Monday 21 September 2015

’کمپیوٹر سے طالب علموں کی کارکردگی میں بہتری نہیں آتی‘

ایک عالمی تحقیق کے مطابق سکولوں میں کمپیوٹر اور کلاس روم ٹیکنالوجی پر کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری طالب علموں کی کارکردگی بڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہی۔
آرگنائزیشن فاراکنامک کارپوریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ نامی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ سکولوں میں کمپیوٹر کے مسلسل استعمال کو خراب نتائج سے منسلک کیے جانے کا امکان زیادہ ہے۔
او ای سی ڈی کے ایجوکیشن ڈائریکٹر اینڈریس شوائگر کے مطابق سکول ٹیکنالوجی نے’لامحدود جھوٹی اُمیدیں‘ پیدا کر دی ہیں۔
طالب علموں کے برتاؤ کے لیے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ماہر ٹام بینیٹ کے مطابق اساتذہ سکول کے کمپیوٹروں سے’چکاچوند‘ ہو چکے ہیں۔
او ای سی ڈی کی رپورٹ نے بین الاقوامی ٹیسٹوں کے نتائج پر سکول ٹیکنالوجی کے اثرات کا جائزہ لیا جیسے کہ بین الاقوامی سطح پر طالب علموں کی جانچ کے لیے موجود پرگرام جنھیں پی آئی ایس اے ٹیسٹس بھی کہتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ 70 سے زائد ممالک میں کیے گئے اور ان ٹیسٹوں میں طالب علموں کی ڈیجیٹل مہارت کی پیمائش کی گئی۔
مطالعے، حساب یا سائنس کے لیے کیے گئے پی آئی ایس اے ٹیسٹوں کے نتائج کے مطابق وہ تعلیمی نظام جو معلوماتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی پر بھاری سرمایہ کاری کررہے ہیں اُن میں’ نمایاں بہتری نظر نہیں آئی۔‘
شوائگر کہتے ہیں کہ ’اگر آپ اعلیٰ کارکردگی کے حامل تعلیمی نظام جیسے مشرقی ایشیا پر غور کریں تو وہ اپنے کلاس رومز میں ٹیکنالوجی کے استعمال میں بہت محتاط نظر آتے ہیں۔‘
وہ طلبہ جو ٹیبلٹس اور کمپیوٹر اکثر استعمال کرتے ہیں، ان کے نتائج یا کام کی استعداد مقابلتاً اعتدال میں ان چیزوں کا استعمال کرنے والے طلبہ کی نسبت بدتر ہوتی ہے۔‘
Image copyright AFP
Image caption سکولوں میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے سات ممالک میں سے تین ایسے تھے جن میں مطالعاتی کارکردگی میں’نمایاں زوال‘ دیکھا گیا
ٹیکنالوجی کے تجزیہ نگار گارٹنر کے مطابق سکولوں میں تعلیمی ٹیکنالوجی پر سالانہ عالمی خرچ ساڑھے 17 ارب پاؤنڈ ہے جبکہ برطانیہ میں سکولوں میں ٹیکنالوجی پر سالانہ 90 کروڑ پاؤنڈ خرچ کیے جاتے ہیں۔
برطانوی تعلیمی سپلائرز کی تنظیم (بی ای ایس اے) کا کہنا ہے کہ سکول اپنے بجٹ میں معلوماتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کے لیے 61 کروڑ سے زائد رقم رکھتے ہیں جس میں سے ساڑھے نو کروڑ پاؤنڈ سافٹ ویئر اور ڈیجیٹل مواد پر خرچ کیے جاتے ہیں۔
شوائگر کہتے ہیں کہ ’اس کا طالب علموں کی کارکردگی پر اثر ملا جُلا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق
    سکول میں کثرت سے کمپیوٹر استعمال کرنے والے طالب علم بدتر نتائج لاتے ہیں۔
    طالب علم جو سکول میں میانہ روی مثال کے طور پر ہفتے میں ایک یا دو بار کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں، شاذ ونادر کمپیوٹر کا استعمال کرنے والے طلبہ کی نسبت ’کسی حد تک بہتر تدریسی نتائج‘ لاتے ہیں۔
    انفارمیشن ٹیکنالوجی پر بھاری سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں مطالعے، حساب یا سائنس کے مضامین میں کوئی’نمایاں بہتری ‘ ظاہر نہیں ہوتی۔
    اعلیٰ حصولِ تعلیم کے حامل سکول سسٹمز جیسے کہ چین میں جنوبی کوریا اور شنگھائی کے سکولوں میں کمپیوٹر کے استعمال کی شرح انتہائی کم ہے۔
    سکولوں میں ٹیکنالوجی کے صرف اعتدال پسندانہ استعمال کے ساتھ ڈیجیٹل مہارت کے لیے سنگاپُور سب سے اُوپر ہے۔
شوائگر کے مطابق: ’رپورٹ کے سب سے زیادہ مایوس کُن نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ طالب علموں کے درمیان سیاسی واقتصادی تفریق ٹیکنالوجی کے استعمال سے کم نہیں ہوئی، بلکہ یہ فرق زیادہ بڑھ گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ طبقاتی فرق کو کم کرنے کے لیے اس بات کی یقین دہانی کرنا کہ طالب علم مطالعے اور حساب پر زیادہ اچھی گرفت رکھتے ہیں’ہائی ٹیکنالوجی آلات تک رسائی حاصل کرنے کے، نسبت زیادہ موثر طریقہ ہے۔
او ای سی ڈی ایجوکیشن ڈائریکٹر کے مطابق: ’ٹیکنالوجی سے ہمیشہ لوگوں کو بہت زیادہ غلط اُمیدیں وابستہ رہی ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم جو کچھ سکولوں میں کرواتے ہیں اس میں صرف ٹیکنالوجی شامل کر لیں گے تو سیکھنے کے عمل کی کایا پلٹ جائے گی، اس طرح کی سوچ کے حامل لوگوں کو ان نتائج سے بہت مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
Image copyright AP
Image caption برطانیہ فی طالب علم کمپیوٹر کے استعمال کی اعلیٰ ترین سطح کا حامل ہے
انھوں نے کہا کہ کلاس روم میں ٹیکنالوجی کا استعمال طلبہ کے لیے تباہ کُن ثابت ہو سکتا ہے اور طالب علموں کے ہوم ورک کے جوابات انٹرنیٹ سے’پہلے سے ہی تیارکرنے‘ اور اُن کو کاپی میں اُتار لینے کے رجحان سے متعلق بھی خبردار کیا۔
مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں سکولوں میں انٹرنیٹ کا عموماً استعمال طالب علموں کی تعلیمی استعداد میں بہتری لانے کا باعث بنا ہو۔‘
سکولوں میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے سات ممالک کے درمیان تین ممالک ایسے تھے جن میں مطالعاتی کارکردگی میں’نمایاں زوال‘ دیکھا گیا۔ اُن ممالک میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سوئیڈن شامل ہیں جب کہ تین اور ممالک سپین، ناروے اور ڈنمارک ہیں جن کے نتائج’جمود کا شکار‘ نظر آئے۔
عالمی آزمائش کے نتائج کے مطابق وہ ممالک اور شہر جہاں انٹرنیٹ کا استعمال انتہائی کم کیا جاتا ہے جیسے جنوبی کوریا، شنگھائی، ہانگ کانگ اور جاپان، ان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ کارکردگی دکھانے والے ممالک اور شہروں میں ہوتا ہے۔
مطالعے میں برطانیہ کے کلاس رومز میں انٹرنیٹ کے استعمال کے متعلق کوئی اعدادوشمار اکٹھے نہیں کیے گئے۔ لیکن برطانیہ فی طالب علم کمپیوٹر کے استعمال کی اعلیٰ ترین سطح کا حامل ہے۔
لیکن شوائگر کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے نتائج کو ٹیکنالوجی کے استعمال نہ کرنے کے’عُذر‘ کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ زیادہ موثر نقطہ نظر دریافت کرنے کے لیے کافی حوصلہ افزا ثابت ہو گی۔
انھوں نے ڈیجیٹل نصابی کُتب کی مثال دی کہ کس طرح انھیں روایتی طریقوں سے ہٹ کر جدید بنایا جا سکتا ہے جس کی مثال آن لائن ٹیکنالوجی ہے۔
’یہ ایک ایجنڈا ہے اس لیے یہ ختم نہیں ہونے والا، ٹیکنالوجی کو یہاں رہنا ہے، چاہے سکول اسے اپنائیں یا نہیں، لیکن طالب علموں کے اردگرد کی دنیا اب تبدیل ہونے کو ہے۔‘
Image caption ہیڈ ٹیچر جان مورس نے بھی سکولوں کو ٹیکنالوجی کے کم استعمال اور اس پیسے کو کسی دوسری بہتر جگہ لگانے کے خیال کو سختی سے مسترد کر دیا ہے
سکولوں میں کمپیوٹر کے استعمال کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم این اے اے سی ای کے انتظامی سربراہ مارک چیمبرز کے مطابق یہ سوچ بہت غیر حقیقی سی نظر آتی ہے کہ سکولوں کو ٹیکنالوجی کا استعمال ترک کر دینا چاہیے۔
’ٹیکنالوجی کا استعمال اب معاشرے میں بہت ضروری ہوگیا ہے۔ نوجوان گھروں میں کمپیوٹر استعمال کر لیں گے۔ ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ہم ٹیکنالوجی کو سکولوں سے باہر نکال سکیں۔ سکولوں کو اس کی پیروی کرنے کے بجائے اس کی قیادت کرنی چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا استعمال اب سکولوں کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے، چاہے یہ شاگردوں کی استعداد کی جانچ کے لیے کیا جائے، یہ سائنس کے اسباق کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔
بی ای ایس اے کے سربراہ کیرولائن رائٹ کا کہنا ہے کہ سکول جو’برطانیہ میں ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں، ان کے شاندار نتائج آتے ہیں‘ اور طالب علموں کے سیکھنے کی کارکردگی میں ’ڈرامائی بہتری‘ کے حامل ہیں۔
مائیکروسافٹ کے ترجمان ہیو یوورڈ کہتے ہیں: ’انٹرنیٹ کسی بھی طالب علم کو انسانی علم تک رسائی دیتا ہے۔ لیکن نوجوان افراد اگر کمپیوٹر میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ’سکول کے آغاز سے ہی‘ یہ اُن کے سیکھنے کے عمل میں شامل ہونا چاہیے۔‘
ہیڈ ٹیچر جان مورس نے بھی سکولوں کو ٹیکنالوجی کے کم استعمال اور اس پیسے کو کسی دوسری بہتر جگہ لگانے کے خیال کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
آرڈلا گرین جونیئر سکول لندن بورو آف ہیورنگ کے سربراہ مورس کے مطابق: ’میں بنیادی طور پر اس سے متفق نہیں ہوں۔ گذشتہ 24 سال سے سکول کا ہیڈ ٹیچر ہوتے ہوئے میں نے اس بات کا تجربہ کیا ہے کہ ٹیکنالوجی کا ہمارے طالب علموں کی کامیابیوں پر گہرا اثر ہے۔‘
Image copyright THINKSTOCK
Image caption ’کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں سکولوں میں انٹرنیٹ کا عموماً استعمال طلبہ کی تعلیمی استعداد میں بہتری لانے کا باعث بنا ہو‘
انھوں نے کہا: ’ٹیکنالوجی بچوں کے سیکھنے کے تجربات کو بڑھاتی ہے۔ یہ اُن کو سیکھنے میں مصروف رکھتی ہے۔ ایک بٹن دبانے سے ہم امریکہ میں ویڈیو کانفرنس کر سکتے ہیں، ایک بٹن دبانے سے ہم اپنے والدین سے بات چیت کر سکتے ہیں۔
’تعلم ٹیکنالوجی سے جڑی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو نوکریوں کے لیے تیار کر رہے ہیں جس کے بغیر وہ نہیں چل سکیں گے۔ ہم ان کی اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دے رہے ہیں جو کہ ابھی تک ایجاد بھی نہیں ہوئی۔ تو کس طرح آپ ٹیکنالوجی کو ہماری صنعت یا تعلیم اور سیکھنے کے عمل سے الگ تھلگ کر سکتے ہیں؟
’جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ سکولوں میں ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ پیسہ لگایا جا رہا ہے، تو میں اس کو حماقت کہوں گا۔ ہمیں مزید پیسہ اور سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زندگی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
عمومی برتاؤ کے حکومتی ماہر ٹام بینیٹ کے مطابق شاید غیرحقیقی توقعات وابستہ ہیں لیکن ’کلاس روم میں ٹیکنالوجی کو اپنانا دوبارہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
’لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں؟ تعلیمی پیشے سے منسلک لوگوں کو اس بات پر بہت احتیاط سے سوچنا ہے کہ اس کے لیے ہمیں حقیقتاً کس بات کی ضرورت ہے؟
میرا خیال ہے کہ ہم طویل عرصے سے اس سے متاثر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ لوگ اپنے بجٹ میں اس کو طلسماتی گولی کے طور اس پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اب اس کا جواب تلاش کرنے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت اساتذہ اور طالب علموں کو ہے کہ ہمیں کلاس روم میں اصل میں کس چیز کی ضرورت ہے۔ بجائے یہ دیکھنے یا سوچنے کہ،کہ لوگ ہمیں کیا بیچنا چاہتے ہیں۔‘                                                                                                               http://www.bbc.com/urdu/science/2015/09/150915_computer_education_schools_sh?SThisFB

No comments:

Post a Comment