Wednesday 8 August 2018

دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا؟

دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا؟
------------------------------
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے
کی دو قسمیں ہیں:
(1) جمع حقیقی ۔
(2) جمع صوری ۔
جمع صوری: وہ ہے کہ دو فرضوں کو اپنے اپنے وقت میں اس طرح اداء کیا جائے کہ دونوں کے درمیان قرب اور اتصال ہو، یعنی فرضِ اول اپنے وقت کے آخر میں اور فرضِ ثانی اپنے وقت کی ابتداء میں اداء کیا جائے، جس سے بظاہر دونوں کی جمعیت معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ جمع نہیں ہیں   اس کو جمع فعلی بھی کہتے ہیں ۔
جمع حقیقی: یہ ہے کہ دو فرضوں کو ایک فرض کے وقت میں پڑھا جائے۔ اور اس کو جمع وقتی بھی کہتے ہیں۔
پھر اس کی دو صورتیں ہیں: 
(1) جمع تقدیم۔
(2) جمع تاخیر۔
جمع تقدیم: یہ  ہے کہ فرض ثانی کو مقدم کرکے فرضِ اول کے وقت میں اداء کیا جائے۔ جیسا کہ عرفات میں عصر کو مقدم کر کے ظہر اور عصر دونوں کو ظہر کے وقت میں اداء کیا جائے ۔
جمع تاخیر: یہ  ہے کہ فرضِ اول کو مؤخر کر کے فرضِ ثانی کے وقت میں اداءکیا جائے، جیسا کہ مزدلفہ میں مغرب کو مؤخر کرکے مغرب اور عشاء دونوں کو عشاء کے وقت میں پڑھتے ہیں۔
جمع صوری کے جواز میں کسی کا بھی  اختلاف نہیں ہے، البتہ جمع حقیقی جائز ہے یا نہیں، اِس میں ائمہ مجتہدین کا  اختلاف ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ  عرفات میں جمع تقدیم اور مزدلفہ میں جمع تاخیر مشروع وجائز ہے، اِس کے علاوہ کسی عذر یا موقع پر جمع بین الصّلاتین خواہ تقدیم ہو یا تاخیر، جائز نہیں ۔
ائمہ ثلاثہ (مالک، شافعی احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے یہاں  جمع حقیقی مطلقاً جائز ہے، یعنی جمع تقدیم بھی کی جاسکتی ہےاور جمع تاخیر بھی، البتہ جمع بین الصّلاتین کے جَواز کیلئے ائمہ ثلاثہ کے مسلَک میں بھی کافی شرائط و تفصیلات ہیں، جس کو اُن کی کتابوں میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ (نفحات التنقیح : 2/686) (الفقہ علی المذاہب :1/438 تا 442)
جمع بین الصلاتین کے عدم جواز کے دلائل:
ان الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین کتا باًموقوتا ً(سورۂ نساع ۱۶)
(یعنی نماز ایسا فرض ہے جس کے اوقات محدود ہیں ان اوقات سے اسے نکال دینا درست نہیں)۔
حافظوا علی الصلوات والصلوٰۃ الوسطیٰ۔
تمام نمازوں کی پوری محافظت کرو ، ان کو ان کے اوقات میں ادا کرو (جلالین شریف) خصوصاً درمیانی نماز (عصر کی نماز) سورۂ بقرہ ع ۳۲۔
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد نہایت صحیح سندوں سے ثابت ہے کہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ نے نماز پڑھی اپنے وقت ہی میں پڑھی صرف دونمازیں جو عرفات اور مزدلفہ میں (زمانہ حج میں) پڑھی جاتی ہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں کہ عرفات میں ظہر اور عصر اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ساتھ ساتھ پڑھی جاتی ہیں ۔ عن عبد اﷲ قال کان رسول اللہ ﷺ یصلی الصلوٰۃ لو قتھا الا بجمع وعرفات (نسائی شریف ج۱ص ۱۷۱ کتاب الحج باب الجمع بین الظھر والعصر بعرفۃ)وفی الصحیحین عن ابن مسعود والذی لا الہ غیرہ ماصلی رسول اﷲ ﷺ صلوٰۃ قط الا لو قتھا الا صلوتین جمع بین الظھر والعصر بعرفۃ وبین المغرب والعشاء بجمع (ج۱ ص ۳۵۵ کتاب الصلاۃ قبیل باب الا ذان) (شرح نقایہ ج۱ ص ۵۴۔۵۳)
ایک واقعہ غزوۂ خند ق کا ہے کہ دشمن چڑھ آئے، حفاظت کے لئے خندق کھودی گئی تھی تیروں کی بارش برس رہی تھی جس کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ظہر، عصر، مغرب وعشاء کی نماز بروقت نہ پڑھ سکے، جس کا اتنا صدمہ ہوا کہ خلاف عادت آپ  نے دشمنوں کے حق میں بددعا کی کہ خداء پاک ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے۔ (بخاری شریف ج۱ ص ۸۳ باب من صلی بالناس جماعۃ بعد ذھاب الوقت)
عن علی ان رسول اﷲ ﷺقال یوم الخندق حبسو نا عن الصلوٰۃ الوسطی صلوۃ العصر ملأ اﷲ بیو تھم ج وقبورھم ناراًمتفق علیہ (مشکوٰۃ ص۶۳ باب تعجیل الصلوٰۃ) عن عبد اﷲ بن مسعود قال کنا مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسم فحبسنا صلوٰۃ الظھر والعصر والمغرب والعشاء فاشتد ذلک علی فقلت فی نفسی نحن مع رسول اﷲ ﷺوفی سبیل اﷲ فامر رسول اﷲ ﷺبالا قامۃ فصلی بنا الظھر الخ (نسائی شریف ج۱ ص ۵۵ باب الاذان الکتفآء بالا قامۃ لکل صلوٰۃ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
 کو جنگ احد میں کتنی ایذائیں پہنچیں مگر بد دعا نہ کی لیکن غزوۂ خندق کے موقع پر نمازیں وقت پر ادا نہ کر سکے ۔ حافظواعلی الصلوات۔ پر عمل نہ ہوسکا ﷲ کے فرائض کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی یہ ناقابل برداشت تکلیف تھی جس کی وجہ سے بددعا کی تو پھر یہ قول کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہر، عصر، مغرب ، عشاء کی نمازیں بلا عذر کے ایک ساتھ پڑھتے تھے یہ کیونکر قابل تسلیم ہوسکتا ہے؟
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے تلک صلوٰۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی اذا اصفر وکانت بین قرنی الشیطان قام فنقرار بعاً لا یذکر اﷲ فیھا الا قلیلا (مشکوٰۃ ص۶۰) (ترجمہ) یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا رہے آفتاب کا انتظار کرتا رہے جب آفتاب زرد پڑجائے اور شیطان کے دوسینگوں کے بیچ میں پہنچ جائے (غروب ہونے لگے) تو چار ٹھونگ مارلے۔ نہ یاد کرے خدا کو مگر تھوڑا سا (برائے نام کچھ خدا کو یا د کرلے)
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد تم پر ایسے سردار بنیں گے کہ نمازوں میں تاخیر کریں گے تمہیں اپنی نمازوں کا ثواب ملتا رہے گا مگر ان سرداروں کے حق میں یہ وبال ہوں گی۔ عن قبیصۃ بن وقاص قال قال رسول اﷲ ﷺیکون علیکم امراء من بعدی یؤخرون الصلوٰۃ فھی لکم وھی علیھم فصلوا معھم ماصلوا القبلۃ ۔رواہ ابو داؤد(مشکوٰۃ ص ۶۲باب تعجیل الصلوٰۃ الفصل الثالث)
غور فرمایئے وقت مسنون سے ہٹی ہوئی نماز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منافق کی نماز فرما رہے ہیں تا خیر کرنے والے امراء اور سرداروں کو وبال کی خبر دے رہے ہی تو ان کا کیا حکم ہوگا جو پورا وقت ختم کر کے قضاکر دی ۔ (فتاوی رحیمیہ)
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں ہر وقت کے حاضر باش تھے آپ کی مسواک اور تکیہ وغیرہ انہیں کے پاس رہتا، وضو کے لئے پانی بھی اکثر وہی مہیا کرتے اسی وجہ سے ان کا لقب صاحب السواک والوسادۃ والطہور ہوگیا تھا۔ فرماتے ہیں:
ما رایت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جمع بین الصلوٰتین الا بجمع۔ رواہ البخاری ومسلم ۔(نصب الرایہ للزیلعی ج ۲ ص ۱۹۴۔)
ترجمہ:۔ میں نے رسول ﷲ 
صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اپنے وقت کے سواء میں پڑھی ہو مگر دو نمازیں مغرب وعشاء کی مزدلف میں۔ روایت کیا اس کو مسلم و بخاری نے۔ اور نسائی ص ۴۷۱ کی روایت میں ہے عن عبداﷲ قال کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یصلی الصلوٰۃ بوقتھا الا بجمع وعرفات۔ ترجمہ:۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو ہمیشہ اپنے وقت میں پڑھتے تھے، مگر مزدلفہ اور عرفات میں۔ اور خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جن کی روایت جمع بین الصلوٰتین کے جواز کے بارے میں پیش کی گئی ہے۔ روایت ہے:
من جمع بین الصلوٰتین من غیر عذر فقداتی بابا من الکبائر رواہ الترمذی۔ (نصب الرایہ الزیعلی ج۲ ص ۱۹۳)
ترجمہ:۔ جس شخص نے جمع کیا دو نمازوں کو بدون عذر کے اس نے کبیرہ گناہ کیا۔ (روایت کیا اس کو 
ترمذیؒ نے)۔
اس حدیث  کے اسناد میں ضعف ہے جس کو ترمذیؒ نے بیان فرمایا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی تحریر فرما دیا ہے کہ عمل جمہور امت کا باوجود اس ضعف کے اسی حدیث پر ہے۔ یعنی جمع بین الصلوٰتین کو بدون عذر جائز نہیں رکھتے جس سے اس ضعف کا انجبار ہوسکتا ہے۔
خاتم الحفاظ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی ؒ تلخیص تخریج زیلعی ص ۱۳۱ میں فرماتے ہیں
واخرجہ البیہقی عن عمر مرفوعاً۔

ترجمہ:۔ اور اس روایت کو بیہقی نے حضرت عمر 
رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اتنا فرما کر سکوت کرتے ہیں، کوئی قدح اس کی اسناد وغیرہ میں نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ اگر اس کی اسناد میں کوئی نقص ہوتا تو ضرور تحریر فرماتے جیسا کہ ترمذی کی اسناد کو نقل کر کے اس کی تضعیف کی ہے اور نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے باسناد صحیح روایت ہے 
عین طاؤس عن ابن عباسؓ قال لا یفوت صلوٰۃ حتیٰ یجیی ٔ وقت الا خری۔ رواہ الطحاوی واسنادہ صحیح۔( الصلوٰتین ج۱ ص ۹۸۔۱۲)
ترجمہ:۔ روایت ہے طاوس سے، وہ روایت کرتے ہیں ابن عباس 
رضی اللہ عنہ سے کہ فرمایا انہوں نے کہ کوئی نماز فوت نہیں ہوتی جب تک کہ دوسری نماز کا وقت نہ آجاوے۔ روایت کی اس کو طحاوی نے۔ پس معلوم ہوگیا کہ جب دوسری نماز کا وقت آجاتا ہے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی پہلی نماز فوت ہوجاتی ہے۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند ملخصا)
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ دو نمازوں کو حقیقی طور پہ جمع کرنا جائز نہیں ہے نہ سفر میں نہ حضر میں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح جمع کرنا ثابت نہیں ہے۔
جو احادیث جمع کے جواز پہ پیش کی جاتی ہیں ان سے جمع صوری مراد ہے اس کے تو ہم بھی قائل ہیں!
واما ماروی من الجمع بینہما فمحمول علی الجمع فعلابان صلی الاولی فی آخروقتہا والثانیۃ فی اول وقتہا‘‘… (البحرالرائق: ۱ / ۴۴۱)
’’ولایجوز الجمع عندنابین صلوتین فی وقت واحدسوی الظہروالعصربعرفۃ والمغرب والعشاء بمزدلفۃ‘‘… (حلبی کبیری : ۴۷۰)
واللہ اعلم بالصوب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment