Sunday 10 July 2016

یکساں سول کوڈ برداشت نہیں کریں گے مسلمان

ایس اے ساگر

ان دنوں ایک مرتبہ پھر ملکی قوانین اور مسلم پرسنل لا کے مابین مقابلہ آرائی کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے. ایسے عناصر کو کون سمجھائے کہ اللہ تعالی نے انسانٰ کو تمام مخلوقات میں نہ صرف مقامِ اشرفیت پر فائز کیا ہے بلکہ اپنی تمام مخلوقات کی غذائی ضرورتوں کا بھرپور انتظام فرمایا ہے. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ہر زمانے میں شرپسند عناصر متحرک رہے ہیں. دراصل انسان بیک وقت بہیمیت اور ملکوتیت دونوں کا مجموعہ ہے. یعنی  جہاں اسے اپنی جسمانی بقا کے لئے مادی غذا کی ضرورت ہے، وہیں روحانیت کو باقی رکھنے کے لئے روحانی غذا  روحانی کی بھی حاجت ہے، جسم اگر ارضی پے تو اس کی روح عرشی ہے. جسم کی ضرورتیں زمین سے پوری ہوتی ہیں تو روح کی حاجت آسمانی احکامات سے پوری ہوتی ہے.  غنیمت ہے کہ اللہ جل شانہ نے اس کی ان دونوں ضرورتوں کا انتظام فرمایا، مادی غذاوٴں سے تو ہم اور آپ اچھی طرح واقف ہیں، روحانی غذاوٴں سے مراد انبیاء ورُسُل علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات ہیں، جو انسانوں کو ایک جامع ومکمل نظامِ حیات سے روشناس کرواتی ہیں، سب سے آخر میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا، اور آپ کے ذریعہ قیامت تک آنے والی تمام انسانیت کو جو مکمل نظامِ حیات دیا گیا ، اہل علم حضرات نے اسی کا نام شریعتِ اسلامی قرار دیا ہے جبکہ اس شریعت کو جاننا فقہ اور جاننے والے کو فقیہ کہا جاتا ہے. گذشتہ روز اسی کے دفاع میں حضرت مولانا ارشد مدنی نے صاف کہا ہے کہ یکساں سول کوڈ برداشت نہیں کریں گے. اس سلسلہ میں  مفتی محمد جعفر ملی رحمانی جریدہ 'دارالعلوم دیوبند' میں رقمطراز ہیں کہ
” الفقہ عبارة عن العلم والفہم ۔۔۔۔ ولکن صار بعرف العلماء عبارة عن العلم بالأحکام الشرعیة الثابتة لأفعال المکلفین“۔ (المستصفی من علم الأصول : ۱/۴ ، بیان حد أصول الفقہ)
شریعتِ اسلامی کا مقصد انسانوں کی دنیوی واخروی سعادت ہے۔ 

وغایتہ الفوز بسعادة الدارین۔ 

(در مختار مع رد المحتار:۱/۱۲۱)،

شریعتِ اسلامی اور دوسرے قانون ساز اداروں، پارلیمنٹوں اور اسمبلیوں میں یہی بنیادی فرق ہے۔

کیا شریعت ذاتی مسئلہ ہے؟

شریعت کے قوانین انسان کے تمام شعبوں ؛ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب کو حاوی ہیں، شریعت کے قوانین میں وہ تقسیم نہیں جو آج کی بیشتر حکومتوں کے دستوروں میں پائی جاتی ہے، کہ ایک قسم کو پرسنل لا Personal Law یعنی احوالِ شخصیہ کا نام دیا جاتا ہے، جو کسی انسان کی شخصی اور عائلی زندگی سے متعلق ہوتی ہے، اور اس کے متعلق یہ غلط تأثر دیا جاتا ہے کہ اس کے کرنے یا نہ کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، اسی تأثر کا یہ اثر ہے کہ آج جن لوگوں کو مسلم دانشور کہا جاتا ہے، وہ یہ کہتے ہوئے ذرا نہیں جھجکتے کہ مذہب میرا اپنا ذاتی معاملہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں چاہوں تو اس پر عمل کروں اور چاہوں تو نہ کروں؛ حالاں کہ اُن کی یہ سمجھ غلط ہے؛ کیوں کہ مسلمان کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں شریعتِ اسلامی کا پابند ہے، مختار نہیں۔ دوسری قسم یکساں سول کوڈ یا مشترک قانون Common Law کے نام سے معروف ہے، جو کسی ملک کے تمام باشندوں کے لئے ایک جیسے ہوتے ہیں جبکہ اسلام اس تقسیم کا قائل نہیں، انسانی مسائل خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ، تمدن وثقافت اور مال وزر سے اُن کا تعلق ہو یا اخلاقی بے راہ روی اور جرائم سے ، سب کاحل شریعتِ اسلامیہ نے مساوی طور پر پیش کیا ہے، اور ہر مسلمان پر ان تمام احکام کی پیروی ضروری قرار دی گئی ہے، اس کے قوانین میں شخصی اختیار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شریعت کے ان قوانین میں ایسی گہرائی اور لچک ہے کہ اُن کی روشنی میں ہر زمانے ، حتی کہ آج کے اس ترقی پذیر دور میں پیش آمدہ نت نئے مسائل کا حل پیش کیا جاسکتا ہے، اور کیا بھی جارہا ہے ، جیسا کہ دورِ حاضر کے فتاویٰ، اسلامک فقہ اکیڈمیوں اور مجلسوں کے فیصلے اس پر شاہد ہیں.

عائلی قوانین پر یلغار :

وطنِ عزیز میں رائج قوانین کی دو اہم قسمیں ہیں؛ دیوانی یا سِوِل کوڈ Civil Code ، اور تعزیراتی یا کریمنل کوڈ Crimnal Code؛ ظاہر ہے اس قسم کے قوانین تمام اہلِ ملک کے لئے یکساں ہیں، ان میں کسی نوعیت کی تفریق ، نسل ومذہب کی بنیاد پر از روئے دستور نہیں کی گئی۔ پہلی قسم سول کوڈ کے دائرہ میں وہ تمام قوانین شامل ہیں جن کا تعلق عائلی، تمدنی اور معاملاتی امور سے ہی اور دوسری قسم میں جرائم کی سزائیں آتی ہیں۔ البتہ سِوِل کوڈ کے ایک حصہ جسے پرسنل لا Personal Law کہا جاتا ہے. اس میں ملک کی بعض اقلیتوں کو، بشمول مسلمانوں کو اُن کے مذہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جسے پرسنل لا کی آزادی کا نام دیا گیا ہے، اسی کے تحت مسلمانوں کو بھی دستور ہند میں یہ حق دیا گیا ہے کہ نکاح ، طلاق ، ایلاء ، ظہار، خلع ، فسخِ نکاح، رضاعت، حضانت اور وقف سے متعلق مقدمات اگر سرکاری عدالتوں میں دائر کئے جاتے ہیں اور دونوں فریق مسلمان ہوں، تو سرکاری عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق ہی فیصلے کریں گی، انہی قوانین کے مجموعے کو مسلم پرسنل لا کہا جاتا ہے۔ مسلم پرسنل لا میں قانون کی ایک دفعہ 'عدت' ہے؛ طلاق کے بعدآثارِ نکاح ختم ہوجانے کے لئے شریعت نے عورت کے واسطے جو مدت مقرر کی ہے، اُسے عدت کہتے ہیں، مطلقہ کی عدت، اگر اُسے حیض آتا ہے تو مکمل تین حیض ہے، اور اگر کم عمری یا زیادہ عمر کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو تین قمری مہینے ہیں. (فتاویٰ ہندیہ : ۱/۵۲۶ ،اسلام کے عائلی قوانین: ص/۲۱۲) ،

شرعی قوانین کی پابندی :

عدت کی اِس مدت میں عورت طلاق دینے والے کی طرف سے رہائش ، نفقہ وخرچہ کی حقدار ہے(ہدایہ:۲/۴۲۳)، عدت کے بعد وہ اجنبیہ ہے، اس لئے عدت کے بعد طلاق دینے والے کے ذمہ اُس کی رہائش ونفقہ واجب نہیں ہے۔ (اسلام کے عائلی قوانین: ص/۱۲۲)
سرکاری عدالتیں مسلم مرد اور عورت کے حق میں نفقہٴ عدت سے متعلق اِسی دفعہ کے مطابق فیصلے کی مکلف وپابند ہیں۔ ۱۹۸۵ کے دوران شاہ بانو مقدمہ کا سپریم کورٹ نے اِس دفعہ کے خلاف یہ فیصلہ دیا تھا کہ اُس کا شوہر عدت کے بعد بھی اُس کے نفقہ وخرچہ کو اُٹھاتا رہے گا، تواِس فیصلے کے مخالفِ شرع ہونے کی وجہ سے تمام ہندوستانی مسلمانوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، جس کے نتیجے میں ۱۹۸۶ء میں پارلیمنٹ نے مسلم خواتین کے لیے ایک نیا قانون پاس کیا، جس سے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ کالعدم قرار پایا۔ اس کے باوجود آج پھر سرکاری عدالتیں نکاح، طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق ایسے فیصلے صادر کررہی ہیں جبکہ یہ مسلم پرسنل لا کے خلاف ہیں، جن میں سے ایک عدت کے بعد وجوبِ نفقہ کا فیصلہ بھی ہے، جسے عام زبان میں ” کھاوٴٹی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے- کہ عدت کا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی طلاق دینے والے پر اِس اجنبیہ کا نفقہ وخرچہ لازم کیا جاتا ہے۔

کھلم کھلا مداخلت :

نکاح، طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق سرکاری عدالتوں کے اِس طرح کے فیصلے جہاں مسلم پرسنل لا میں مداخلت ہیں، وہیں مسلمانوں کو دستورِ ہند میں حاصل حق سے محروم کرنے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی منصوبہ بند سازش کاحصہ ہے تاہم اِس میں مسلمان بھی برابر کے قصوروار ہیں کہ اپنے اِس طرح کے نزاعات وجھگڑوں کو اپنے مذہبی اداروں جیسے دار الافتاء، دار القضاء، شرعی پنچایت سے حل کروانے کی بجائے سرکاری عدالتوں کا رخ کرتے ہیں ، اور اُنہیں مسلم پرسنل لا میں مداخلت کے مواقع فراہم کرتے ہیں، جبکہ کسی سرکاری عدالت کے اس فیصلے سے کہ طلاق دینے والے پر عورت کی عدت کے بعد بھی اُس کا نفقہ وخرچہ لازم ہے، عورت اور اُس کے سرپرستان کے لئے اس نفقہ کا لینا شرعاً درست نہیں ہے، لہٰذا جو شخص اللہ، رسول اور آخرت کی جزا وسزاپر یقین رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے معاشرتی ، تمدنی اور معاملاتی امورکو اپنے مذہبی اداروں سے ہی حل کروائے، اسی میں اس کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات ہے۔

دائرہ اسلام سے خارج :

انھیں کون سمجھائے کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
﴿فلا وربک لایوٴمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی أنفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیما﴾ ۔
”سو آپ کے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہونگے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہو، آپ کو حکم نہ بنالیں اور پھر جو فیصلہ آپ کردیں اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو پورا پورا تسلیم کرلیں“۔
(سورہٴ نساء: ۶۵)      
اس آیت نے یہ صاف کردیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں مقدمات محض لے آنا ہرگز ایمان کے لئے کافی نہیں، عقلی واعتقادی حیثیت سے اطمینان بھی رسول کے فیصلہ پر ہونا چاہئے، ہاں اس کے بعد بھی کوئی طبعی تنگی باقی رہ جائے تو غیر اختیاری ہونے کی بنا پر معاف ہوگی - 

حتی یحکموک فیما شجر بینہم -
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ مبارک میں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حَکَم بننا ظاہرہی تھا، بعد وفات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت حَکَم بننے کے لئے کافی ہے، فقہاء نے اس آیت سے استنباط کیا ہے کہ جو کوئی اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم میں شک وشبہ کرے یا ماننے سے انکار کرے وہ دائرہٴ اسلام سے خارج ہے ۔
وفي ہذہ الآیة دلالة علی أن من ردّ شیئا من أوامر اللّٰہ أو أوامر رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فہو خارج من الإسلام ، سواء ردہ من جہة الشک فیہ أو من جہة ترک القبول والامتناع من التسلیم ۔
(جصاص:۲/۲۶۸، تفسیر ماجدی)
مختصر یہ کہ امت کو نہ صرف اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے پرسنل لا کے تحفظ کے لئے برسرپیکار رہنا ہوگا بلکہ داخلی طور پر ایسی محنت کرنی ہوگی کہ کم از کم عائلی معاملات شرعی دائرے میں حل کروانے کا مزاج قائم ہوجائے.

No comments:

Post a Comment