Saturday 4 August 2018

قربانی کے جانور میں دانت ضروری ہے یا عمر؟

قربانی کے جانور میں دانت ضروری ہے یا عمر؟
چھ ماہی فربہ بکرا کافی ہے یا نہیں؟
مکرمی مفتی صاحب
السلام علیکم
ایک مسئلہ سمجهنا ہے
وه یہ کہ قربانی کے لئے بهینس یا پڑوا کی عمر دوسال ہونی چاہئے. عموما عمر کا اندازه دانت سےلگایا جاتا ہے لیکن کیا اگر دانت نہ نکلے ہوں اور بیچنےوالا کہہ رہا ہےکہ دو سال کا ہوگیا تو اسکی بات مان کر اسکی قربانی درست ہے؟
دوسرے یہ کہ اگر قرائن سے معلوم ہوجائے مثلا دیکهنے میں لگتا ہو کہ عمر پوری ہو مگر دانت نہ ہو تو کیا اسکی قربانی درست ہے؟
تیسرے یہ کہ کیا ہر قربانی والےجانور میں یہ صحیح ہے کہ کم عمر ہو مگر اسکی فربہی سے عمر کے پورا ہونے کا اندازه لگاسکتے ہیں یا صرف بهیڑ میں
محمد انور داؤدی

الجواب وباللہ التوفیق؛
جن جانوروں کی قربانی جائز ہے ان کی عمریں بھی متعین کردی گئی ہیں۔
مثلا؛ بکری، بکرا ایک سال کا ہو اور گائے دو سال کی ۔
البتہ صرف چھ ماہی بھیڑ یا دنبہ اتنا تیار اور فربہ ہو کہ دور سے سال بھر کا نظر آئے، تو صرف بھیڑ ودنبہ میں استثنائی طور پہ اس کی گنجائش ہے۔ دیگر اصناف کے جانور کتنا ہی فربہ سہی، لیکن اس میں ایک دن کی کمی بھی مانع جواز ہوگی ۔۔۔ اونٹ پانچ سال اور گائے بیل بھینس کے دو سال مکمل ہونے چاہئیں۔
عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تذبحوا إلا مسنۃ الخ۔ (مشکاۃ المصابیح عن صحیح مسلم ۱؍۱۲۷)
ویجوز من جمیع ہٰذہ الأقسام الثني وہو المراد من المسنۃ، وہو من الإبل ماستکمل خمس سنین، ومن الغنم الخ ما استکمل سنۃ۔ (حاشیۃ: مشکاۃ المصابیح ۱؍۱۲۷)

جانوروں کی متعینہ عمر مکمل ہونی ضروری ہے۔ دانت کی علامت ضروری نہیں ہے۔
چونکہ اکثر حالات میں جانوروں کی صحیح عمر معلوم نہیں ہوتی، اس لئے ان کے دانتوں کو عمر معلوم کرنے کا اور اس پر عمل کرنے کا احتیاطاً حکم دیا گیا ہے. دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر کا جانور نہیں آسکتا، ہاں زیادہ عمر کا جانور آجائے تو ممکن ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جانور فروخت کرنے والا اس کی عمر مکمل بتارہا ہے تو ظاہر حال یا دیگر قرائن سے اس کی بات کی صحت کا پتہ چلے تو اس کی بات مانی جائے گی اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو !!
کیونکہ معاملات میں ایسی خبروں کا اعتبار کیا گیا ہے.
یقبل قول الواحد في المعاملات عدلاً کان أو فاسقًا حرًا کان أو عبدًا، ذکرًا کان أو انثیٰ، مسلمًا کان أو کافرًا، دفعًا للحرج والضرورۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الفصل الثاني في العمل بخبر الواحد في المعاملات ۵؍۳۱۰)
جیساکہ اوپر عرض ہوا کہ صرف بھیڑ اور دنبہ میں خاص طور سے یہ گنجائش ہے کہ فربہ ہونے کی صورت میں چھ ماہی بھی چل سکتا ہے دیگر جانوروں میں یہ سہولت نہیں ہے کیونکہ حدیث میں 'الجذع' یعنی کم عمر جانور کے ساتھ “من الضان” کی قید مذکور ہے جو کم عمری کے جواز کو صرف بھیڑ کے ساتھ خاص کرتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
ص: 74] بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَذَعِ مِنْ الضَّأْنِ فِي الْأَضَاحِيِّ
1499 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ كِدَامِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي كِبَاشٍ قَالَ جَلَبْتُ غَنَمًا جُذْعَانًا إِلَى الْمَدِينَةِ فَكَسَدَتْ عَلَيَّ فَلَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نِعْمَ أَوْ نِعْمَتِ الْأُضْحِيَّةُ الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ قَالَ فَانْتَهَبَهُ النَّاسُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأُمِّ بِلَالِ ابْنَةِ هِلَالٍ عَنْ أَبِيهَا وَجَابِرٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا وَعُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْجَذَعَ مِنْ الضَّأْنِ يُجْزِئُ فِي الْأُضْحِيَّةِ
سنن الترمذي. كتاب الأضاحي

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی ذیل کی روایت میں بکری کے کم عمر  ۔۔۔چھ ماہی ۔۔۔۔ بچہ کی کفایت کی بات جو منقول ہوئی ہے تو وہ ان کی خصوصیت ہے۔ متعدد احکام بطور خصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اور ان کے خاندان والوں کو دیئے ہیں یہ بھی اسی خصوصیت پہ محمول ہے۔
ھذا خصوص حال لا عموم لھا۔
1500 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى أَصْحَابِهِ ضَحَايَا فَبَقِيَ عَتُودٌ أَوْ جَدْيٌ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِهِ أَنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَكِيعٌ الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ يَكُونُ ابْنَ سَنَةٍ أَوْ سَبْعَةِ أَشْهُرٍ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّهُ قَالَ [ص: 75] قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَايَا فَبَقِيَ جَذَعَةٌ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِهَا أَنْتَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَأَبُو دَاوُدَ قَالَا حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ بَعْجَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، سنن الترمذي۔

واللہ اعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي
مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com
رابطہ نمبر:
+5978836887

No comments:

Post a Comment