Thursday 17 September 2015

مولانا علی میاں رحمة اللہ علیہ

کون جانتا تھا کہ 1914 میں ہندوستان کے علاقے تکیہ کلاں رائے بریلی میں پیدا ہونے والا یہ بچہ اپنے وقت کا بہت بڑا امام بنے گا۔ جب یہ دنیا سے رخصت ہو گا تو اس کی وفات پر مشرق سے مغرب تک امت مسلمہ میں بے چینی اور صدمے کی ایک لہر دوڑ جائے گی۔ اس عظیم شخصیت پر لکھنے کیلئے قلم تو ہاتھ میں لے لیا پر یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کہاں سے ابتداء کی جائے اور شخصیت کے کون سے پہلو کو موضوع سخن بنایا جائے۔ دنیا اس شخصیت کو ابوالحسن علی ندوی کے نام سے جانتی ہے جبکہ برصغیر میں اس کے اکثر چاہنے والے اسے علی میاں کا خطاب دیتی نظر آتی ہے۔ 
بچپن ہی سے علی میاں کو عربی زبان سے غیر معمولی لگاؤ تھا۔ بچپن ہی کی بات ہے کہ 1926ء کو ندوۃ العلماء کا اجلاس ہوا تو ان کی گفتگو نے عرب مہمانوں کو حیران کر کے رکھ دیا۔ چنانچہ وہ ہندوستان قیام کے باقی ایام علی میاں کے ہمراہ گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ ایسے ہی ایک سال بعد 1927ء میں جب یہ نوجوان لکھنؤ یونیورسٹی میں داخل ہوا تو یہ سب سے کم عمر طالب علم تھا۔ 1928ء سے 1930ء تک کا وقت انگریزی سیکھنے میں گزرا، جس کے بعد اسلامی موضوعات اور عربی تہذیب وغیرہ پر انگریزی کتابوں کا بھی خوب مطالعہ کیا۔ دینی تعلیم وقت کے نامور اور جید اساتذہ سے حاصل کرنے کا شرف رہا، چنانچہ دینی تعلیم دینے والے اساتذہ میں مولانا احمد علی لاہوریؒ، سیدحسین احمد مدنی،مولانااعزاز علی اور قاری اصغرعلی قابلِ ذکر ہیں۔
تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا الیاسؒ اور عبدالقادررائے پوری صاحبؒ سے گہرا تعلق قائم ہوا بلکہ اول الذکر سے تو بیعت کا تعلق قائم رہا۔1961ء میں انہیں ندوۃ العلماء کا ناظم مقرر کر دیا گیا۔ اگلا کام جو کر کے علی میاں نے امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان کیا، وہ تصنیفات کا کام تھا۔ان کی تصنیفات نہ صرف اردو و عربی پڑھنے والوں میں، بلکہ ترجمہ ہونے کے بعد تو بہت سی زبانوں میں مقبول ہو چکی ہیں۔ چنانچہ تصنیفات میں 1931ء میں "المنار" میں شائع ہونے والا مقالہ، سیرت سید احمد شہید، علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے اسلامیات کا تیارکردہ نصاب، مختارات من ادب العرب، ماذاخسرالعالم بانحطاط المسلمین،تاریخ دعوت وعزیمت،قادیانیت تحلیل وتجزیہ، ،اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش عمدہ ترین تصنیفات ہیں۔
علی میاں کے بڑے اعزازات میں سے چند کو بطور مشتے از خرورے یہاں ذکرکیا جاتا ہے۔
٭ رابطہ عالم اسلامی کے تاسیسی اجلاس میں ملک سعود بن عبدالعزیز، لیبیا کے حاکم ادریس سنوسی کی موجودگی میں نظامت کے فرائض سرانجام دینا۔
٭ مدینہ یونیورسٹی کے قیام کے وقت سے لے نظام بدلنے تک برابر یہ منصب برقرار رہنا۔
٭ 1980ء میں اسلامی خدمات کے اعتراف میں فیصل ایوارڈ سے نوازا جانا۔
٭ کشمیریونیورسٹی کی جانب سے 1982ء ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا جانا۔
٭ آکسفورڈ کے اسلامک سنٹر کے 1983ء میں (اس کے قیام کے وقت سے) صدر مقرر ہونا۔
٭ جنوری 1999ء میں دبئی کی عالمی حسنِ قرآت کے مقابلے کے موقع پر "عظیم اسلامی شخصیت" کا ایوارڈ حاصل کرنا۔
علی میاں جیسی شخصیات صدیوں بعد ہی پیداہوتی ہیں۔اگرچہ آج وہ ہم میں موجود نہیں،لیکن ان کی تعلیمات و خدمات آج بھی زندہ ہیں۔کرنے کا کام یہ ہے کہ آج (31دسمبر) ان کے یوم وفات کے موقع پریہ عزم کیا جائے کہ ان کی تعلیمات وخدمات سے وابستہ رہ کر ان اسباب کی نشاندہی اور سد باب کی سعی کی جائے جن میں امت مسلمہ آئے روز سر تا پا دھنستی چلی جا رہی ہے ۔
اوریا مقبول جان

No comments:

Post a Comment