Tuesday, 10 September 2019

اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سنے اور پھر دوسروں تک پہنچائے

اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سنے اور پھر دوسروں تک پہنچائے 

کیا قول درست ہے کہ اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سنے اور اسے اچھی طرح سمجھے، پھر یاد کرکے دوسروں تک پہنچائے کی وضاحت عنایت فرمائیں
الجواب وباللہ التوفیق:
ترمذی: (2658) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سنے اور اسے اچھی طرح سمجھے، پھر یاد کرکے دوسروں تک پہنچائے، بہت سے حاملین فقہ اپنے سے زیادہ فقیہ تک فقہ پہنچادیتے ہیں) البانی نے اسے "صحیح الجامع" (2309) میں صحیح قرار دیا ہے۔
نیز بزار: (3416) میں محمد بن جبیر بن مطعم  اپنے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سن کر یاد کرے اور پھر اسے دوسروں تک ایسے ہی پہنچائے جیسے اس نے سنا تھا)
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  حدیث نبوی یاد کر کے بعینٖہ  آگے پہنچانے  والے کیلئے دعا ہے یا خبر دی ہے۔
اور حدیث کے عربی الفاظ: "نَضَّرَ" [تر وتازگی] کا معنی یہ ہے کہ: اللہ تعالی اسے خوبصورتی اور رونق عطا فرمائے،
تو اس طرح مطلب یہ ہوگا کہ: اللہ تعالی دنیا میں حدیث نبوی کے حافظ کو خصوصی طور پر خوشیاں اور مسرتیں عطا فرمائےگا، اور آخرت میں اسے نعمتوں سے نوازےگا، حتی کہ اس پر خوشحالی اور نعمتوں کے اثرات نمایاں ہوجائیں گے۔
اس حدیث کے مفہوم سے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ:
یہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالی نے حدیث حفظ کرنے والے کو اللہ تعالی نے تر و تازگی بخش دی ہے، جبکہ دوسرے مفہوم کے مطابق  یہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے تر و تازگی بخشے، دونوں مفہوموں میں سے خبر کا مفہوم زیادہ مضبوط ہے" انتہی
مرقاة المفاتيح (1/306)، از ملا علی قاری۔

https://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_99.html

No comments:

Post a Comment