Sunday 10 July 2016

خون کا عطیہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ کےبارے میں کہ ہندوستان بہت سی کمیٹیاں وسوسائٹیاں بلڈ کیمپ منعقد کرتی جو بَر وقت خون فراہم کرنے کاکام کرتی ہے۔ کیامذہب اسلام بغیرضرورت خون نکلنے کی اجازت دیتاہے؟ اوراگرکس انسان کو خون کی  شدید  ضرورت پیش آئے تو وہ کیا کرئے؟ بہر صورت شریعت کا کیا حکم ہے؟ برائے کرم بحوالہ جواب عنایت فرمائیں تو بہتر ہوگا؟المستفتی العبد محمد محی الدین غفرلہ

جب کسی مریض کی ہلاکت کا خطرہ ہو، اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں اس کی جان بچنے کا خون چڑھانے کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو یا مریض کی ہلاکت کا تو خطرہ نہیں ہے لیکن ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون چڑھائے بغیر صحت کا امکان نہیں ہے تو مریض کو خون چڑھانے کے لئے اسے ہدیہ کے طور پر اپنا خون دے سکتے ہیں بشرطیکہ خون دینے والا اتنا کمزور نہ ہو کہ خون نکلوانے کے بعد خود خون کا محتاج یا شدید ضعف کا شکار ہوجائے۔ خون فروخت کرنا جائز نہیں کیونکہ خون شرعاً مال نہیں ہے، یاد رہے کہ یہ جواب اس صورت میں ہے کہ خون دینے سے آپ کی مراد اپنا خون کسی کو دینا ہو، اور اگر خون دینے سے مریض کو خون چڑھانا ہے تو اس کے جواز کی وہی دو شکلیں ہیں جو اوپر ذکر کی گئیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

س… مریضوں کے لئے خون جمع کرنا اور پھر مریضوں کو مہیا کرنا شریعت کے مطابق دُرست ہے یا نہیں؟ اور ہم طلبہ کو اس کام کا ثواب ملے گا؟

ج… اِضطرار کی حالت میں مریض کی جان بچانے کے لئے خون دینا جائز ہے، اور اسی ضرورت کے پیشِ نظر خون کا مہیا رکھنا اور اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے، اور خدمتِ خلق جبکہ حدِ جواز کے اندر ہو، ظاہر ہے کہ بڑے ثواب کا کام ہے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ

دائمی کمیٹی پچيسويں جلد : جامع باب برائے متفرق مسائل (2) > غیر مسلموں کو خون عطیہ کرنا > خون عطيہ کرنے کے عوض ہدیہ لینا
سوال نمبر: 1 و5 - فتوی نمبر:19477
س 1: ایسے شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے جس نے بہ رضائے الہی خون عطیہ کیا، اور محض انسانیت کے ناطے کیا، اور مریضوں کی زندگی بچانے کے لئے دیا، خون کا عطیہ دینے کے بعد ہیلتھہ منسٹری ( بلڈ بینک) کی جانب سے رقم کی صورت میں تحفہ پیش کیا گیا، یہ رقم 200 درہم تھی، تو کیا ہیلتھہ منسٹری کے لئے جائز ہے کہ لوگوں کو خون عطیہ کرنے کے عوض یہ کیش رقم ہدیہ کے طور پر دے، یا انہیں عینی تحائف پیش کرے، بالخصوص جب کہ ہم جانتے ہیں کہ اس ہدیہ کا سبب لوگوں کو خون عطیہ کرنے کی ترغیب دینا اور حوصلہ افزائی کرنا ہے، تاکہ لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں، اور ہاسپٹلوں میں اس طرح کی بلڈ یونٹوں سے ضرورتیں پوری کی جائیں۔
أ- شریعت ایسی صورت میں کیا کہتی ہے اگر یہ شخص کیش رقم لے کر فی سبیل اللہ کسی خیراتی تنظیم کے حوالہ کردیتا ہے، جیسا کہ اس نے خون کا عطیہ انسانیت کے ناطے کیا ہے، نہ کہ مال حاصل کرنے کی غرض سے؟
( جلد کا نمبر 25، صفحہ 69)
ب- شریعت ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے جو خود اپنا خون عطیہ اس لئے کرتا ہے کہ اس رقم سے اپنی ذاتی ضرورت پوری کرے، اور اس کا مقصد مریضوں کی زندگی بچانا نہیں ہے؟
ج- شریعت ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے جو رضائے الہی کے طور پر خون عطیہ کرنے آیا، لیکن رقم اپنے اور اپنے ذاتی استعمال کے لئے لیا، اور اس کا مقصد دونوں تھا، یعنی انسانیت کی خدمت اور مال سے استفادہ؟
ج 1: خون دے کر اس کے عوض مال حاصل کرنا حرام ہے، چاہے یہ عوض عینی ہو کیش رقم کی شکل میں، کیونکہ ابی جحیفہ کی حدیث صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت [ لینے ] سے منع کیا ہے اس پر علماء کا اتفاق ہے، اگرچہ یہ عوض ہدیہ کے نام پر ہو، کیونکہ یہ ہدیہ حرام چیز کے عوض میں ہے۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر صدر
بکر ابو زید صالح فوزان عبد العزیزآل شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز


No comments:

Post a Comment