ایس اے ساگر
احادیث میں وارد ہے کہ مونچھیں کترو اور داڑھی بڑھاؤ اور اسی طرح مونچھ کاٹنے، ناخن تراشنے، زیرِ ناف اور زیرِ بغل بال صاف کرنے کے بارے میں احادیث وارد ہيں. جمعہ کے دن جمعہ کے نماز سے پہلےلب تراشنا اور ناخن کا ٹنا سنت ہے-
(مجمع الزوائدج/2ص/173)
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقص شاربہ ویقلم اظفارہ یوم الجمعۃ قبل ان یروح الیٰ الصلوٰۃ. حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن قبل نماز جمعہ مونچھوں اور نا خنوں کا کا ٹتے تھے .(شامی)
روایت : من قلم اظافیرہ یوم الجمعۃ اعاذہ اللہ من البلاءیا الیٰ الجمعۃ الاخریٰ . جو شخص جمعہ کے دن ناخن کاٹے اگلے جمعہ تک بلاؤں سے اس کو اللہ تعالیٰ پناہ دیں گے . شامی
حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ ابن دقیق العید رحمھم اللہ فر ماتے ہیں کہ ناخن ترا شنے میں کوئی خاص کیفیت اور کسی دن کی تعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول وثابت نہیں .لہذا مذکورہ بالا طریقے کے مستحب ہو نے کا اعتقاد جائز نہیں .( بذل المجہود فی حل ابی داؤد ج1 ص33) بحولہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ص 33
2. داہنے ہاتھ کی ابگشت شہادت (کلمہ شہادت) سے شروع کریں اور چھنگلی تک پھر ہاتھ کی چھنگلی بائیں ہاتھ کی انگوٹھے پھر آخر میں داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن کانٹے اور داہنےپاؤں کی چھنگلی سے شروع کر کے انگوٹھے تک پھر بائیں پاؤں کے انگو ٹھے سے چھنگلی تک ترتیب وار ناخن کاٹنا چاہئے -. یہی طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ناخن تراشنے کا شامی میں منقول ہے .
جس کی عبارت مع حوالہ نقل ہے .روی انہ صلی اللہ علیہ وسلم بداءبمسبحتہ الیمنیٰ الی الخنصر ثم بخنصرالیسری الی الابھام وختم بابھام الیمنیٰ وفی الر جل بخنصر الیمنیٰ ویختم بخنصرالیسریٰ .شامی
پیروں میں داہنے پیر کی چھوٹی انگلی سے ابتداء کرے
ایسا ہی سلسلہ وار تمام انگلیوں کے ناخن تراشتے ہوئے انگوٹھے پر ختم کرے
پھر بائیں پیر کے انگوٹھے سے شروع کر کے اس کی چھوٹی انگلی پر ختم کرے۔
فتاوی عالمگیری ، ج 5 ، ص 358، میں ہے
وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ ابْتِدَاءُ قَصِّ الْأَظَافِيرِ مِنْ الْيَدِ الْيُمْنَى وَكَذَا الِانْتِهَاءُ بِهَا فَيَبْدَأُ بِسَبَّابَةِ الْيَدِ الْيُمْنَى وَيَخْتِمُ بِإِبْهَامِهَا وَفِي الرِّجْلِ يَبْدَأُ بِخِنْصَرِ الْيُمْنَى وَيَخْتِمُ بِخِنْصَرِ الْيُسْرَى
(فتاوی عالمگیری ، ج 5 ، ص 358، كِتَابُ الْكَرَاهِيَةِ،الْبَابُ التَّاسِعَ عَشَرَ فِي الْخِتَانِ وَالْخِصَاءِ وَقَلْمِ الْأَظْفَارِ وَقَصِّ الشَّارِبِ وَحَلْقِ الرَّأْسِ)
3. ناخن کا ٹنے کے بعد اس کو دفن کرنامستحب ہے(فتح الباری/ج10/ص346)
4. غسل خانہ اور ناپاک جگہ پر ڈالنا مکروہ ہے(مرقات/ج4/ص456)
4. غسل خانہ اور ناپاک جگہ پر ڈالنا مکروہ ہے(مرقات/ج4/ص456)
5. ناپاک جگہوں پر ڈالنے سے بیماری کا خطرہ ہو تاہے(شامی/6/405)
6. ناخن کے تراشے کو ادہر ادہرنہ ڈالےتا کے اس سے کوئی جادو نہ کر سکے(فتح الباری/10/346)
7. دانت سے ناخن کاٹنا مکروہ ہےتنگئ رزق اور غربت کاباعث ہے(اتحاف/2/412)
8. دانت سےناخن نہ کاٹے کے اس سے برص کی بیماری پیداہوتی ہے. (شامی/5/287)
8. دانت سےناخن نہ کاٹے کے اس سے برص کی بیماری پیداہوتی ہے. (شامی/5/287)
9. رات میں ناخن کاٹنے میں کو ئی قباحت نہی ہے(شرح احیاء/2/412)
10. ناخن خود بہی کاٹ سکتا ہےاوردوسروں سے بہی کٹواسکتا ہے(شرح ا حیاء/2/412)
11. مجا ہدین کو ناخن بڑھانے کی اجازت ہے (شمائل کبری/2/213)
جو شخص قربانی كرنا چاہے اسے اپنے بال اور ناخن نہیں كاٹنے چاہئیں
سوال نمبر 3 - فتوی نمبر1407
س3: حدیث میں ہے کہ جو شخص قربانی کرنا چاہے یا جس کی طرف سے قربانی کی جائے اسے چاہیے کہ وہ اپنے بال، جلد اور ناخنوں سے کچھـ چیز نہ لے یہاں تک کہ وہ قربانی کرے۔ کیا یہ ممانعت سارے گھر والوں کے لئے ہے، چھوٹے اور بڑے سب اس میں شامل ہیں یا صرف بڑوں کے لئے ہے چھوٹوں کے لئے نہیں ہے؟
ج3: سائل نے جو حدیث کے لفظ ذکر کیے ہیں ان کے متعلق ہم نہیں جانتے، اور جو لفظ ہمیں معلوم ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں جنہیں امام بخاری کے علاوہ محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے، حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ بے شک رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا: جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھـ لو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے، تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے بال کاٹنے اور ناخن تراشنے سے رک جائے۔ اور ابو داود ، مسلم اور نسائی کے بھی یہی لفظ ہیں جو شخص قربانی کرنا چاہے پس جب ذو الحجہ کا چاند نکل آئے، تو وہ اپنےبال اور ناخن نہ کاٹے حتی کہ وہ قربانی کر لے۔ پس یہ حدیث ذو الحجہ کے پہلے دس دنوں کے دا خل ہونے کے بعد جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہے اس کے بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔
( جلد کا نمبر 11، صفحہ 427)
پہلی روایت میں امر اور ترک دونوں ہیں، اور اس کی اصل یہ ہے کہ وہ وجوب کا تقاضا کرتی ہے، اور ہمیں اس اصل سے پھیرنے والا کوئی قرینہ معلوم نہیں ہے، اور دوسری روایت میں کوئی چیز لینے سے روکا گیا ہے، اور اس کی اصل یہ ہے کہ وہ حرمت کا تقاضا کرتی ہے، يعنی کسی چیز کے لینے کی حرمت، اور ہمیں کوئی ایسا قرینہ معلوم نہیں جو اسے اس سے پھیر دے؛ لہذا اس سے واضح ہوگیا کہ یہ حدیث فقط اس شخص کے ساتھـ خاص ہے جو قربانی کرنا چاہتا ہے بہر حال جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا اس کے لئے اصل کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے بال، جلد اور ناخنوں سے کچھـ لینے کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور اصل جواز ہے، اور ہم کوئی ایسی دلیل نہیں جانتے جو خلاف اصل پر دلالت کرتی ہو۔
( جلد کا نمبر 5، صفحہ 149)
سوال نمبر: 3 - فتوی نمبر:( 2193 )
س 3: کئی احادیث میں وارد ہے کہ: مونچھیں کترو اور داڑھی بڑھاؤ اور اسی طرح مونچھ کاٹنے، ناخن تراشنے، زیرِ ناف اور زیرِ بغل بال صاف کرنے کے بارے میں احادیث وارد ہيں، تو کیا منڈوانا کتروانے سے مختلف ہے؟ اور سوال یہ ہے کہ بعض لوگ اوپری ہونٹ سے قریب مونچھ کے جو بال ہیں صرف اسی کو کاٹتے ہیں، اورباقی بال چھوڑدیتے ہیں، یعنی تقریباً آدھی مونچھ کاٹتے ہیں، اور باقی چھوڑدیتے ہیں، تو کیا یہی مطلوب ہے؟ یا يہ مطلوب ہے کہ جڑ سے ترشوا دے، یعنی ساری مونچھ بلیڈ سے صاف کردے؟ برائے کرم اس طریقے کی وضاحت کریں، جس سے کہ مونچھ کاٹی جائے۔ اور داڑھی بڑھانے کا مسئلہ تو صاف ہے کہ پوری داڑھی کو چھوڑدیا جائے۔
ج 3: تمام تعريفيں صرف الله كيلئے ہيں، اور صلاۃ وسلام نازل ہو اللہ کے رسول پر، آپ کی آل اور آپ کے اصحاب پر۔ حمد و صلوٰۃ کے بعد:
حضوراکرم صلى الله عليه وسلم سے مروی احادیث اس بات پرمشتمل ہیں کہ مونچھیں کاٹنا، ناخن تراشنا، زیرِناف اور زیرِ بغل بال صاف کرنا مسنون ہے، ان احادیث میں سے ایک حدیث آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان ہے: مونچھیں کترو اور داڑھی بڑھاؤ؛ مشرکین کی مخالفت کرو اس حدیث كی صحت و درستگی پر اتفاق ہے۔ اور آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: مونچھیں تراشو اور داڑھیاں لمبی کرو، مجوسیوں کی مخالفت کرو اور دیگر بعض احادیث میں یہ الفاظ ہیں: تم مونچھوں کو پست کرو
( جلد کا نمبر 5، صفحہ 150)
اور "الإحفاء" کا معنی مبالغہ کے ساتھ کاٹنا ہے، تو جس شخص نے اپنی مونچھیں اوپر اوپر سے کاٹا ہو، یا مبالغہ کے ساتھ جڑ سے کاٹا ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ حدیث میں دونوں کا حکم ہے۔ اور مونچھ کے دونوں کناروں کو چھوڑنا ناجائز ہے، بلکہ پوری کاٹی جائے یا پوری چھوڑدی جائے، تاکہ حدیث پر عمل ہوجائے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن منیع عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
No comments:
Post a Comment