Thursday 23 August 2018

اسلام اور طہارت

اسلام اور طہارت
اسلام انتہائی پاکیزہ مذہب ہے، یہ اپنے ماننے والوں طہارت و پاکیزگی کا حکم دیتا ہے، اﷲ تبارک و تعالی نے بنی آدم کواپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے توسط سے زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق کتاب وسنت کی شکل میں جو احکام اور ہدایات عنایت فرمائے ہیں اگر حقیقی معنوں میں ان پر عمل پیرا ہوجائیں توہر فرد کا ظاہر و باطن، اس کا جسم و لباس، رہنے کی جگہ، گھر بار، گلی، محلہ، ماحول حتی کہ پورا معاشرہ سب پاکیزگی کے مظہر بن جائیں گے۔ طہارت والوں یعنی پاک صاف رہنے والوں کو اللہ تعالی پسند فرماتے ہیں، چناں چہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: ﴿إن اللّٰہ یحب التوابین ویحب المتطہرین ﴾(۱) ترجمہ: بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے پیش نظر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طہارت و پاکیزگی کا خوب اہتمام فرماتے تھے جس کی وجہ سے قرآن کریم مجید میں اللہ تعالی نے ان کی تعریف میں ارشاد فرمایا: ﴿فیہ رجال یحبون أن یتطہروا واللّٰہ یحب المطہرین﴾(۲) ترجمہ: اس میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پسند کرترے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں اور اﷲ پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے کہ طلح بن نافع کہتے ہیں کہ مجھے ابو ایوب انصاری، جابر بن عبد اللہ، اور انس بن مالک رضی اﷲ عنہم نے بتلایا کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی علیہ وسلم نے انصار کو مخاطب کرکے فرمایا: اے گروہ انصار! اللہ تعالی نے طہارت کے بارے میں تمہاری تعریف بیان کی ہے تو تمہاری طہارت و پاکی کیا ہے؟ انصار نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، جنابت سے غسل کرتے ہیں اور پانی سے استنجا کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وہ طہارت و پاکی ہے جس کی اللہ نے تعریف کی ہے، پس تم اسے لازم پکڑو۔(۳)
طہارت کامعنی ومطلب: 
طہارت کسے کہتے ہیں؟ اس کا کیا معنی ومطلب ہے؟ اس کی کتنی اقسام ہیں؟ ان تفصلات کو جاننے کے بعد ہی انسان منشا خداوندی کے مطابق پاکیزگی حاصل کرسکتا ہے۔ طہارت عربی زبان کا لفظ ہے، طہر یطہر باب کرم سے مصدر ہے، لغت میں طہارت کے معنی مطلق طور پر صفائی و پاکیزگی کے ہیں(۴)، فقہی اعتبار سے حدث اور نجاست سے پاکیزگی حاصل کرنے کو طہارت کہتے ہیں(۵)، جبکہ شرعا طہارت اﷲ کی منع کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو روکنے یعنی خود کو گناہوں سے پاک رکھنے اور اﷲ تعالی کے اوامر سے خود کو مزین کرنے کو کہتے ہیں۔ بعض دفعہ اطلاقات شرعیہ میں طہارت من الارجاس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے یعنی اس سے مراد کفر و شرک اور معصیت سے پاک ہونا ہوتاہے، چناں چہ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿اِنما یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس أھل البیت ویطہرکم تطہیرا﴾(۶) ترجمہ: اے نبی کے گھر والو! اﷲ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے (شرک وکفر کی) گندگی دور رکھے اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح مکمل ہو۔
اقسام طہارت: 
طہارت کی ابتدا میں دو بڑی قسمیں ہیں: 
طہارت معنویہ اور حسّیہ، پہلی قسم کے بارے میں علمائے عقیدہ یعنی متکلمین گفتگو کرتے ہیں، جبکہ دوسری سے فقہاء بحث کرتے ہیں۔ پھر ان میں سے طہارت معنویہ کی بھی دو قسمیں ہیں: طہارت معنویہ کبری اور صغری، طہارت معنویہ کبری ہے کہ آدمی اپنے دل کو شرک اور اس کی غلاظتوں سے مکمل پاک کر لے اور توحید خالص کے عقیدہ کو اپنے دل و دماغ میں بسا لے اور مکمل طور سےﷲ تعالی کی بندگی اختیار کر لے۔ طہارت معنویہ صغری یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کو اخلاقی برائیوں کینہ، حسد، ریا ، تکبر اور حب جاہ و مال وغیرہ سے پاک کرے اور اپنے دل کو اخلاقی محاسن و فضائل سے مزین کرے۔اسی طرح طہارت حسّیہ یعنی ظاہری طہارت کی بھی دو قسمیں : ایک یہ کہ حدث کو زائل کر کے پاکی حاصل کرنا، اس قسم کے ذیل میں فقہاء حضرات پانی کے پاکی و ناپاکی ، وضو، غسل، تیمم اور موزوں پر مسح وغیرہ کے مسائل سے بحث کرتے ہیں۔ دوسری قسم یہ کہ خبث کو زائل کر کے طہارت حاصل کرنا، اس قسم کے ذیل میں فقہائے کرام اشیائے نجسہ کے طہارت سے متعلق ضوابط اور نجاست کی اقسام کو بیان کرتے ہیں۔
نصف ایمان: 
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ عمل اﷲ تعالی اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہے، بلکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے، چناں چہ صحیح مسلم میں حضرت ابو مالک اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’الطہور شطر الإیمان ‘‘․(۷) یعنی پاکی نصف ایمان ہے۔ شطر ایمان یعنی طہارت کا نصفِ ایمان ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کے بارے میں شرّاح حدیث فرماتے ہیں کہ ایمان مکفّر سیئات ہے، ایمان سے صغائر و کبائر دونوں طرح کے گناہ معاف ہوتے ہیں ، طہارت بھی مکفّر سیئات ہے، لیکن اس سے صرف صغائر معاف ہوتے ہیں، اس نسبت سے طہارت کو شطر ایمان قرار دیا گیا ہے۔علامہ تورپشتی حنفی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ایمان سے ظاہر و باطن یعنی حدث اصغر و اکبر اور شرک وغیرہ دونوں سے طہارت حاصل ہوجاتی ہے، جبکہ حدیث میں وارد لفظ ’’ الطہور ‘‘ سے صرف طہارتِ بدن من الانجاس و الاحداث مراد ہے اس لیے اس کو شطر ایمان کہا گیا ہے۔(۸)
اجزائے ایمان: 
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ایمان تخلیہ اور تحلیہ دو اجزاء سے مرکب ہے، تخلیہ کے چار مراتب ہیں، پہلا مرتبہ: ظاہری بدن کو ہر طرح کی ناپاکی ، حدث و خبث اور فضلات سے پاک کرنا۔ دوسرا مرتبہ: اپنے اعضاء و جوارح کو جرائم و گناہوں سے پاک رکھنا۔ تیسرا مرتبہ: دل کو اخلاق ذمیمہ و رذیلہ سے پاک رکھنا۔ چوتھا مرتبہ: دل کو ماسوی اﷲ سے خالی اور پاک رکھنا۔ اس تفصیل کے مطابق حدیث میں شطر الایمان سے مراد ’’تخلیہ‘‘ ہے اور وہ اس اعتبار سے نصف ایمان ہے۔(۹) غرض جو بھی مراد لیا جائے، خواہ شطر کو جز کے معنی میں لیا جائے یا نصف کے معنی میں بہر حال طہارت کو ایمان کے ساتھ لزوم کا تعلق ہے، ایمان ہر حال میں طہارت اک تقاضہ کرتا ہے۔
طہارت باطن : علمائے کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ طہارت تمام مراتب طہارت میں نصفِ عمل کا مقام رکھتی ہے، کیوں کہ اعمال باطن سے مقصود اﷲ کی عظمت و جلال کا منکشف ہونا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا ہے جب تک باطن سے ماسوی اﷲ نکل نہ جائے، طہارت قلب یعنی اخلاق حمیدہ کا حصول اس وقت تک نہیں ہوسکتا ہے جب تک دل کو اخلاق ذمیمہ اور قابل نفرت رذائل سے پاک نہ کیا جائے، اسی طرح جوارح کو اس وقت تک طاعت سے مزین نہیں کیا جاسکتا جب تک گناہوں سے نہ بچا جائے، یہی حال ظاہر کا ہے کہ ظاہری طہارت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ احداث سے پاکی حاصل نہ کی جائے، یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ تمام مراتب طہارت میں اصل باطن کی طہارت ہے لیکن اس کا حصول بھی ظاہری طہارت پر موقوف ہے۔(۱۰)
اہتمام طہارت: 
اسلام میں ظاہری طہارت کا بھی نہایت ہی اہتمام کیا گیا ہے، بیداری سے لے کر سونے تک، بیت الخلا سے مسجد و بیت اﷲ تک، دن بھر میں پانچ مرتبہ وضو، نیز غسل و تیمم وغیرہ کے ذریعہ ظاہری و باطنی دونوں طرح کی طہارت کا اہتمام کی گیا ہے، قضائے حاجت انسان کی فطری ضرورت ہے، اس ضرورت کو کیسے پورا کیا جائے اس کی رہنمائی بھی موجود ہے، سنن ابی داؤد میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا ذھب المذھب أبعد‘‘․(۱۱) حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کی روایت میں ہے: ’’إذاأراد البراز انطلق حتی لا یراہ أحد ‘‘․(۱۲) خلاصہ دونوں روایتوں کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو اتنے دور جاتے کہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ۔ پیشاب کرتے وقت نرم اور نشیبی جگہ دیکھ کر وہاں کرنے کا حکم ہے تاکہ پیشاب کی چھینٹیں اڑ کر کپڑوں اور بدن پر نہ پڑھیں، حضرت ابو موسی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إذا أراد أحدکم البول فلیرتد لبولہ موضعا‘‘․(۱۳) یعنی جب تم میں کوئی پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ پیشاب کے لیے(نرم اور نشیبی) جگہ تلاش کرے۔ قضائے حاجت کے لیے جانے سے قبل دعا تعلیم دی گئی ہے تاکہ شیاطین و جنات کے شرور سے حفاظت میں رہے، حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو یہ دعا پڑھے: ’’ﷲم إني أعوذبک من الخبث والخبائث‘‘․ (۱۴) اے اﷲ ! میں ہر طرح کے شیاطین(مذکر و مؤنث کے شر) سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ ستر ما بین الجن و عورات بني آدم إذا دخل الخلا أن یقول: بسم اللّٰہ‘‘․(۱۵) یعنی جب تم میں سے کوئی بیت الخلا میں داخل ہونے اک ارادہ کرے تو بسم اﷲ پڑھے، یہ بنو آدم کی شرمگاہ اور جنات کے درمیان پردہ اور حائل ہوجائے گا۔علمائے کرام نے ان دونوں روایات کے درماین جمع کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے جانے والا ان دونوں دعاؤں کو ملا کر یوں پڑھے: ’’بسم اللّٰہ، اﷲم إني أعوذبک من الخبث والخبائث‘‘․(۱۶)
بیت الخلا جانے سے قبل دعا تعلیم دینے کی حکمت یہ ہے وہ نجاست اور گندگی کی جگہ ہوتی ہے، پھر جاکر ذکر اﷲ میں انقطاع آجاتا ہے، کشف عورت کی نوبت آجاتی ہے اور بول و براز وغیرہ نجاستوں کا خروج ہوتا ہے تو ایسے میں شیاطین اور جنات جنہوں نے اپنا مسکن ان جگہوں کو بنایا ہوتا ہے وہ وہاں جانت والے انسان کو نقصان پہچانے کی کوشش کرتے ہیں، لہذا ان کے شر سے حفاظت کے لیے دعا بتلائی گئی ہے۔
اسی طرح ایک مسلمان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے اور اپنی طبعی ضرورت پوری کے تحت اس کو پانی استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے برتن میں نہ ڈالے، چناں چہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إذا استیقظ أحدکم من نومہ فلیغسل یدہ قبل أن یدخل في وضوۂ؛ فإن أحدکم لا یدری أین باتت یدہ‘‘․(۱۷) یعنی جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وضو کے اپنی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل اپنا ہاتھ دھو لے؛ اس لیے کہ اسے معلوم نہیں کہ نیند کی حالت میں اس کے ہاتھ نے کہاں رات گذاری ہے۔شراح حدیث نے لکھا ہے کہ نیند کی حالت میں یہ ممکن ہے کہ آدمی کا ہاتھ اس کی شرمگاہ سے مس ہوا ہواور اس پر نجاست کے اجزا لگ گئے ہوں، یا رات نیند کی حالت میں احتلام ہوگیا ہوجائے اور ہاتھ پر منی لگ گئی ہو، یا وظیفہ زوجیت کی ادائیگی کے وقت کچھ نجاست لگ گئی ہو، یا جسم کے کسی حصہ میں زخم ہو اور اس سے خون رس رہا ہو، یا کوئی دانہ وغیرہ نکل ہو اور اس سے پیپ یا نجس مادہ نکل رہا ہو اور وہ ہاتھ پر لگ گیا ہو، غرض اگر نجاست یقینی طور سے لگ گئی ہو تو پھر ہاتھ کا پانی کے برتن میں داخل کرنے سے قبل دہونا واجب ہے اور اگر نجاست کا لگنا یقینی نہ ہو صرف شک ہو تو پھر ہاتھوں کا برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونا مسنون ہے، اور اگر یہ یقین ہے کہ کوئی نجاست نہیں لگی تو پھر دھونا مستحب ہے۔ (۱۸)
مشرکین مکہ اس بات پر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پر تنقید کرتے اور طعنہ دیا کرتے تھے کی کہ آپ کے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم تو آپ کو قضائے حاجت کے متعلق باتوں کی بھی تعلیم دیتے ہیں، چناں چہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے ایسے ہی طعنہ کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں ! (یہ شرم کی نہیں ، بلکہ یہ ضروت کی چیز ہے)، ہمارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بھی بتلایا ہے کہ ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ نہ ہوا کریں اور ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے اور اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ ہم ہڈی یا گوبر سے استنجا کریں اور ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم تین پتھروں سے استنجا کریں۔(۱۹)
ان امور کو ذکر کرنے کا مقصد صرف اسلام کے نظام طہارت و نظافت کی ایک جھلک دکھانا ہے، ورنہ اسلام نے تو اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مکمل رہنمائی فراہم کی ہے، اور اسلام سارا کہ سارا پاکیزگی اور طہارت ہی سے مرکب ہے،(۲۰) ضرورت اس امر کی ہے کہ ثقہ علما سے ا سلامی تعلیمات سیکھ کر ان پر عمل کیا جائے تاکہ دنیا میں پاکیزگی و کامیابی کے ساتھ آخرت کی ہمیشہ کی کامرانی مقدر بن جائے۔
حواشی
(۱) البقرہ: ۲۲۲․ (۲) التوبۃ: ۱۰۸․ (۳) باب العشرون من شعب الإیمان [وہو باب ] الطہارات، فصل الوضوء: ۳؍۱۸، ۱۹․ (۴) القاموس الوحید کامل، ص: ۱۰۱۷،ادارہ اسلامیات کراچی۔و عمدۃ الفقہ، مولانا سید زوار حسین شاہ: ۱؍۹۹، زوار اکیڈمی کراچی۔ (۵) الفقہ الإسلامي وأدلتہ للزحیلي: ۱؍۲۰۱، دار الفکر بیروت․ (۶) الاحزاب: ۳۳․ دیکھیے: نفحات التنقیح في شرح مشکاۃ المصابیح: ۲؍۲․ (۷) رواہ مسلم في صحیحہ في الطہارۃ، باب فضل الوضوء، برقم: ۲۲۳․ (۸) نفحات التنقیح في شرح مشکاۃ المصابیح: ۲؍۳․ (۹) إحیاء علوم الدین، کتاب أسرار الطہارۃ، ص: ۱۶۰․ (۱۰) إحیاء علوم الدین، کتاب أسرار الطہارۃ، ص: ۱۶۰،۱۶۱․ومفتاح السعادۃ ومصباح السیادۃ في موضوعات العلوم:۳؍۲۵، ۲۶․
(۱۱) رواہ أبو داود في سننہ في الطہارۃ ، باب التخلي عند قضاء الحاجۃ، رقم الحدیث: ۱․
(۱۲) رواہ أبو داود في سننہ في الطہارۃ ، باب التخلي عند قضاء الحاجۃ، رقم الحدیث: ۲․
(۱۳) رواہ أبو داود في سننہ في الطہارۃ ، باب الرجل یتبوأ لبولہ، رقم الحدیث: ۳․
(۱۴) رواہ البخاري في صحیحہ في الوضوء، باب ما یقول عند الخلاء، رقم الحدیث: ۱۴۲․ ومسلم في صحیحہ في الحیض، باب ما یقول إذا أراد دخول الخلاء، رقم الحدیث:۳۷۵․
(۱۵) رواہ ابن ماجہ في سننہ في الطہارۃ، باب ما یقول الرجل إذا دخل بیت الخلاء، رقم الحدیث:۲۹۷․ (۱۶) المجموع شرح المھذب، باب الاستطابۃ: ۲؍۷۴․
(۱۷) رواہ البخاري في صحیحہ في الوضوء، باب الاستجمار وترا، رقم الحدیث:۱۶۲․ ومسلم في صحیحہ في الطہارۃ، باب کراہۃ غمس المتوضی وغیرہ یدہالمشکوک في نجاستھا في الإناء قبل غسلہا ثلاثا، رقم الحدیث:۲۷۸․ (۱۸) فیض القدیر للمناوي: ۱؍۳۵۸․ (۱۹) رواہ مسلم في صحیحہ في الطہارۃ، باب الاستطابۃ: ۲۶۲․ (۲۰) بھجۃ قلوب الابرار للسعدي:۱؍۱۴․
مفتی ابو الخیر عارف محمود

No comments:

Post a Comment