یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی تھا ۔ امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
یزید قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر میں رجب ساٹھ ھجری 60 ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی اور تقریبا چالیس برس سے کم حکومت کی ۔
اور یزید ایسے لوگوں میں سے ہے جنھیں نہ توہم برا کہتے اور نہ ہی اس سے محبت کرتےہیں ، اس طرح کے کئی ایک خلیفہ اموی اورعباسی دورحکومت میں پائے گئے ہيں ، اور اسی طرح ارد گرد کے بادشاہ بھی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو يزید سے بد تر تھے ۔
اس کی شان و شوکت عظیم اس لیے ہوگئی کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے انچاس 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عہد قریب ہے اورصحابہ کرام موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے.
اس نے اپنی حکومت کا آغاز حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے اور اس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ سے ہوا ، تولوگ اسے ناپسند کرنے لگے اس کی عمرمیں برکت نہیں پڑی ، اورحسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کئی ایک لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالی کے لیے خروج کیا مثلا اھل مدینہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ۔
دیکھیں : سیراعلام النبلاء ( 4 / 38 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارہ میں موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے :
یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارہ میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک توحد سے بڑھا ہوا اور دوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اور ایک گروہ درمیان میں ہے ۔
جو لوگ تو افراط اور تفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں، ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین رضي اللہ تعالی عنہ کوشہیدکرکے اپنے بڑوں عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے ۔
تواس طرح کی باتیں اوریہ قول رافضیوں اور شیعہ کی ہیں جو ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہم کو کافر کہتے ہیں تو ان کے ہاں یزید کو کافر قرار دینا تواس سے بھی زيادہ اسان کام ہے ۔
اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اور صالح شخص اور عادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوئے اور اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی، اور بعض اوقات تووہ اسے ابوبکر ، عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے افضل قرار دیتے ہیں ، اور ہو سکتا کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔
تو یہ دونوں گروہ اور ان کے قول صحیح نہیں اور ہر اس شخص کے لئے اس کا باطل ہونا نظر آتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑ ا بہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لئے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں. کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے ، اور اسی طرح عقل و شعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہيں ۔
اور تیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :
یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھائیاں دونوں ہيں ، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئی ہے ، اور وہ کافر نہيں ، لیکن اسباب کی بنا پر حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اور وہ شہید ہوئے ، اس نے اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اور وہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہل علم و عقل اوراھل سنت والجماعت کا ہے ۔
لوگ تین فرقوں میں بٹے گئے ہیں ایک گروہ تو اس پرسب و شتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اور تیسرا نہ تو اس سے محبت اور نہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اور اس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بیٹے صالح بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ :
کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، تو انہوں نے جواب دیا کہ،
اے بیٹے کیا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہو، سے محبت کرتا ہے !!
تو میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟
تو انہوں نے جواب دیا،
بیٹے تو نے اپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔
اور ابو محمد المقدسی سے جب یزيد کے متعلق پوچھا گیا توجو کچھ مجھ تک پہنچا ہے کہ نہ تو اسے سب وشتم کیا جائے اور نہ ہی اس سے محبت کی جائے ، اور کہنے لگے :
مجھے یہ بھی پہنچا ہے کہ ہمارے دادا ابوعبداللہ بن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے یزيد کے بارہ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا :
ہم نہ تواس میں کچھ کمی کرتے ہیں اور نہ ہی زيادتی،
اقوال میں سب سے زيادہ عدل والا اوراچھا و بہتر قول یہی ہے ۔
مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( 4 / 481 - 484 ) ۔
واللہ تعالی اعلم
الشیخ محمد صالح المنجد
صحیح بات یہ ہے کہ یزید بن معاویہ کی حکومت چار برس کے لگ بھگ تھی۔
اس فتویٰ میں اردو ترجمہ میں غلطی سے چالیس برس لکھا گیا ہے، اصل عربی فتویٰ میں چار سال کا ہی ذکر ہے،
No comments:
Post a Comment