فقہاء احناف نے اقامت میں کھڑا ہونے کے بارے میں تین صورتیں بیان کی ہیں ان کا جاننا ضروری ہے، تاکہ محل اختلاف متعین ہوجائے۔
1۔ اول یہ کہ امام وقت اقامت جانب محراب سے مسجد میں آئے۔
2۔ دوسرا یہ کہ امام پیچھے یا اطراف مسجد سے آئے۔
3۔ تیسرا یہ کہ امام و مقتدی وقت اقامت مسجد میں موجود ہوں۔
پہلی دو صورتوں میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن تیسری صورت میں ہمارا اختلاف ہے۔
بریلویوں کا موقف :
یہ ہے کہ جو لوگ پہلے سے بیٹھے ہوئے ہیں وہ اقامت شروع ہونے کے باوجود بد ستور بیٹھے رہیں ۔ اور جو کھڑے ہیں وہ شروع اقامت پر بیٹھ جائیں پھر حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں اسی وجہ سے اگر ان کا امام تکبیر شروع ہونے پر مصلے پر آتا ہے تو وہ بھی آکر بیٹھ جاتا ہے پھر امام اور مقتدی حی علی الفلاح سن کر کھڑ ہوتے ہیں ۔
حضرات اہلسنت دیوبند کا موقف :
جب امام اپنے حجرے سے برآمد ہو تو مقتدی اس کو دیکھ کر فوراً کھڑے ہوجائیں تاکہ صف بندی صحیح ہوسکے اس معاملے میں امام کا مصلےٰ تک پہنچنا بھی ضروری نہیں امام کو دیکھتے ہی تکبیر بھی شروع ہو جائے اور نمازی بھی کھڑے ہوجائیں ۔ تو گویا مقتدیوں کے کھڑے ہونے کا تعلق امام کی آمد سے ہے نہ کہ حی علی الفلاح یا کسی اور کلمے سے ۔
اس میں ائمہ اربعہ کا کیا مذھب ہے؟
یعنی امام مالک اور جمہور علماء رحمہم اللہ اس طرف گئے ہیں کہ امام ومقتدین کے قیام کی کوئی حد معین نہیں ہے لیکن عام علماء و فقہاء نے موذن کی اقامت شروع ہونے کے وقت کو مستحب کہا ہے
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری بحوالہ احسن المسائل ص ۳۰۶)
اور قاضی عیاض کی روایت کے مطابق تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بھی شروع اقامت پر کھڑے ہونے کو مستحب قرار دیا ہے ۔ احسن المسائل ص ۳۱۹۔
نماز شروع کرتے وقت لوگوں پر قیام کب واجب ہوتا ہے ۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نماز شروع ہوتے وقت لوگوں کے قیام کے بارے میں کوئی حد متعین میں نے نہیں سنی مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگوں کی طاقت کے مطابق ہے کیونکہ ان میں بعض بھاری بھرکم ہوتے ہیں اور بعض ہلکے پھلکے اور سب کیلئے ایک حکم نہیں ہوسکتا ـ
عھد نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا کیا عمل تھا؟
خلفائے راشدین کا معمول :
روی عن عمر رضی اللہ عنہ ان کان ہوکل رجالاً باقامۃ الصفوف فلا یکبر حتی یخبر ان الصفوف قد استوت اخرجہ التر مذی قال وروی عن علی رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ انھما کانا یتعا ھد ان ذالک ۔
ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ صفوں کو درست کرنے کیلئے کچھ لوگوں کو متعین کردیتے اور صفوں کے درست ہونے کی اطلاع سے پہلے تکبیر تحریمہ نہیں کہتے تھے اور راوی کہتا ہے کہ حضرات علی و عثمان رضی اللہ عنھم اجمعین بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔
ترمذی
خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول یہ تھا کہ اقامت شروع ہونے سے پہلے وہ وکیلان تعدیل یعنی صفوں کے نگر ان مقرر فرما دیتے جب وہ آکر اطلاع دیتے کہ سب صفیں درست ہوگئی ہیں تو آپ نماز شروع فرمادیتے ۔
بعض مساجد میں دیکھا جاتا ہے کہ عین جماعت کے وقت امام صاحب مصلی پر آکر بیٹھتے ہیں پھر مکبر تکبیر شروع کرتا ہے اور اس کے
"حی علی الفلاح"
کہنے کے وقت جماعت کھڑی ہوتی ہے...
یہ طریقہ صحیح ہے یا غلط؟؟؟
فقہ و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کو بے غبار فرمائیں......
ہمارے موقف کے پر احادیث سے دلائل :
حدیث نمبر ۱ :
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ (ظہر کی ) اذان اسوقت کہتے تھے جب سورج ڈھل جاتا اور اس وقت تک تکبیر نہیں کہتے تھے جب تک نبی کریم ﷺ نکل کر تشریف نہیں لے آتے تھے پس جب آپ نکل آتے تو آپ کو دیکھتے ہی اقامت شروع کردیتے۔ ( مسلم ج ۱ ، ص ۲۲۱ )
حدیث نمبر۲ :
حضرت ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ تابعی سے روایت ہے کہ جب مؤذن اللہ اکبر کہتا اسی وقت لوگ نماز کیلئے کھڑے ہوجاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے مقام ( مصلےٰ ) پر پہنچنے سے پہلے صفیں درست ہوجاتی تھیں. (رواہ عبد الرزق بحوالہ بذل المجھو د ص ۳۰ )
حدیث نمبر۳ :
ترجمہ:حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں نے اپنے صفیں درست کرلیں تو رسول صلی اللہ علیہ و سلم نکل کر ہمارے پاس آئے ، اقامت شروع ہوئی تو ہم اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم تک پہنچنے سے پہلے پہلے صفیں درست کرلیں پھر آپ تشریف لائے اور اپنے مقام یعنی مصلائے امام پر کھڑے ہوگئے ۔
مسلم ص ۲۲۰ ۔
حدیث نمبر۴ :۔ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال اقیمت الصلوٰۃ وصف الناس صفو فھم و خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فقام مقامہ الیٰ مصلےٰ بھم ۔
( مسلم ص ۲۲۰ ، ج۱ )
اب رہا مسئلہ فقہی جزئیات کا تو ہم ان تمام فقہی جزئیات کو مانتے اور سرآنکھوں پہ رکھتے ہیں مگر ان کا مطلب وہ مراد نہیں لیتے جو معترض نے لیا ہے کہ حی علی الفلاح تک امام اور مقتدی دونوں لازماً بیٹھیں اور جو اس وقت آئے وہ بھی لازماً بیٹھ جائے اور اس کے بعد سب کھڑے ہوں اور جو شروع اقامت سے کھڑے ہوگئے ہیں وہ تارک سنت ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ حی علی الفلاح ’’قعود و جلوس کی آخری حد‘‘ بتلائی گئی ہے کہ اگر کوئی ضعیف یا مریض جس میں قیام کی استطاعت ہے جلد کھڑا ہونا نہ چاہتا ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ حی علی الفلاح تک بیٹھ سکتا ہے اس صورت میں وہ کراہت کا مرتکب نہیں ہوگا اور اگر وہ اس کے بعد بھی بیٹھا رہے گا تو وہ مکروہ کا مرتکب ہوگا ۔ بلکہ جماعت سے اعراض کرنے والا سمجھا جائے گا لیکن جو شخص شروع اقامت سے کھڑا ہو گیا ہے اس نے بھی کسی مکروہ کا ارتکاب نہیں کیا ہے بلکہ اس نے مسارعت الی الصلوٰۃ کرکے ایک مستحب کام کیا ہے ، میں یہ تو جیہ کیوں کرتا ہوں اس کی طرف بھی فقہائے احناف ہی نے اشارہ کیا ہے ۔
پہلی توجیہ :
چنانچہ علامہ طحطاوی حنفی لکھتے ہیں :
الظاہر انہ احتراز عن التاخیر لا التقدیم حتی لو قام اول الاقامہ لا باس ۔ طحطاوی حاشیہ در مختار ۔
ظاہر ہے کہ یہ تاخیر سے احتراز ہے نہ کہ تقدیم سے حتی کہ اگر کوئی شخص شروع اقامت سے کھڑا ہوگیا تو کوئی حرج نہیں یعنی فقہاء نے جو قیام عند حی علی الفلاح کا کہا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے بعد بیٹھے رہنا مکروہ ہے نہ یہ کہ اس سے پہلے اٹھنا مکروہ ہے
دوسری توجیہ :
تعمیلِ امر کی طرف مسارعت کرنا یعنی جلدی کرنا بالا تفاق مستحب ہے جیسا کہ اس جزئیہ میں ہے :
’’ والقیام حین قیل حی علی الفلاح لا نہ امربہ فیستحب المسارعت الیہ‘‘۔ (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق ص ۱۰۸)
یہی بات دررالا حکام شرع غدر الاحکام میں کہی گئی ہے یعنی حی علی الفلاح کہنے کے وقت کھڑے ہونا ، اس لئے کہ یہ قیام کیلئے امر ہے اور امر کی تعمیل کیلئے جلدی کرنا مستحب ہے اب سوال یہ ہے کہ تعمیلِ امر قیام کیلئے مسارعت یعنی جلدی وہ شخص کرتا ہے جو حی علی الفلاح سنکر کھڑا ہوتا ہے یا وہ جو شروع اقامت ہی سے کھڑا ہوجاتا ہے ظاہر ہے کہ شروع اقامت سے کھڑا ہونے والا تعمیل امر کیلئے زیادہ مسارعت کرتا ہے لہٰذا اسے مکروہ کامر تکب کیسے سکتے ہیں وہ تو امرِ مستحب کا بجا لانے والا ہے ۔
عقلی دلیل :
۱....لفظ اقامت کا معنی ہے کھڑا کرنا یعنی لوگوں کو کھڑے کرنے کیلئے الفاظ اقامت کہے جاتے ہیں اور اگر لوگوں نے تکبیر کے الفاظ سننے کے باوجود کھڑے ہونا ہی نہیں اور انہیں تو بہر حال حی علی الفلاح پر کھڑے ہونا ہے پھر تو الفاظ اقامت پکارنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ایسی صورت میں تو جماعت کو کھڑا کرنے کیلئے صرف لفظ حی علی الصلوٰۃ یا حی علی الفلاح کہہ دینا چاہئے تاکہ لوگ اسے سنکر کھڑ ے ہوجائیں ۔
۲... لفظ اقامت کا معنی ہے کھڑا کرنا یعنی لوگوں کو کھڑے کرنے کیلئے الفاظ اقامت کہے جاتے ہیں اور اگر لوگوں نے تکبیر کے الفاظ سننے کے باوجود کھڑے ہونا ہی نہیں اور انہیں تو بہر حال حی علی الفلاح پر کھڑے ہونا ہے پھر تو الفاظ اقامت پکارنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ایسی صورت میں تو جماعت کو کھڑا کرنے کیلئے صرف لفظ حی علی الصلوٰۃ یا حی علی الفلاح کہہ دینا چاہئے تاکہ لوگ اسے سنکر کھڑ ے ہوجائیں ۔
اخیراً ؛
مولوی احمد رضا خاں کا فتویٰ :
’’ وہ مقتدیوں کیلئے فرماتے ہیں پھر جب امام آئے اور تکبیر شروع ہو اس وقت دو صورتیں ہیں اگر امام صفوں کی طرف سے داخل مسجد ہو تو جس صف سے گزرتا جائے وہی صف کھڑی ہوتی جائے اوراگر سامنے سے آئے تو اسے دیکھتے ہی سب کھڑے ہوجائیں‘‘ ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد دوم: ص: ۴۷۵ بحوالہ افازہ جدالکرامہ: ص :۷)
امام بریلویت مولوی احمد رضا خان کا فرمانِ واجب الاذعان ببانگ دہل ہماری تائید کررہا ہے کہ مقتدیوں کے قیام کا تعلق اقامت کے الفاظ کے ساتھ نہیں امام کی آمد سے ہے امام آئے تو سب کھڑے ہوجائیں پھر حی علی الفلاح کے الفاظ تک بیٹھے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ یعنی امام بھی آکر کھڑا ہو جائے اور نمازی بھی اس کو دیکھ کر کھڑے ہوجائیں ــ
ــــــــــ قاری رب نواز ــــــــ
فقہی سمینار
AJ KA SUWAL NO.43
No comments:
Post a Comment