Thursday 2 June 2016

اللہ کی قدرت، محمد کی برکت

اسے اللہ کی قدرت کی جیتی جاگتی نشانی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کے ایک چھوٹے سےگاؤں میں جڑواں بچوں کی پیدائش شرح حیران کن حد تک زیادہ ہے جس کی بنا پر یہ گاؤں دنیا بھر کے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔  الہ آباد کے اس چھوٹے سےگاؤں محمد پور عمری میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح دس میں ایک ہے۔ اس گاؤں میں ہونے والی ہر دس پیدائشوں میں ایک، ایک جیسے جڑواں بچوں کی ہوتی ہے جنہیں ’آئڈینٹیکل ٹوئن‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
محمد پور عمری سے اگر آپ کا گزر ہوتو آپ کو شک ہو گا کہ شاید آپ کسی فلم کے سیٹ پر آگئے ہیں جہاں ایک جیسی شکلوں والے بہت سے کردار گھوم رہے ہیں۔
عام طور پر کسی عورت کے ہاں ایک جیسے جڑواں بچوں کی پیدائش کا امکان تین سو میں سے ایک ہوتا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اس گاؤں میں جڑوان بچوں کی پیدائش کی شرح حیران کن حد تک زیادہ ہے
محمد پور عمری کے ایک سترسالہ شخص نے کہا کہ گزشتہ دس سے پندرہ سال سے جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح حیران کن حد تک بڑھ گئی ہے۔ جبکہ ان کے گاوں میں جڑواں بچوں کی شرح کہیں زیادہ ہوتی لیکن بہت سے پیدائش کے وقت جانبر نہ ہوسکے۔
چھ ماہ قبل ایک مقامی اخبار نے یہاں پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کی خبر شائع کی جس کے بعد سے یہ بین القوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
اس وقت گاؤں میں ڈی این اے کے ماہرین کی ٹیم جن کا تعلق حیدرآباد کے ایک ادارے سے ہے یہ تحقیق کر رہی ہے کہ اس گاؤں میں ایسی کون سے خاص بات ہے جس کی وجہ سے یہاں اتنی بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کی پیدائش ہورہی ہے۔
یہ ماہرین گاؤں کے باسیوں کے خون کے نمونے اکھٹے کر رہے ہیں جس کو سائنسدانوں کے حلقوں میں ’جنیٹک گولڈ مائن‘ کہا جا رہا ہے۔
آئڈینٹکل ٹوئنز ایک ہی انڈے سے جنم لیتے ہیں جبکہ ’نان آئڈینٹکل ٹوئنر‘ ایک ہی وقت میں ماں کے رحم میں دو مختلف انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں۔
تاہم طبی سائسندان یہ بات یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ کیا یہ بالکل اتفاقیہ طور پر ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی ایک وجہ رشتہ داروں کی آپس میں شادیوں کی وجہ سے ہورہا ہے کیونکہ اس گاؤں میں زیادہ تر مسلمان رہتے ہیں اور مسلمانوں میں رشتہ داروں میں شادیاں کرنے کا رواج ہے۔
تاہم گاؤں والے اس خیال سے متفق نہیں ان کا کہنا ہے کہ بہت سے دوسرے دیہاتوں اور شہروں میں جہاں مسلمان آباد ہیں رشتہ داروں میں شادیاں کی جاتی ہیں لیکن وہاں جڑواں بچے اس شرح سے پیدا نہیں ہوتے۔
گاؤں کے معمر حضرات اسے خدا کی طرف سے ایک نعمت سمجھتے ہیں۔
گنگا اور جمنا کے دو بڑے دریاوں کے درمیان آباد یہ گاؤں بہت ذرخیز ہے اور جڑواں بچوں کی پیدائش کو بھی اس دھرتی کی ذرخیزی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
گو کہ سائنسدان لوگوں کی اس تشریح سے متفق نہیں لیکن گاؤں والوں کا یہ کامل یقین ہے۔
گاؤں کے ایک بیس سالہ نوجوان ابو سعد کا کہنا ہے کہ قدرت کے علاوہ اس میں زمین کی ذرخیزی کا بھی دخل ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس مٹی میں کچھ ایسی بات ضرور ہے جس کی بنا پر اتنی بڑی تعداد میں ایک جیسے جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں۔
ابو سعد کے آٹھ بچے ہیں جن میں چار بچے جڑواں ہیں جو کہ سائسندانوں کے خیال میں بہت انوکھی بات ہے۔
گاؤں کے سب سے بڑے جڑواں بچوں میں گڈو اور منو ہیں۔ گڈو کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار تو ان کی بیوی بھی دھوکہ کھا جاتی تھی اور ان دونوں کو پہچان نہیں کر سکتی تھی۔
گاؤں میں جڑواں بچوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی بد حواسیوں کی کہانیوں کی کوئی کمی نہیں۔ ایسی بہت سسے کہانیاں یہاں عام ہیں اور روز مرہ کا معمول ہیں جن میں ہم شکل بھائیوں یا بہنوں کی وجہ سے لوگ دھوکہ کھا گئے ہوں۔

http://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/02/040224_indian_twins_fz.shtml

No comments:

Post a Comment