Tuesday 21 August 2018

عیدین کی نماز کا طریقہ

عیدین کی نماز کا طریقہ

نماز عیدالفطر کی نیت کے عربی الفاظ یہ ہیں
نَوَیتُ اَن اُصَلِّیَ رَکَعتَیِ الوَاجِبِ صَلٰوةَ عِیدِ الفِطرِ مَعَ سِتَّ تَکبِیرَاتٍ وَّاجِبَتٍ
اردو میں یوں کہے
"میں نے نیت کی کہ دو رکعت واجب نماز عیدالفطر چھ واجب تکبیروں کے ساتھ پڑھوں"
عید الاضحٰی کی نیت میں صلوة عیدالفطر کی بجائے صلوة عیدالاضحٰی کہے باقی الفاظ دوسری نیتوں کی طرح کہے واجب کا لفظ کہنا شرط نہیں لیکن بہتر ہے، امام اور مقتدی یہ نیت کر کے تکبیر تحریمہ کہہ کر بدستور ہاتھ باندھ لیں اور ثنا (سبحانک الھم) پڑھیں پھر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہوئے اللّٰہ اکبر کہیں اور ہاتھ لٹکتے ہوئے چھوڑ دیں اسی طرح تین مرتبہ کہیں لیکن تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائیں بلکہ حسب دستور ناف پر باندھ لیں، امام ان تینوں تکبیروں میں تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار یا حسب ضرورت زیادہ وقفہ کرے پھر امام اعوذ و بسم اللّٰہ آہستہ پڑھ کر الحمد شریف اور کوئی سورة جہر سے پڑھے مستحب یہ ہے کہ سورت الاعلٰی پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں پھر رکوع و سجود کریں اور جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں تو امام پہلے الحمد و سورة کی قرآت جہر سے کرے بہتر یہ ہے کہ سورة الغاشیہ پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں قرآت ختم کرنے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین مرتبہ زائد تکبیریں پہلی رکعت کی طرح کہے، اب تیسری تکبیر پر بھی ہاتھ چھوڑ دیں پھر بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں اور دستور کے موافق نماز پوری کر لیں خلاصہ یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں چھ تکبیریں کہنا واجب ہے تین تکبیریں پہلی رکعت میں تحریمہ و ثنا کے بعد تعوذ و بسم اللّٰہ و الحمد سے پہلے اور تین تکبیریں دوسری رکعت میں الحمد و قرآت سورة کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے کہے یہی افضل و اولٰی ہے لیکن اگر دوسری رکعت میں پہلی رکعت کی مانند تعوذ و بسم اللّٰہ و الحمد سے پہلے کہہ لے گا تب بھی جائز ہے.
خطبہ عیدین کے مسائل
نماز پوری کرنے کے بعد امام دو خطبے پڑھے، دونوں خطبوں کے درمیان خطبہ جمعہ کی طرح تسبیح کی مقدار بیٹھے، جو چیزیں جمعہ کے خطبے میں سنت یا مکروہ ہیں وہی عیدین کے خطبے میں بھی سنت یا مکروہ ہیں مگر دو باتوں کا فرق ہے ایک یہ کہ عیدین میں خطبے سے قبل تکبیر کہنا سنت ہے جمعہ میں نہیں ( پانچ خطبوں کو تکبیر سے شروع کرنا سنت ہے خطبہ عیدین، حج کے تین خطبے) دوسرے یہ کہ جمعہ میں خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا خطیب کے لئے سنت ہے عیدین میں سنت نہیں پس جب خطیب منبر پر چڑھے تو بیٹھے نہیں بلکہ کھڑا ہو کر خطبہ شروع کر دے عید الفطر کے خطبے میں تکبیر و تسبیح ولاالہ الا اللّٰہ و الحمداللّٰہ اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھے مستحب یہ ہے کہ خطبہ کے شروع میں لگاتار نو مرتبہ اللّٰہ اکبر کہے اور دوسرے خطبے کے شروع میں لگاتار سات مرتبہ اور منبر سے اترنے سے پہلے مسلسل چودہ مرتبہ اللّٰہ اکبر کہے، خطبے میں لوگوں کو صدقہ فطر کے احکام بتائے اور رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں بھی یہ احکام بیان کرے، عیدالاضحٰی کے خطبے میں بھی خطبہِ عیدالفطر کی طرح پہلے خطبے کے شروع میں نو مرتبہ اور دوسرے خطبے کے شروع میں سات مرتبہ اور منبر سے اترنے کے وقت چودہ مرتبہ اللّٰہ اکبر کہنا مستحب ہے اور تسبیح و تہلیل و تحمید و درود شریف بھی پڑھے اور وعظ و نصیحت کرے، ذبح و قربانی کے احکام اور تکبیراتِ تشریق سکھائے جمعہ کے خطبے کے تمام آداب و سنن پر ان خطبوں میں بھی عمل کرےکرے.
عیدین کی نماز کے متفرق مسائل
١. اگر ایسے امام کے پیچھے عیدین کی نماز پڑھی جس کے نزدیک زائد تکبیروں میں رفع یدین نہیں ہے تو مقتدی رفع یدین کر لے
٢. اگر امام نے چھ سے زیادہ تکبیریں کہیں تو تیرہ تکبیروں تک مقتدی امام کی پیروی کرے جبکہ امام کے قریب ہو اور خود سنتا ہو، تیرہ سے زیادہ میں پیروی نہ کرے کیونکہ تیرہ تکبیروں سے زائد صحابہ کرام سے منقول نہیں اور کسی فقہ کا مذہب بھی نہیں ہے اگر امام سے دور ہو اور تکبیریں دوسرے تکبیر کہنے والوں سے سنے تو جتنی سنے سب کی پیروی کرے کیونکہ اس میں تکبیروں کی غلطی کا امکان ہے اس لئے امام کی تکبیروں کا متعین کرنا ممکن نہیں ہے
٣. اگر کوئی شخص پہلی رکعت میں ایسے وقت پہنچا کہ امام عید کی زائد تکبیریں کہہ چکا ہےاور ابھی قیام میں ہے اگرچہ قرآت شروع کر چکا ہو تو یہ شخص نیت باندھ کر اسی وقت عید کی تین تکبیریں کہہ لے
٤. اگر عید کی نماز میں کوئی شخص اس وقت پہنچا جب امام رکوع میں ہے تو یہ تکبیر تحریمہ کہے پھر اگر اس کو گمان غالب ہے کہ تین زائد تکبیریں کہنے کے بعد رکوع مل سکتا ہے تو کہہ لے پھر رکوع میں جائے اور اگر تکبیریں کہہ کر رکوع ملنے کا گمان غالب نہیں ہے تو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں چلا جائے اور رکوع کی تسبیح کے بجائے یہ تین زائد تکبیریں کہہ لے اور ان میں ہاتھ نہ اٹھائے اگر تین تکبیریں پوری نہ کہہ سکا کہ امام نے رکوع سے سر اٹھا دیا تو یہ بھی باقی تکبیریں چھوڑ کر امام کی مطابعت کرے اور رکوع سے اٹھ جائے باقی تکبیریں اس سے ساقط ہو جائیں گی اور اگر امام کو قومہ میں پایا تو اس وقت تکبیریں نہ کہے اور جب امام کے سلام کے بعد اپنی پہلی رکعت مسبوقانہ پڑھے اس میں ان تکبیروں کو ادا کرے لیکن اس مسبوقانہ رکعت میں ثنا کے بعد اور الحمد سے پہلے نہ کہے بلکہ الحمد اور سورة کی قرآت سے فارغ ہو کر رکوع میں جانے سے پہلے کہے
٥. اگر عید کی نماز میں اس وقت شریک ہوا جبکہ امام تشہد پڑھ چکا ہے اور ابھی سلام نہیں پھیرا یا سجدہ سہو کے لئے سلام پھیر چکا ہے لیکن ابھی سجدہ سہو نہیں کیا یا سجدہِ سہو کر چکا ہے لیکن اس کے بعد کے تشہد میں ہے اور ابھی ختم کا سلام نہیں پھیرا تو وہ امام کے فارغ ہونے کے بعد عید کی مسبوقانہ نماز پوری کرے اور تکبیرات دونوں رکعتوں میں اپنے مقام پر کہے اس کی عید کی نماز میں شمولیت صحیح ہو گی یہی صحیح ہے
٦. اگر مقتدی دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ رکعت پڑھے اس وقت قرآت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے کہے جیسا کہ اوپر نمبر ٤ میں بیان ہوا اور اگر دوسری رکعت کی تکبیریں امام کے ساتھ نہ ملی یعنی وہ دوسری رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہو اور دوسری رکعت امام کے ساتھ نہیں ملی تو دونوں رکعتیں مسبوقانہ پڑھے اور زائد تکبیریں ہر رکعت میں اپنے اپنے موقع پر پڑھے جیسا کہ نمبر ٥ میں بیان ہوا
٧. لاحق امام کے مذہب کے مطابق تکبیریں کہے یعنی جب اپنی لاحقانہ نماز میں تکبیریں کہے تو جتنی امام نے کہیں اتنی کہے اس لئے کہ وہ امام کے پیچھے ہے اور مسبوق اپنی مذہب کے مطابق تکبیریں کہے.
عیدین کی نماز کے متفرق مسائل (صفحہ ٢)
٨. اگر امام عید کی نماز میں پہلی رکعت میں زائد تکبیریں کہنا بھول گیا اور الحمد شروع کر دی تو وہ قرآت کے بعد تکبیریں کہہ لے اور اگر رکوع میں یاد آئے تو رکوع میں سر اٹھانے سے پہلے کہہ لے اور قرآت کا اعادہ نہ کرے اور اگر دوسری رکعت میں تکبیریں بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تب بھی رکوع میں کہہ لے اور قیام کی طرف نہ لوٹے اگر قیام کی طرف لوٹ جائے گا تب بھی جائز ہے نماز فاسد نہ ہو گی لیکن رکوع کا اعادہ کرے اور قرآت کا اعادہ نہ کرے
٩. عیدین کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع میں جاتے وقت کی تکبیر واجب ہے پس اگر امام سے زائد تکبیریں کل یا بعض یا رکوع میں جانے کی تکبیر فوت ہو گئی تو سجدہِ سہو لازم آتا ہے اگر کر لے تو جائز ہے لیکن جمعہ و عیدین میں کثرت ہجوم کی وجہ سے سجدہِ سہو کا ترک افضل ہے خواہ کسی وجہ سے لازم ہوا ہو اگر ان واجب تکبیروں کو قصداً ترک کرے گا تو مکروہِ تحریمی ہو گا
١٠. اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو یا شامل ہوا اور اس کی نماز فاسد ہو گئی ہو اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں تو وہ شخص تنہا عید کی نماز نہیں پڑھ سکتا کیونکہ اس میں جماعت شرط ہے اور فاسد ہو جانے کی صورت میں قضا بھی لازم نہیں ہے، لیکن اگر دوسری جگہ عید کی نماز مل سکتی ہو تو وہاں جا کر شامل ہو جائے کیونکہ عید کی نماز بالاتفاق ایک شہر میں متعدد جگہ جائز ہے اور اگر کئی آدمیوں کو عید کی نماز نہ ملی ہو تو وہ دوسری مسجد میں جہاں عید کی نماز نہ پڑھی گئی ہو نماز عید کی جماعت کر لیں اور ان میں کوئی ایک شخص امام ہو جائے یہ جائز ہے اور اگر یہ صورت بھی ممکن نہیں اور دوسری جگہ بھی نماز نہ ملے تو گھر آ کر چار رکعت نماز چاشت پڑھ لے اور ان میں زائد تکبیریں نہ کہے کیونکہ یہ نماز عید کی قضا نہیں بلکہ چاشت کے نوافل ہیں
١١. اگر امام نے عید الفطر کی نماز پڑھائی اور نماز کے بعد زوال سے پہلے نیز لوگوں کے متفرق ہونے سے پہلے معلوم ہوا کہ امام نے بےوضو نماز پڑھائی تھی تو نماز کا اعادہ کریں اور اگر زوال سے پہلے لیکن لوگوں کے متفرق ہونے کے بعد معلوم ہوا تو اب اعادہ نہ کریں نہ اس روز اور نہ دوسرے روز، اور اگر زوال کے بعد معلوم ہوا تو دوسرے دن نماز کا اعادہ کریں اور اگر دوسرے دن زوال کے بعد معلوم ہو تو اعادہ نہ کریں اور اگر عید الاضحٰی میں ایسا ہو تو اگر اسی روز زوال سے پہلے معلوم ہو گیا تو سب آدمیوں میں نماز کے اعادہ کے لئے منادی کرا دیں اور اعادہ کریں اور جس نے معلوم ہونے سے پہلے قربانی کر لی ہے اس کی قربانی جائز ہے معلوم ہونے کی بعد سے زوال تک قربانی جائز نہیں اور اگر زوال کے بعد معلوم ہوا اور لوگوں نے قربانیاں کر لیں تو قربانیاں جائز ہیں، دوسرے روز نماز کا اعادہ کریں، دوسرے روز معلوم ہو تو زوال سے پہلے نماز کا اعادہ کریں اور اگر زوال ہو چکا تو تیسرے دن ( بارہویں ذی الحجہ کو) زوال سے پہلے پڑھ لیں اگر تیسرے روز زوال کے بعد معلوم ہو تو اعادہ نہ کرے
١٢. اگر عید کی نماز کے وقت جنازہ بھی حاضر ہو تو عید کی نماز کو مقدم کریں گے اور عید کے خطبے پر نماز جنازہ کو مقدم کریں گے
١٣. عیدین کی نماز کے بعد یا خطبے کے بعد دعا مانگنا منقول نہیں ہے لیکن عموماً ہر نماز کے بعد دعا مانگنا سنت ہے اس لئے عیدین میں بھی نماز کے بعد دعا مانگنا بہتر و افضل ہونا چاہئے نماز کے بعد کی بجائے خطبے کے بعد دعا مانگنا خلاف اولٰی ہونا چاہئے اور اگر دونوں جگہ ترک کرے تو اس کی بھی گنجائش ہے.
ایام تشریق کی تکبیروں کا بیان
١. یوم عرفہ یعنی٩ ذی الحجہ و یوم قربانی یعنی١٠ ذی الحجہ اور ایام تشریق یعنی ١١ ذی الحجہ تا ١٣ ذی الحجہ، ان پانچ دن میں تکبیراتِ تشریق کہی جاتی ہیں
٢. یہ تکبیر کہنا واجب ہے
٣. ان تکبیرات کا وقت عرفہ یعنی ٩ ذی الحجہ کی نمازِ فجر سے شروع ہوتا ہے اور تیرہویں ذی الحجہ ( ایام تشریق کا آخری دن) کی نماز عصر تک ہے یہ سب تئیس (٢٣) نمازیں ہوئیں جن کے بعد یہ تکبیر واجب ہے
٤. اس تکبیر کا بلند آواز ( جہر) سے ایک بار کہنا واجب ہے ذکر سمجھ کر دو یا تین بار کہنا افضل ہے اگر عورتیں کہیں تو آہستہ کہیں
٥. اس تکبیر کا کہنا نماز کا سلام پھیرنے کے بعد فوراً متصل ہونا واجب ہے اگر جان بوجھ کر یا بھول کر مسجد سے نکل گیا یا حدث کیا تو یہ تکبیر ساقط ہو جائے گی مقتدی کو امام سے پہلے تکبیر کہنا جائز ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ امام کے بعد کہے اور اگر امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدی فوراً کہہ دیں امام کا انتظار نہ کریں
٦. اس تکبیر کے الفاظ یہ ہیں
اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
٧. اس کی شرائط یہ ہیں
١. مقیم ہونا،
٢. شہر میں ہونا،
٣. فرض نماز جماعتِ مستحبہ سے پڑھنا،
پس یہ تکبیر مسافر اور گائوں کے رہنے والے اور عورت پر واجب نہیں ہے لیکن اگر یہ لوگ ایسے شخص کے مقتدی ہوں جس پر تکبیر واجب ہے تو ان پر بھی واجب ہو جائے گی، اکیلے نماز پڑھنے والے پر بھی یہ تکبیر واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ کہہ لے تو بہتر ہے اسی طرح مسافر اور عورت بھی کہہ لے تو بہتر ہے
٨. یہ تکبیر مذکورہ وقتوں میں فرضِ عین نماز کے بعد واجب ہے پس نمازِ وتر و عیدالالضٰحی و نفل و سنت و نماز جنازہ وغیرہ کے بعد کہنا واجب نہیں ہے لیکن عیدالا ضٰحی کی نماز کے بعد بھی یہ تکبیر کہہ لے کونکہ بعض کے نزدیک واجب ہے
٩. مسبوق اور لاحق پر بھی یہ تکبیر واجب ہے مگر اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیرنے کے بعد کہیں اگر امام کے ساتھ کہہ لی تو نماز فاسد نہ ہو گی کیونکہ یہ ذکر ہے اور پھر نماز ختم کرنے کے بعد اس کا اعادہ بھی نہ کرے.
http://www.majzoob.com/1/13/133/1331990.htm

No comments:

Post a Comment