Monday 14 September 2015

کیا کریں روہنگیا کے مجبور و لاچار مسلمان !

دہلی میں اوکھلا کے کالندی کنج سے مغربی بنگال تک کتنے مقامات پر برما کے مصیبت زدگان پڑے ہیں یہ تو تحقیق طلب امر ہے تاہم اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ روہنگیا ئی مسلمان آج بھی در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں. اس سلسلہ میں ذرائع اغلاغ شاہد ہیں کہ تادم تحریر اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہے. روز گار سے محروم پناہ گزیں اقوام متحدہ کے کمیشن(UNHCR) کی جانب ٹکٹکی باندھے تک رہے ہیں کہ ان کی زندگی کا رخ کب پلٹے گا جبکہ برما کی ریاست راکھائن میں 800,000روہنگیا برادری رہتی ہے ۔روہنگیا مسلم برادری کئی برسوں سے ریاستی اور معاشرتی جبر، تشدد اور مذہبی منافرت کا شکار ہے ۔روہنگیا تحریک پر گذشتہ 10برسوں سے گہری نظر رکھنے والے کرس لیواکے مطابق اس خطے میں بدھ مت کے پیروکار شرپسندوں کے فرقہ وارانہ حملوں اور اشتعال انگیز سرگرمیوں کے باعث گذشتہ 3برسوں میں 100,000روہنگیا مسلمان نزدیکی ہمسایہ ریاستوں کی طرف نقل مکانی یافرار اختیار کرچکے ہیں ۔حالیہ ہفتوں کے دوران 3500 سے زائد تارکین وطن تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا کے ساحلی علاقوں پر وارد ہوئے ہیں جب کہ سینکڑوں ، ہزاروں تارکین وطن اب بھی کشتیوں پر سوار کھلے سمندر میں بے یارومددگار پھنسے ہوئے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔2012ء سے روہنگیا مسلم کمیونٹی اور راکھائن بودھوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں 100,000روہنگیا مسلمان بے گھر ہوکرجبراً خیموں میں اپنی زندگیا ں گذارنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔
جکارتہ میں تارکین وطن کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار سٹیو ہملٹن کے مطابق انڈونیشیاکی بحری سرحد پر پہنچنے والے متاثرین کو شمالی آچے کے ایک سپورٹس اسٹیڈیم میں رکھا گیا ہے ۔2ماہ سے زائد عرصہ سمندر میں گزارنے کی وجہ سے اکثریت کی تعد اد شدید کمزور اور بیمار ہو چکی ہے ۔100خواتین خستہ حال بچے گود میں اٹھائے بے یارومددگار سمندر میں مدد کے انتظار میں بیٹھی ہیں ۔سٹیو ہملٹن کے مطابق 573روہنگیا مسلمان رجسٹرڈ کیے گئے جن میں 98عورتیں اور 51بچے ہیں جبکہ کئی مسافر ساحل کے قریب کشتی پہنچنے کے بعد وہاں سے فرار ہو کر نزدیکی گنجان آبادی میں روپوش ہوگئے اور کئی قریبی مسجدوں میں پناہ گزیں ہوگئے ہیں ۔کرس لیواکے مطابق اس وقت آبنائے ملاکا میں 7سے 8ہزار روہنگیا ، بنگلہ دیشی کمیونٹی امتیازی سلوک کی وجہ سے سمندر کی سرکش موجوں سے نبردآزما ہیں ۔تھائی لینڈ اور ملائیشیا کی حکومتی مشینری کے انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے یہ تارکین وطن کسی بھی نزدیکی وطن کے ساحل پر اترنے سے قاصر ہیں ۔ فروری 2009ء میں تھائی فوجیوں نے اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے والے تارکین وطن سوار 5کشتیوں میں سے 1کشتی کو ساحل سمندر کے قریب پہنچنے کے بعد باقی 4 کشتیوں کو زبردستی سمندر کی طرف دھکیل دیا تھا جن میں عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں کی اکثریت سمندر میں ڈوب کر بے رحم لہروں کی نذر ہو گئی تھی ۔ماضی میں بھی تھائی لینڈ کے جنگلوں میں روہنگیا برادری پناہ گزینو ں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کے عوض 2ڈالر تاوان جبراً لیا جاتا تھا۔تھائی لینڈ انسانی سمگلروں کی جنت ہے ۔اسی طرح خلیج بنگال میں کئی روہنگیا مسلمان امن و سکون اور دیگر ضروریات زندگی کی آس میں سفر کرتے ہیں ۔
دوسری طرف میانمار کے حکام کے مطابق روہنگیا بحران کی ذمہ دار ی انسانی سمگلنگ کے ایجنٹو ں اور اسمگلر وں پرہے جنہوں نے روہنگیا مسلمانوں کو روشن مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر گہرے سمندروں میں دھکیل دیا ہے۔برما میں سیاسی محاذ پر بھی روہنگیا بحران کوئی خاص اثر انداز نہیں ہو سکا کیونکہ جمہوریت و آمریت زدہ سیاسی جماعتیں مسلم مخالف جذبات کو استعمال کر کے بدھ مت کے تحفظ اور ترویج کے نام پر انتخابی کامیابیاں سمیٹنا چاہتی ہیں ۔میانمار حکام کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا بحران کی وجہ مذہبی تفریق یا مسلمانوں سے امتیازی سلوک نہیں ہے بلکہ اس ساری صورتحال کے ذمہ دار وہ انسانی سمگلرز ہیں جو عوام کو بیرون ملک سہانے خوابوں کا لالچ دے کر سمندر میں دھکیل رہے ہیں ۔
اس ساری صورتحال پر بدھ مت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے کہا ہے کہ لندن اور چیک سلواکیہ میں روہنگیا بحران پر نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی سے درخواست کی تھی کہ اس انسانی المیے کا فوری کوئی حل تلاش کیا جائے ۔جس پر انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والی برما کی رہنما نے کہا ہے کہ یہ اتنا آسان اور سادہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت میں بے حد پیچیدہ اور مشکل معاملہ ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق روہنگیا کمیونٹی پر ظلم وستم کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے ۔1978ء سے برمامیں فوجی حکومت کی پر تشدد کاروائیوں اور روح فرسا مظالم کی وجہ سے روہنگیا مسلمان کی کثیر تعداد فرار ہوکر بنگلہ دیش کی سرحدی علاقوں کی طرف ہجرت کر چکی ہے ۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے لیے حق ملکیت سے بے دخلی ، شرح پیدائش پر پابندیاں ، جبری مشقت ، امتیازی سلوک اور مذہبی منافرت کی ایسی فضا بن چکی ہے جس کی وجہ سے روہنگیا برادری وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہے۔ ماضی میں برما کے قانون کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو 2سے زائد بچے پیدا کرنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہر روہنگیا مسلمان کو ہفتہ میں ایک مرتبہ فوجی تربیت حاصل کرنا لازم تھا۔ تعمیراتی منصوبوں کے دوران روہنگیا برادری سے بیگار کے طور پر جبری مشقت بھی لی جاتی تھی ۔حتیٰ کہ روہنگیا برادری کی قابل کاشت زمینوں پر بھی سرکا رکے حکم سے بدھ مت کےپیراکاروں کے لیے رہائشی عمارات تعمیر کی گئیں ۔کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق برما میں مسلمانوں کی آبادی میں تیز ی سے ہوتے ہوئے اضافے کے پیش نظر بودھ شدت پسند وں نے مسلمانوں کی نسل کشی کے ذریعے خطے میں ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ میانمار میں رائج ایک قانون کے تحت ہر بودھ عورت کودوسرے مذہب کے مرد سے شادی کرنے کے لیے سرکار سے اجازت لینا پڑتی ہے بصورت دیگر مرد کو بھی بدھ مت مذہب اختیار کرنا ہوگا۔
سری لنکا میں بودھو بالا سنہا (BBS)نامی تنظیم بھی مسلم اقلیتی آباد ی کی شرح پیدائش میں اضافے کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے میں پیش پیش ہے ۔بودھو بالا سنہا (BBS)کی تنظیم کے ایک اعلیٰ رہنما گالا گوڈا کے مطابق “یہ ایک سنہالا ریاست ہے ۔ہم اپنی سنہالا بدھی ریاست رکھتے ہیں ۔یہ سعودی عرب نہیں ہے ۔آپ کو اس سنہالا تہذیب کو اپنانا ہوگااور اس کے لیے انتہائی مہذب اور قابل قبول رویہ اپناناہوگا”۔بودھو بالا سنہا تنظیم خوراک کے ڈبوں ، پیکٹوں پر لکھے گئے لفظ “حلال ” کے خلاف بھی اسلام مخالف تحریک جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنی تنظیم کے ارکان کو مسلم ملکیتی دکانوں اور مسلم مساجد پر پر تشدد حملے کرنے پر اکساتی ہے ۔بودھو بالا سنہا (BBS)تنظیم میانمار میں روہنگیا برادری کے خلاف نسلی و مذہبی امتیاز کو جائز قرار دیتی ہے اور مسلم کش متشدد کاروائیوں کو “دفاع بدھ مت “قرار دیتی ہے ۔انڈونیشیا ایک طرف روہنگیا برادری کے لیے دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف انڈونیشیا میں شدت پسند ابوبکر سے متاثر ایک دہشت گرد تنظیم کے ارکان کو میانمار ایمبسی پائپ بم کے ذریعے اڑانے کی سازش تیار کرنے پر بھی زیر حراست لیا گیا تھا۔جکارتہ میں تجزیہ نگار سڈنی جونز کے مطابق روہنگیا اتحاد تنظیم آر ایس او (Rohingya Solidarity.Org)مستقبل میں بدھ انتہاپسندوں کے خلاف ایک مسلح تنظیم کو روپ دھار سکتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment