Tuesday 21 August 2018

سب سے پہلے کلیجی کھانا

سب سے پہلے کلیجی کھانا
♨ ایک میسیج گردش میں ھے: کہ سب سے پہلے کلیجی کہانا سنت ھے؛ نبی کریم کا معمول تہا کہ نماز عید الاضحی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دست مبارک سے قربانی کے جانور کو ذبح فرماتے اور کلیجی پکانے کا حکم دیتے جب وہ تیار ہوجاتی تو اس سے تناول فرماتے ۔قربانی کرنیوالے کے لیے سنت ھے کہ قربانی کے گوشت میں سے سب سے پہلے کلیجی کہائے کہ اس میں نبی پاک کے عمل سے مشابہت اور نیک شگون ھے؛ کیونکہ اہل جنت کو جنت میں سب سے پہلے اس مچھلی کی کلیجی کھلائی جایئگی جس پر زمین ٹہری ہوئی ھے۔ (المدخل: 1: صفحہ: 125)
اسکی کیا حقیقت ھے؟
••• باسمه تعالی •••
الجواب وبه التوفیق:
♣ مذکورہ میسیج چار باتوں پر مشتمل ھے:
1) عید الاضحی کے دن نماز کے بعد قربانی سے کچھ کہانا
2) قربانی کی کلیجی پہلے کہانا
3) اہل جنت کی پہلی ضیافت مچھلی کی کلیجی سے
4) زمین مچھلی کی پیٹھ پر ٹہری ہوئی ھے۔
1⃣ نماز کے بعد کھانا
پہلی بات:  احادیث و فقہی عبارات میں موجود ھے کہ عید الاضحی کے دن نماز کے بعد کہانا مستحب ھے۔ اب وہ کہانا کیا ہو تو اس کی تعیین بعض روایات سے یہ ھے کہ وہ قربانی کا گوشت ہو؛ اس میں وجہ یہ پیش نظر ھے کہ قربانی کا گوشت پہلے پیٹ میں جائے۔
♀ عن عبد الله بن بريدة عن ابيه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم، ولا يطعم يوم الأضحى حتى يصلي.
الراوي: ابن بريدة
المحدث: الترمذي
المصدر: سنن الترمذي
المجلد: 1
الصفحة: 544
رقم: 542
الناشر: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.
خلاصة: حسن
 ابن ماجة میں بہی اسی طرح کا مضمون وارد ھے:
المصدر:ابن ماجة
الصفحة: 409
رقم: 1756
الناشر: دار الفکر بیروت لبنان۔
⏹ اور "صحیح ابن حبان" میں بھی نماز کے بعد قربانی تک کھانے سے رکنے کو مستحب کہا ھے:
المصدر: صحیح ابن حبان
المجلد:7
المحدث: محمد بن حبان
الصفحة:52
الرقم: 2812
الناشر: مؤسس الرسالة،
خلاصة:  حسن
♻ نیز فقه میں بہی بعد نماز عید الاضحی کچھ کہانے کو مستحب لکہا ھے۔
( نور الایضاح: صفحة: 121 ط: مکتبة رحمانیة لاھور پاکستان)
 وہ روایات جن میں قربانی کے گوشت کی صراحت ھے
 عن بریدہ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان یطعم يوم الفطر قبل ان یخرج وکان اذا کان یوم النحر، لم یطعم حتی یرجع فیاکل من ذبیحته۔
الراوی : بریدہ
المحدث: عبدﷲ الدارمی
المصدر: مسند دارمی
الصفحة:210
رقم: 1637
الناشر: دار ابن حزم بیروت
 اسی طرح "سنن دار قطنی" میں بھی قربانی کے گوشت کا ذکر ھے۔
الراوی: بریدہ
المحدث: علی بن عمر
المصدر: سنن دار قطنی
الصفحة: 389
الناشر:  دار ابن حزم بیروت, لبنان
امام بیہقی کی "سنن کبری" میں بہی ایسا ہی ھے۔
المصدر: السنن الکبری
المحدث: البیہقی
المجلد: 3
الصفحة: 401
رقم:6160
الناشر:  دار الکتب العلمیة بیروت لبنان۔
2⃣ کلیجی پہلے کھانا:
دوسري بات: ماسبق میں معلوم ہوگیا ھے کہ عید الاضحی کے دن نماز کے بعد قربانی کے گوشت سے کہانا مستحب ھے؛ لیکن کیا وہ گوشت کلیجی ہو اس کا ثبوت بہی ایک ضعیف روایت سے ملتا ھے:
☪ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ ، أنبأ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عُثْمَانَ الأَهْوَازِيُّ ، ثنا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ الْقَطَّانُ ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، ثنا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الأَصَمِّ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ لَمْ يَخْرُجْ حَتَّى يَأْكُلَ شَيْئًا، وَإِذَا كَانَ الأَضْحَى لَمْ يَأْكُلْ شَيْئًا حَتَّى يَرْجِعَ، وَكَانَ إِذَا رَجَعَ أَكَلَ مِنْ *كَبِدِ أُضْحِيَّتِه*ِ اهـ .
الراوي: ابن بريدة
المحدث: البيهقي
المصدر: السنن الكبرٰي
المجلد: 3
الصفحة: 401
رقم: 6161
الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
خلاصة: عقبة بن عبدالله الأصم ضعيف ربما دلس كما في التقريب.
فقہی رو سے کلیجی کا ثبوت:
✧ "موسوعہ فقہیہ کویتیہ" میں بہی عید الاضحی کی نماز کے بعد کلیجی کہانے کا ذکر ھے اور اسکو سنت سے تعبیر کیا ھے.
 فمن كانت له أضحية، فقد اتفق الفقهاء على أنه يسن له تأخير الفطر يوم النحر، والإمساك عن الأكل ليفطر على كبد أضحيته؛ لما ورد عن بريدة -رضي الله تعالى عنه- قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يخرج يوم الفطر حتى يفطر، ولا يطعم يوم الأضحى حتى يصلي، وفي رواية: ولا يأكل يوم النحر حتى يذبح، ولأن في الأضحى شرعت الأضحية والأكل منها، فاستحب أن يكون الفطر على شيء منها.
المصدر: الموسوعة الفقہیة  الکوتیة
المجلد: 45
الصفحة:341
الناشر:  وزارة الأوقاف والشؤون الاسلامیة۔کویت۔
3⃣ مچھلی کی کلیجی سے اہل جنت کی ضیافت:
♛ تیسری بات: جنتیوں کو سب سے پہلے ﷲ تعالی جنت میں مچھلی کی کلیجی سے کھلایئگا اس بات کا ثبوت بخاری و مسلم وغیرہ دیگر کتب احادیث میں میں موجود ھے, ہم صرف بخاری کی روایت مختصرا ذکر کرتے ہیں:
 عن انس أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ  بَلَغَهُ مَقْدَمُ النَّبِيِّ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَتَاهُ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَمَا بَالُ الْوَلَدِ يَنْزِعُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا قَالَ ابْنُ سَلَامٍ ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنْ الْمَلَائِكَةِ قَالَ أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُهُمْ مِنْ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ الْحُوتِ وَأَمَّا الْوَلَدُ فَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ مَاءَ الرَّجُلِ نَزَعَتْ الْوَلَدَ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلَامِي فَجَاءَتْ الْيَهُودُ
فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فِيكُمْ قَالُوا خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا وَأَفْضَلُنَا وَابْنُ أَفْضَلِنَا
فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ قَالُوا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ فَأَعَادَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ قَالُوا شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَتَنَقَّصُوهُ قَالَ هَذَا كُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّه.
الراوي: انس بن مالك
المحدث:  البخاري
المصدر: صحيح البخاري
المجلد: 2
الصفحة: 1208
رقم: 4480
الناشر: الطاف اينڈ سنز، كراتشي، باكستان.

خلاصة:  صحيح.
4⃣ زمین کا مچھلی کی پشت پر قرار:
⊕ چوتہی بات: کیا زمین مچھلی کی پیٹھ پر قائم ھے جیساکہ "المدخل" کے حوالے سے مذکور ہوا؟
یہ بات درست نہیں ھے؛ البتہ المدخل نامی کتاب میں یہ بات مذکور ھے؛ لیکن اس کتاب میں یہ بات اسرائیلیات سے منقول ھے۔ جسکی قرآن و سنت میں کوئی اصل نھیں ھے, اس کی بابت ہم دار العلوم دیوبند کا ایک فتوی ذیل میں نقل کرتے ہیں:
سوال # 38392
میرا یہ سوال ہے کہ میں نے ایک روایت میں پڑھا ہے کہ زمین کسی مچھلی کے اوپر ہے، کیا یہ بات صحیح ہے اور جن روایت میں یہ بات آئِی ہے اس کی صحت کیا ہے؟
Published on: Jun 14, 2012 
جواب # 38392
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 425-472/N=7/1433
(۱) یہ بات صحیح نہیں، واقع اور حقیقت کے خلاف ہے۔
(۲) جس روایت میں یہ بات آئی ہے کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور یہ ان کا قول ہے جسے مختلف محدثین جیسے عبد الرزاق، فریابی، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر طبری، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردویہ، خطیب بغدادی اور ضیاء الدین مقدسی وغیرہ نے اپنی اپنی کتابوں میں سند کے ساتھ ذکر کیا ہے (کذا في الدر المنثور: ۱۴/۶۱۷ سورہٴ نٓ، ط: مرکز ہجر للبحوث والدراسات العربیة والإسلامیة) اور حاکم نے یہ بھی فرمایا ہے: ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ اور ذہبی نے تلخیص میں حاکم کی موافقت کی ہے کذا في المستدرک للحاکم (کتاب التفسیر تفسیر سورہٴ نٓ والقلم: ۲/۵۸۶، رقم الحدیث: ۳۸۹۷، ط: دارالحرمین للطباعة والنشر والتوزیع) اور اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہٴ قلم میں وارد لفظ ”ن“ کی تفسیر میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے اور یہ رائے بعض دیگر مفسرین کی بھی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۸/۱۸۵، معالم التنزیل: ۸/۱۸۵) لیکن یہ مضمون کسی آیت سے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً کسی بھی روایت سے ثابت نہیں بلکہ محققین نے اسے اسرائیلیات میں سے قرار دیا ہے: قال أبو عبد الرحمن عصام الدین الضبابطي في جامع الأحادیث القدسیة (کتاب التوحید والإیمان: ۱/۱۵۳، رقم الحدیث: ۷۸، ط: دارالدیان للتراث القاہرہ): ․․․ أما شطرہ الثاني فلم أر احدًا ذکرہ مرفوعا، وظني بہ أنہ من الإسرائیلیات التي رواہا ابن عباس عن بني إسرائیل إھ وقال الشیخ محمد أبو شہبہ في کتابہ: ”الإسرائیلیات والموضوعات في کتب التفسیر (ص:۳۰۵): والظاہر أنہ افتراء علیہ أو ہو من الإسرائیلیات ألصق بہ إھ وقال الآلوسي فی روح المعاني (۲۹: ۲۷، ط: مکتبہ إمدادیہ ملتان، پاکستان): وفي البحر لعلہ لا یصح شيء من ذلک أي: من جمیع ما ذکر في أن ما عدا کونہ اسما من أسماء الحروف وکأنہ إن کان مطلعا علی الروایات التي ذکرناہا لم یعتبر تصحیح الحاکم في ماروي أولاً عن ابن عباس ولا کون أحد رواتہ الضیاء في المختارة التي ہي في الاعتبار قریبة من الصحاح ولا کثرة روایہ عنہ وہو الذي یغلب علی الظن لکثرة الاختلاف في ما روي عنہ في تعیین المراد بہ․․․ إھ اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ”ن“ کی اس تفسیر کو قیل سے نقل کیا ہے جو بظاہر اس کی مرجوحیت پر دال ہے۔ ابن کثیر: ۸/۱۸۴-۱۸۵) الحاصل سندا یہ روایت اگرچہ بعض علماء کے نزدیک صحیح ہے لیکن متن کے لحاظ سے اس کا مضمون قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث نبوی سے ثابت نہیں؛ بلکہ محققین کے نزدیک یہ مضمون اسرائیلی روایات سے لیا ہوا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
=========
◆  نیز یہ بات ∼کہ زمین کا مچھلی کی پشت پر قرار و ٹھہراؤ ھے∼ شیعی کتب میں بکثرت موجود ھے, بطور خاص علامہ باقر مجلسی رافضی کی " بحار الانوار" میں
(بحار الانوار جلد:10 صفحة:349 ط: مؤسسة الوفاء.)
((فائدہ: )) مذکورہ پوسٹ جسکی بابت سائل نے معلوم کیا ھے وہ "المدخل" نامی کتاب سے منقول ھے۔
المصدر: المدخل
المؤلف: ابن الحاج المالکی
المجلد: 1
الصفحة: 284
الناشر: مکتبة دار التراث, قاھرة مصر۔
«خلاصۂ کلام:»
فقہاء نے عید قربان کے دن نماز کے بعد کھانا مستحب لکہا ھے, جسکی مکمل تفصیل ذکر کردی گئی ھے؛ البتہ زمین کا مچھلی کی پشت پر ہونا یہ بات اسرائیلیات میں سے ھے جو غیر ثابت بات ھے۔
وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: محمد عدنان وقار صدیقی
خادم التدریس جامعہ عربیہ دارالعلوم رحیمیہ قصبہ اکبرآباد ضلع بجنور
20 اگست/ 2018

1 comment: