Saturday 11 August 2018

دیوبندیت اور اعتدال فکر ونظر

دیوبندیت اور اعتدال فکر ونظر
شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے کسی نے پوچھا دیوبندیت کیا ہے، دیوبندی کسے کہتے ہیں، یہ کوئی مذہب ہے یا فرقہ؟
انھوں نے جواب میں فرمایا: نہ یہ کوئی مذہب ہے اور نہ فرقہ بلکہ ہر معقولیت پسند دین دار کا نام دیوبندی ہے،
علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے جو کچھ فرمایا اس کا تعلق دیوبندیت کے ایک جزء یعنی معقولیت پسندی سے ہے، اس کے اور بھی عناصر ترکیبی ہیں جن میں سے ایک حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے الفاظ میں کمال اعتدال وتوسط ہے، دوسرا عملِ متوارث ہے اور تیسرا عنصر جامعیت ہے، حقیقت میں ان عناصر کی ترکیب سے ہی مسلک دیوبند تشکیل پاتا ہے اور وہی حقیقی معنوں میں دیوبندی کہلانے کا مستحق ہے جو ان عناصر اربعہ پر مبنی دیوبندیت پر عمل پیرا ہو، بہ قول حضرت حکیم الاسلام رحمہ اللہ ’’جامعیت واعتدال اور احتیاط اور میانہ روی ہی اس مسلک کا جوہر ہے‘‘ (علمائے دیوبند کا دینی رُخ اور مسلکی مزاج ص ۱۰۹)۔ عمل متوارث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت حکیم الاسلام 
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: 
’’اتباع سنت بہ توسط اہل انابت یا تعمیل دین بہ تربیت اہل یقین یا اتباع اوامر اللہ بہ صحبت اولیاء اللہ‘‘
اس ایجاز کی تفصیل اس طرح کی جاسکتی ہے کہ لفظ سنت سے جس کا منبع وسرچشمہ قرآن ہے پیدا ہونے والے دین کے جتنے بھی شعبے ہیں وہ تمام مسلک دیوبند کا حصہ ہیں، علماء دیوبند نے افراط وتفریط سے ہٹ کر جامعیت اور اعتدال کے ساتھ ان تمام شعبوں کو اپنایا، کسی ایک پر غلو کے ساتھ زور دینا اور کسی دوسرے کو نظر انداز کردینا ان کا مسلک نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں حدیث کے ساتھ اشتغال کو بھی اہم سمجھا گیا ہے اور فقہی موشگافیوں میں انہماک کو بھی، علم کلام کے ساتھ بھی انہیں پوری دلچسپی ہے اور فن تصوف کے ساتھ بھی پوری مناسبت ہے، وہ اسرار شریعت سے بھی بیگانہ نہیں ہیں اور سیاست بھی ان کے لئے شجر ممنوعہ نہیں ہے، اسی طرح لفظ جماعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے انھوں نے اسلام کی تمام بنیادی اور مقدس شخصیتوں کو پورا پورا احترام دیا ہے، مگر احترام میں اس قدر مبالغہ بھی نہیں کیا کہ ان کی عبادت کا گمان ہونے لگے، اور اتنی دوری بھی نہیں اختیار کی کہ ان کی خدمات سے بیزاری ظاہر ہو، خلاصہ یہ ہے کہ قرآن وسنت اور ان سے نکلنے والے تمام شعبوں پر اعتماد اور ان تمام شخصیات کا احترام جن کے ذریعہ دین ہم تک پہنچا مسلک دیوبند کا مغز اور اس کا جوہر ہے، اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلک دیوبند معتدل بھی ہے اور جامع بھی، یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے اس مسلک کو اختیار کیا ان میں جامعیت بھی رہی ہے اور اعتدال بھی، یہاں میں مولانا محمد تقی عثمانی کے الفاظ مستعار لوں گا، چند سال پہلے دیوبند تشریف آوری کے موقع پر دار العلوم دیوبند میں ہزاروں علماء اور طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اپنے والد ماجد کے یہ الفاظ نقل کئے تھے ’’دیوبند کو دیوبند بنانے والی صرف ایک چیز ہے، وہ ہے دین کی صحیح تعبیر، دین کا صحیح تصور، دین کے اوپر صحیح اعتدال والا عمل، دین کا جو معتدل مزاج ہے، دین کی جو معتدل تفسیر ہے وہ اگر ہم نے کہیں دیکھی تو دیوبند کے اکابر میں دیکھی‘‘ ( تازہ سفر ۹۳-۹۴)۔
یہی وہ مسلک ہے جس سے دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں علماء اور فضلاء وابستہ ہیں، ان کے ذریعے قائم ہونے والے ہزاروں مدرسے اور ان سے نکلنے والے لاکھوں اہل علم بھی خود کو دیوبندی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب 
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (سابق مہتمم دار العلوم دیوبند) کو کہ انھوں نے ’علماء دیوبند کا دینی رُخ اور ان کا مسلکی مزاج‘ لکھ کر مسلک علماء دیوبند کی تشریح وتفصیل کردی ہے، بہ قول مولانا تقی عثمانی مدظلہ ’اکابر علماء دیوبند کے مسلک ومشرب اور مزاج ومذاق کی وہ خوشبو جو علماء دیوبند کے فکر وعمل سے پھوٹی حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے قلب وذہن نے اسے جذب کرکے اس کتاب میں الفاظ ونقوش کی شکل دیدی ہے اور حضرات علماء دیوبند کے فکر وعمل کو اس طرح کھول کھول کر بیان فرمادیا ہے کہ اس میں کوئی التباس واشتباہ باقی نہیں رہا‘‘۔ (مقدمہ کتاب ص ۱۱)۔ 
حال ہی میں تعزیتی اجلاس اور کسی مرحوم شخصیت پر منعقد ہونے والے سمینار پر جواز اور عدم جواز کے سلسلے میں جو اختلاف رونما ہوا اس نے غور وفکر کے کئی پہلو ہمیں دئے ہیں، ایک تو یہ کہ دیوبندیت کی تشریح وتوضیح کرتے ہوئے ہمیں اس کے کسی ایک جزء کو لے کر اور باقی اجزاء کو چھوڑ کر یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہئے کہ یہی دیوبندیت ہے، بہ قول مولانا تقی عثمانی ’’بعض لوگوں نے مسلک علماء دیوبند کے جامع اور معتدل ڈھانچے سے صرف کسی ایک جزء کو لے کر اسی جزء کو دیوبندیت کے نام سے متعارف کرایا اور اس کے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کردیا‘‘ اس معتدل اور جامع ڈھانچے کا ایک نہایت اہم جزء وہ عمل متوارث بھی ہے جس کی طرف حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے اور جسے ہم ڈیڑھ سو پونے دو سوسال سے برابر دیکھتے آرہے ہیں، اب تعزیتی اجلاس ہی کو لے لیجئے، حضرت شیخ الہندؒ کے زمانے سے لے کر حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کے دور اہتمام تک بل کہ ان کے بھی بعد تک بے شمار نمایاں شخصیات کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی جلسے منعقد کئے گئے ہیں اور ان میں تعزیتی تقریریں کی گئی ہیں، بعد میں وہ تقریریں دار العلوم سے شائع ہونے والے جریدوں میں چھپی بھی ہیں، بلکہ مرحومین کے انتقال کے بعد تعزیتی تجاویز لکھی بھی گئی ہیں ان کو مختلف مجلسوں میں منظور بھی کیا گیا ہے اور بعد میں یہ تجویزیں مرحومین کے عزیز واقارب کو بھیجی بھی گئی ہیں، ہم اس متوارث عمل کو کس دائرے میں رکھیں گے، کیا ہم یہ کہنے کی جرأت کرسکتے ہیں کہ اس طویل عرصے تک ہونے والا مسلسل عمل خلاف شریعت تھا، معلوم ہوا کہ فقہاء کرام نے جس تعزیت کو مکروہ یا ناجائز کہا ہے وہ یہ تعزیت ہے ہی نہیں، اس کو ہم اذکروا محاسن موتاکم  کا عنوان دے سکتے ہیں، جس کی مرنے کے بعد بھی ہر وقت گنجائش ہے، زیادہ سے زیادہ ہم تعزیتی اجلاس کے انعقاد کو مباح عمل کہہ سکتے ہیں، اس کو حرام یا ممنوع قرار دینا اور اس پر دیوبندیت کا لیبل چسپاں کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے، ہاں اگر اس طرح کے جلسوں میں نوحہ وماتم ہو، سینہ کوبی ہو یا کوئی اور امر منکر ہو تو بلاشبہ اس پر حرمت کا فتویٰ لگایا جائے گا، اسی لئے ہمارے مفتیان کرام میں سے حضرت مولانا مفتی محمود گنگوہی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس طرح کے تعزیتی جلسوں کے جواز کا فتوی دیا ہے فرماتے ہیں: 
’’اگر میت کے متعلقین تک خود جاکر تعزیت کا موقع نہ ہو اور میت ایسی مرکزی شخصیت کی مالک ہو کہ جس کے انتقال سے بہت سے لوگوں کو صدمہ ہو یا بہت لوگ تعزیت کی ضرورت محسوس کریں اور سب کا پہنچنا دشوار ہو تو اس کے لئے سہل صورت یہ ہے کہ ایک جلسہ کرکے تعزیت کردی جائے، اس میں بڑی جماعت سفر کی زحمت سے بچ جاتی ہے اور میت کے متعلقین پر کثیر مہمانوں کا بار بھی نہیں پڑتا اور مجمع عظیم کی متفقہ دعا بھی زیادہ مستحق قبول ہے بہ ظاہر شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں‘‘ 
(فتاوی محمودیہ: ۹/ ۲۵۳) 
آج بھی بہت سے محقق اور معتبر ارباب افتاء تعزیتی جلسوں کے جواز کا فتویٰ دے رہے ہیں، جن مفتیان کرام نے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے ان کا تعلق ایسے تعزیتی جلسوں سے ہے جن میں بدعات وخرافات کا ارتکاب کیا جاتا ہو، صاف ستھری محفلوں پر عدم جواز کا فتویٰ لگانا اس اعتدال پسندی کے خلاف ہے جو دیوبندیت کا امتیاز ہے۔ 
غور وفکر کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ کیا تمام دیوبندی علماء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ذاتی خیالات وتفردات کو دیوبندیت قرار دے کر مخالف نظریات پر حرمت کا فتوی صادر کریں، میرے خیال میں یہ بھی عمل متوارث کے خلاف ہے، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا تہجد باجماعت کا معمول تمام اکابر علماء دیوبند سے الگ تھا، جب کہ فقہ حنفی کے کسی بھی جزئیے سے حضرت کے اس عمل کی تائید نہیں ہوتی، معتبر کتب احناف میں تین چار سے زائد مقتدی ہونے کی صورت میں نوافل کی جماعت کو مطلقاً مکروہ قرار دیا گیا ہے، (مبسوط سرخسی ۲/۱۴۴)۔ دار العلوم دیوبند کے مفتی حضرات بھی کراہت کا فتوی دیتے ہیں، حضرت مدنی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے اس عمل کو کبھی دیوبندیت قرار نہیں دیا، بلکہ اس سلسلے میں وہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں خود تو کرتا ہوں دوسروں کو تو نہیں کہتا، (ناقل مؤلف انوار الباری مولانا حمد رضا بجنوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) اس سے معلوم ہوا کہ علماء کو چاہئے کہ وہ اپنے تفردات اور شخصی خیالات کو اپنی ذات تک محدود رکھیں اور دیوبندیت کا لیبل لگاکر اس کی تبلیغ نہ کریں۔ 
یہ صحیح ہے کہ دیوبندیت کی بنیاد چار اکابرین کے افکار ونظریات وخیالات پر ہے، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا خلیل احمد انبیہٹوی اور حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی رحمہم اللہ، بعد میں ہر دور کے معتبر ومستند علماء نے اپنے فکر وعمل سے اس کی تشریح وتوضیح کی ہے، اس سلسلے میں ہم حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، امام العصر حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری، مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندی، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہم اللہ جیسے اکابر علماء کا نام لے سکتے ہیں جنھوں نے دیوبندیت کو عمل متوارث اور فکر مسلسل کے ذریعے آگے بڑھایا ہے، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ضرورت محسوس کی کہ علماء دیوبند کے مسلک ومشرب اور مزاج ومذاق کی تشریح کرکے اسے ایسے جامع انداز میں مرتب ومدون کردیا جائے جس کے بعد کوئی التباس واشتباہ باقی نہ رہے، حضرت نے کتاب کے ذریعے دیوبندیت کو مدون اور مرتب ہی نہیں کیا بلکہ وہ اپنے مسلسل عمل اور فکر سے اس کی تشریح وتفصیل بھی کرتے رہے، بقول مولانا مفتی محمد تقی عثمانی: 
’’کسی سیاسی اور انتظامی مسئلے میں کسی کو حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے خواہ کتنا اختلاف رائے رہا ہو لیکن اس بات میں دو رائیں ممکن نہیں کہ اس آخری دور میں وہ مسلک علماء دیوبند کے مستند ترین شارح تھے.‘‘ 
(مقدمہ کتاب مسلکی مزاج ص ۱۰)۔ 
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے دیوبندیت کی تشریح وترجمانی کی، ان کی وفات کے بعد بظاہر دیوبند ہی میں نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی اس پائے کی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جو ہمارے بزرگوں کی طرح معتدل اور جامع فکر کی حامل ہو، جو بزرگوں کی مزاج آشنااور ان کے علوم ومعارف پر دسترس رکھنے والی بھی ہو، اگرچہ دیوبند اس طرح کی شخصیات سے خالی ہوچکا ہے مگر دیوبند سے باہر اب بھی ایک شخصیت موجود ہے جسے ہم دیوبندیت کا ترجمان وشارح کہہ سکتے ہیں، میری مراد حضرت مولانا تقی عثمانی کی ذات گرامی سے ہے، جنھوں نے ساری دنیا میں دیوبندیت کو اپنے فکر وعمل سے متعارف کرایا ہے اور وہ آج بھی اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ 
اگر ہم اپنے دور کی ان تین شخصیات کو دیکھیں تو ہمیں ان کے کسی بھی عمل میں افراط وتفریط نظر نہیں آتا، نہ کہیں غیر ضروری شدت پسندی کی جھلک ملتی ہے، سمینار کے حوالے سے جو نیا نقطۂ نظر سامنے آیا ہے سمیناروں میں ان حضرات کی مسلسل شرکت سے وہ نقطۂ نظر کسی بھی سطح پر ٹھہرتا نظر نہیں آتا، میرے خیال میں دار العلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی نے اس نقطۂ نظر پر اپنی تائید سے رجوع کرکے اچھا کیا ہے، یہ بھی ہمارے اکابر کا طرز عمل رہا ہے اور اسے بھی ہم عمل متوارث کہہ سکتے ہیں، فقہی کتابوں میں ہمیں جابجا ایسے اقوال ملتے ہیں جن سے ائمہ مجتہدین اور فقہاء کرام نے بلاتکلف رجوع کیا ہے، ان فقہاء کی طرح حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بھی رجوع کے معاملے میں بڑے فراخ حوصلہ تھے، ان کی خانقاہ سے چھپنے والے ماہانہ رسالوں میں راجح ومرجوح کا ایک مسلسل عنوان ہوتا تھا، جس میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ایسی تحریریں اہتمام کے ساتھ شائع کی جاتی تھیں جن میں حضرتؒ نے کسی مسئلے میں اپنی رائے سے رجوع کرکے کوئی دوسری رائے اختیار کی ہو، مولانا نعمانی نے اپنے خط میں اس نقطۂ نظر کو ذاتی قرار دے کر یہ واضح کردیا ہے کہ دیوبندیت میں کسی کے ذاتی خیال اور تفرد کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ تمام علماء اپنے ذہنوں میں یہ طے کرلیں کہ ہمیں اپنے خیالات کی بنیاد دیوبندیت کے چار عناصر ترکیبی پر رکھنی ہے، ان سے باہر جاکر کوئی منفرد رائے قائم کرکے اس پر دیوبندیت کا لیبل چسپاں نہیں کرنا ہے، اگر اپنے ذاتی خیالات وتفردات کو دیوبندیت قرار دینے کا سلسلہ چل پڑا تو اس سے مسلک دیوبند کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، دار العلوم دیوبند کی مجلس شوری کے قابل احترام ممبران اور ارباب اہتمام اس سلسلے میں غور وفکر کرکے کوئی واضح موقف اختیار کریں، اس سے قبل بھی کئی مسائل میں ہمیں بعض حضرات کے کمزور موقف سے شرمندگی اٹھانی پڑی ہے۔ 
مولانا ندیم الواجدی
nadimulwajidi@gmail.com

No comments:

Post a Comment