Wednesday, 29 June 2016

مسلمان نہ لاوارث ہیں اور نہ ہی مجرم، ہم بے قصوروں کا دفاع کرتے ہیں

جمعیۃ علماء مہاراشئر(ارشدمدنی)کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزاراعظمی سے ابوندیم کی بات چیت

گلزاراحمداعظمی     جمعیۃعلماء مہاراشٹر(ارشدمدنی)کی قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ پھر ایک لمبی 

قانونی لڑائی لڑنےکے لیے تیار ہیں۔یہ لڑائی وہ ان بے قصوروں کی طرف سے لڑیں گے جنہیں طویل عرصے

 تک بغیر کسی ثبوت کے جیل کی سلاخوں کے پیچھےرکھاگیا۔جنہیں جھوٹےاورفرضی مقدمات میں ملوث کیاگیا...

اور اس طرح ان کی زندگیوں کے بیش قیمت سال برباد کردئیےگئے....یہ جنگ ان پولس والوں کے

خلاف ہے جنہوں نے مسلم نوجوانوں کےخلاف جھوٹےکیس بنائے اورشہادتیں گڑھیں....یہ ہرجانے کی

 جنگ ہے۔یہ بے قصوروں کی عزت اورمرتبے کی بحالی کی جنگ ہے۔یہ خاطیوں کو سزا دلانے کی جنگ ہے۔

س:سال 2015اور2016جمعیۃ علماء کی قانونی سرگرمیوں کے لیے ملاجلا رہا‘خوشیاں زیادہ مگر کچھ غم بھی۔عدالتوں کے کئی حوصلہ افزاء فیصلے آئےمگر چند مقدموں میں فیصلہ توقع کے خلاف رہا۔کیا کہناچاہیں گے آپ ؟

ج:یہ صحیح ہے کہ سالِ گذشتہ اورموجودہ سال میں کئی اہم عدالتی فیصلے آئے ۔اورجہاں ہمیں ناکامی ہوئی اس میں ہم سمجھتے ہیں کہ نچلی عدالتوں نے ہمارے وکلاء کے دلائل وشواہد کومعلوم نہیں کیوں رد کردیا۔لیکن ہمیں اُمید ہے کہ جب ان فیصلوں کو عدالتِ عالیہ میں لے کر جائیں گے توانشاء اللہ وہاں ہمارے حق میں فیصلہ کیا جائےگا‘ہمیں کامیابی ملے گی۔

س:دوفیصلوں پر خاص طور پر توجہ دلانامقصود ہے۔ٹرین بم بلاسٹ 7/11اوردوسرا جے پوربم بلاسٹ ۔ٹرین بم بلاسٹ کے مقدمے کے لڑنے میں کیاکوئی خامی رہ گئی ہے؟نیزجے پور کے مقدمے کے چندملزمین بری ہوئے دوسرے کیوں بری ہونے سے رہ گئے‘بالخصوص جلیس انصاری؟

ج:جہاں تک 7/11مقدمے کاتعلق ہے ہمارے وکلاء نے نہایت ایمانداری اورلگن کے ساتھ اس مقدمے کو لڑا اورگواہانِ استغاثہ سے جرح کرکے عدالت کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ یہ استغاثہ کےمستقل گواہ ہیں اوریہ بھی ثابت کیاکہ گواہان نے جوگواہی دی ہے وہ کس بنیاد پر جھوٹی اورغلط ہے۔اسی لیے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم جب عدالت عالیہ میں جائیں گےتوہمیں کامیابی حاصل ہوگی۔رہ گئی بات اجمیربلاسٹ کیس کی تو اس سلسلے میں دومقدمات تھے۔ایک مقدمہ میں جلیس انصاری ،حافظ ابررحمت ،جمال علوی وغیرہ شامل تھے جنہیں نچلی عدالت اورجے پورہائی کورٹ نے ۲۰؍۲۰؍سال کی سزا دی تھی الحمد للہ اس میں کامیابی حاصل ہوئی اورچار کے چار سپریم کورٹ سے با عزت بری ہوگئے۔جے پور کے ہی سیرئیل بم بلاسٹ کےسلسلے میں ۱۵؍لوگوں میں سے گیارہ لوگوں کی ۲۰؍سال کی سزا کو عدالت نےبرقرار رکھا۔دونوں کیس ایک ہی جیسے تھے‘دونوں مقدموں میں کچھ لوگ مشترکہ طور پرماخوذتھے لیکن یہاں تمام ملزمین کے حق میں پہلےجیسا فیصلہ نہیں آیا۔اس فیصلے کے خلاف ہمارااگلاقدم یہ ہے کہ ہم گیارہ لوگوں کی جانب سے ری ویوپٹیشن داخل کر رہے ہیں،ساتھ ہی ساتھ ہم سی بی آئی اورراجستھان گورنمنٹ سےرجوع ہو رہے ہیں کہ ان کی سزا عدالتِ عالیہ صرف عمر قیدنے دی تھی اورعام طور پرایسی سزا کو زیادہ سے زیادہ ۲۰؍سال ماناجاتاہے۔ان لوگوں نےجیل میں ۲۳سال گذارے ہیں اس لیے ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں رہا کردیاجائے۔اگر سی بی آئی اورراجستھان گورنمنٹ نے اس پر خاطر خواہ عمل نہیں کیاتوپھر ہم سپریم کورٹ جائیں گے اورہمیں اُمید ہےکہ ہمیں انشاء اللہ ضرورکامیابی ملے گی۔

س:کیا سی بی آئی اورراجستھان کی بی جے پی سرکار سے آپ کوبھلے کی اُمید ہے؟

ج:ہمیں کوئی اُمیدنہیں ہے.....       

س:لیکن بی جے پی اب کچھ  بدلتی نظرآرہی ہے۔مرکزی وزیرقانون سدانندگوڑا نے یہ اعتراف کیا ہے کہ مسلمان بےقصورگرفتارکیے جارہے ہیں،انہوں نے تشویش کا اظہار کیاہے،کیا یہ ممکن نہیں کہ بی جے پی ماخوذین پر کچھ نظرعنایت کرے؟

ج:وزیر قانون کامذکورہ بیان آنے کے بعدکچھ امید کی  کرن دکھائی تو دے رہی ہے اوراس بیان کی روشنی میں ہم نےوزیر قانون کو مبارکباد دیتےہوئے ان سے کہا ہےکہ آپ اگر اس بات کومحسوس کر رہےہیں کہ دہشت گردی کے الزام میں بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان پرظلم کیا جارہا ہے توآپ کا یہ احساس اس وقت واقعتاًقابلِ پذیرائی ہوگاجب آپ ان بے گناہوں کوجیل کی سلاخوں سے نکال کر آزاد ہوا میں سانس لینے کاموقع فراہم کریں گے۔میں یہاں یہ بات بھی ذکر کردوں کہ جے پوربم بلاسٹ کے ہی ملزم نثار الدین کی ۲۳؍سال کےطویل عرصے بعدقیدسے رہائی ہوئی‘اوراس کے بعدالیکٹرانک میڈیا اورپرنٹ میڈیا نے اس کی جس آپ بیتی کولوگوں کے سامنے پیش کیا‘اس نے واقعی باضمیر انسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیااورغالباًوزیرقانون کابیان بھی اسی روشنی میں سامنے آیاہے۔جمعیۃ علماء(ارشدمدنی)کی قانونی امدادکمیٹی نے اول روز سے ہی اس بات کا اعلان کیاکہ یہ مسلمان بے گناہ ہیں،ان کے مقدموں کی پیروی کی اوراس کےنتیجے میں نثار الدین باعزت بری ہوا۔

س:نثار الدین کی رہائی ۲۳؍برس کے بعدہوئی،یہ ایک المیہ ہے۔کیاآپ اس کے ہرجانے کے لیےاورخاطی افسران کو سزادلوانے کے لیے قانونی کارروائی کریں گے؟

ج:میں نے نثار الدین کے بھائی ظہیر الدین سے آج ہی بات کی ہے اورمیں نے ان سے کہا ہے کہ اگرآپ لوگ تیارہوں توجمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی ظالم افسر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی اورحکومتِ راجستھان کے خلاف ہرجانے کے لیے مقدمہ کرنے کو تیار ہے۔ظہیر الدین نےمجھ سے کہا ہےکہ ہم اس پرضرور غور کریں گے۔

س:ایسے ہی دومقدمےہر جانے کے آپ لڑرہے ہیں‘اکشردھام مندرحملہ اورلکھنؤبلاسٹ کا مقدمہ‘یہ مقدمے کس موڑ پر ہیں؟

ج:ابھی سپریم کورٹ کی تعطیلات کےبعداکشردھام کامقدمہ انشاء اللہ بہت جلد سماعت کے لیے بورڈ پرآجائے گا‘اسی طرح لکھنؤوالا مقدمہ بھی ہائی کورٹ میں سناجائے گا۔باالفاظ دیگر اب تک ہم صرف ملزمین کے مقدمے لڑتےرہے ہیں اوراب ان پولس والوں کے خلاف بھی مقدمے لڑے جارہے ہیں جو بے گناہ مسلمانوں کو فرضی مقدمات میں ملوث کرتے ہیں۔

س:جہاں ایک جانب وزیر قانون نے تشویش کااظہار کیا ہے وہیں دوسری جانب اسی حکومت کی این آئی اے ان ملزمین کو جن کے گناہ طشت ازبام ہیں بچانے کے لیے کوشاں ہیں،مثلاًسادھوی پرگیہ کوکلین چٹ دے دی گئی ہے اورکرنل پروہت واسیمانند کو بھی جلدہی کلین چٹ دی جاسکتی یاچھوڑا جاسکتاہے‘اس پرکیاکہیں گے؟

ج:یہ صحیح ہے کہ این آئی اے کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔لیکن انہیں عدالت میں کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ جمعیۃ علماء بھی متاثرین کی جانب سے عدالت میں فریق ہے۔سادھوی پرگیہ کی ضمانت کی درخواست کو ہم چیلنج کریں گے اورانشاء اللہ اسے ضمانت نہیں مل سکے گی۔اس کے خلاف آنجہانی ہیمنت کرکرے نے اپنی تیارہ کردہ چارج شیٹ میں جوشواہد پیش کیے ہیں وہ اس کی ضمانت کے لیے بہت بڑی روکاوٹ ثابت ہونگے۔

س:پروہت پرسے مکوکا کاہٹایاجانا کیامقدے کوکمزورنہیں کرےگا؟

ج:جہاں تک مکوکاقانون کے اطلاق کا تعلق ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ گرفتار ملزمین کے گروپ میں سے کسی ایک پر بھی تین چارج شیٹ عدالت میں پیش کی گئی ہو ںجب کہ مالیگاؤں بم بلاسٹ 2008میں کسی ملزم پر بھی پہلے تین چارج شیٹ داخل نہیں تھی،یہ اس مقدمے کی ایک تکنیکی خامی تھی،لیکن تعزیرات ہند کی دفعہ 302اوریواے پی اے ایکٹ کے تحت انہیں نہ ضمانت مل سکتی ہے اورنہ یہ سزا سے بچ سکتے ہیں۔

س:جمعیۃ علماء مہاراشٹرکے مقدمات کے بارےمیں کچھ تفصیل سے بتائیں‘کتنے مقدمے ہیں،نیز یہ بھی بتائیں کہ مقدمے لڑنے کی وہ بھی پولس والوں کے خلاف مقدمے لڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ج:مقدمے لڑنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں  کو دہشت گردی کے معاملات میں بے قصورپھنسایاگیا۔ہم نے پولس کے خلاف مقدمے کی شروعات وڈالا سے کی تھی جہاں ایک لڑکے کوبری طرح سے ماراپیٹاگیا اوراس کے پاخانے کے مقام پر مسواک ڈال دی گئی تھی،ان پولس والوں کے خلاف مقدمہ قائم کیاگیا۔اب تک27مقدمات میں 108بے قصوروں کو باعزت رہائی ملی ہے ،6 مقدمات میں25؍افراد ضمانت پر رہا ہوئے ہیں اور52مقدمات میں 570ملزمین کاٹرائل جاری ہے۔ہمیں اللہ رب العزت کی ذات پاک پر یقین ہے کہ وہ ہمیں ان مقدمات میں کامیاب کرے گا۔

س:یہ سوال اکثراٹھتاہے کہ جمعیۃ علماء کیوں دہشت گردوں کے مقدمے لڑتی ہے؟

ج:یہ مسلمان دہشت گردنہیں بلکہ یہ دہشت گردغلط طور پر قرار دئیے گئے ہیں۔صاف الفاظ میں کہہ دوں کہ جمعیۃ علماء مجرموں کانہیں بے قصوروں کادفاع کرتی ہے۔مسلم نوجوانوں کوپھنسانے والے فرقہ پرست اصلی مجرم ہیں۔یہ فرقہ پرست جوہیں وہ اصلی مجرم بلکہ دہشت گرد ہیں اورآج کل ان ہی فرقہ پرستوں کی حکومت ہے۔ایسا نہیں کہ پہلے کی حکومتوں میں مسلمانوں کےخلاف سازش نہیں ہوتی تھی،سازشیں توپہلے کی حکومتوں میں بھی ہوتی تھیں،فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کولوٹا پیٹااورماراکاٹاجاتاتھا‘فسادات کم ہوئے توبیجاگرفتاریاں شروع کردی گئیں،پوری کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کی توجہ تعلیم اومعیشت سے ہٹا دی جائے۔اگربیجاگرفتاریاں نہ ہوں اورمسلمانوں پر فرقہ وارانہ تشدد نہ تھوپاجائے تووہ تعلیمی میدان میں بھی اورمعاشی میدان میں بھی بہت آگے بڑھ سکتے ہیں۔فرقہ پرست یہی نہیں چاہتے۔یہ وہ حالات ہیں جن پرجمعیۃ کی نظرہمیشہ رہی ہے۔یہ سچ ہےکہ ہم مقدمات میں گھِرکر رہ گئے ہیں لیکن مسلمانوں کومایوسی کے حصار سے باہر نکالنے کایہ ایک کارگرطریقہ ہے۔ہم بے قصورمسلمانوں اوران کے اہل خانہ کو قانونی امداد فراہم کرکےحکومت میں بیٹھے فرقہ پرستوں اورمتعصب پولس والوں کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ اس ملک کےمسلمان لاوارث نہیں ہیں۔ہمیں صدرجمعیۃ علماء ہندجانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدارشدمدنی دامت برکاتہم کی پوری مدد اورحمایت حاصل ہے بلکہ یہ کام ان ہی کی قیادت میں ہو رہاہے۔ہمیں حضرت نے یہ ہدایت دی تھی کہ بے قصورمسلمانوں کےمقدمے لڑےجائیں اورہم اسی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔

س:کیاآپ اپنے کام سے مطمئن ہیں؟

ج:یہ اطمینان توہے کہ جمعیۃ علماء کی کوششوں کواللہ نے قبول کیا اورکئی نوجوان جنہیں پھانسی کی سزاسنائی گئی تھی وہ پھانسی سے بچے اورکئی جنہیں عمر قید دی گئی تھی عمر قید سے بچے۔مکمل اطمینان تو اسی وقت ہوگا جب یہ گرفتاریاں بند ہوجائیں گی اورخاطی پولس والے سلاخوں کے پیچھے نظرآئیں گے۔

س:جمعیۃ مزید کیا کام کرتی ہے؟

ج:رفاہی کاموں میں جمعیۃ پیش پیش رہتی ہے۔مظفرنگر کے فسادزدگان کی بازآبادکاری پر جمعیۃ نے کروڑوں روپئے خرچ کیے۔ہم ہر سال تعلیمی وظائف تقسیم کرتے ہیں۔گذشتہ برس 67؍لاکھ روپئے اس مد میں خرچ کیے گئے،امسال انشاء اللہ ہم اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کریں گے۔ان بچوں کوجو اعلیٰ تعلیم حاصل کرناچاہتے ہیں مگرغریب ہیں ہم آگے بڑھاتے ہیں۔نچلی کلاسوں کے بھی غریب بچوں کو تعلیمی امداد دی جاتی ہے۔ساتھ ہی ارضی وسماوی آفات پر ہم ریلیف ورک کرتے ہیں۔

س:یہ کام ممکن کیسے ہوتاہے؟

ج:اگرآپ جمعیۃ کی ٹیم کےتعلق سے سوال کر رہے ہیں توہم بتادیں کہ ہمارے پاس محنتی افراد کی ٹیم ہے۔قانونی پینل ہے جس میں محنتی وکلاء شامل ہیں۔تعلیمی ماہرین کی ہم مدد لیتے ہیں۔اوراگرسوال روپئے سے متعلق ہے توبتادوں کہ ہمارے خیرخواہان ہیں،مخیرحضرات ہیں،یہ ہماری مدد کرتے ہیں بالخصوص رمضان المبارک میں،اورانشاء اللہ اس رمضان میں بھی ان کی مدد ہمیں حاصل رہےگی۔لوگوں کی طرف سے مدد اس لیے ضروری ہے کہ مقدمات لڑنے کااورلوگوں کی فلاح وبہبود کاکام تن تنہاجمعیۃ کے بس کانہیں ہے،اسے لوگوں کی حمایت درکار ہے۔

No comments:

Post a Comment