ہر ایسی ملازمت اور نوکری جس میں شریعت کے احکام کی خلاف ورزي نہ کرنا پڑتی ہو وہ جائز ہے پس اگر پولیس کي نوکری بھی ایسی ہو تو جائز ہوگی.
محمود الفتاوی (469/5) مکتبہ محمودیہ
سود دینے سے دکان کے مال میں حرمت نہیں آتی دینے والوں کو گناہ ہوتا ہے اگر بدون سخت مجبوری کے دیں اور سود لینا مسلمان سے تو مطلقا حرام ہے اور کفار سے لینا بھی بعض علماء کے نزدیک حرام ہے مگر جب وہ قلیل ہے اور زیادہ آمدنی بے سودی ہے تو ملازم دکان کو تنخواہ لینا جائز ہے جبکہ تنخواہ مال مخلوط سے دی جاۓ. اس طرح جب اشیاء حلال زیادہ ہیں تو غلبہ حلال کو ہے اور ملازموں کی دغا فریب سے ان کو گناہ عظیم ہوتا ہے- اسی طرح دکاندار کو بھي اگر وہ اس سے واقف ہے لیکن جو قیمت حاصل ہوتی ہے وہ حلال ہے گو کراہت سے خالی نہیں- لیکن دکاندار کی ملک ہوجاتی ہے اسی طرح بیع فاسد میں قبضہ سے دکاندار کی ملک ہوجاتی ہے البتہ کراہت وخبث ضرور ہے اب اگر ملازم دکان کو یہ معلوم ہو کہ یہ تنخواہ جو مجھے دی گئی ہے، یہ بیع فاسد کے ثمن سے دی گئی ہے یا سود کی آمدنی سے جب تو اس کا لینا درست نہیں- اور اگر سب مخلوط ہو- اور اس کو معلوم نہ ہو کہ یہ تنخواہ بیع صحیح کی قیمت سے ہے یا فاسد کی تو تنخواہ حلال ہے.
امداد الاحکام (551/3) مکتبہ دار العلوم کراچی
پہلی وجہ یعنی حرام کاموں میں مدد کا جہاں تک تعلق ہے، شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں، ہر درجہ حرام نہیں، بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہے جو براہ راست حرام کام میں ہوں، مثلا سودی معاملہ کرنا، سود کا معاملہ لکھنا، سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ-لیکن اگر براہ راست سودی معاملہ میں انسان کو ملوث نہ ہونا پڑے، بلکہ اس کام کی نوعیت ایسی ہو جیسے ڈرائیور،چپراسی،یا جائز ریسرچ وغیرہ تو اس میں چونکہ براہ راست مدد نہیں ہے،اس لئے اس کی گنجا ئش ہے-
جہاں تک حرام مال سے تنخواہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں شریعت کا اصول ہے کہ اگرایک مال حلال و حرام سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہو تو اس سے تنخواہ یا ہدیہ لینا ناجائز نہیں، لیکن اگر حرام مال کم ہو تو جائز ہے- بینک کی صورتحال یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے،
1- اصل سرمایہ
2- ڈپازیٹرز کے پیسے
3- سود اور حرام کاموں کی آمدنی،
4- جائز خدمات کی آمدنی، اس سارے مجموعے میں صرف نمبر 3 حرام ہے، باقی کو حرام نہیں کہا جا سکتا، اور چونکہ ہر بینک میں نمبر 1 اور نمبر دو کی کثرت ہوتی ہے، اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجموعہ غالب ہے، لہذاکسی جائز کام کی تنخواہ اس سے وصول کی جا سکتی ہے- یہ بنیاد ہے جس کی بناٰء پرعلماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے، البتہ احتیاط اس سے بھی اجتناب کیا جائے-
فتاوی عثمانی(3/396) مکتبہ دار العلوم کراچی
No comments:
Post a Comment