Saturday 18 August 2018

ایک سیمینار گہر بار: میں بھی حاضر تھا وہاں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک سیمینار گہر بار
میں بھی حاضر تھا وہاں
سیمینار روز ہوتے ہیں لیکن یادگار سیمینار روز روز نہیں ہوتے، سفر تھا دیوبند کا، بستی اہل دل کی، اہل فکر ونظر کی، عظمت ورفعت والوں کی، وہی دیوبند:
چومتا ہے جس کی پیشانی کو جھک کر آسماں
دار العلوم وقف دیوبند کی جانب سے ادارہ کے عظیم بانی ''خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمہ اللہ'' کی حیات وخدمات پر ایک دو روزہ بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کی دعوت ملی تھی، ہم نے ١١ /اگست کی صبح حیدرآباد سے اڑان کی اپنے استاذ محترم ڈاکٹر مفتی محمد شرف عالم صاحب اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی معیت میں جن سے سفرمیں ہم نے صبر وسکون اور احتیاط کا سبق سیکھا، دعوت نامہ میں حکم تھا کہ عربی میں ایک مقالہ لکھنا ہے، میں نے ایک مقالہ ''الشیخ محمد سالم القاسمی ومقوِّمات بناء شخصیته الفذة'' کے عنوان سے قلمبند کیا تھا، جس کو سیمینار کی دوسری نشست میں پانچ منٹ میں پیش کرنا تھا، سو کیا،میں نے اپنے اس مقالہ میں یہ دکھایا تھا کہ مولانا محمد سالم قاسمی صاحب ایک با کمال اور ہمہ جہت شخصیت  کے مالک تھے، اس شخصیت کی تشکیل میں جو عناصر کار فرما تھے،ان میں نمایاں طور پر ہم ان چار چیزوں کو لے سکتے ہیں:
١۔ موروثی وپشتینی اثرات۔
٢۔ خاندان کا علمی اوراسلامی ماحول۔
٣۔ دارالعلوم دیوبند جیسی علمی وروحانی فضاء میں از اول تا آخر تعلیم اور پھر تدریس۔
٤۔ عظیم اساتذہ سے کسب فیض۔
اس چوتھی شق کے تحت یہ ذکر کیا تھا کہ انہوں نے حکیم الامت حضرت تھانوی کی چند روزہ طالب علمانہ رفاقت سے زندگی میں نظم وضبط، تنظیم وقت اور اصول پسندی کا درس لیا، شیخ الاسلام حضرت مدنی سے حدیث نبوی کاذوق پایا، اورملک وملت کی قیادت کا فن سیکھا،اور اپنے والد وشیخ حکیم الاسلام قاری طیب صاحب سے خطابت کی دقیقہ رسی، نکتہ سنجی اور طلاقت لسانی کے جوہر کشید کئے، مشکل حالات میں ان کے سایہ میں کھڑے رہ کر ان سے خود اعتمادی،قوت ارادی اوربے پناہ حوصلہ مندی کا درس لیا، وفور شوق، وسعت نظر اور اعتدال کی سوغات ورثہ میں مل گئیں۔ ان تمام عناصر کو شواہد کی روشنی میں پیش کیا گیا اور ساتھ ہی یہ دکھایا گیا کہ صرف یہی عناصر نہیں، بلکہ ان کے علاوہ ان کے دیگر جلیل القدر اساتذہ کی عنایات، آغاز شباب سے ان کے علمی سفر اور ہر سطح کے لوگوں سے ان کے تعلقات کا بھی ان کی شخصیت کی تشکیل میں بڑا حصہ رہا۔
سیمینار کی افتتاحی نشست کی صدارت مخدوم گرامی، استاذ الاساتذہ استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی مہتمم دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ نے فرمائی اور اپنے صدارتی خطاب میں مولانا محمدسالم قاسمی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور ان سے اپنے مخلصانہ تعلقات کا ذکر کیا ، اور ندوة العلماء اور وہاں کی انتظامیہ سے ان کے خصوصی ربط وتعلق کا ذکر کیا، اور اس سیمینار کو ایک بر وقت اور خوش آئند قدم قرار دیا۔
اس نشست میں جو چیز دلوں کو بھا گئی وہ دار العلوم دیوبند کے عالی وقار مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی، اساتذہ میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی، مولانا نعمت اللہ اعظمی، مولانا عبد الخالق مدراسی، مولانا سلمان بجنوری اور دیگر اساتذہ کی شرکت تھی، مقالہ نگاروں میں بھی اچھی خاصی تعداد یہاں کے مؤقر اساتذہ کی تھی جنہوں نے تینوں زبانوں میں مقالات پیش کئے،حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی تقریر نے ماحول کو رقت انگیز بنادیا جب انہوں نے تقابلی پیرایہ میں خانوادۂ قاسمی کا یہ نمایاں امتیاز ذکر کیا کہ اس میں نسل بہ نسل علوم نبوت کا تسلسل ہے، خانوادۂ گنگوہی اور خانوادۂ شیخ الہند وغیرہ کو بھی یہ خصوصیت حاصل نہ ہوسکی،ذلک فضل اللہدؤتیہ من یشائ۔ انہوں نے مولانا سالم صاحب رحمہ اللہ کے عالی صفات ہونے کا بڑے اونچے اور جچے تلے الفاظ میں اعتراف کیا، اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا، مولانا محمود مدنی صاحب نے بھی بڑی عالی ظرفی کا ثبوت دیا جب انہوں نے اختلافات کو ختم کرنے کا سہرا مولانا سالم صاحب کے سر باندھا اور ان کی بے نفسی کا کھلے دل سے اور بڑے دل سے اعتراف کیا، جبکہ اس مہم کو سر انجام دینے میں ان کے والد محترم مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ کا بھی کہیں نہ کہیں کردار رہا ہے لیکن مولانا مدنی نے اس موقع سے اس کا یکسر تذکرہ نہ کیا اور اس کو یکطرفہ کارنامہ قرار دیا،مولانا احمد خضر شاہ صاحب مسعودی شیخ الحدیث دار العلوم وقف دیوبند کی تقریر کی گھن گرج اور بجلی کی کڑک کے بیچ بھی نغمۂ صلح وآشتی کی دھیمی دھیمی لے سنائی دیتی رہی جب انہوں نے کہا کہ ہمیں مل بیٹھنے کی بنیادیں تلاش کرنی ہوں گی اور ان بنیادوں کو پانی دینا ہوگا، واقعی اگر اختلافات کے دلوں میں چبھے ہوئے کانٹوں کو ایسے ہی نوک سوزن سے نکالتے رہیں اور دلوں کو  ''غِل'' اور ماحول کو ''غُل'' سے پاک کرتے رہیں تو ہماری رنجشی دنیا کا جہنم کدہ جنت نظیر بن جائے۔
مولانا جلال الدین انصر عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے مولانا سے اپنے خصوصی تعلقات کی داستان بیان کی، پھر کہا کہ مولانا کی طرح کچھ آپ قریب آئیں، کچھ ہم آتے ہیں، مولانا مودودی صاحب پہ علمی تنقید کریں، کہیں میں بھی ساتھ ہوجاؤں گا، کہیں معقول جواب دینے کی کوشش کروں گا، لیکن ہمیں اب ان موضوعات کو زیادہ ڈھونے کے بجائے بنیادی اسلامی کاز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، دوسرے دن کی پہلی نشست میں مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر جمعیة اہل حدیث نے بھی علمائے دیوبند سے اپنے دیرینہ تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے نقطۂ اتفاق کی تلاش پر زور دیا، پہلی علمی نشست کی صدارت مخدوم محترم فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ناظم المعہد العالی الاسلامی نے فرمائی تھی، اس نشست میں بعض حضرات نے اشاروں میں ماضی کی تلخ یادیں چھیڑ دی تھیں، مولانا نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا: 
''ہم اختلافات کو دبا کر مل بیٹھیں، یہ بھی قابل تعریف ہے، لیکن اگر ہم اختلافات کا تذکرہ سرے سے زبان پہ ہی نہ لائیں تو یہ تجدید تعلقات کی طرف مثبت اور پائیدار پیش رفت ہوگی،اور سنت حسنی پر عمل ہوگا''، 
مولانا اختتامی نشست کی اپنی دعاء میں بھی باربارسبھوں کی اس تمنا کو بارگاہ ایزدی میںدوہراتے رہے کہ ائے اللہ ہماری صفوں میں اتحاد قائم فرما ۔
اس سیمینار سے تحریک ندوة العلماء کے ابتدائی جلسوں کی تصویر ابھر کر سامنے آگئی،جو ٹوپی اور ہیٹ ،شیروانی اور کورٹ اور جدید وقدیم کا بے نظیر سنگم ہوا کرتے تھے، خیر ''مے'' تو کبھی حلال نہ تھی، لیکن اب یہ تو ہوا کہ'' لیمن'' ہم بھی چھو سکتے ہیں اور آپ کو بھی اجازت ہے، اور اس کے علاوہ فلیور اور بھی بدلے جاسکتے ہیں، دل کے پھپھولے اور پاؤں کے ا بلے کب تک پھوڑتے رہیں، اگر اس سیمینار میں کچھ نہ ہوتا اور صرف یہی کچھ ہوتا تو بھی اس کی تاریخی کامیابی کی ضمانت لی یا شہادت دی جاسکتی تھی، لیکن یہاں تو اس سے زیادہ بہت کچھ تھا، کسی بھی سیمینار کو تین کسوٹیوں پہ پرکھا جاتا ہے، علمی وتحقیقی رنگ، قیام وطعام میں حسن انتظام اور اس کے بعد سانس ٹوٹنے سے پہلے سیمینار کی پروسیڈنگ کو محفوظ کرنے کا کام۔
سیمینارکے علمی پہلو کے تعلق سے ہمارا اپنا تأثر یہ ہے کہ موضوع پر مواد کی قلت کے باوجود اس کے مختلف اور متنوع گوشوں پر بھر پور مقالات پیش کئے گئے، جن میں سے اکثر بھرتی کے نہیں تھے، بلکہ محنت سے لکھے گئے تھے، سیمینار سہ لسانی تھا، اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی میں بھی مقالات پیش ہوئے جن کی تعداد تقریبا صد فی صد تھی، افتتاحی اور اختتامی نشستوں کے علاوہ تین اکڈمک نشستیں منعقد ہوئیں، جن کی بالترتیب صدارات مولاناخالد سیف اللہ رحمانی، مولانا احمد خضر شاہ مسعودی اور مولانامحمد سفیان قاسمی نے فرمائی اورنظامت کے فرائض ڈاکٹر عبید عاصم (علی گڈھ)، میرے مخلص دوست مولانا محمد عمر عابدین قاسمی مدنی (حیدرآباد) اور مفتی احسان صاحب (دیوبند) نے بالترتیب انجام دئیے، ڈاکٹر صاحب نے بڑی دلچسپ نظامت کی ، بیچ بیچ میں مجلس کو قہقہ زار بناتے رہے، بھائی عمر اپنی نکتہ سنجی اور ادبی لطائف سے مجلس کو زعفران زار بناتے رہے، مفتی صاحب اپنے سنجیدہ لب ولہجہ اور عالمانہ وقار کا استعمال کرتے ہوئے پانچ سے تین منٹ میں مقالے پڑھواتے رہے اور مقالہ نگاروں کو اپنی گرفت میں رکھا، ویسے اول الذکر دونوں حضرات بھی مقالہ کی تلخیص کی تلخیص پڑھنے پر مقالہ نگاروں کو کسی نہ کسی صورت آمادہ کرتے رہے تھے، ورنہ چار دنوں میں بھی سیمینار مکمل نہ ہوتا، اس کا سب سے آسان نسخہ ان کے یہاں یہ تھا کہ مقالات شائع ہوجائیں گے تو ایک عالم اس سے فیض پائے گا،فی الحال حاضری درج کروادیں، یہ بھی ہمارے لئے سعادت سے کم نہیں،مشہور محقق حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی صاحب پریہ اعلان اپنا اثر نہ دکھا سکا اور مولانا اپنے مقالہ کا اکثر حصہ پیش کرنے میں کامیاب رہے، خیر ان کا حق بھی ہے، وہ حد درجہ محنت اور تلاش بسیار کے بعد کچھ لکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ صدر محترم مولانا رحمانی نے بھی ان کا وقت بڑھانے کا حکم دیا تھا، اورکچھ مولانا نے خود بڑھا لیا تھا، سیمینار ہال بھی بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا، اسٹیج پر اور سامنے کی دو قطاروں میں بیضوی کرسیاں رکھی گئیں تھیں،جو طویل نشستوں میں کبھی کبھی نظر بچا کے نیم دراز ہونے کا لطف بھی دیتی تھیں۔
نمائندگی دار العلوم کی دونوں آنکھوں ''باب قاسم'' اور ''باب سالم'' کے علاوہ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور، دار العلوم ندو العلما لکھنؤ، مسلم یونیورسٹی علی گڈھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد، دہلی یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد، لکھنؤ یونیورسٹی، عالیہ یونیورسٹی کولکاتہ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی ہند، جمعیةاہل حدیث، متحدہ مسلم مجلس مشاورت سبھی کی رہی، شہروں کی بات کریں تو کشمیر سے کیرالہ اور ممبئی وگجرات سے کولکاتہ وآسام تک پورا ہندوستان وہاں موجود تھا، اور بیرون ہند سے جنوبی افریقہ اور بعض دیگر ملکوں کے مہمان موجود تھے۔اور ان مقالات کی کامیابی یہ رہی کہ ان کی روشنی میں خطیب الاسلام کی شخصیت کے نمایاں خط وخال، وقائع واحوال اور بیتے دنوں کے ماہ وسال سب واضح طور پر سامنے آگئے، اور ابھر یا نکھر کر جو باتیں آئیں وہ تھیں:
1-مولانا قاسمی کی فکر ونظر کا اعتدال۔
2-ان کی ملی اتحاد کی کوششیں۔
3-ان کا رسوخ فی العلم۔
اکثر حضرات نے ان کو فکر نانوتوی یا فکر دیوبند کا آخری ترجمان بھی کہا۔    جہاں تک قیام وطعام کی بات ہے تو قیام اکثر مہمانوں کا دار العلوم کی نو تعمیر عمارت ''دار القرآن'' میں رکھا گیا، جو نئی نئی دولہن کی مانند سج دھج کر تیار تھی، سفید وشفاف مرمریں فرش، دراز قامت دیواریں، بڑے بڑے کمرے، اور ان میں قد آدم کھڑکیاں، جن پر ہواؤں میں جھولتے پردے ،جہاں سے پورا ادارہ نظروں کے سامنے تھا،جہان بیٹھ کر اردو شاعری میں چلمن کا مفہوم سمجھ میں آگیا، سونے کے لیے تخت کے علاوہ ایک میز بھی ہر کمرے میں لکھنے پڑھنے کے لیے رکھی گئی تھی، جس پر ہم لوگ پانی کی بوتلیں اور کبھی اپنی صدریاں اور ٹوپیاں وغیرہ بھی رکھ لیتے تھے، چائے کا الگ نظم کافٹیریا کی شکل میں کرلیا گیا تھا، جہاں چوبیس میں کم ازکم بیس گھنٹے تو چائے دستیاب ہوتی تھی، جب خواہش ہوئی کمرے میں منگا لی گئی، رضا کار طلبہ چاق وچوبند ''یفعلون ما یؤمرون''کی تصویر بنے ہوئے تھے، کئی بار آکر پوچھتے تھے کہ کوئی کام ہو تو بتائیں، ہم ہر بار ایک چائے تو منگا ہی لیتے تھے یا پانی کی چھوٹی بوتلیں جو اتنی مقدار میں نظر آتی تھیں اور ہمہ وقت موجود تھیں جیسے سبیل نہیں سلسبیل کا منظر ہو، حمامات اور طہارت خانے مدرسوں کے معمول کے برخلاف انتہائی صاف ستہرے، ان میں ہمہ وقت پانی کی فراوانی، جب جس کا جی چاہا برساتی گرمی کی امس کو مٹانے کے لیے دو گھڑی شاور کے نیچے بیٹھ رہے اور شاداب وشاداں ہوکر اٹھے۔
کام ودہن کی لذت کا سامان بھی انواع واقسام کے کھانوں سے کیا گیا تھا، اور خوان نعمت کے ارد گرد کھڑے چھوٹے بڑے میزبان زبان حال سے کہہ رہے تھے:
قطرۂ خونِ جگر سے کی تواضع عشق کی
سامنے مہمان کے جو تھا میسر رکھ دیا
سیمینار کے دو چار روز بعد سے ہی مقالات کی ترتیب اور روداد سیمینار کی تیاریاں شروع ہوگئیں، اس کے لیے مقالہ نگاروں کو اگر ضرورت محسوس ہو تو سیمینار کی روشنی میں اپنے مقالوں کی تہذیب وتنقیح کی ہدایت بھی دے دی گئی، اور معلوم ہوا کہ دو تین ماہ میں اردو، عربی اور انگریزی مقالات کے علیحدہ علیحدہ مجموعے شائع ہوجائیں گے، مزید ایک خط میں یہ حکم دیا گیا کہ اپنے مقالہ کی نصف صفحہ کی تلخیص بھیجی جائے تاکہ روداد سیمینار کی تیاری میں آسانی ہو، ماشا اللہ اس طرح بڑی تن دہی ، چابک دستی اور سلیقہ سے سیمینار کے مراحل طے کئے گئے اور اس اللہ تعالی نے اسے ظاہری اور معنوی طور پر تصور سے بڑھ کے کامیاب بنایا۔
     یہ کرشمہ سازی اور جلوہ گری کسی ایک شخص کی یقینا نہیں ہوسکتی، یہ کام یا کارنامہ تھا ایک کارواں کا، ایک قافلۂ سخت جاں کا جس کے حدی خواں تھے جانشین خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دار العلوم وقف دیوبند، جن کی تمام تر توانائیاں اب وقف ہیں والد محترم کے لگائے ہوئے شجر سایہ دار کو ثمر آور بنانے  میں اور جن کے کانوں میں ہر لمحہ اقبال کا یہ نغمہ ان کے عظیم والد کی زبانی رس گھول رہا ہے کہ
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
میرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا کر
اور ان کے عزائم کو زمینی سطح پر بروئے کار لانے کا خاکہ بنایا تھا حجة الاسلام اکیڈمی کے جواں سال ڈائریکٹر مولانا محمد شکیب قاسمی نے جن کو ان کے والد ماجد زبان حال سے یہ کہہ کر مہمیز کررہے ہیں کہ
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح وشام پیدا کر
    مولانا شیکب قاسمی ایک ڈائنامک نوجوان معلوم ہوتے ہیں جو حرکت عمل سے لبریز ہیں، کم عمری میں دنیا دیکھی ہے ، اس لیے اس دور کے تقاضوں سے ہم ہنگ ہیں، کہتے ہیں کہ آپ جتنا تنوع کے ساتھ پڑھتے ہیں آپ کے اختلافات کا دائرہ اتنا مختصر ہوتا ہے، اور آپ دنیا جس قدر دیکھتے چلے جاتے ہیں اور لوگوں سے ملتے چلے جاتے ہیں دنیا چھوٹی اور لوگ بڑے نظر آتے ہیں، شکیب صاحب کی خوش خلقی اور تواضع اس پر مستزاد ہے،عربی اور اردو میں اچھا لکھتے ہیں، ان شاء اللہ یہ ثابت قدم رہیں گے اور آج جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، جہاں تک پیش گوئی ممکن ہے، ایک اہم اور وسیع تحریک کی ابتدا ہے جو تاریخ میں جگہ حاصل کرے گی اوردار العلوم وقف دیوبند بہت آگے جائے گا،آفتا ب کی خصوصیت ہے کہ وہ ہر ایک کو روشنی دیتا ہے اسی لئے خود چڑھتا چلا جاتا ہے۔
جیسے ان کے والد کی بڑی خوبی ان کا خوردوں پر اعتماد ہے، ایسے ہی ان کی بڑی خوبی ان کا ٹیم ورک ہے،وہ یہ سب کچھ کرگذرنے میں کامیاب اترے اپنے ان ہم عصر رفقاء کے ساتھ مل کر جو سن وسال میں ان کے برابر اور فکر وخیال میں ان سے ہم آہنگ ہیں، جن میں نمایاں نام مولانا محمد نوشاد نوری قاسمی کا ہے، جو میرے بہت ہی محبوب دوست ہیں، اور جن کی قدر میں ان کی علمی قابلیت، فکری توازن، عربی ذوق، وسعت مطالعہ اور بے پناہ محبت وخلوص کی وجہ سے ہمیشہ کرتا ہوں، اور ان کے علاوہ وہ تمام نوجوان ساتذہ جو اس ٹیم میں شامل تھے، ان سب کو میرا دوستانہ پیغام یہی ہے کہ
نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد
ہوائے سیر مثالِ نسیم پیدا کر
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
اور سرپرستی انہیں حاصل رہی ادارہ کے بزرگ اور سینئر اساتذہ کی جن کے علم وتجربہ کی ضرورت ان کو ہر قدم پر تھی، اور ان کی رہنمائی صاف نظر آئی، اساتذہ کا احترام باہمی، تواضع وایثار خلوص ومحبت اور اپنائیت، پرتباک استقبال اور نمناک الوداع سب نے مل کر دل پر وہ نقش چھوڑا ہے کہ بقول احمد ندیم قاسمی:
یہ جو گرد باد حیات ہے، کوئی اس کی زد سے بچا نہیں
مگر آج تک تری یاد کو میں رکھوں سنبھال سنبھال کے
محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

No comments:

Post a Comment