Monday 27 August 2018

قرأ حضرات سے معذرت کے ساتھ

قرأ حضرات سے معذرت کے ساتھ!
ایک جگہ بندے کا جانا ہوا،
عشاء سے پہلے نکلنا تھا کہ عشاء کا وقت ہوگیا، میزبانوں کے التماس پر
عشاء پڑھ کے نکلنا ٹھہرا، جماعت تیار ہوئی، کہیں کوئی مہمان جاتے ہیں تو قاریوں کو شاعروں کی طرح اپنی قرات دلنواز سنانے کا ہیضہ ہوتا ہی ہے! اس دن بھی ایسا ہی ہوا پہلی رکعت میں طویل ترین سورت دے ماری اور دوسری رکعت میں حسب توقع ....
القارعة! ماالقارعة؟ وماادرىك ما القارعة
صاحب، دماغ تو پہلے ہی بھنّا گیا تھا! دوسری رکعت میں جب یہ سورت پڑھی تو ایسا لگا جیسے قاری صاحب کچھ یوں کہہ رہے ہوں
میں قاری ہوں، کیسا قاری ہوں؟ آپکو پتہ نہیں کیسا قاری ہوں؟ ایسا کہ لوگ میری قرات پر جھوم جھوم جاتے ہیں، اور پہاڑ کشش ثقل سے آزاد ہوجاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ سنو! گوش دل سے میری قرات سنو میں ہی ایک اکیلا قرات جانتا ہوں باقی سب یونہی ہے
اور پھر نعرہ تکبیر لگاکر رکوع میں چلے جاتے ہیں
یقینا یہ ترجمہ نہیں ہے مگر قرات وہ اس طرح پڑھتے ہیں گویا یہی باور کروانا چاہ رہے ہوں! اگر انکو ان آیتوں کے معانی پتہ ہوتے تو ہرگز اپنی آواز کو رقصاں نہ کرتے !
جی ہاں اس طرح کی ترقیص کی ممانعت ہے قرات میں،
ہمارے ایک استاذ تھے شاید وہ پہلے قاری تھے جنہوں نے باقاعدہ قاریوں کی مروجہ "بدعتوں" کے خلاف کتاب لکھی تھی جسکا نام تھا "خوش آوازی کی آڑ میں گلہ بازی" جس میں انھوں نے کتاب و سنت اور دیگر کتب متداولہ سے ثابت کیا ہے کہ مروجہ انداز تلاوت اور صحیح معنوں میں "گلہ بازی" کہیں سے ثابت نہیں!! مگر کیا کیجئے "منجھے ہوئے" قاریوں کا!
بندہ جب نیا نیا کتابوں میں بیٹھا تو ایک ماہر قاری صاحب کے پاس قرات کا گھنٹہ گیا ،دبلے پتلے سے بظاہر ایسا لگتا تھا کہ صاحب خوب ریاضت ومجاہدے کے بعد اس مقام تک پہونچے ہوں،ماہر گردانے جانے والے قرّاء حضرات سخت مزاج تو ہوتے ہی ہیں! جب وہ حبوہ بناکر بیٹھتے تو ایسا لگتا کوئی سانپ "کنڈلی "مارے بیٹھا ہو،، اور چھوٹا سا شیشہ تو کلاس میں لے کر  ہی آنے کا! کیونکہ آپکو اپنے ہونٹوں کے زاویے مخصوص انداز میں ڈھالنا ہے، نہ زیادہ کھلیں نہ بند ہوں بس کسی روبوٹ کی طرح اپنے طبعی اور فطری انداز کو بدل کر عجیب سے ڈھنگ میں سکیڑنا ہے،،،
آپنے تلاوت شروع کی ڈر ڈر کے پھر حکم ہوتا کہ "پھر سے پررھ (پڑھ) جی ہاں انہوں نے عربی الفاظ  پر اتنی محنت کی تھی کہ اردو کا "ڑ" بھی ادا نہیں ہوتا تھا، کمبخت ایسی مشق کیا کام کی جو آپکو "ایلین "ہی بنادے !!
دوسرے سال ان سے بڑے قاری صاحب کے گھنٹہ گیا جنہوں نے اپنی زبان پر اتنی محنت کی تھی کہ "ت" اور "ط" کی جگہ "ٹ" ادا ہوتا تھا اور دال کی جگہ ڈال سوچو! کتنی محنت کی ہوگی! اور اب بھی اسی مسند پر جنم سدھ ادھیکار لگاکر بیٹھے ہیں دنیا کے بڑے سے بڑے قاری کی غلطیاں نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،
بہرحال یہ بات تو ضمنا ذکر کردی گئی،
آجکل قراتوں کے مظاہرے بطرز مشاعرے ہورہے دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں آجتک باوجود وقت و فرصت وموقع جانے کا اتفاق نہیں ہوا مگر سنا ہے کہ وہی انداز ہوتا ہے جو مشاعروں کا ہوتا ہے جبکہ مشاعرے میں بھی ایک آدھ بار سے زیادہ جانا نہیں ہوا فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ مشاعرے میں کھڑے ہوکر "سمع خراشی" کی جاتی ہے اور یہاں بیٹھ کر "سامعہ نوازی" ہوتی ہے شاعر کھڑا ہوکر جھومتا، چیختا، چلاتا، گاتاہے اور قاری بیٹھ کر ترقیص، ترعید، تحزین ،تلحین اور تطریب کے جلوے بکھیرتا ہے اور پبلک کا حال یہ ہوتاہے کہ "سبحان اللہ"،  "واہ واہ"، "ماشآء اللہ" کے تشجیعی نعروں سے قاری کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیتے ہیں قاری جوش میں آتا ہے اور ایسی قرات پڑھتا ہے گویا وحی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوگیا ہو، اور اب وجود پھٹ جائے گا، آنکھوں کے پپوٹے سوج جاتے ہیں گلا رندھ جاتا ہے کہ بس اب روح قفس عنصری سے پرواز چاہتی ہے. یکلخت وقف کرتا ہے کہ مرتے مرتے بچا اور نتجۃ اللہ اکبر کی صدائیں گونج جاتی ہیں، پھر جنریٹر دھیرے دھیرے اسی مرحلے پر پہنچ جاتا ہے
حد ہے یاررررر!
صاحبو!  یاد رکھو!  ائمہ قرات نے صرف پانچ چیزوں کی اجازت دی ہے تحقیق، اشتقاق، تجوید، تمطیط اور حدر کی اور اوپر جو "جلوے" بیان کئے گئے ہیں انکی کوئی گنجائش نہیں!
باقی ان سب کا مطلب خود ہی معلوم کرلینا.                                                             

از سلمان ندیم

No comments:

Post a Comment