Tuesday 7 August 2018

اذان مغرب کے بعد دوگانہ کی حیثیت، تشہد میں اشارہ بالسبابہ کی مسنون کیفیت

اذان مغرب کے بعد دوگانہ کی حیثیت، تشہد میں اشارہ بالسبابہ کی مسنون کیفیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی صاحب السلام علیکم   
١. دریافت طلب مسئلہ یہ ہیکہ مغرب کی نماز سے قبل غیر مقلد جو نماز ادا کرتے ھیں وہ کون سی نماز ھے اسکے متعلق حدیث؟
٢. تشھد میں شھادت والی انگلی کو مستقل حرکت میں رکھا جاتا ھے اسکے متعلق حدیث؟
٣. نماز میں دائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اللٰہ وبرکاتہ اور بائیں طرف صرف السلام علیکم ورحمۃ اللٰہ کہنے پر حدیث؟
ان سوالوں کے جواب دینے کی زحمت گوارہ فرماوینگے..
محمد راغب حسین قاسمی جوگیاوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
مغرب کی اذان کے بعد اور جماعت سے قبل دو رکعت پڑھنا شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک مستحب ہے، مختلف روایات میں یہ دوگانہ ثابت ہے:
عن عبد الله المزني رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (صَلُّوا قَبْلَ صَلاَةِ الْمَغْرِبِ . - قَالَ فِي الثَّالِثَةِ -: لِمَنْ شَاءَ، كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً)
رواه البخاري (1183) وبوب عليه الإمام البخاري رحمه الله بقوله : باب الصلاة قبل المغرب. وفي لفظ رواية أبي داود للحديث نفسه: (صَلُّوا قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ) رقم (1281)
وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : (لَقَدْ رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِي صلى الله عليه وسلم يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِي عِنْدَ الْمَغْرِبِ)
رواه البخاري (503)
و عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: (كُنَّا بِالْمَدِينَةِ، فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ ابْتَدَرُوا السَّوَارِيَ ، فَيَرْكَعُونَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ الْغَرِيبَ لَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ فَيَحْسِبُ أَنَّ الصَّلَاةَ قَدْ صُلِّيَتْ مِنْ كَثْرَةِ مَنْ يُصَلِّيهِمَا)
رواه مسلم (837)
مالکیہ کے نزدیک یہ دو گانہ مکروہ ہے
اس لئے کہ:
عَنْ طَاوُوسٍ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ فَقَالَ: (مَا رَأَيْتُ أَحَدًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا، وَرَخَّصَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ) رواه أبو داود (1284)
وعن إبراهيم النخعي رحمه الله قال: لم يصل أبو بكر، ولا عمر، ولا عثمان، الركعتين قبل المغرب. رواه عبد الرزاق في "المصنف" (2/434) عن الثوري، مصنف عبد الرزاق اور ابن أبي شيبة،
اور كتاب "قيام الليل" لمحمد بن نصر المروزي (71-77) میں اس حوالے سے کافی دلائل موجود ہیں'
حنفیہ کے نزدیک اذان مغرب کے بعد دوگانہ جائز لیکن  خلاف اولی ہے
کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ مغرب میں تعجیل کا حکم فرمایا، ابوداوٴد کی روایت میں ہے ”لا تزال أمتي بخیر أو قال علی الفطرة ما لم یوٴخروا المغرب إلی أن تشتبک النجوم“ (أبوداوٴد، رقم ۴۱۸، باب في وقت المغرب) اگر لوگ اذان کے بعد دو رکعت نفل میں مشغول ہوجائیں تو مغرب میں تاخیر ہوسکتی ہے جو مذکورہ بالا حدیث کے منشأ کے خلاف ہے؛ اس لیے حنفیہ نے تعجیل مغرب کا لحاظ کرتے ہوئے نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کو پسند نہیں کیا؛ لیکن چوں کہ فی نفسہ جواز ثابت ہے؛ اس لیے اگر کوئی پڑھ لیتا ہے تو گناہ بھی نہیں، گنجائش ہے۔
محقق ابن الہمام لکھتے ہیں:
ثم الثابت بعد هذا هو نفي المندوبية , أما ثبوت الكراهة فلا ، إلا أن يدل دليل آخر , وما ذكر من استلزام تأخير المغرب فقد قدمنا من القنية استثناء القليل، والركعتان لا تزيد على القليل إذا تجوز فيهما " انتهى من "فتح القدير" (1/445-446)
”اعلاء السنن“ میں ہے:
”فرجحت الحنفیّة أحادیث التعجیل لقیام الإجماع علی کونہ سنّة وکرہوا التنفّل قبلہا ولا یخفی أنّ العامّة لو اعتادوا صلاة رکعتین قبل المغرب لیخلّون بالسنّة حَتْمًا، ویوٴخرون المغرب عن وقتہا قطعًا، وأمّا لو تنفّل أحد من الخصواص قبلہا ولم یخلّ بسنّة التعجیل فلا یلزم علیہ؛ لأنّہ قد رأی بأمر مباح في نفسہ أو مستحب عند بعضہم، فحاصل الجواب أن التنفّل قبل المغرب مباح في نفسہ وإنّما قلنا بکراہتہ نظرًا إلی العوارض․ (إعلاء السنن، ۲/۶۹، مبحث الرکعتین قبل المغرب)
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کی سنیت پہ تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔
البتہ اشارہ کی  صورتوں کی تعیین میں ائمہ کے اقوال مختلف ہیں ۔اس کا طریقہ احناف کے نزدیک یہ ہے کہ اشہد أن لا إلٰہ إلا اللہ کہتے ہوئے ”لا إلٰہ“ پر شہادت کی انگلی اٹھائے اور ”إلا اللہ“ پر گرادے۔
"عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھما قال فیہ کان اذا جلس فے الصلوٰۃ وضع (یرید رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) کفہ الیمنی علی فخذہ الیمنی وقبض اصابعہ کلھا واشار باصبعہ التی تلی الابھام"
یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے تشہد میں اپنا دہنا ہاتھ دہنی ران پر رکھا اور سب انگلیاں بند کرکے انگوٹھے کے پاس انگلی سے اشارہ فرمایا۔
(صحیح مسلم باب صفۃ الجلوس فی صلوٰۃ الخ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۲۱۶)
وعنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الاشارۃ بالاصبع اشد علی الشیطان من الحدید"
یعنی فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے انگلی سے اشارہ کرنا شیطان پر دھار دار ہتھیار سے زیادہ سخت ہے۔
(مسند احمد بن حنبل ازمسند عبداﷲ ابن عمر مطبوعہ دارلفکر بیروت ۲/۱۱۹)
وعنہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ ایضاعن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ھی مذعرۃ للشطان"
یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا وہ شیطان کے دل میں خوف ڈالنے والا ہے۔
(السنن الکبرٰی للبیہقی باب من روی انہ اشاربہا الخ مطبوعہ دار صادر بیروت ۲/۱۳۲)
واخرج ابوداؤد والبیھقی وغیرھما عن سیدنا وائل بن حجر رضی اﷲ عنہ ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عقد فی جلوس التشھد الخنصر والبنصرثم حلق الوسطی بالابھام و اشار بالسبابۃ"
یعنی نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے جلسہ تشہد میں چھوٹی انگلی اور اُس کی برابر والی کو بند کیا پھر بیچ کی انگلی کو انگوٹھے کے ساتھ حلقہ بنایا اور انگشت ِشہادت سے اشارہ فرمایا
(السنن الکبرٰی للبیہقی باب ماروی فی تحلیق الوسطی بالابہام مطبوعہ دار صادر بیروت ۲/۱۳۱)
وبمعناہ اخرج ابن حیان فی صحیحہ (ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے)
ان روایات میں صرف اشارہ کرنے کا ذکر ہے نہ کہ حرکت کرتے رہنے کا ۔اس لئے احناف کے علاوہ امام بیہقی اور نووی وغیرہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ صرف اشارہ کیا جائے، حرکت کرتے رہنا بہتر نہیں۔
درمختار میں ہے: وفی الشرنبلالیہ عن البرہان: الصحیح أنہ یشیر بمستحبہ وحدہا یرفعہا عند النفی ویضعہا عند الإثبات الخ (درمختار مع الشامی) اس سے معلوم ہوا کہ آپ کے ساتھی کا مذکورہ عمل (یعنی شہادت کی انگلی کو زور زور سے حرکت دینا) درست نہیں۔
نماز سے نکلنے اور حلال ہونے کے لئے سلام ضروری ہے
ارشاد نبوی ہے
(مفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم).
رواه الترمذى فى السنن (1/3-2/238),
وابو داود فى السنن (1/618),
وبن ماجة فى سننه (1/275/276),
والدارمى فى السنن (1/687),
والحاكم فى المستدرك (1/457),
ومسند ابى يعلى الموصلى (1/616-2/1077/1125),
ومسند الامام احمد (1/1006/1072-3/14703)
اِس بات  پر سب کا اتفاق ہے کہ سلام کا کامل درجہ یہ ہے کہ مکمل ” السلام علیکم“کے الفاظ اداء کیے جائیں البتہ اِس میں اختلاف ہے کہ کم از کم کتنی مقدار میں سلام کے الفاظ سے نماز سے خروج ہوجاتا ہے۔
امام شافعی ومالک کے نزدیک ایک مرتبہ ”السلام علیکم“ کہنے سے نماز سے خروج ہوجائے گا ۔
امام احمد بن حنبل کے نزدیک دو مرتبہ ”السلام علیکم“ کہنے سے  خروج ہوگا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایک مرتبہ ”السلام“ کہنےسےنماز سے خروج ہوجاتا ہے، اگرچہ دوسرا سلام بھی راجح قول کے مطابق واجب ہی ہے ۔پس پہلے سلام میں ”السلام“ کہنے سے امام کی نماز پوری ہوجائے گی، اب اگر کوئی آکر امام کے ساتھ شامل ہو تو اُس کو شامل نہیں سمجھا جائے گا۔ (الدر المختار :1/468) (مرعاۃ :3/299) (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : 11/314)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment