Friday 24 August 2018

قربانی کے وقت کے سلسلہ میں کس جگہ کا اعتبار ہے؟

قربانی کے وقت کے سلسلہ میں کس جگہ کا اعتبار ہے؟
________________________________
باہر ملک والے انڈیا میں رہنے والے کو قربانی کا وکیل بناتے ہیں.
کبھی ایام نحر مؤکل کے ملک میں شروع نہیں ہوئے ہوتے ہیں تو کبھی ایام نحر ختم ہو جاتے ہیں لیکن وکیل کے ملک میں ایام نحر جاری ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں کس جگہ کا اعتبار ہوگا ؟
مؤکل کے یا  وکیل کے ؟؟ 

بحوالہ مدلل اس پر روشنی ڈالیں..
__________________________________
الجواب وباللہ التوفيق۔۔
اگر ایک جگہ کا شخص دوسری جگہ اپنی قربانی کا وکیل بنائے تو قربانی کے وقت میں تو جانور کا اعتبار ہوگا لیکن تاریخ میں قربانی کرانے والے کے ملک کی تاریخ کا اعتبار ہوگا، اس لئے کہ قربانی کا سبب وجوب دس ذی الحجہ کی صبح صادق کے وقت قربانی کی استطاعت ہے، اور اس کا تعلق آدمی کی ذات سے ہے،  اور سبب وجوب پائے جانے کی بعد یہ قربانی کس وقت ادا کی جائے اس کا تعلق جانور سے ہیکہ وہ جس جگہ موجود ہوگا اس جگہ کے اعتبار سے فیصلہ کیا جائے کہ اگر شہر میں ہے تو نماز عید کے بعد ہی اس کی قربانی جائز ہوگی، اور اگر دیہات میں ہے تو صبح صادق کے بعد بھی درست ہوسکتی ہے۔۔
________________________________
اب اس مسئلے میں ۲ جہت پائ جاتی ہے۔
⑴ ایسے ملک سے قربانی کا وکیل بنانا جہاں تاریخ مقدم ہے مثلاﹰ سعودیہ کا رہنے والا کوئی ہندوستان میں قربانی کرائے تو ایسی صورت میں حکم واضح ہے کہ جبتک دسویں ذی الحجہ کی صبح ہندوستان میں نہ ہو یہ قربانی درست اور معتبر نہیں ہو سکتی۔۔ 

۲) ایسے ملک سے قربانی کا وکیل بنانا جہاں تاریخ موخر ہے  مثلاﹰ ہندوستان کا کوئی شخص سعودیہ میں قربانی کرائے تو ایسی صورت میں جبتک ہندوستان میں دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق نہ ہوجائے اس وقت تک سعودیہ میں اسکی واجب قربانی ادا نہیں ہوگی،  کیونکہ صبح صادق سے قبل سبب وجوب ہی نہیں پایا گیا جوکہ اس مسئلہ میں اصل کی حیثیت رکھتاہے
اور مجموعی طور پر تمام جزئیات کے مطالعہ سے یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔۔
(کتاب المسائل بفرق یسیر ۲، ۲۲۲)

اور احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے وقت قربانی کی جائے جب دونوں جگہ ایام قربانی ہوں  تاکہ قربانی شبہ سے پاک رہے۔۔ 
جیساکہ چند اہم عصری مسائل میں ہے۔۔
صفحہ نمبر  ۲۲۳

ایک شکل یہ ہے کہ قربانی کی جگہ وقت ہے لیکن مالک کے یہاں وقت نہیں رہا  تو اس میں اختلاف ہے۔۔ 
دونوں رائے اکابر کی ہے۔۔
ناجائز والی "چند اہم عصری مسائل"  میں ہے۔۔ 
_________________________________
اور  یہ فتویٰ ملاحظہ ہو،

السلام علیکم حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم

سوال: باہر ممالک سے قربانی کے لئے ہندوستان میں اپنے رشتہ دار اور اعزاء واقارب کے یہاں عید الاضحی کے موقع پر افریقہ، لندن، امریکہ، فرانس وغیرہ سے کاغذ اور فون کے ذریعہ کہتے ہیں کہ بکریوں یا سات حصہ والے جانوروں کی قربانی کرنا، تو اُن لوگوں کی طرف سے ہم لوگ یہاں جس دن عید الاضحی ہوتی ہے اس دن عید کی نماز کے بعد بکریوں یا سات حصہ والے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ دس، گیارہ، بارہ تین دن۔ تو شریعت کے اعتبار سے یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس کا تفصیلی جواب مع حوالہٴ کتب دیجئے۔

دوسرے ملک والے ہندوستان والوں کو قربانی کرنے کیلئے وکیل بناتے ہیں۔ تو اب قربانی کرنے میں وکیل کے ایام قربانی کا اعتبار ہوگا یا جن حضرات کی قربانی ہیں ان کے ایام قربانی کا اعتبار ہوگا۔

فقط والسلام۔ اسماعیل یوسف داؤد جی
۲۳/۱۲/۱۴۲۵ھ
_________________________________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب: ہو الموفق
قربانی جہاں کی جاتی ہے اس کا اعتبار ہوتا ہے۔ لہٰذا ہندوستان میں قربانی ہوگی تو اسی ملک کی تاریخ ۱۰/۱۱/۱۲ ذی الحجہ کا اعتبار ہوگا۔ اور انہی تاریخوں میں قربانی کی جائے گی۔ افریقہ، لندن وغیرہ ملکوں کا اعتبار نہ ہوگا۔ واللہ اعلم

الجواب صحیح: حبیب الرحمن خیرآبادی                   محمد ظفیرالدین غفرلہ
مفتی، دارالعلوم دیوبند
〰〰〰〰〰
اور جائز ہونے کے لئے ملاحظہ ہو

ذبح قربانی میں قربانی کا جانور جس جگہ ہو اس کا اعتبار ہوتاہے
__________________________________
سوال: (۲۵۲۳) بھائی عبدالرشید نے مدراس سے یہاں حیدرآباد میں قربانی کرنے کو لکھا ہے۔ وہاں عید پیر کو ہے اور یہاں اتوار کو۔ ان کی قربانی ہم یہاں اتوار کو کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یا پیر کو کرنا ہوگی؟ بینوا و توجروا۔
_________________________________
الجواب:
قربانی کا جانور جس جگہ ہو اس جگہ کا اعتبار ہوتاہے۔ قربانی کرانے والے کی جگہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔ چنانچہ اگر قربانی والا شہر میں ہو اور وہ اپنا قربانی کا جانور ایسے گاؤں میں بھیج دے جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی اور وہاں صبح صادق کے بعد اس کی قربانی کاجانور ذبح کردیا جائے تو اس شہر والے کی قربانی صحیح ہوجائے گی۔ ہدایہ آخرین میں ہے۔
والمعتبر فی ذلک مکان الاضحیہ حتی لو کانت فی السواد والمضحی فی المصر یجوز کما انشق الفجر ولو کان علی العکس لایجوز الا بعد الصلاة وحیلة المصری اذا اراد التعجیل ان یبعث بہا الی خارج المصر فیضحی بہا کما طلع الفجر الخ (ہدایہ آخرین ص ۴۳۰)

در مختار میں ہے۔ والمعتبر مکان الاضحیة لامکان من علیہ فحیلة المصری اذا اراد التعجیل ان یخرجہا لخارج المصر فیضحی بہا اذا طلع الفجر (مجتبیٰ، درمختار)

قولہ ”والمعتبر مکان الاضحیہ“ الخ فلو کانت فی السواد والمضحی فی المصر جازت قبل الصلاة وفی العکس لم تجز. (قہستانی، درمختار وشامی ص۲۷۸/۵ کتاب الاضحیہ)

حضرت مفتی سیدعبدالرحیم صاحب رحمة الله عليه کے ”فتاویٰ رحیمیہ“ میں قربانی کے سلسلہ میں مذکورہ بالا فتویٰ نویں جلد میں مرقوم ہے
〰〰〰
جن اصول کے تحت امت کا تعامل چلا آرہا ہے اور کتب فقہ میں صراحتاً مذکور ہے اُسی اصل وضابطہ کو حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب کے سابق فتویٰ اور مفتی محمد ظفیرالدین صاحب کے لاحق جواب میں بطور دلیل ذکر کیاگیاہے۔ جس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ یہ دونوں فتاویٰ اصول فقہیہ وشرعیہ اور سلف وخلف کے صحیح موقف کے بالکل مطابق ہیں۔

لہذاٰ ایسے موقع میں احتیاطی پہلو پر عمل کرنا چاہئے۔۔۔ 
=============================
والله سبحانہ اعلم 
کتبہ ابراہیم علیانی۔۔

No comments:

Post a Comment