Monday 6 August 2018

جامعۃ الصّالحات؛ لڑکیوں کی اولین دینی درسگاہ؛ پچاس سالہ کارگزاری

جامعۃ الصّالحات؛ لڑکیوں کی اولین دینی درسگاہ؛ پچاس سالہ کارگزاری
بھارت کے مالیگاؤں (مہاراشٹر) میں لڑکیوں کے لئے ملک کی اولین اقامتی بین الاقوامی دینی درس گاہ جامعۃ الصّالحات میں پچاس سال پورے کرنے کے موقع پر دو روزہ پچاس سالہ اجلاس 4' 5 اگست 2018، بروز ہفتہ، اتوار کو منعقد ہوا جس میں ہندوستان بھر سے تقریباً چار ہزار فارغات اور انگلینڈ، کینیڈا، امریکہ، بار باڈوز، جنوبی افریقہ، فرانس وغیرہ ممالک سے پچاس غیر ملکی فارغات نے افراد خانہ کے ساتھ شرکت کی۔ ان کے استقبال کیلئے اہلیانِ شہر اپنے دِل نچھاور کئے۔ دو روزہ اجلاس کے سلسلے میں قائم کی گئی کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ہلال احمد کے مطابق بیرون سے آنے والی تمام فارغات کو انصار جماعت خانہ اور اس سے متصل وسیع و عریض واٹر پروف پنڈال میں قیام و طعام اور اجلاس کی مختلف نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جب کہ اُن کے ساتھ آنے والے محرم حضرات کیلئے مالیگاؤں ہائی اسکول کی نئی عمارت میں قیام و طعام اور اجلاس کی نشستوں کا نظم کیا گیا۔ باقاعدہ رجسٹریشن کروانے والی فارغات کو قرطاس جامعہ مجلّہ اور خمار ِفضیلت یعنی 'یادگار دوپٹہ' تفویض کیا گیا۔ مقامی تبلیغی جماعت کے رضاکار ساتھیوں نے طہارت خانے، وضو خانے کا نظم کیا۔ دوروزہ اجلاس کیلئے جامعہ کی زیر تعلیم ایک ہزار طالبات کو بطور والینٹئر مقرر کیا گیا۔ منماڑ ریلوے اسٹیشن پر بھی مندوبین کے استقبال و رہنمائی کیلئے ٹیم 24 گھنٹے موجود رہی۔ ناظمِ جامعہ مولوی افضال احمد کے مطابق پچاس سالہ اجلاس کو جان بوجھ کر ہم نے جشن کا نام نہیں دیا ہے۔ یہ فارغین جامعہ کا دو روزہ جوڑ کہلایا۔ جس میں فراغت کے بعد ان بچیوں کی کارگذاری زبانی و تحریری طور پر مجتمع کی گئی۔ مسلم معاشرہ پر مغربی تہذیب کے بڑھتے اثرات وعلاج، مسلم عورتیں ایک پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل کیلئے کون سے قدم اُٹھائیں، فحاشی و برائیوں کے اس دور میں فارغین جامعہ کس طرح اپنے علاقوں میں برائیوں کا سدباب کریں۔ ان موضوعات پر دونوں دن چار چار سیشن میں مذاکرے ہوئے ساتھ ہی دیوبند، دابھیل، ندوۃ کے جیّد علماء و مبلغین کا خطاب بھی ہوا۔ اس لحاظ سے جامعہ کا پچاس سالہ اجلاس بانیٔ جامعہ مولوی محمد عثمان کے مشن کی تجدید نو کا ذریعہ بھی ثابت ہوا۔
نصف صدی پر محیط ایمان افروز کارگزاری:
ناظم جامعۃ الصالحات مولوی افضال احمد محمد عثمان نے اس پچاس سالہ سفر کی کارگذاری اس طرح بیان کی:
س: کتنے برسوں سے آپ جامعہ کے ناظم ہیں؟
ج: فروری 1984 میں بانی جامعہ مولوی محمد عثمان کے انتقال کے بعد 7 اپریل  1984 سے میں نے باگ ڈور سنبھالی۔ اس طرح 34 ہوگئے۔
س: جامعہ کی طالبا ت آپ کو کیا پُکارتی ہیں؟
ج: ناچیز کو بچیاں افضال چچا سے پکارتی ہیں۔
س: پچاس برسوں کی طویل تعلیمی تربیتی خدمات اور جامعہ کا فیضان اگر آپ مختصراً کہنا چاہیں تو کیا کہیں گے؟
ج: اگر اس شہر کو مسجدوں میناروں کا شہر کہا جاتا ہے تو یقیناً اس شناخت کی تشکیل میں جامعہ کی فارغات کا بڑا حصہ ہے، بالخصوص مالیگاؤں کا ''حجاب کلچر'' اسی کی دین ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1952-55 کے دوارن جب میں بچہ تھا اپنی والدہ کے ساتھ رشتہ داروں سے ملنے جایا کرتا تھا۔ والدہ کو کہیں جانا ہو تو مجھے اپنی انگلی پکڑکر ساتھ رکھتی تھیں۔ والدہ اُن دنوں ٹوپی والا برقع پہنتی تھیں۔ گلی محلے میں اکثر بچے شرارتاً پتھر مارتے، چڑاتے اور فقرے کستے، برقع والی بُو بو کہہ کر شور مچاتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مالیگاؤں کی مسلم خواتین میں 1950 تا 1960 کی دہائی تک برقع رائج نہیں تھا۔ اکّا دُکّا عورتیں گھر سے نکلتے وقت شرعی حجاب استعمال کرتی تھیں۔ الغرض معاشرہ نقاب سے نامانوس تھا۔ جامعۃ الصالحات نے لڑکیوں میں برقع اس قدر عام کردیا کہ آج اگر کوئی بغیر برقع کے محلوں میں نکل جائے تو بچے حیرت کریں اور ہوسکتا ہے کہ ایسی لڑکیوں، عورتوں کو ستایا بھی جائے، معاشرہ کی یہ تصویر یوں ہی نہیں بدلی ہے۔
س: جامعۃ الصالحات کا دوسرا بڑا کارنامہ کیا ہے؟
ج: اس مدرسہ کی فارغات آج اپنے خاندان اور گلی محلے میں مذہبی قیادت کررہی ہیں۔ عورتوں میں تعلیم اجتماع کا اہتمام، چھوٹی چھوٹی اچھی باتوں کی ترغیب، نماز اور روزے کے مسائل، حج عمرہ اور صدقہ زکوۃ سے متعلق مسائل میں عورتوں کی رہنمائی اکثر فارغاتِ جامعہ ہی کیا کرتی ہیں۔
س: حالیہ ایام میں طلاق، نکاح، حلالہ اور اس طرح کے کئی معاملات کی گونج عدالتوں سے ایوانوں تک سنائی دے رہی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے خواتین کی بیداری کیلئے جو ملک گیر مہم شروع کی ہے اس میں جامعہ کا کیا کردار رہا ہے؟
ج: ملک کی مختلف ریاستوں میں اور شہر عزیز میں مسلم پرسنل لا بیداری مہم کے تحت منعقد ہونے والے جلسوں میں اگر آپ لیڈیز مقررین کی فہرست دیکھیں تو ہر جگہ صالحاتی بہنیں قیادت کرتی نظر آئیں گی۔
س: جامعۃ الصالحات سے ترغیب پاکر ہندوستان کی مختلف ریاستوں اور مہاراشٹر میں کافی تعداد میں جامعات کھلے ہیں ان میں کیا رول رہا ہے؟
ج: اکثر جگہ فارغاتِ صالحات نے ہی پہل کی ہے بہت سی بچیاں فراغت کے بعد شادی بیاہ کے سبب دوسری ریاستوں، دوسرے ملکوں تک منتقل ہوئیں اور جب کبھی کہیں کسی مدرسے کے بارے میں معلوم ہوتا اور ہماری بچیوں کی دینی مِلّی خدمات کا تذکرہ سُن کر روح خوش ہوجاتی ہے۔
س: مالیگاؤں شہر کی مجموعی تعلیمی بیداری اور مِلّی بیداری میں صالحاتی بہنوں کا کیا کردار رہا ہے؟
ج: مثل مشہور ہے کہ ایک خاتون کا تعلیم یافتہ ہونا پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانے میں معاون رہتا ہے۔ صالحاتی بچیوں نے اپنے گھروں کو سنوارا ہے۔ اُٹھنے، بیٹھنے، رہنے سہنے کی تہذیب میں زبردست بدلاؤ لایا ہے۔ نئی نسل کی اعلیٰ تعلیم کی طرف رغبت، پیش رفت اور عصری تعلیم کیلئے ہماری لڑکیوں کا بیرون شہر جاکر ہاسٹل کی زندگی کا سامنا کر نا یہ سب سلیقہ مندی اُنھیں اپنی صالحاتی ماؤں سے ہی ملتی ہیں۔
اور یہ بھی دیکھئے کہ آج مالیگاؤں میں کسی گلی محلے میں خاتون کا انتقال ہوجائے تو میّت کو غسل دینے سے لے کر پسماندگان کو تسلی دینے، میت کے گھر میں پہنچ کر شریعت کی روشنی میں آخرت و قبر کا بیان کرنا یہ سب ہماری بچیاں ہی کررہی ہیں۔ ورنہ ایک زمانہ وہ تھا کہ پورے گاؤں میں گِنی چُنی خواتین تھیں جو میّت کو غسل دیا کرتی تھیں۔
س: جامعۃ الصالحات کا آغاز بہت چھوٹے پیمانے پر خانوادۂ مولوی عثمان کی بیٹیوں سے ہوا ، پھر اس کی توسیع کس طرح ہوئی کیا یہ اتفاقیہ ہے یا مولوی عثمان کا کوئی منصوبہ تھا؟
ج: دو سال مدرسہ ایک کمرے میں چلنے کے بعد موجودہ جگہ پر جس طرز کی پختہ عمارت میں منتقل ہوا۔ اور سال دو سال مدرسہ کی عمارتوں کی تعمیر بالخصوص ہوسٹل کی عمارت دیکھنے سے ان کے پختہ عزائم و منصوبوں کا پتہ چلتا ہے ۔
س: بیرون کی طالبات کی آمد کا سلسلہ کس طرح شروع ہوا؟
ج: ابتدائی پانچ سال تک کوئی بھی بیرونی طالبہ نہیں تھیں۔ چھٹے، ساتویں سال سے ممبئی ، بھیونڈی ، گجرات سے لڑکیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1980 میں والد صاحب انگلینڈ کے تین ماہ کے دورے پر گئے وہاں جامعہ کا بھرپور تعارف بھی ہوا اور تعاون بھی ملا۔ واپسی پر والد صاحب کے ساتھ انگلینڈ کی چار لڑکیاں تھیں جنھیں یہاں داخلہ دیا گیا۔ قابلِ ذکر ہے کہ گجرات کے مسلمانوں میں جامعہ کا جو اعتماد تھا اور جو اچھی شبیہہ بنی اُس کی وجہ سے گجراتی مسلمان جو جنوبی افریقہ، برطانیہ اور یوروپی ممالک میں آباد تھے۔ وہاں سے اپنی بچیوں کو لاتے رہے، محفوظ ماحول اور اعتماد کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی خاندان کی کئی کئی بچیاں دو چار سال کے وقفے سے بیرون ممالک سے آکر تعلیم حاصل کرتی رہیں۔
س: جامعۃ الصالحات کی بنیاد ڈالنے والے آپ کے والد اور ان کے تین چار مولوی احباب تھے، تو مالیات کا نظم شروع میں کیسے ہوا؟
ج:میرے والد اور ان کے مولوی ساتھی چونکہ مالیگاؤں میں پہلے سے معزز، معتبر اور قائدانہ پوزیشن رکھتے تھے اس لئے بہت جلد اُن کو مقامی پاورلوم صنعت کاروں کا ایک حلقہ مل گیا جو والد صاحب کو مالی تقاضوں اور فکروں سے آزاد رکھتا تھا۔ ان مخلص سرمایہ دار بنکروں میں کچھ تو مدرسہ کے ٹرسٹ میں بھی شامل تھے جیسے حاجی عبدالحمید نورنگ، یوسف اسحاق، محمد نذیر بھلئی، محمد مصطفی بفاتی، محمد ہارون پریاگی، عبدالمجید پہلوان (چمڑے والے)، محمد صابر سیٹھ (گلشن مقادم) وغیرہ ۔
لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1972 میں میرے بڑے بھائی ساتھی نہال احمد کے اسمبلی الیکشن ہارنے کے بعد شروع کی گئی مزدور تحریک نے سرمایہ دار طبقہ اور بنکروں کو اس قدر متنفر کردیا تھا کہ رنگین ساڑی کے کارخانہ داروں نے عارضی طور پر مدرسہ کے چندے کو کئی سال تک روکے رکھا۔ یہاں تک کہ میرے والد مرحوم کو مالی تقاضوں کیلئے اسفار کرنے پڑے اور ان کے برطانیہ دورے کا بھی سبب یہی تھا۔ کہتے ہیں کہ قدرت کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے چنانچہ یہ بحران تو والد صاحب کی دوڑ دھوپ سے جلد ختم ہوگیا لیکن پڑوسی ریاستی اور یوروپی ممالک میں ادارے کے تعارف کی سبیل بھی پیدا ہوگئی۔
س: کن بڑے بزرگوں نے اس مدرسے کو وزٹ کیا؟
ج: یہ تو ایک لمبی فہرست ہے۔ مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ، وائس چانسلر سید حامد، قاری صدیق باندوی رحمہ اللہ، مولانا اسرار الحق قاسمی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا قمر الزماں الہ آبادی، دکتو ر الشیخ عبدالرحیم (مدینہ یونیورسٹی)، مولانا عبداللہ معروفی (دارالعلوم دیوبند) وغیرہ کے اسمائے گرامی اس وقت مجھے یاد آرہے ہیں اور یہ تذکرہ بھی کہ اللہ کے ولی قاری محمد صدیق باندوی ایک دن اکیلئے مدرسہ تشریف لائے میں اپنی نشست پر بیٹھا حساب کتاب دیکھتا رہا۔ بازو میں بیٹھتے ہوئے اتنا کہا کہ ''میں قاری صدیق ہوں'' میں انہیں پہچان نہ سکا نہ ہی اُنھیں ایک گلاس پانی کی پیشکش کرسکا۔ مدرسہ میں وزٹ کے بعد جب وہ چلے گئے تو پچاسوں بڑے بڑے لوگ مدرسہ آئے اور مجھے بتلایا کہ وہ عالم اسلام کی مایہ ناز ہستی قاری صدیق باندوی تھے۔ جو نہایت سادگی سے عام لوگوں کی طرح مدرسہ دیکھ کر چلے گئے، سچ ہے کہ ایسے اللہ والوں کی دعاؤں کے طفیل ہی یہ مدرسہ پچاس سالہ سخت و گرم حالات اور آزمائشوں سے گذرتے ہوئے اپنی تاسیسی و فکری بنیادوں پر الحمد للہ آج بھی مضبوطی سے کھڑا ہے۔
مرتب: ایس اے ساگر

No comments:

Post a Comment