الجواب و باللّٰہ التوفیق:
بعض مدارس میں تنخواہ کی کبھی یہ نوبت آتی ہے کہ اساتذہ کو کہہ دیا جاتا ہے کہ رسید بک لیکر جاؤ اور جو چندہ ہو اس میں سے اپنی تنخواہ وصول کر لو۔۔
کیا اھل مدارس کا اس طرح کرنا درست ہے ؟
کیا زکوۃ دہندگان کی زکوۃ ادا ہوجائے گی؟؟
نیز کمیشن پر چندہ کرنا کیسا ہے؟
بحوالہ مدلل سیر حاصل بحث فرمائیں۔۔۔۔
۱)اُجرت من العمل ہے، جو ناجائز ہے’’ولو دفع غزلا لآخر لینسجہ لہ الخ‘‘(الدر مع الرد:۹/۷۹)یعنی اس جمع شدہ چندہ میں سے یہ اُجرت دی جاتی ہے تو یہ معاملہ جائز نہیں، کیونکہ یہ صورت’’قضیزطحان‘‘ کی ہے، جو حدیث شریف کی رو سے ممنوع ہے( اگر مدرسہ اپنے فنڈ سے دے گا، تو یہ وجہ ناجائز ہونے کی باقی نہ رہے گی مگر دوسری مندرجہ ذیل وجوہ قائم رہیں گی)
(۲) اجیر اس عمل پر بنفسہٖ قادر نہیں، قادر بقدرۃ الغیر ہے، اس کا عمل چندہ دینے والوں کے عمل پر موقوف ہے اور قادر بقدرۃ الغیر بحکم عاجز ہے، جبکہ صحتِ اجارہ کے لیے بوقت عقد اجیر کا قادر علی العمل ہونا اور مستاجر کا قادر علی تسلیم الاجرۃ ہونا صحت عقد کے لیے شرط ہے، لہٰذایہ اجارہ باطلہ ہوا، اس لیے چندہ لانے والے کے لیے اس کی اجرت بصورتِ حصہ مقررہ حلال نہیں۔( راجع احسن الفتاویٰ) (۳) اسی طرح اس میں اُجرت اور منفعت بھی مجہول ہے، کیونکہ اس کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں کہ کتنے گھنٹے روزانہ لوگوں کے پاس جانا ہے، ان تمام وجوہات کی بناء پر کمیشن کی بنیاد پر چندہ کرنا ناجائز ہے ’’وتفسد (الاجارۃ) بجھالۃ المسمیٰ کلہ او بعضہ…وتفسد بعدم التسمیۃ‘‘(الدر مع الرد:۹/۶۶) سفیر کے لیے چندہ جمع کرنے پر اجرت کا بے غبار طریقہ یہ ہے کہ مہتمم مدرسہ جس شخص کو چندہ جمع کر نے کے لیے مقرر کرے ،ا س کے چندہ جمع کرنے کے عمل کی کوئی معین اُجرت طے کردے ،خواہ ماہانہ ہو یا یومیہ اور وہ شخص اس طے شدہ معاملہ کے مطابق چند ہ جمع کرے، تو یہ صورت بلاشبہ جائز ہے اور اگر سفیر تنخواہ دار ملازم ہو تو اس کی حسن کارکردگی یا متعینہ مقدار( وصولیا بی کی) پوری کرنے کی وجہ سے تنخواہ کے علاوہ کچھ رقم بطور انعام دینا تو جائز ہے لیکن زکوٰۃ کے پیسے سے دینا جائز نہیں، بلکہ زکوٰۃ کا پیسہ مدرسہ میں جمع کرنا لازم ہے اور یہ انعام مدرسہ اپنے امددی فنڈسے ( جس سے تنخواہ دی جاتی ہے) دے سکتا ہے۔
اب یہاں دوباتیں ہوئیں: کمیشن پر چندہ کرنا( جو کہ ناجائز ہے) دوسرے تنخواہ پر چندہ کر کے اخیر میں انعام دیا جانا، یہ جائز ہے، ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کمیشن اجرت کے درجہ میں ہوتا ہے جس کا اجارہ فاسدہ میں داخل ہونا اوپر ذکر کیا جا چکا اور انعام اجرت کے علاوہ حسن کارکردگی پر اضافی طور پر دیا جاتا ہے جو شرعاً جائز ہے، ہاں یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر نعام بطور فیصد دیا جائے تو بھی اس کی گنجائش ہے، کیونکہ یہ اصل اجرت نہیں ہے کہ اجرت مجہول میں داخل ہونے کا گمان ہو۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ خاص چند ہ کی رقم جو عموماًزکوٰۃ ، صدقات واجبہ کے مد کی ہوتی ہے، اس میں سے کمیشن یا انعام دینا جائز نہیں، بلکہ مدرسہ اپنے عمومی فنڈ سے تنخواہ یا انعام دے، جس طرح مدرسہ کی دوسرے جائز مصارف میں خرچ کرنے اور ملازمین کو تنخواہ دینے کا مہتمم مجاز ہوتا ہے، اس کا بھی مجاز ہوگا، معطیین کی زکوٰۃ وغیرہ رقم خاص سے نہیں دیاجاتا کہ معطیین کو اعتراض یا اشکال ہو، ہاں اربابِ حل و عقد یا شوریٰ اس کے صواب و ناصواب ہونے کی جانچ کر سکتے ہیں اور جہاں کہیں مطیین کی رقم خاص سے تنخواہ یا انعام کمیشن لے لینے کا طریقہ ہو،وہاں معطیین کا اعتراض بجا ہوگا۔
واللّٰہ اعلم
فقہی سمینار
آج کا سوال نمبر 183
26شعبان 1437 ھ مطابق 3 جون
2016 بروز جمعہ۔
No comments:
Post a Comment