Wednesday 23 September 2015

مقرر اور مفکر دو الگ حیثیتیں ہیں!

سید عطاءاللہ بخاری کے بارے مولانا محمد علی جوہر کہا کرتے تھے کہ، نہ بخاری سے پہلے تقریر ممکن ہے اور نہ ہی بعد میں،کیونکہ ان سے پہلے تقریر کیجئے تو ان کی زبردست خطابت، اُس تقریر کا رنگ اڑا دیتی ہے، اور ان کے بعد تقریر کیجئے تو سامعین پر کوئی تاثر ہی قائم نہیں ہوتا ہے۔
شعلہ بار مقرر سید عطاءاللہ بخاری، دیر رات گئے خطابت شروع کرکے فجر کی اذان پر ختم کرتے تھے، مگر مجمع ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا، پیر رائپوری رح اسی کیفیت کے مشاہدے کی غرض سے جلسہ میں شریک ہوئے، اور خطیب کے خطیبانہ انداز میں اس طرح کھو گئے کہ جب فجر کی اذان ہونے لگی تو کہا کہ، استغراللہ! چالیس برس کے بعد تہجد فوت ہوئی ہے۔
برصغیر میں انکی مثال نہیں ملتی اور عالمی تاریخ میں سحرانگیز مقرروں میں ان کا ایک منفرد مقام ہے، یہ سادگی کا پیکر اور مخلص بندہ اگر یوروپ میں ہوتا تو انکے اثباتی اور افسانوی ادب کا ہیرو بنا ہوتا، مگر ان فضائل اور مقبولیت کے باوجود اپنے آپ کو مفکر اکابرین کا ترجمان کہتے تھے، وہ خود پنچاب کی موثر جماعت احرار، کے سربراہ تھے مگر سیاسی افکار اور فیصلوں میں مفکرین ِ دیوبند کے تابع تھے، اس معاملہ میں اس درجہ منقاد اور بے رائے بنے ہوئے تھے کہ، مفکرین دیوبند کی ہمنوائی میں، متوقع پاکستانی پنجاب کی نیم سیاسی پارٹی احرار کے قائد ہونے کے باوجود،تقسیم کی مخالفت کی، اور جناح صاحب کی جذباتی سیاست کے مقابلہ میں اصولی سیاست کو ترجیح دی،  مفکرینِ اسلام کے افکارونظر کی اطاعت کے نتیجہ میں، پاکستانی پنجاب میں گو انکی جماعت، اجنبی بلکہ اچھوت بن کے رہ گئی، مگر آج دانشوران ِ قوم محسوس کرتے ہیں کہ ان کا موقف کس قدر حقیقی اور زمینی تھا۔
آج سے نصف صدی پہلے اس اعلی پایہ کے ایک نہیں، کئی ایک مقررین تھے، مگر قوم کے عوام و خواص کا اجتماعی ضمیر چونکہ بیدار تھا، اسلئے ہر مقرر، مفکر نہیں تھا بلکہ مقررین کے مجموعہ سے فقط مولانا آزاد اور کچھ اور علماء کو، مفکر و مدبر کی حیثیت حاصل تھی، برصغیر کی جدید تاریخ وہی رقم کررہے تھے۔ لچھے دار تقریروں سے آدمی صاحب ِ نظر ہوجائے، ایسا ہوتا نہیں ہے، بسااوقات سستی عوامی مقبولیت سے خطباء کے پہلے ہی سے محدود دماغ کو جام ہوتے ہوئے تو دیکھا گیا ہے، مگر تقریر کے زور پر کوئی مفکرومدبر بن جائے، ایسا چونکا دینے والا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا۔ عموماً ایک پیشہ ور مقرر کو کلائمکس کی ضرورت پڑتی ہے اسلئے وہ رطب و یابس کچھ بھی بولتا رہتا ہے، جیسے ایک ٹھیکہ دار سوچتا ہے کہ اینٹ سے اینٹ جڑتی رہنی چاہئے اسی طرح یہ پیشہ ور مقرر اس فراق میں رہتا ہے کہ کڑی سے کڑی ملتی رہنی چاہئے، چاہے اسکے سطحی خیالات اور خیالی تصورات سے، قوم و ملت کی کڑی کھچڑی بن جائے، اسکے ضمیر پہ کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
آج قحط الرجال ہے، عوام و خواص کے افکار، لچھے دار تقاریر سے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ اپنے عالمیت کے نصاب میں فن تاریخ اور پالیٹکل سائنس کو سنجیدگی سے متعارف کرائیں، اور طلبہ کو باقاعدہ گذشتہ سے پیوستہ اور حالات حاضرہ سے مستقبل کا رمزشناسی کی مشق کروائیں، عباقرہ کے تجزیوں اور فیصلوں کے سبب،مرتب ہونے والے قومی اور
بین الاقوامی زمینی نتائج پر مباحثہ کا انعقاد کریں۔
قوم کے مستقبل کو نرے پیشہ ور مقررین کے حوالہ نہیں کیا جاسکتا ہے، آج کانوں کی لذت کیلئے، متنازعہ فیہ، سریع الاثر اور منفعل المزاج مقرروں کے پروگرام منعقد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا ہے۔ بھلا ایسی شخصیات،قوم کو مستقل مزاجی اور یکسوئی کا درس کیسے دے سکتی ہیں۔
حضورﷺ پہ جب وحی کا نزول ہوا، اور آپ ﷺ بیچین ہونے لگے تو دوراندیش خدیجہؓ انہیں معاشرہ کے لاتعداد لچھے دار مقرروں کے پاس نہیں لے گئی، بلکہ ایک کم گو مگر مدبر اور جانکار شخص، نوفل کے پاس لے گئیں، اور مایؤل کے خدشات سے آگاہ ہوئیں۔
بقلم: ابویوسف محمدانورخان 
٢٢ستمبر، ٢٠١٥
ksmanwar@gmail.com

سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مجلسِ احرارِ اسلام

سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی پیدائش 23 ستمبر 1882کو گجرات کے علاقے ناگڑیاں شریف میں حافظ سید ضیاء الدین کے ہاں ہوئی ۔جو خود بھی ایک بڑے عالمِ دین تھے۔ایک دینی گھرانے میںپیدا ہونے والے عطاء اللہ شاہ بخاری نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے زیر نگرانی حاصل کی دس سال کی عمر میں حفظ قرآن کیا ۔ 22 سال کی عمر میں 1914 میں امرتسر تشریف لے گئے جہاں انہوں علوم کے بقیہ مدارج طے کئے۔اس کے بعد ضلع سہارن میں مدرسہ دیو بند سے منسلک ہو گئے۔وہ انگریزی زبان سے نفرت کرتے تھے ا ور اس کو غیر اسلامی قرار دیتے تھے ۔ اس نفرت کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے ہندوستان کے لوگوں کو بے پناہ تکالیف کا شکار بنا دیا تھا اور ہندوستان کے مسلمانوں کو تو تباہی کے گڑھے پر پہنچا دیا تھا۔تمام اسلامی مکاتب کو برباد کر دیا تھا۔جبکہ عطاء اللہ شاہ بخاری اسلامی علوم کی ترویج کے دل سے خواہاں تھے۔
انہوں نے اپنے کیریر کا آغاز امرتسر سے کیا جہاں ایک چھوٹی سی مسجد میں دینی علوم پڑھانانا شروع کیا۔ان کی تقاریر میں اس قدر اثر تھا کہ لوگ دور دراز علاقوں سے ان کا خطاب سنے کیلئے آتے تھے اور تقریر کے دوران لوگوں کی خاموشی سحر انگیز ہوا کرتی تھی،جس میں بے حد اثرپذیری بھی تھی۔ان کی قراء ت میں بلا کا سوز اور خوبصورتی تھی۔وہ یہاں 40 سال تک درس قرآن دیتے رہے اورقرآنی علوم پڑھاتے رہے۔ان کے تعلقات سوشلسوٹ اور کمیونسٹ نظریات کے لوگوں سے رہے مگر کبھی بھی اسلامی اقدار پر ان کو حاوی نہیں ہونے دیا اور نہ ہی ان کے نظریئے کو کبھی تسلیم کی،ہمیشہ ان کی رہنمائی کا منبع قرآن پاک ہی رہا۔مٹریلزم یا سوشلزم نے انہیں کبھی بھی متاثر نہ کیا۔
1916میں انہوں نے اپنے مذہبی اور سیاسی سفر کا آغاز کیا تووہ عربی،فارسی اور سرائکی زبانوں میں پر مغز اور بہترین تقاریر کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت بر طانیہ کے خاتمہ کے ساتھ ہی ہندوستان کے لوگوں کی غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجائے گا۔حکومت مخالف تقاریر کرنے پر انہیں قید و بند میں ڈال دیا گیا۔ اس دوران انہوں نے بخاری شریف کا گہرا مطالعہ جاری رکھا۔1919 کے جلیاں والا باغ کے واقعے سے وہ شدید متاثر تھے۔انہوں نے پہلا سیاسی اقدام 1921 میں اٹھایا جب انہوں کانگرس کے پلیٹ فارم سے کولکتہ میں لوگوں کو اپنی سحر انگیزتقریر سے متاثر کیا۔27 مارچ 1921 کوان کی انگریز کے خلاف جارحانہ تقریر کے نتیجے میں انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اب وہ ان انڈین نیشنل کانگرس کے متحرک رکن کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔
نہرورپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے 29 دسمبر 1929میں کل ہند مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھ دی۔جس کو مجلس احرار کے مختصر نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔یہ ہندوستان کے سنی مسلمانوں کی تنظیم تھی جس کا بڑی حد تک تعلق مدرسہ دیوبند سے تھا۔ یہ جماعت انگریز دور حکومت میں ہی منظر عام پر آئی تھی۔ گوکہ کانگرس اور مسلم لیگ کی بنیادیں اس سے کئی سالوں پہلے رکھی جا چکی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار قائد اعظم کے مخالفین کی سپورٹر تھی۔یہ جماعت احمدیوں کی شدت سے مخالف رہی ہے جبکہ بعض احمدی مسلم لیگ کے ساتھ کام بھی کر رہے تھے جیسے سر ظفر اللہ جو جو امور خارہ سے بھی منسلک رہے۔مرزا بشیر الدین محمود ،مرزا غلام احمد قادیانی کا جانشین تھا اس گروہ کے لوگوں نے تحریک پاکستان کے دوران مشرقی پنجاب کے علاقوں کو با قاعدہ ہندوستان میں شامل کرانے کی دستاویز لکھ کر بائوںڈری کمیشن سر سرائیل ریڈکلف کودیدی تھی ۔جس کے نتیجے میںمشرقی پنجاب کے کئی مسلم اکثریتی اضلاع مثلاََزیرہ کی تحصیل اور جالندھر کے علاقے۔ جن کو سرائل ریڈ کلف نے ہندوستاں کو غیر منصافانہ طریقے پر دیدیئے تھے۔جس پر قائد اعظم کا احتجاج بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔تقسیم ہند کے بعد اس جماعت نے اپنی تبلیغ کا مرکز لاہور کو بنا لیا تھا۔1953 کی قادیانت کے خلاف جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی گروہوں کی تحریک کے پیچھے مجلس احرار اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔یہ ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ بعد کے سالوں میں قادیانیوں کو با قاعدہ آئینی طور پر غیر مسلم ڈکلیئر کر دیا گیا۔
مجلس احرار کے قیام کے ساتھ ہی عطاء اللہ شاہ بخاری اس کے بانی صدر رہے انکی صدارت کا دورانیہ 1929 تا1934 تک رہا۔اس کے بعد چوہدری افضل حق مجلس احرار کے صدر 1934 تا 1942 رہے۔جو مجلس قانون ساز کے رکن بھی تھے۔مجلس احرار کے تیسرصدر حبیب الرحمان لدھیانوی بنائے گئے جن کی صدارت کا دورانیہ نہایت مختصر 1942تا 1944رہا۔مجلس احرار کے چوتھے صد ر ماسٹر تاج الدین بنائے گئے جن کا دورانیہ 1953 تا 1965رہا۔مجلس احرار جب معدوم ہونے لگی تو 1958 میں اظہر علی اظہر جو اسمبلی کر رکن بھی تھے نے احرار کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی ۔
پاکستان کے بابائے سیاست نواب زادہ نصر اللہ خان کا تعلق بھی مجلسِ احرار سے رہا ہے۔آپ1945 میں مجلس احرار کے سیکریٹری جنرل بنا دیئے گئے تھے۔ صحافت کی دنیا کا عظیم نام آغا شورش کاشمیری کا تعلق بھی مجلس احرار سے ہی تھا۔جو 1945میں پنجاب مجلس احرار کے سیکریٹری جنرل بنا دیئے گئے تھے۔ شیخ حسام الدین کو 1953 میں سیکریٹری جنرل مجلس احرار بنا دیا گیا تھا۔ان کے علاوہ عبداللطیف خالد چیمہ مجلس کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر کام کرتے رہے تھے۔
ماسٹر تاج الدین انصاری بر صغیر کی ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔قیامِ پاکستان اور تقسیم ہند کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔مگر عطاء اللہ شاہ بخاری تحریک ختمِ نبوت کے سلسلے میں جدوجہد میں مسلسل شریک رہے۔پھر دوبارہ مجلس احرار کے سربراہ بنا دیئے گئے۔1953 کی تحریک ختمِ نبوت کیلئے انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ 1958میں مجلس احرار کی ایک مرتبہ پھر تنظیمِ نو کی گئی۔جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو مجلس احرار کا صدر ایک مرتبہ پھر بنا دیا گیا۔مجلس احرار کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا کہ قادیانیوکو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ کیونکہ غلام احمد قادیانیہ انگریز کا پیدا کردہ جھوٹا نبی تھا۔جس نے ختم نبوت کے عقیدے کی تذلیل کرنے کی کوشش کی تھی۔کیونکہ بقو ل ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے کچھ مولوی اور کچھ پیروں کو خرید لیا تھا ۔جو انگریز کے مقصد کی تکمیل میں ان کے معاون ثابت ہوے۔
وہ ساری زندگی جھوٹے نبیوں اور اسلام کا حلیہ بگاڑنے والے ملائوں کے مخالف رہے۔اور ساری زندگی ختم نبوت کیلئے جہاد کیا ۔عطاء اللہ شاہ بخاری ایک بہترین مقرر ، قاری کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ 1956میں ان کا مجموعہ کلام “سواتی الالحام “کے نام سے ان کے بڑے صاحب زادے سید ابو زر بخاری نے شائع کرایا۔اس مردِ حق پرست کا انتقال21 اگست 1961 کوملتان میں ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ ان کی نماز جناہ میں دو لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی ۔جن میں بہت سی پاکستان کی نامور شخصیات بھی شامل تھیں

No comments:

Post a Comment