Saturday 11 August 2018

کچھ گذارشات؛ مسافران راہ عشق ومحبت کی خدمت میں

کچھ گذارشات؛ مسافران راہ عشق ومحبت کی خدمت میں
وارفتگان عشق کا کارواں سوئے حرم رواں دواں ہے، لبیک اللہم لبیک کی صدائیں -کیا فضائیں، کیا سمندر اور کیا خشکی؟ ہر طرف گونج رہی ہیں، خدا کے بندے ابراہیم ںنے اپنے رب کے حکم پر تنہا ہی لبیک کی آواز لگائی تھی؛ لیکن کیسی مقبول تھی یہ آواز جو آج مشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک پوری دنیا کا احاطہ کئے ہوئی ہے اور ہر طرف سے راہ محبت کے مسافر کفن لپیٹے ہوئے صحرائے عرب کے ایک چوکور پتھر کے مکان کی طرف بڑھ رہے ہیں، یہ سادہ نقشہ کی عمارت قبلۂ نماز بھی ہے، قبلۂ محبت بھی اور قبلۂ احترام بھی، مبارک ہیں وہ لوگ جو اس سفر سعادت سے بہرہ مند ہورہے ہیں، قابل رشک ہیں وہ ہستیاں جنہیں اس در تک حاضری کی سعادت نصیب ہورہی ہے، خوش قسمت ہیں وہ اہل ایمان جو حرمین شریفین کے دیدار سے اپنے دیدۂ چشم کو سجائے ہوئے ہیں اور رب کائنات سے محبت کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوائے ہوئے ہیں۔
لیکن یہ سفر جتنا مبارک ہے اس کے تقاضے بھی اتنے ہی زیادہ ہیں، اگر اس سفر کا حق ادا نہیں کیا گیا تو خدا کی طرف سے پکڑ کا اندیشہ بھی اسی قدر ہے، جو عمل جس قدر اونچا ہوتا ہے اس میں کوتاہی اسی قدر نقصان بھی پہنچاتی ہے، اگر کوئی شخص دو فٹ کی بلندی سے گر
کرجائے تو معمولی چوٹ سے دوچار ہوگا؛ لیکن اگر کوئی شخص دو سو فٹ کی بلندی سے گرے تو جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا؛ اسی لئے مسافران حرم کو چاہئے کہ حج جیسی عبادت کو اس کے پورے حقوق کے ساتھ ادا کریں اور زیادہ سے زیادہ احتیاط کا راستہ اختیار کریں؛ کیونکہ عمر بھر میں ایک ہی بار حج فرض ہے، اس کے بعد اگر آپ کو سفر حج نصیب ہو تو وہ حج نفل ہوگا فرض نہیں ہوگا، حج ایسی عبادت ہے جس میں کثیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور جسمانی مشقت بھی نماز روزہ سے کہیں بڑھ کر ہے؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حج بھی ایک طرح کا جہاد ہے، ’’الحج جہاد‘‘ (سنن ابن ماجۃ ، کتاب المناسک ، باب الحج جہاد النساء، حدیث نمبر: ۲۹۰۲)، نیز بعض روایتوں کے مطابق آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ حج ان کے لئے جہاد کے درجہ میں ہے؛ لہٰذا جو عبادت اتنے اخراجات اور اتنی مشقت سے کی جارہی ہے اور جسے آئندہ پھر کبھی بطور فرض کے ادا کرنے کا موقع نہیں ہے، اس میں جس قدر احتیاط سے کام لیاجائے اور مستحبات و آداب کا اہتمام کیا جائے، کم ہے، اسی پس منظر میں چند ضروری امور کی طرف حج کے لئے جانے والے عازمین کو متوجہ کیا جاتا ہے۔
بعض مسائل وہ ہیں جن میں قرآن و حدیث کے احکام بالکل واضح ہیں، ان میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے نہیں پایا جاتا، بعض مسائل میں ایسی تعبیر اختیار کی گئی ہے کہ ایک سے زیادہ رایوں کی گنجائش ہے؛ اس لئے ان میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے رحمت ہے کہ دشواری کے وقت علماء اس اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس رائے کو اختیار کرسکتے ہیں، جس میں سہولت ہو، جیسے دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں تین عمل کرنا ہوتا ہے، 
1. جمرات پر کنکری مارنا، 
2. قربانی کرنا اور 
3. بال منڈوانا، 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ترتیب سے ان تینوں کاموں کو انجام دیا ہے، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس ترتیب کو باقی نہیں رکھ سکے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت حال عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے،
’’افعل ولا حرج‘‘
(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب الفتیا وہو واقف علی الدابۃ وغیرہا ، حدیث نمبر: ۸۳)
اب حرج نہ ہونے کا دو مطلب ہوسکتا ہے: ایک یہ کہ اس میں کوئی دم واجب نہ ہوگا؛ گویا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیوی حرج کے بارے میں یہ بات فرمائی، دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ آخرت میں اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، یعنی اخروی حرج کی نفی کی گئی ہے، اب بعض فقہاء نے پہلا معنی مراد لیا اور انہوں نے کہا کہ دسویں تاریخ کے ان تینوں افعال میں ترتیب واجب نہیں ہے، اور کوئی شخص ترتیب کی رعایت نہ کر پائے تو دم واجب نہ ہوگا، امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے دوسرا معنی مراد لیا، یعنی ترتیب واجب تو ہے اور اس کی رعایت نہ کرنے پر دم بھی واجب ہوگا؛ لیکن گناہ نہیں ہوگا، آج کل اژدہام کی کثرت ، شرعی احکام سے ناواقفیت، لوگوں کی قیام گاہ سے قربان گاہ کی دوری کے باعث اس ترتیب کو باقی رکھنے میں قابل لحاظ مشقت ہوتی ہے؛ اس لئے موجودہ دور کے علماء ہند کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ سلف صالحین کے اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلی رائے پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔
مگر ایسے مسائل میں جہاں تک ممکن ہو، بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس رائے میں زیادہ احتیاط ہو اس پر عمل کیا جائے؛ تاکہ حج جیسی عبادت کی ادائیگی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہوجائے، اسی کی ایک مثال عمرہ اور حج کے افعال مکمل ہونے کے بعد بال کٹوانے کی ہے، امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک محض تین بال کا کاٹ لینا بھی کافی ہے، امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک کم از کم چوتھائی حصہ کے بال کا کٹوانا ضروری ہے، امام مالک رحمة اللہ علیہ کے نزدیک پورے سر کے بال کا منڈوانا یا کٹوانا ضروری ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے سر کا بال منڈوایا ہے، پہلے دونوں نقطہ نظر کے حاملین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو استحباب کے درجہ میں رکھتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس میں احتیاط پورے سر کا بال منڈوانے یا کٹوانے میں ہے؛ کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا عمل رہا ہے اور اس کے کم سے کم افضل ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں؛ اس لئے اگرکسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہو اور ارباب افتاء نے لوگوں کی مشکلات پر نظر کرتے ہوئے آسان رائے پر عمل کرنے کی گنجائش نکالی ہو تو اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، اور اگر آپ کا کوئی ساتھی اس رائے پر عمل کررہا ہو تو اس کو خطا کار یا حقیر سمجھنا غلط ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ہمیشہ امت کے لئے آسانی کے پہلو کو اختیار کرتے تھے؛ لیکن کوشش بہرحال ایسی رائے پر عمل کرنے کی ہونی چاہئے، جس میں احتیاط کا پہلو ہو اور جس پر عمل کرکے انسان اختلاف سے بچ سکتا ہو، یہ بات اس لئے اہم ہے کہ حج کے درمیان بعض لوگ حاجیوں کو اختلافی مسائل میں کسی معقول ضرورت کے بغیر ایسے عمل کا مشورہ دیتے ہیں جو جمہور فقہاء کے نزدیک درست نہیں ہے؛ اس لئے مسائل ان علماء اور ارباب افتاء سے معلوم کرنا چاہئے جن کے علم و فضل پر آپ کو تجربہ کی بنیاد پر اعتماد ہو، نہ یہ کہ ہر مسئلہ بتانے والے کی بات کو قبول کرتے چلے جائیں۔
عبادتوں کا مقصد اپنی خواہش پر اللہ کی خوشنودی کو غالب کرنا ہے، اگر وہا ں بھی انسان اپنی خواہش کا غلام بنا رہے تو یہ افسوس کی بات ہے، بہت سے موقعوں پر اس کی مثالیں سامنے آتی ہیں، جیسے حج میں بال کا منڈانا بھی جائز ہے اور کٹانا بھی؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے تین بار بال منڈوانے والوں کے حق میں رحمت خداوندی کی دعا کی ہے اور ایک بار بال کٹوانے والے کے حق میں، (مسلم: عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حدیث نمبر:۶۴-۵۴۱۳) یقینا ہر مسلمان کی آرزو ہوتی ہے کہ ایک دفعہ کی بجائے تین دفعہ اپنے آقا کی دعا پائے؛ لیکن بعض نوجوانوں پر بال کی محبت اس قدر غالب ہوتی ہے کہ حج جیسے مبارک موقع پر بھی وہ اپنی اس چاہت کو قربان کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
حج جیسی عبادت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس میں خالص حلال مال خرچ ہو، مال حرام کی آمیزش نہ ہو، جہاں سود اور قمار کے ذریعہ حاصل ہونے والا پیسہ حرام ہے، وہیں رشوت، جبری وصولی اور ناجائز قبضہ وغیرہ کے ذریعہ بھی حاصل ہونے والے مال سے حج کرنا درست نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے ایسے مال سے حج کیا تو گو فریضۂ حج ادا ہوجائے گا؛ لیکن اندیشہ ہے کہ اس کی عبادت اللہ کے نزدیک مقبول نہ ہو:
’’ویجتہد فی تحصیل نفقۃ حلال فإنہ لا یقبل بالنفقۃ الحرام کما ورد فی الحدیث مع أنہ لیسقط الفرض عنہ معہا‘‘ (ردالمحتار : ۳/۳۵۴)
اس لئے حج کے لئے حلال مال کے استعمال کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے، نیز حرام سے توبہ کرنی چاہئے اور توبہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو مالِ حرام متعین طور پر اس کے پاس موجود ہو، اسے بلا نیت ثواب صدقہ کردے۔
افسوس کہ حج میں بعض دفعہ فرائض و واجبات کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا، بعض حضرات فجر کی نماز چھوڑ دیتے ہیں؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
کفر و شرک اور ایمان کے درمیان نماز کا ترک کرنا معیار ہے:
’’بین الرجل وبین الشرک والکفر ترک الصلاۃ ‘‘ (مسلم عن جابر بن عبد اللہ ص ، کتاب الإیمان ، باب بیان إطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، حدیث نمبر:۲۵۶)
اسی طرح بعض حضرات حرمین شریفین میں رہنے کے باوجود کسی خاص عذر کے بغیر جماعت کا اہتمام نہیں کرتے، حالانکہ جو لوگ مسافر نہ ہوں، ان کے حق میں جماعت واجب ہے، رسول اللہ 
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ: 
میرا دل چاہتا ہے کہ ان کے گھروں کو نذر آتش کردوں، (ابودائود عن ابی ہریرہ ص، حدیث نمبر :۸۴۵) 
ایسی وعیدوں کا کوئی شخص حرم شریف جیسی مبارک جگہ میں مستحق قرار پائے تو اس کی حرماں نصیبی کی بھی کوئی انتہا ہوگی؟ اس لئے حجاج مرد و خواتین کو نمازوں کا اور انہیں جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔
حج کے منکرات میں ایک غیر محرم کے ساتھ اختلاط بھی ہے، کمروں میں مردوں اور عورتوں کا مشترک قیام رہتا ہے، اس میں ایک دوسرے کے غیر محرم بھی ہوتے ہیں، مسجدوں کو جانے اور آنے کے اوقات مختلف ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے بعض دفعہ غیر محرم کے ساتھ تنہائی کی بھی نوبت آجاتی ہے، یہ نہایت ہی قبیح بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اجنبی مرد و عورت کی تنہائی ہوتی ہے تو اس میں کا تیسرا شیطان ہوتا ہے، نیز مردوں اور عورتوں کا اس طرح مخلوط قیام نیک طبیعت مرد و خواتین کے لئے گرانی کا باعث بھی بنتا ہے؛ اس لئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ چند افراد مل کر اس طرح نظم بنائیں کہ ایک کمرہ مردوں کے لئے مخصوص کردیں اور ایک کمرہ عورتوں کے لئے؛ تاکہ بدنگاہی، بے پردگی اور اختلاط کے گناہ سے بھی بچیں اور دونوں کو بے تکلف ماحول میں رہنے کا بھی موقع ملے۔
حج کے سفر میں خرید و فروخت کی ممانعت نہیں ہے؛ لیکن اس سے ایسا اشتغال اور ایسی رغبت بھی نہ ہو کہ گویا سفر حج کا مقصود ہی یہی ہے، یہ عبادت کی روح کے منافی ہے، افسوس کہ بہت سے لوگ حرمین شریفین میں پہنچتے ہی خرید و فروخت کا پروگرام بنانا اور حریصانہ نظر سے بازاروں کا جائزہ لینا شروع کردیتے ہیں اور جن کا واپسی کا سفر حج کے بعد قریب ہوتا ہے، ان میں سے بعض حضرات کو تو دیکھا گیا ہے کہ وہ منیٰ ہی سے خریداری کا نقشہ تیار کرنے لگتے ہیں کہ کس کے لئے کیا سامان خریدکر لے جانا ہے، یہ یقینا قابل افسوس ہے، حج وہ جگہ ہے جہاں سے انسان کوزرق برق مادی لباس کی بجائے ’لباس تقوی‘ لے کر جانا چاہئے، جہاں سے سونا چاندی 
کی بجائے زیور عمل کی سوغات اس کے ساتھ ہونی چاہئے، جہاں سے غذائے جسمانی کی بجائے غذائے روحانی کا توشہ لے کر اسے لوٹنا چاہئے؛ لیکن بہت سے حجاج مادی اسباب عشرت کی بہتات لے کر واپس ہوتے ہیں اور جہاز کا عملہ ان کے سامانوں کے ڈھیر کو دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے، حرمین شریفین سے اگر کوئی چیز لانے کی ہے تو وہ وہاں کے تبرکات ہیں، یعنی مکہ مکرمہ سے آب زم زم اور مدینہ منورہ سے کھجوریں نہ کہ متاع عیش و عشرت۔
بعض حجاج خریدنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے؛ بلکہ سفر حج کو تجارتی سفر بھی بنالیتے ہیں، ادھر ایک سلسلہ بعض افراد نے قربانی کے جانور فروخت کرنے کا شروع کر رکھا ہے، جس میں متعدد واقعات دھوکہ اور خیانت کے پکڑے گئے ہیں؛ اس لئے ایسی چیزوں سے بچنا ضروری ہے، اور حجاج کو بلا تحقیق ایسے لوگوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔
عبادت کی روح، اخلاص و للہیت ہے اور اخلاص کی ایک علامت اپنے نیک اعمال کو چھپانا اور اس کی تشہیر سے بچنا ہے؛ لیکن افسوس کہ آج کل حج و عمرہ کی بھی باضابطہ تشہیر کی جاتی ہے، اخبارات میں مصور اشتہارات دیئے جاتے ہیں کہ فلاں صاحب حج کے لئے جارہے ہیں، خبریں بھی چھاپی جاتی ہیں، افسوس کہ عوام اور دنیا دار سمجھے جانے والے لوگ ہی نہیں، وہ لوگ بھی اس میں مبتلا ہیں جو اصلاح و ارشاد کی مسندوں پر متمکن ہیں، یہ نہایت قابل افسوس بات ہے، حج کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اس میں تجارت، دکھاوا اور تشہیر سے بچایا جائے: 
’’ویجرد سفرہ عن التجارۃ والریاء والسمعۃ والفخر‘‘ (فتح القدیر: ۲/۷۰۴)۔
حج کا سفر ہے ہی مشقت و مجاہدہ کا سفر؛ اس لئے اسے ہنسی خوشی برداشت کرنا چاہئے اور جذبہ ایثار کے ساتھ عزم سفر کرنا چاہئے، سفرِ عشق و محبت کھونے کا سفر ہوتا ہے، اس میں کھونا ہی پانا ہے اور اس میں لٹ جانا ہی سرفرازی ہے، سفر حج میں بہت سے مواقع باہمی کشاکش کے آتے ہیں، تکان اور مشقت اس احساس کو اور بھی سوا کردیتی ہے؛ اس لئے اگر آدمی پہلے سے ذہن بنالے کہ ہم اپنے حصہ سے کسی قدر کم پر راضی ہوجائیں گے اور اپنے بھائی کے حق میں ایثار سے کام لیں گے تو نہ صرف آخرت میں وہ اجر کا مستحق ہوگا؛ بلکہ اپنے ساتھیوں کے درمیان بھی وہ محبوب و پسندیدہ شخص بن کر رہ سکے گا۔
حرمین شریفین کا تقدس، اس کی عظمت اور رشتہ ایمان کی وجہ سے اس سے جو محبت ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہاں کے لوگوں، وہاں کی چیزوں اور وہاں کی خوبیوں کو سراہا جائے اورخامیوں اور پریشانیوں کے ذکر سے گریز کیا جائے؛ کیونکہ ان مبارک مقامات سے محبت دراصل ایمان کا حصہ ہے، انسان کو اپنے والدین اور اولاد سے محبت ہوتی ہے تو وہ ان کی خامیوں میں بھی خوبیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے؛ اس لئے زبان کو محتاط رکھنے کی ضرورت ہے ، بہت سے لوگ یہاں پہنچ کر بھی شکایت کا دفتر کھولے رہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 
نے مدینہ کے بارے میں فرمایا کہ اس کی مثال ایک بھٹی کی سی ہے، جو خراب حصے کو اچھے حصہ سے الگ کردیتی ہے (مسلم، حدیث نمبر:۵۵۳۳) تو اگر ان مقامات کی محبت سے کسی مسلمان کا سینہ خدانخواستہ لبریز نہ ہو، یہاں کی فضائیں اور یہاں کی چیزیں دل کو نہ بھائیں تو یہ ایمان میں کمزوری کی علامت ہے؛ اس لئے ایسی باتوں سے خوب احتیاط کرنی چاہئے؛ بلکہ وہاں کے لوگوں کی کمزوریوں سے بھی درگذر کرنا چاہئے اور اس کا آسان نسخہ یہ ہے کہ انسان اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھے.
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

No comments:

Post a Comment