Saturday 18 August 2018

یوروپ 2023 سے آخر کیوں اتنا خوفزدہ ہے، کیا ہونے والا ہے؟

یوروپ 2023 سے آخر کیوں اتنا خوفزدہ ہے، کیا ہونے والا ہے؟

دوسری جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ (ترکی) تحلیل کردی گئی۔ مغرب کے پیدا کردہ حالات کے پیش نظر جدید جمہوری ترکی کے بانی کمال اتاترک نے مغربی طاقتوں سے 1923ء میں ایک ’’معاہدہ لوزان‘‘ پر دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کی رو سے خلافت عثمانیہ ختم کردی گئی تھی اور ترکی نے تینوں بر اعظموں میں موجود خلافت کے اثاثوں اور املاک سے بھی دستبرداری اختیار کرلی تھی۔ ’’معاہدہ لوزان‘‘ 100 سال پر محیط تھا جو کہ دراصل ترک عوام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کا ایک ایسا پھندا تھا جس نے ترکی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر چاروں شانے چت کر دیا۔ 2023 میں یہ معاہدہ اپنی مدت پوری کرکے غیر مؤثر ہوجائے گا۔ ’’معاہدہ لوزان‘‘ دراصل ہے کیا اور اس کے ترکی پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور مغربی طاقتیں 2023 آنے سے قبل ہی خوفزدہ کیوں ہیں اور ترک صدر رجب طیب اردگان اپنی تقاریر میں 2023 کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہتے کیوں نظر آتے ہیں کہ 2023 کے بعد ترکی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ یہ سوالات اپنے اندر نہایت دلچسپ معلومات اور تاریخ رکھتے ہیں۔ معاہدہ لوزان جنگ عظیم اول کی فاتح قوتوں کے درمیان طے پایا تھا ۔اس وقت صورت حال یہ تھی کہ فاتح قوتیں ترکی کے بڑے حصوں پر قابض ہو چکی تھیں۔ ان قوتوں میں سے برطانیہ نے وہ خطرناک اور ظالمانہ شرائط معاہدہ لوزان میں شامل کروائی تھیں جن کی رو سے ترکی کے ہاتھ پاوں باندھ دئیے گئے تھے اور ترکی اگلے سو برس تک اس معاہدہ پر عملدرآمد کا پابند قرار پایا تھا ۔

١. معاہدہ لوزان کی رو سے خلافت عثمانیہ ختم اور سلطان کو ان کے خاندان سمیت ترکی سے جلاوطن کردیا گیا تھا۔

۲. خلافت کے تمام مملوکات ضبط کرلی گئی تھیں جن میں سلطان کی ذاتی املاک بھی شامل تھی۔

٣ . ترکی کو ایک سیکولر اسٹیٹ قرار دیتے ہوئے دینِ اسلام اورخلافت سے اس کے تعلق پر قدغن لگا دی گئی اور اسکا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔

٤ . ترکی پٹرول کے لئے نہ اپنی سرزمین پر اور نہ ہی کہیں اور ڈرلنگ کرسکے گا اور اپنی ضرورت کا سارا پٹرو ل امپورٹ کرنے کا پابند ہوگا۔

۵ . باسفورس عالمی سمندر شمار ہوگا اور ترکی یہاں سے گذرنے والے کسی بحری جہاز سے کسی قسم کا کوئی ٹیکس وصول نہیں کرسکے گا۔

واضح رہے کہ باسفورس کی سمندری کھاڑی بحرِ اسود، بحرِ مرمرہ اور بحرِ متوسط کا لنک ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عالمی تجارت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی نہر سوئیز کے ہم پلہ قرار دی جاتی ہے۔ ترک صدر طیب اردوگان ایک سے زیادہ بار واضح کرچکے ہیں کہ 2023ء کے بعد ترکی وہ ترکی نہیں رہے گا جسے یوروپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا بلکہ ہم اپنی زمین سے پٹرول بھی نکالیں گے اور ایک نئی نہر بھی کھودیں گے جو بحرِ اسود اور مرمرہ کو باہم ملا کر مربوط کردے گی اور اس کے بعد ترکی یہاں سے گذرنے والے ہر بحری جہاز سے ٹیکس وصول کرے گا۔ اس صورت حال سے ساری کہانی واضح ہوجاتی ھے کہ مغرب کیوں
ترک صدر طیب ایردوان کا اتنا سخت دشمن بنا ہوا ہے جبکہ ترکی میں ہونے والے حالیہ ریفرنڈم میں صدارتی نظام کیلئے طیب اردگان نے کیوں کوشش کی۔ یقیناََ طیب ایردوان ترکی کے لئے ایک پاور فل منتظم اور صدر چاہتا ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ 2023 میں ’’معاہدہ لوزان‘‘ غیر مؤثر ہوجانے کے بعد ترکی میں امریکی طرز پر صدارتی اختیارات سے لیس ترک فوج کا کمانڈر ان چیف اور قوم کا اعتماد رکھنے والا صدر ہونا چاہئے جو ترک قوم کو اس کا آبرومندانہ مقام دلاسکے اور امت مسلمہ کو فعال اور دیگر اقوام کے مقابل لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرسکے۔ جو عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت اور جرأت رکھتا ہو۔

No comments:

Post a Comment