Wednesday, 29 June 2016

جن اوقات میں نماز پڑھنا جائز نہیں Abominable (Makrooh) periods of time

ایس اے ساگر
کیا آپ جانتے ہیں کہ دن بھر میں ایسے تین اوقات ہوتے ہیں جن میں نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
۱۔ سورج کے طلوع ہونے کے وقت
۲۔ زوال (نصف النہار) کے وقت
۳۔ سورج کے غروب ہونے کے وقت
پہلے طلوع و غروب کی تفصیل ذکر کی جارہی ہے اس کے بعد زوال کی تفصیل ذکر کی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب سے کتنی دیر بعد اور غروب آفتاب سے کتنی دیر پہلے نماز پڑھنا جائز ہے؟ اس کے بارے میں اصل ضابطہ جو پوری دنیا کے لئے کار آمد ہے وہ یہ کہ جب تک آفتاب طلوع ہونے کے بعد اس کیفیت پر پررہے کہ اس کو دیر تک دیکھنے میں آنکھوں کو دشواری اور خیرگی نہ ہو اس وقت تک نماز پڑھنا جائز نہیں ، اسی طرح عصر میں جب یہ کیفیت ہوجائے تو نماز مکروہ ہے الا عصر یومہ یعنی سوائے اس دن کی عصر کی نماز کے اس دن کی عصر کی نماز سورج غروب ہونے تک پڑھی جاسکتی ہے.
لیکن مذکورہ معیار اس وقت تک درست ہوگا جب تک کہ مطلع پر ابر اور غبار وغیرہ نہ ہو، بصورت دیگر ان عوارض کی وجہ سے بہت دیر تک حتیٰ کہ بعض ایام میں دوپہر تک یہی کیفیت رہتی ہے جبکہ بعض علاقوں میں دن  بھر آفتاب کی روشنی میں تیزی نہیں آتی۔ ایک دوسرا معیار بھی فقہا کرام نے تحریر کیا ہے، وہ یہ کہ جب آفتاب طلوع کے بعد ایک نیزے کی مقدار بلند ہوجائے تو نماز پڑھنا درست ہے. اسی طرح جب عصر کے بعد آفتاب کی بلندی افق سے  ایک نیزے کی مقدار سے کم ہونے لگے تو نماز درست نہیں ۔ ایک نیزے کی مقدار ۱۲ بالشت ہے ۔
نیزے کی مقدار کی بجائے آفتاب میں تغیر کا معلوم کرنا آسان بھی ہے ۔ غرض یہ کہ اصل معیار روشنی کا ہے اگر کبھی فضائی اثر کی وجہ سے روشنی کا اندازہ نہ ہوسکے تو نیزے کی مقدار سے اندازہ کیا جاسکتا ہے بڑے شہروں میں چونکہ طلوع و غروب کے وقت آفتاب کا مشاہدہ مشکل ہے، اس کا کوئی معیار متعین کرنے کی ضرورت ہے اس مقصد کے لئے مفتی رشید احمد لدھیانوی نے مولوی محمد صدیق صاحب مہتمم مدرسہ محمدیہ ٹنڈو آدم کے ذمہ لگایا کہ وہ ۲۱ ،۲۲ ، ۲۳ ستمبر کو اپنے ساتھ دو اور سمجھدار افراد کو لے کر تین روز تک مسلسل صبح شام مشاہدہ کرکے نتائج تحریر کریں ، چنانچہ حسب ہدایت مشاہدہ سے ثابت ہوا کہ طلوع  سے نو منٹ بعد آفتاب میں  معہود تمازت آگئی اور غروب سے تیرہ منٹ قبل مکروہ وقت شروع ہوا یہ فیصلہ بہت احتیاط سے کیا گیا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مکروہ وقت دونوں جانب سے اس سے بھی کچھ کم تھا ۔
چنانچہ کراچی میں مارچ اور ستمبر میں طلوع کے بعد نو منٹ اور جون اور دسمبر میں گیارہ منٹ پر مکروہ وقت ختم ہوجاتا ہے اور عصر کا مکروہ وقت زیادہ سے زیادہ غروب سے سولہ منٹ قبل شروع ہوجاتا ہے ۔
زوال (نصف النہار) سے پانچ منٹ قبل اور پانچ منٹ بعد نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
اور نصف النہار سے مراد طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف ہے ۔
زوال کو نصف النہار عرفی بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کے مقابلے میں نصف لنہار شرعی ہے
نصف النہار شرعی صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف ہے ۔
احسن الفتاویٰ جلد ۲ صفحہ 141, 137
نصف النہار شرعی و عرفی کی مزید تفصیل یہاں دیکھیں:
https://www.facebook.com/royatehilalupdates/photos/a.398162216980087.1073741828.398156666980642/918187881644182/?type=3&theater
بعض حضرات نے نصف النہار شرعی سے نصف النہارعرفی تک کے مکمل وقت کو نماز کے لئے مکروہ قرار دیا ہے جو کہ درست نہیں مکروہ وقت زوال سے پانچ منٹ قبل اور پانچ منٹ بعد تک ہی ہے۔ اس کی تفصیل احسن الفتاویٰ کے دئے گئے حوالے میں دیکھی جاسکتی ہے۔
یارکھیں کہ بعض اوقات نماز کے نقشوں میں اشراق کے عنوان سے وقت دیا ہوا ہوتا ہے اس میں مغالطہ ہوجاتا ہے کہ یہ مکروہ وقت کے اختتام یعنی اشراق کا وقت ہے حالانکہ ایسا نہیں اشراق کے عنوان میں اکثر طلوع شمس کا وقت دیا گیا ہوتا ہے جس کے نو منٹ یا گیارہ منٹ بعد اشراق کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
.........
نماز کے مکروہ اوقات کی تفصیل
فجر کی دو رکعت سنت طلوع آفتاب  سے پہلے
پانچ اوقات نماز کے لئے مکروہ قرار دیئے گئے ہیں۔ تین اوقات کی کراہت ایک حدیث سے اور دو کی ایک حدیث سے ہے۔
1۔۔ عین طلوع آفتاب کے وقت۔
2۔۔۔ زوال شمس کے وقت۔
3۔۔۔ سورج کے غروب کے وقت۔
عن عقبة بن عامر الجهني: ثلاث ساعات كان رسول الله ينهانا أن نصلي فيهن وأن نقبر فيهن موتانا .حين تطلع الشمس بازغة حتي ترتفع .وحين يقوم قائم الظهيرة حتي تزول الشمس وحين تتضيف (تميل) الشمس للغروب. صحيح مسلم.رقم 831.
4۔۔۔نماز فجر کے بعد یہاں تک کے سورج طلوع ہوکر بلند ہوجائے۔
5۔۔۔۔ بعد عصر سے غروب آفتاب تک۔
عن أبي سعيد الخدري قال سمعت رسول الله يقول: لا صلاة بعد الصبح حتي تطلع الشمس. ولا صلاة بعد العصر حتي تغيب الشمس.ولفظ مسلم ولا صلاة بعد صلاة الفجر. صحيح البخاري رقم 584.
طلوع، غروب اور زوال کے وقت حنفیہ کے یہاں فرض، واجب، نفل، قضاء، نماز جنازہ، سجدہ تلاوت، سب ناجائز ہے۔۔ ہاں اگر اسی دن کی عصر چھوٹ گئی ہو تو اسے پڑھ لینے کی اجازت ہے۔
فریضہ فجر اور عصر کے بعد نوافل مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہے۔ اس دن کی سنت فجر بھی۔ تحیہ المسجد کی نماز، نذر کی نماز، طواف کے دوگانہ، اور سجدہ سہو بھی ناجائز ہے۔ البتہ ان دو وقتوں میں فرائض کی قضاء یا وتر کی قضاء سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ جائز ہے۔
مالکیہ کے یہاں شروع کے تین اوقات میں صرف نوافل ناجائز ہیں فرائض نہیں اور آخر کے دو وقتوں میں نوافل مکروہ تنزیہی ہیں۔۔۔۔ شوافع کے یہاں اوقات ثلاثہ میں تمام نمازیں مکروہ تحریمی ہیں۔ اور دو وقتوں میں مکروہ تنزیہی ہیں۔ سواء جمعہ کے کہ ان کے یہاں جمعہ زوال کے وقت جائز ہے۔۔۔۔ حنابلہ کے یہاں پانچوں مکروہ اوقات میں فرائض کی قضاء بھی جائز ہے اور نذر کی نماز اور دوگانہ طواف بھی ۔۔البتہ اوقات ثلاثہ میں حنابلہ کے یہاں بھی جنازہ کی نماز جائز نہیں ہے۔۔۔ سنت فجر کی قضاء فریضہ فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے اگرچہ فقہ حنبلی میں جائز لکھا ہے لیکن صاحب مذھب امام احمد بن حنبل نے اسکو طلوع آفتاب کے بعد پڑھنے کو افضل اور بہتر قرار دیا ہے۔۔ حنابلہ کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ تمام مکروہ اوقات میں سنن کی قضاء ناجائز ہے۔۔
قضاء صرف فرائض اور واجبات کی کی جاتی ہے۔ سنتوں کی قضاء اصولی طور پر نہیں ہے۔لیکن سنت فجر کی حدیثوں میں سخت تاکید آئی ہے۔ اس لئے ائمہ میں امام مالک واحمد بن حنبل اور حنفیہ میں امام محمد نے تنہاء سنت فجر کی قضاء کرنے کو کو کہا ہے۔ حافظ العصر علامہ انورشاہ کشمیری کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ ہاں اگر فرض سمیت سنت فجر چھوٹی ہو تو اب امام ابو حنیفہ اور ابویوسف بھی زوال سے پہلے ادا کرنے کی صورت میں قضاء کے قائل ہیں۔ زوال کے بعد نہیں۔کیوں کہ اب فرض کی تبعیت میں سنت کی قضاء ہوگی مستقلا نہیں۔
(وعند ابی حنیفہ وابی یوسف لاقضاء بسنہ الفجر الفائتہ انفرادا واما اذا فات فرض الصبح فان السنہ تقضی تبعا لہ قبل الزوال۔۔ہدایہ 1/152۔153۔۔بذل المجہود 5/480۔)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک کسی بھی نفل نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے:
لا صلاة بعد صلاة الفجر حتي تطلع الشمس .بخاري رقم 584.
نیز مسند احمد اور جامع الترمذی میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جو شخص فجر کی دوگانہ سنت نہ پڑھ سکے اسے چاہیئے کہ طلوع آفتاب کے بعد ان دو رکعتوں کو پڑھلے۔ من لم يصل ركعتي الفجر فليصلهما بعد ما تطلع الشمس .ترمذي رقم 423.
جو حضرات تنہا چھوٹی ہوئ سنت فجر کی قضاء کے قائل ہیں جیسے مالکیہ حنابلہ اور حنفیہ میں امام محمد تو اب ان کے مابین اس میں اختلاف ہے کہ ان دو رکعتوں کو فریضہ فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟؟
امام محمد ابوھریرہ کی مذکورہ صریح حدیث کی وجہ سے طلوع آفتاب ہونے اور وقت مکروہ نکل جانے کے بعد ان دو رکعتوں کی قضاء کے کے قائل ہیں۔فرض پڑھنے کے بعد اور سورج نکلنے سے پہلے اسکی قضاء کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔یہ حدیث سند کے اعتبار سے بھی صحیح ہے اور اس کی تائید بخاری میں ابوسعید خدری کی اس روایت سے  بھی ہوتی ہے۔ لا صلاة بعد الصبح حتي تطلع الشمس خ 584.۔
جبکہ قیس بن عمرو وغیرہ کی درج ذیل حدیث کی وجہ سے فقہائے حنابلہ وغیرہ کا خیال یہ ہے کہ طلوع شمس سے پہلے فجر کی دوگانہ سنت جلدی سے پڑھ لینے کی گنجائش ہے۔
عن قيس بن عمرو قال رأي رسول الله رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين فقال رسول الله :صلاة الصبح ركعتان فقال الرجل إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الأن. فسكت رسول الله ..أبوداود 1267..ترمذي 422.ابن ماجه 1154..حاكم 5/447.... یعنی فجر کی نماز کے فورا بعد ایک صحابی نے سنت ادا کی۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا چھوٹی ہوئی سنت۔ تب آپ نے سکوت فرمالیا۔ بعض روایتوں میں آپ کی صراحتہ اجازت بھی ثابت ہے۔) 
لیکن حضرات محدثین کے نزدیک یہ حدیث مندرجہ ذیل وجوہ سے غیر معتبر اور ناقابل استدلال ہے۔
1۔۔۔۔۔امام ترمذی جیسے عظیم محدث  اس کی سند میں انقطاع کے قائل ہیں۔ قال الترمذي اسناد هذا الحديث ليس بمتصل رقم 422.
2۔۔۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے طلوع شمس سے پہلے دو رکعت کی قضاء صراحت کے ساتھ منع ہونا ثابت ہے (جیسا کہ اوپر گذرا ) لہذا آپ کی خاموشی دلیل جواز نہیں بن سکتی ۔
3۔۔۔۔یہ اجازت ممانعت سے پہلے تھی بعد میں منسوخ ہوگئ۔
4۔۔۔۔۔۔۔ ابن حبان نے کہا ہے: یہ حدیث ناقابل استدلال ہے (لا یجوز الاحتجاج بہذا الحدیث ۔عمدہ القاری۔4/109 )
5۔۔۔۔ اس حدیث کے راوی دراوردی پر جرح وتعدیل کے مختلف ائمہ نے سخت جرح کیا ہے ۔اسلئے اس حدیث کا اعتبار نہیں۔ دیکھئے تہذیب التہذیب۔ 6/354۔
6۔۔۔۔۔۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دن سنت فجر قضاء ہوگئ تھی تو آپ نے اسے طلوع آفتاب کے بعد ہی ادا فرمایا ہے۔
عن أبي هريرة أن النبي نام عن ركعتي الفجر فقضاهما بعد ما طلعت الشمس .ابن ماجه رقم 1155.
مرقات 3/134.35.معارف السنن 4/89.حديث نمبر 420.باب نمبر 310..
آپ کا عمل خود سو دلیلوں کی ایک دلیل ہے کہ طلوع آفتاب سے قبل فوت شدہ سنت فجر کی قضاء جائز نہیں ہے۔
اس لئے بہتر یہ ہے کہ ان سنتوں کو طلوع آفتاب کے بعد ہی کریں۔
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی

4 comments:

  1. کیا یہ درست ھے کوئی حدیث ھے کہ دنیا میں نوافل ادا کرنے سے آخرت میں فرض کی کمی کو پورا کرتا ھے .

    ReplyDelete
    Replies
    1. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سے سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا اور اگر نماز میں کچھ کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے، اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائیگی۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابو داؤد، مسند احمد)

      Delete
  2. زوال وقت کتنی دیر کا ہوتا ھے اور اس وقت نماز کے بارے میں کیا حکم ھہ

    ReplyDelete
    Replies
    1. زوال آفتاب کا مطلب ہے سورج کا ڈھلنا، جس کو ہمارے عرف میں دوپہر ڈھلنا کہا جاتا ہے، جنتریوں میں موجود وقت زوال کے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد تک کوئی سی نماز جائز نہیں ہوتی، وقت زوال کے بعد پانچ منٹ گزرتے ہی ظھر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔

      Delete