوں تک
اس نے بس ایک بات کہی
تم کون ہو؟ کیا کرتے ہو؟ مجھے اس سے غرض نہیں
تعلیم چاہئے؟
روزگار چاہئے؟
صحت کی فری سہولتیں چاہئیں؟
امن اور ترقی؟
عزت نفس اور دنیا میں وقار؟
بس مجھے ووٹ دو، یہ میرا کرپشن فری اور شاندار خدمت کا ماضی ہے
لوگوں نے ڈرتے ڈرتے اعتماد کیا
اور پھر کرتے چلے گئے
پہلے متعارف ہوئے
پھر مانوس ہوئے
اور پھر ایسے مالوف کہ
اس کی محبت میں ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے
اردگان نے وعدے پورے کئے اور ہر بار اپنا ہی ووٹ لینے کا سابقہ ریکارڈ توڑتا کشتوں کے پشتے لگاتا جھنڈے گاڑتا آگے بڑھتا گیا.
اس نے سارے محاذ ایک ساتھ نہیں کھولے، اس نے کہا کون کیا کرتا ہے مجھے غرض نہیں، میں یہ دوں گا میرا وعدہ ہے
پھر طاقت حاصل کر لینے بعد اس نے عدلیہ سے نمٹا
فوج پر شکنجہ کسا اور آج کل میڈیا کے درپے ہے۔۔۔
مثال سامنے ہے،
کون ہے فتح اللہ گولن؟
ناکام ترک بغاوت میں فتح اللہ گولن کا کردار کسی حد تک طشت از بام ہوچکا ہے. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ عام طور کسی کو یہ علم بھی نہیں ہے کہ فتح اللہ گولن کون ہے؟ پتہ چلا کہ گولن ترکی کے امام مسجد اور عالم کے درجہ پر فائز رہے ہیں اور اس وقت امریکہ کی ریاست پنسلوینیا میں مقیم ہیں اور امریکہ کے متعدد اخبارات و جرائد میں کالم لکھتے رہتے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ جس قدر وہ غیر مدلموں کے ساتھ رواداری کے قائل ہیں اس سے کہیں زیادہ وہ طیب اردگان کے مخالف ہیں  ... ان کے مطابق اسلام کا مقصد محض خدمت انسانیت  اور تعلیم ہے  ... ان پر اس سے قبل بھی حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگ چکا ہے ... کچھ نظریات و عقائد غامدی صاحب کے بھی رکھتے ہیں .. دعوی کرتے ہیں کہ وہ عدم تشدد اور رواداری پر یقین رکھتے ہیں البتہ جمہور علماء ان کے ان نظریات کو مسترد کرتے آئے ہیں ... ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی رہا کہ اتاترک کے سیکولر ازم کے نقاد بھی رہے. رات کی تاریکی میں جب مغربی میڈیا کے ذرائع یہ پروپیگنڈا کر رہے تھے تو انگلش لرننگ گروپ کے ترک ساتھیوں سے بات کے دوران علم ہوا کہ میڈیا حقائق سے بالکل برعکس رپورٹنگ کر رہی ہے... غنیمت ہے کہ درست حقائق سے مطلع کرنے والے موجود تھے. جب میڈیا مارشل لا کے نفاذ کی باتیں کر رہی تھی اور طیب اردگان کی گرفتاری کی امید لگائے بیٹھا تھا، صوت المسلم نے فوجی باغیوں کی گرفتاریوں کی خبر دی... فتح اللہ گولن کے حوالے سے بھی انہی ساتھیوں سے رابطہ کیا گیا .. ان کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا فتح اللہ گولن کو ایک انقلابی لیڈر کے طور پر پیش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ جو مقام اور اثر و رسوخ اس وقت اردگان اور ان کی جماعت  کو حاصل ہے وہ فتح اللہ کو ملے .... لیکن ترک عوام فتح اللہ کو مسترد کرتے ہیں ... فتح اللہ کو اب یقین ہو چکا ہے کہ وہ عوام کی حمایت سے اقتدار نہیں حاصل کر سکتے تو وہ فوج کے کسی دھڑے کی مدد سے چور دروازے کی تلاش میں رہے ہیں.....
کیسے نصیب ہوتی ہے کامیابی ؟
ایس اے ساگر
حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب، ناظم عمومی، جمعیت علماء ہند کا ترکی صدر کے نام لکھے خط کازبردست مثبت اقدامات :
رجب طیب اردگان کے لائق تحسین و ترقی یافتہ پالیسی کی ایک ہلکی جھلک
طیب اردگان کی آمد کے بعد ترکش اکانومی 2002 سے 2012 کے درمیان کی گروتھ 64% حقیقی جی ڈی پی میں اور 43% جی ڈی پی میں پر کیپیٹل اضافہ ہوا
🏅2 ) طیب اردگان کی آمد سے قبل آئی ایم ایف کا ترکی پہ قرضہ 23.5 بلین ڈالر تھا، جو دوہزار بارہ میں 0.9 بلین ڈالر یعنی 900 کروڑ ڈالر رہ گیا، *طیب اردگان نے فیصلہ کیا کہ ہم کوئی نیا قرضہ نہیں لیں گے* ، کچھ ہی عرصہ میں یہ قرضہ بھی ختم ہوگیا، اور اعلان کیا کہ اب *آئ ایم ایف ہم سے اپنے لئے قرضہ لے سکتا ہے*، ( یعنی قرض لینے والے قرضہ دینے کے قابل ہوگئے)
🏅3) ترکی کے حکومتی قرض یورپی یونین کے نو ممالک اور روس سے بھی کم ریکارڈ سطح 1.17% پہ ٹریڈنگ کررہے ہیں ،
🏅 4) 2002 میں ٹرکش سنٹرل بنک کے ریزرو 26.5 ارب ڈالر تھے ، جو اردگان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے 2011 میں 92.2 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ، اردگان کی پالیسیوں کی وجہ سے 2002 سے 2004 کے درمیان صرف دو سالوں میں افراط زر کی شرح 32% سے کم ہوکے 9% رہ گئی ،
🏅5) اردگان کے دور حکومت میں ترکی میں 24 نئے ائیر پورٹ بنائے گئے، پہلے 26 ائیر پورٹ تھے اب 50 ہوچکے ہیں،
6) 2002 سے 2011 کے درمیان 13500 کلومیٹر ایکسپریس وے ( موٹروے ) بنائے گئے
🏅 7) ترکی کی تاریخ میں ہائی سپیڈ ٹرینوں کے لئے پہلی بار ہائی سپیڈ ریلوے لائنز بچھائی گئیں اور 2009 میں ان پہ پہلی بار ہائی سپیڈ ٹرینز ( 250.کلومیٹر فی گھنٹہ ) چلائی گئیں ، صرف آٹھ سالوں میں 1076 کلومیٹر نئی ریلوے لائنز بچھائی گئیں ، اور 5449 کلومیٹر ریلوے لائن کو رینیو کیا گیا ،
🏅 8) ملکی تاریخ میں پہلی بار صحت کے محکمہ میں اربوں ڈالر خرچ کئے گئے اور غریب عوام کے لئے مفت علاج معالجہ کے لئے مفت گرین کارڈ سکیم کا اجراء کیا گیا ،
🏅 9) 2002 میں تعلیم کے لئے 7.5 بلین لیرا ( ترک کرنسی ) مختص کی جاتی تھی ، اردگان نے 2011 تک رفتہ رفتہ اسے 34 بلین لیرا تک پہنچادیا، بجٹ کا سب سے بڑا حصہ وزارت تعلیم کے لئے مختص کردیا اور ملک میں 2002 میں 98 یونیورسٹیوں کی تعداد کو 2012 اکتوبر میں 186 یعنی تقریبا ڈبل کردیا ،
🏅 10) 1996 میں ترکی کرنسی لیرا ایک ڈالر کے 222 ملتے تھے ، اردگان کی معاشی اصلاحات کی وجہ سے اب 2016 میں ایک ڈالر کے 2.94 لیرا ملتے ہیں لیرا کی قدر وقیمت میں یہ اضافہ اتنا بڑا اضافہ ہے جس نے عالمی سامراج کی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑا رکھا ہے.
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پہ طیب اردگان کے خلاف بغاوت کروائی گئی، اس ناکام بغاوت کا اصل محرک کون ہے وہ پهر کهبی.... ترکی میں جب بغاوت ہورہی تهی اس سے ٹهیک ایک دن پہلے میں اردگان کو پڑه رہا تها.. انکے بارے میں پڑه کر میں ان سے کافی متاثر ہوا اور ایک تصویر بنا دی جس پہ لکها تها " درد جدید کا *سلطان صلاح الدین ایوبی الثانی"
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے 

No comments:

Post a Comment