Wednesday 15 August 2018

اولیائے کرام اور ان کی کرامات

اولیائے کرام اور ان کی کرامات
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن، وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
اولیاء کرام کی کرامات پر اتفاقِ امت
دنیا کے تمام مذاہب کی طرح دین اسلام میں بھی ابتدا سے ہی خرق عادت کے متعدد واقعات موجود ہیں۔ خرق عادت دراصل وہ عمل ہے جس کا احاطہ انسان کی عقل کسی خاص زمانہ ومکان میں بظاہر نہیں کرپاتی ہے۔ اسی عمل کو دینی اصطلاح میں معجزے اور کرامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک مخصوص ’سیاسی مذہبی‘ ذہن رکھنے والے بعض حضرات کی تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عناصر اللہ کے نیک اور متقی بندوں سے کسی خرق عادت عمل کے ظاہر ہونے کے یکسر منکر ہیں جب کہ قرآن کریم کا ہر طالب علم ایسے متعدد واقعات سے واقف ہے جن کا ذکر انبیاء کرام اور متقی لوگوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اسی لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ 1400 سال سے اس بات پر مکمل طور سے متفق ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح خرق عادت عمل (یعنی معجزہ) ابنیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے، وہیں خرق عادت عمل (یعنی کرامات) اپنے متقی پرہیزگار بندوں کے ذریعہ بھی ظاہر کرتا ہے جن کو یقیناً وہ اپنا کچھ علم عطا فرماتا ہے۔
بر صغیر ہند، پاک کے علماء کی طرح پوری دنیا کے علماء خاص طور پر سعودی عرب کے علماء بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کے حکم سے اللہ والوں کے ذریعہ ایسے خرق عادت اعمال ظاہر ہوتے ہیں جن کا احاطہ انسان کی عقل نہیں کرپاتی ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب کے علماء کی رائے اور سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ ان کی آفیشل ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے اور سنا بھی جاسکتا ہے۔ اس مختصر مضمون میں دلائل پر گفتگو نہیں کی جاسکتی، صرف ایک حدیث قدسی پیش ہے:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی اُن چیزوں سے جو مجھے پسند ہیں، میرا قرب زیادہ حاصل کرسکتا ہے، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تومیں اس کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ صحیح بخاری ۔ کتاب الرقاق ۔ باب التواضع
ایسے بہت سے امور ہیں جہاں تک ہماری عقل کی رسائی نہیں ہے اور ہم اُن کو من وعن تسلیم کرلیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کے ہر مسلک کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض ایسے کام یعنی کرامات اس کے برگزیدہ بندوں کے ذریعہ رونما ہوتی ہیں جنہیں انسانی عقل بظاہر قبول نہیں کرتی، تاہم عقیدہ کی بنیا د پر ان کا یقین کیا جاتا ہے۔
اس موضوع پر سعودی عرب کے جید علماء کا موقف مذکورہ لنک کے ذریعہ پڑھا جاسکتا ہے جس میں وضاحت کے ساتھ مذکور ہے کہ انبیاء کرام کے ذریعہ خرق عادت عمل کا ظہور معجزہ جبکہ اولیاء اللہ کے ذریعہ خرق عادت عمل کا واقع ہونا کرامت کہلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بعض وجوہات کے پیش نظر خرق عادت بعض اعمال اللہ کے نیک بندوں کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے اور یہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے:
http://www.alifta.net/fatawa/fatawaDetails.aspx?BookID=5&View=Page&PageNo=1&PageID=231
سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم دین شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے:
http://www.binbaz.org.sa/noor/1354
موضوع بحث اس مسئلہ میں سعودی عرب کے علماء کرام کے فتاوی کا خصوصی تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ علماء سعودی عرب اولیاء کرام سے واقع ہونے والی کرامات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ سعودی علماء کے موقف کا ایک سرسری مطالعہ اس غلط فہمی کا مکمل طور پر ازالہ کردیتا ہے۔ جہاں تک بر صغیر ہند، پاک کے علماء کا تعلق ہے تو ان کا اس موضوع پر قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے کہ خرق عادت کسی عمل کا انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے اظہار معجزہ کہلاتاہے، جبکہ اللہ کے دوسرے برگزیدہ بندوں سے ایسے کسی عمل کا رونما ہونا کرامات کہلاتا ہے۔
اگر تاریخ کی کتابوں میں اللہ کے کچھ مخصوص نیک بندوں کے حوالے سے خرق عادت کوئی واقعہ منسوب ہے تو کوئی وجہ ایسی نہیں ہے کہ ہم اپنی بدعقلی میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے واقع ہونے والی اُس کرامت کے انکار کو اپنے ایمان کی بنیاد بنالیں۔ اب اگر کوئی شخص کسی برگزیدہ عالم دین سے ظاہر ہونے والے کسی خرق عادت عمل کو کرامت تسلیم کرتا ہے تو ایسے شخص کو قرآن وحدیث کی روشنی میں کس بنیاد پر گمراہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر کوئی اپنی بدعقلی میں ایسے شخص پر گمراہی کی تہمت لگاتا ہے تو یہ قرآن وسنت کی خلاف ورزی اور اس سے انحراف ہے۔
ابتداء اسلام سے ہی بے شمار علماء کرام نے اولیاء کرام رحمہم اللہ کے کرامات کو قلمبند کیا ہے۔ اس ضمن میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661ھ ۔728ھ) کا حوالہ اور ذکر مناسب ہوگا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت کو عالم اسلام میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی مشہور کتاب (الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان) میں اولیاء کرام کے ذریعہ رونما ہونے والی ایسی کرامات اور واقعات کا ذکر کیا ہے جنہیں بظاہر عقل تسلیم نہیں کرتی ہے۔ اس کتاب کے صفحہ 222 سے 230 تک تابعین کے کرامات کے متعدد واقعات کا ذکر موجود ہے، جن میں چند واقعات کا ترجمہ پیش ہے۔ انہوں نے اپنی اسی کتاب میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقابلہ میں تابعین رحمہم اللہ میں کرامات کے واقعات زیادہ ہوئے۔
یمن کے رہنے والے مشہور تابعی حضرت عبد اللہ بن ثوب (ابو مسلم) الخولانی رحمہ اللہ کو جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والے الاسود العنسی نے بلایا اور کہا:
کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟
انہوں نے کہا کہ میں تیری بات نہیں سن رہا۔ اس نے کہا: تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔
انہوں نے کہا: جی ہاں، وہ اللہ کے رسول ہیں۔
چنانچہ آگ دہکاکر انہیں اس میں ڈال دیا گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں اطمینان سے نماز کی ادائیگی کررہے ہیں، اور وہ آگ اُن کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی کی جگہ بن گئی۔
مشہور تابعی حضرت عامر بن قیس رحمہ اللہ اپنی آستین میں دو ہزار درہم خیرات کے لئے لے کر نکلتے اور راستے میں ملنے جلنے والے ہر سائل کو گنے بغیر اس میں سے دیتے جاتے، پھر جب گھر واپس لوٹتے تو ان دراہم کی تعداد اور وزن میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اسی طرح قافلہ کے پاس سے آپ کا گزر ہوا جس کو ایک شیر نے روک رکھا تھا۔ آپ نے شیر کے پاس جاکر اپنے کپڑے سے اس کا منہ پکڑا اور اس کی گردن پر اپنا پیر رکھ کر فرمایا:
’’تو اللہ کے کتوں میں سے ایک کتا ہے اور مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ اس کے سوا کسی اور چیز سے ڈروں.‘‘
اور یوں قافلہ گزرگیا۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ ان کے لئے سردی میں وضو کرنا آسان ہوجائے۔ چنانچہ اس کے بعد ان کے پاس جو بھی پانی پیش ہوتا اس سے بھاپ نکلتی رہتی۔
مشہور تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ حجاج کی نظر سے ایسا اوجھل ہوئے کے چھ مرتبہ لوگ اُن کے پاس گئے اور انہیں نہ دیکھ سکے۔ ایک شخص آپ کو تکلیف دیتا تھا، آپ نے اس پر بددعا کی اور وہ فوراً مرگیا۔
مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے زمانہ میں حرۃ کی طرف سے جب مدینہ منورہ محصور ہوا تو حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ نماز کے اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر سے اذان کی آواز سنتے تھے حالانکہ مسجد بالکل خالی ہوچکی ہوتی تھی۔
مشہور تابعی حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کی جب وفات ہوئی تو ان کے کپڑے کے اندر کفن ملے جو پہلے سے ان کے پاس نہیں تھے، اور ایک پتھریلی زمین میں ان کی قبر بھی کھودی ہوئی تیار ملی، چنانچہ اسی کفن کے ساتھ اسی قبر میں دفن کردیا گیا۔
مشہور تابعی حضرت ابراہیم تیمی رحمہ اللہ ماہ دو ماہ بغیر کچھ کھائے رہ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے گھر والوں کے لیے کھانا لانے کے غرض سے نکلے اور کچھ میسر نہ ہوسکا تو سرخ ریت کی ایک گٹھری باندھ لی۔ جب گھر والوں کے پاس پہنچے اور گھر والوں نے گٹھری کھولی تو دیکھا کہ سرخ گیہوں ہیں۔ وہ جب اس گیہوں کو بوتے تھے تو اس سے ایسی بالیاں نکلتی تھیں کہ جڑ سے لے کر شاخ تک دانوں سے لدی ہوتی تھیں۔
مشہور تابعی حضرت مطرف بن عبداللہ بن الشخیر جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو ان کے ساتھ ساتھ ان کے گھر کے برتنوں سے بھی تسبیح کی آواز آتی تھی۔ وہ اور ان کے ایک ساتھی اکثر اندھیرے میں چل رہے ہوتے تو ان کے کوڑے کے سرے سے روشنی نکلتی تھی اور اندھیرا ختم ہوجاتا تھا۔
قبیلہ نخع کے ایک شخص کا گدھا راستہ میں مرگیا۔ اس شخص کے دیگر ساتھیوں نے کہا کہ چلو ہم تمہارا سامان اپنے درمیان تقسیم کرلیتے ہیں یعنی تمہارا سامان ہم اپنے گدھوں پر تھوڑا تھوڑا رکھ لیتے ہیں۔ اُن صاحب نے کہا کہ مجھے تھوڑی مہلت دو۔ چنانچہ انہوں نے اچھی طرف وضو کیا ، دو رکعات نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے خوب دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے گدھے کو زندہ کردیا، پھر انہوں نے اپنا ساز وسامان دوبارہ اپنے گدھے پر رکھ دیا۔
مشہور تابعی حضرت عمرو بن عتبہ رحمہ اللہ ایک دن نماز پڑھ رہے تھے، گرمی سخت تھی، اچانک بادل ان پر سایہ کرنے لگا۔ جب وہ جہاد میں اپنے ساتھیوں کی سواریوں (جانوروں) کو چراتے تھے تو چیر پھاڑ کرنے والا جانور بھی سواریوں کی حفاظت کرتے تھے۔
مشہور تابعی حضرت عبد الواحد بن زید رحمة اللہ علیہ فالج کے شکار ہوگئے۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ وضو کرتے وقت ان کے اعضاء درست ہوجائیں۔ چنانچہ وہ جب بھی وضو کرتے تھے ان کے اعضاء درست ہوجاتے تھے۔ وضو سے فراغت کے بعد ان کے اعضاء پہلے کی طرح مفلوج ہوجاتے تھے۔
مشہور تابعی حضرت عتبہ الغلام رحمہ اللہ علیہ اللہ سے تین چیزوں کی دعا مانگتے تھے۔ اچھی آواز، وافر مقدار میں آنسو اور بغیر کچھ کئے کھانا۔ چنانچہ جب وہ تلاوت کرتے تھے وہ خود بھی روتے تھے اور دوسروں کو بھی رلاتے تھے۔ آنکھوں سے آنسو کافی دیر تک جاری رہتے تھے۔ اور جب اپنے گھر جاتے تھے تو گھر میں کھانے کی چیزیں خود ہی مل جاتی تھیں اور انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں کہاں سے میسر ہوئیں؟
یہ چند واقعات میں نے دنیا کے مشہور ومعروف عالم دین علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب (الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان) سے نقل کئے ہیں۔ یہ بات واضح کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ شریعت اسلامیہ کے اصول ومآخذ قرآن وحدیث یا قرآن وحدیث کی روشنی میں اجماع امت اور قیاس ہی ہیں۔ بزرگوں کے واقعات سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا ہے لیکن نیک لوگوں کے واقعات سے بصیرت ضرور حاصل ہوتی ہے۔ اس استفادہ کے پیش نظر ابتدا سے ہی بزرگوں کی کرامات اور اُن کے واقعات تحریر کیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن کتابوں میں مذکور بعض کرامات اور واقعات کی بنیاد پر اہل سنت والجماعت کے کسی مکتب فکر یاعالم دین (خواہ وہ کسی بھی مسلک کا ہو) کی تضحیک کرنا یا تکفیر کرنا یا اس کو برا بھلا کہنا قطعاً دین نہیں ہے بلکہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کے سراسر خلاف ورزی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری بحث ومباحثہ سے ایسا یقین ہوتا ہے کہ بعض حضرات اصلاح کے نام پر ملت اسلامیہ میں تخریب اور فساد برپا کرنے پر مصر ہیں اور ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ ’’اصلاح مذہبیت‘‘ کا فریب دے کر اپنے حلقے کو وسیع کریں۔ یہ بھی دیکھا جارہاہے کہ اس طرح کے لوگ کسی متقی عالم دین یا کسی مکتب فکر کی دینی واصلاحی خدمات کو ذکر کرنے کے بجائے اُن پر کیچڑ اچھالنا اپنی انا کی تسکین اور اپنے تخریبی مشن کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس بات سے ہم سب ہی واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ابنیاء کرام ہی معصوم کے درجے پر فائز ہیں۔ بقیہ تمام لوگ غلطی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ ہمارے علماء دین بھی بشر ہیں اور ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور کوتاہی بھی۔ لیکن اپنے ذاتی مفادت حاصل کرنے کے لیے علماء دین یا کسی مکتبہ فکر کی تضحیک، سب وشتم ایک شیطانی عمل ہے۔ اختلاف رائے بالکل کیا جاسکتا ہے لیکن اپنے بارے میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ علماء دین کی اِس تذلیل وتضحیک سے کس اسلامی مسلک کی یا کس سیاسی جماعت کی خدمت مقصود ہے؟
اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور میں دست بدعا ہیں کہ مسلمانوں کو اخوت ومحبت کے اصول پر کاربند رہ کر دین اسلام پر چلنے اور دوسروں کو اس کی دعوت دینے والا بنائے۔ آمین۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عربی کتاب (الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان) مندرجہ ذیل لنک کے ذریعہ مفت ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے:
http://waqfeya.com/book.php?bid=5877
یہاں ایک دوسرے مسئلہ کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم ودیگر کتب حدیث میں وارد احادیث کی بنیاد پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ سارے نبیوں کے سردار اور ساری کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، جن کو خواب میں دیکھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو حالت بیداری (جاگنے) میں دیکھنا ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکیدی طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا اُس نے مجھے بیداری کی حالت میں دیکھا، قیامت تک شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ اگر کسی شخص نے سید البشر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کیوں کہا کہ وہ مجھے بیداری (جاگنے) کی حالت میں دیکھنے والا ہے۔ یقیناًاس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے سید الانبیاء کو خواب میں دیکھا تو وہ پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا۔ لہٰذا اگر کوئی اللہ کا ولی کہے کہ میں نے دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فلاں اللہ والے کو حدیث پڑھارہے ہیں تو وہ اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث پر ہی تو عمل کررہا ہے۔ کس بنیاد پر اللہ کے نیک بندہ کے اس دعوی کو رد کیا جاسکتا ہے؟
رہا یہ معاملہ کہ اُسے کیسے معلوم ہوا کہ اُس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو ہی خواب میں دیکھا تو ظاہر ہے اِس کے فیصلہ کا حق کسی بھی شکل میں کسی دوسرے شخص کو نہیں پہنچتا۔ ہمارے پاس قرآن وحدیث کی روشنی میں اُس شخص کے بیان کو مسترد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے جو یہ کہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو حدیث پڑھاتے دیکھا۔ نیز اُس اللہ والے کی پوری زندگی بتارہی ہے کہ وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پنجاب میں واقع اُس کے گھر میں تشریف نہیں لائے بلکہ آج سے تقریباً1400 سال قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اِس فانی دنیا سے رخصت ہوکر قبر اطہر میں آرام فرمارہے ہیں، لیکن ہاں! عالم برزخ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی عام لوگوں کی زندگی سے یقیناً مختلف ہے کیونکہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر اطہر پر جاکر ’’یا‘‘ حرف ندا کے ساتھ درود وسلام پڑھتے ہیں تووہ ہمارے سلام کا اس حال میں جواب دیتے ہیں کہ آپ کی روح آپ کے جسم میں لوٹادی جاتی ہے، جیساکہ سنن ابوداود میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان موجود ہے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر میں حیات ہیں، البتہ کیفیت معلوم نہیں، جو شیخ بن باز ؒ کی آفیشل ویب سائٹ پر مندرجہ ذیل لنک کے ذریعہ پڑھی جاسکتی ہے:
http://www.binbaz.org.sa/fatawa/1665
نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورۃ آل عمران 169) میں شہیدوں کے متعلق فرمایاکہ وہ زندہ ہیں، انہیں مردہ مت سمجھو اور انہیں رزق بھی دیا جاتا ہے، ہاں زندگی کی کیفیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کا درجہ شہیدوں سے کہیں بلند وبرتر ہے۔ امت مسلمہ اس بات پر بھی متفق ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر میں حیات ہیں البتہ زندگی کی کیفیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ انسان کی عقل چونکہ محدود ہے، اس لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رونما ہونے والے معجزات وکرامات کا مکمل طور پر احاطہ کرلے، لہٰذا ایک سلیم الطبع دینی سمجھ کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کی شناخت کرنی چاہئے، خواہ یہ لوگ مقامی ہوں یا طارق فتح، سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی شکل میں بین الاقوامی ہوں، جن کا واحد مشن علماء دین اسلام کو تضحیک وتذلیل اور ملت اسلامیہ میں انتشار پیدا کرکے اسلام دشمن طاقتوں کی خدمت کرنا ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی 
(www.najeebqasmi.com)

No comments:

Post a Comment