حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا؛ ایک گمنام صحابیہ
قبیلہ مخزوم کے مغرور اور سرکش سردار عمرو بن ہشام کے پاس روپے پیسے کی بہتا ت تھی۔ اس کے شان و شوکت کے حامل محل میں غلاموں اور کنیزوں کی بھرمار تھی لیکن پھر بھی اس کی نظر ایک رومی کنیز پر پڑی تو اس نے اسے منہ مانگے داموں خرید لیا۔ اس لئے نہیں کہ اسے ملازمہ کی ضرورت تھی بلکہ اس لئے کہ یہ سرخ و سفید خوبصورت کنیز اس کے دل کو بھاگئی تھی۔ مکہ میں رومی غلام اور کنیزیں اپنے کھلتے ہوئے رنگ وروپ کی وجہ سے مہنگے داموں فروخت ہوتے تھے روپے پیسے کی اُس کے پاس کمی نہیں تھی اس لئے عمرو بن ہشام نے اس رومی کنیز کو خرید لیا جس کا نام ’زنیرہ‘ (معنی: چھوٹی کنکری) (1) تھا۔
زنیرہ کون تھی؟ اس کا خاندان کیا تھا؟ وہ کیا حالات ہوئے کہ دنیا کی سپر پاور سلطنتِ رومہ سے زنیرہ مکہ کے بازارِ غلاماں میں ناقدر جنس کی طرح فروخت ہوگئی؟ ان باتوں سے نہ عمرو بن ہشام کو کوئی دلچسپی تھی نہ جاننے کا کوئی شوق ….. زنیرہ کے ذہن میں بھی اپنی جائے پیدائش اپنی جنم بھومی کا تصور محض ایک بھولے بسرے خواب کا رہ گیا تھا۔ میں کون ہوں؟….. کیا میں غلامی کے لئے پیدا ہوئی ہوں؟….. کیا کبھی کوئی فیصلہ اپنی مرضی سے بھی کرسکتی ہوں؟ ….. میری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ ….. خالقِ کائنات نے مجھے کیوں پیدا کیا …..؟ یہ وہ سوالات تھے جو اس کے شعور پر دستک دیتے مگر وہ ان سوالات کا جواب کسی سے طلب نہیں کرسکتی تھی۔ اسے اپنی شناخت چاہئے تھی۔ وہ بے شناخت تھی کیونکہ وہ ایک زرخرید ملازمہ تھی۔ آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہنے والی ایک کنیز….. جسے سوال پوچھنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ جسے کہنے کا نہیں صرف سننے کا حکم تھا۔ اس کا کام تابعداری تھا اور کام کی نوعیت کا تعین کرنا مالک کا کام تھا۔ اپنی شناخت سے بے شناخت زنیرہ کا سوال گاہے بگاہے اسے بے چین کردیتا۔ میں کون ہوں؟….. میں کون ہوں؟….. لیکن جواب کون دے یہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
دن گزرتے چلے گئے۔ زنیرہ اس غلامانہ زندگی کی عادی ہوچکی تھی۔ اب وہ سوال بھی کبھی کبھار ہی اس کے ذہن میں اٹھتا۔ عمرو بن ہشام کا رویّہ زنیرہ سے روایتی آقا اور غلام کا تھا اونٹوں کا گوبر اٹھانا، ان کو چارہ ڈالنا، گھر کو صاف رکھنا، عمرو کی چیزوں کی حفاظت پھر ساتھ ہی ساتھ عمرو کی بیوی کی ناگوار گالیاں اور مار پیٹ بھی اس کی زندگی کا حصہ تھی۔ خوف، ڈر، وسوسے اور اندیشے۔ اس کی زندگی اسی شش وپنج میں گزر رہی تھی۔ اس کی زندگی کی سب سے اہم خوشی کا موقع شاید اس کی نیند تھی مگر اب اسے خوابوں میں بھی خوف اور ڈر محسوس ہوتا تھا۔
ایک روز بہت عجیب بات ہوئی۔ چپ چپ خاموش طبع زنیرہ اونٹوں کو چارہ ڈال کر پلٹ رہی تھی کہ اسے اپنے آقا کی آواز آئی جو مالکن سے کچھ بات کررہا تھا۔ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو میرے سامنے پلا بڑھا ہماری ہی طرح زندگی گزارتا ہے۔ اب وہ کہتا ہے کہ اﷲ اس سے کلام کرتا ہے۔ اس پر وحی نازل کرتا ہے۔ اس کے پاس جبرائیل فرشتہ آتا ہے‘‘۔ آقا کی آواز کے ساتھ ہی قہقہہ بلند ہوا۔ زنیرہ کو دیکھتے ہی مالکن نے رعب دار آواز سے اسے بلایا: ’’او زنیرہ! اِدھر آ اور میرے پاؤں دبا‘‘۔ زنیرہ سعادت مندی سے مالکن کے پاس گئی اور پاؤں دابنے لگی۔ کچھ دیر بعد مالکن کی سماعتوں میں سوراخ کرتی تیز آواز بلند ہوئی ’’یہ کیا بات کررہے ہو؟ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایسا کب کہا؟‘‘
عمرو نے نیم استراحت کی حالت میں کہا: ’’آج۔ ابھی۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مکہ کے سارے اکابرین کو بلوایا تھا۔ پہاڑ کے قریب اس نے پوچھا کہ اگرمیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے دشمن کی فوج آرہی ہے تو کیا تم یقین کرلوگے؟ سب نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گزشتہ کردار کو دیکھتے ہوئے کہا ہاں ہم یقین کرلیں گے کیونکہ ہم نے ہمیشہ تمہیں سچا اور امانت دار پایا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ سنو مجھے ﷲ نے پیغمبر بناکر بھیجا ہے۔ ﷲ نے مجھے تمہیں یہ بتانے کے لئے مبعوث کیا ہے کہ ﷲ ایک ہے۔ ایک ﷲ کے سوا کسی اور کی عبادت مت کرو۔ تمہاری تمام حاجتیں وہی اﷲ پوری کرتا ہے‘‘۔ عمرو چند لمحے خاموش ہو کر بولا ’’حیرت تو یہ ہے…..‘‘ عمرو پھر گویا ہوا ’’کہ وہ یہ کہتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔ ہاہاہا…..‘‘ اس نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا ’’آقا غلام کی تمیز کبھی مٹ سکتی ہے۔ کیا اعلیٰ اور ذلیل قبیلے برابر ہوسکتے ہیں؟ معلوم نہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کون سی باتیں کررہا ہے جو نہ کبھی سنیں نہ دیکھیں‘‘۔ بات آئی گئی ہوگئی لیکن یہ باتیں زنیرہ کی یادداشت میں رہ گئیں۔ خاندان قریش سے تعلق ہونے کی وجہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات بنو مخزوم سے بھی تھے اور دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح زنیرہ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دل میں احترام کے جذبات پاتی تھی۔ پھر یہ عمرو بن ہشام کا معمول بن گیا کہ اکثر گھر میں عمرو اور اس کی بیوی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں زہر سے بجھی گفتگو کیا کرتے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ عمرو بن ہشام جتنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلتا اتنا ہی زنیرہ کے دل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام بڑھتا چلا جاتا۔
پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ابو جہل کی ہی سمیہ نامی بوڑھی کنیز نے زنیرہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق باتیں کرنا شروع کردیں۔ ایک رات سمیہ نے بتایا کہ آج شام سمیہ (رضی اللہ عنہا)، ان کے شوہر یاسر اور دو بیٹوں عمار اور عبدﷲ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اور زنیرہ کو ہدایت کی کہ یہ بات کسی کو نہ بتانا۔ حضرت سمیہ (رضی اللہ عنہا) کا خاندان چوری چھپے نور نبوت سے اپنے قلب و روح کو منور کرتا رہا۔ سمیہ (رضی اللہ عنہا) نے زنیرہ کو بتایا کہ رسول ﷲ (صلی اللہ علیہ وسلم) ﷲ کا یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ ﷲ ایک ہے۔ ﷲ ہی کی عبادت کرو اور اپنے تصور و خیال سے بنائے گئے تمام بتوں کو توڑ پھینکو۔ ﷲ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ سب انسان آپس میں برابر برابر ہیں۔ نہ عربی کو عجمی پر فوقیت حاصل ہے نہ ہی عجمی عربی سے بڑھ کر ہے۔ نہ مرد کوعورت پر فضیلت ہے اور نہ ہی عورت کو مرد پر۔ ﷲ کے نزدیک بزرگی کا صحیح حقدار اور پسندیدہ وہ ہے جو متقی ہے۔ جس کے اندر ﷲ کی صفات کا نور ٹھاٹھیں مار رہا ہو۔ ان باتوں میں زنیرہ کے بے شمار سوالوں کا جواب موجود تھا۔
اس کی بے چینی اور بے کلی کو قرار آگیا اور سکون کا احساس دل و دماغ میں پیوست ہوگیا۔ زندگی وہی تھی۔ سارے دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرنا، بات بات پر گالیاں سننا اور مار کھانا مگر رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکون کا کتنا آسان نسخہ کیمیا اسے عطا کردیا تھا۔
ایک روز نہ جانے کس طرح وہ سمیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئی۔ سراپا محبت ورحمت ہستی نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعائیں دیں۔ برسوں محبت کے لئے ترسی ہوئی زنیرہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں، د ل میں دبی ہوئی محرومیوں کا آتش فشاں گویا پھٹ پڑا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اس غلام کو محبت سے دیکھ بھی سکتا ہے۔ مالک کا غلاموں پر احکامات صادر کرنا، ڈانٹ ڈپٹ، گالیاں اور مارپیٹ بس یہی کچھ تو اس نے دیکھا تھا۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آگاہ کیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان ﷲ کا نائب اور خلیفہ ہے۔ ﷲ کے قادرانہ اوصاف کا امین، صفاتِ الٰہیہ سے واقف اور ملاءِ اعلیٰ کی آخری حدوں سے بہت آگے کا شعور رکھنے والا ہے۔ ہرانسان کو ﷲ نے یہ ملکہ خصوصی عطا کیا ہے کہ جو شخص بھی سچے جذبے، گداز دل، عجزو انکساری سے اس رستے پر قدم اٹھالے گا، وہ دنیا میں چاہے کتنے ہی نچلے درجے پر فائز ہو وہ ﷲ کے نزدیک پسندیدہ اور مقرب بن جائے گا۔
نورنبوت کی ضیاپاشیوں سے زنیرہ کا باطن آفتاب کی طرح روشن ہوگیا تھا۔ دل تو نہ جانے کب سے اس خدائی پکار پر سرتسلیم خم کرچکا تھا۔ شاید یہ ازل کی پیاس تھی نورِ نبوت نے جسے سراب کردیا اور ساری تشنہ لبی جاتی رہی۔ اس نے فوری طور پر اسلام قبول کرلیا۔ اب وہ ایک معمولی کنیز سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم المرتبت صحابیہ زنیرہ رضی اللہ عنہا بن گئیں۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کو ﷲ کے قرب کے لئے چند طریقے مرحمت فرمائے اور تاکید فرمائی کہ ابھی اپنے قبولِ اسلام کا اعلان نہ کریں۔ زنیرہ رضی اللہ عنہا دولتِ ایمان سے سرفراز ہونے کے بعد واپس آگئیں۔ لیکن عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا عمرو بن ہشام کو آخر معلوم ہوہی گیا کہ زنیرہ رضی اللہ عنہا مسلمان ہوگئی ہیں اور عشقِ حقیقی پر قدم رکھ دیا ہے۔
پھر اس کی جہالت و ظلم کا وہ باب کھلا کہ جس کی بناء پر اس کا نام ’ابوجہل‘ مشہور ہوگیا اور آج بھی اس کا اصل نام عمرو بن ہشام بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ابوجہل نے حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردئیے۔ ابوجہل حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کو اتنی بُری طرح زدوکوب کرتا کہ وہ بے ہوش ہوجاتیں۔ وہ مار مارکر تھک جاتا مگر ﷲ کی یہ نیک اور صابر بندی سب کچھ سہہ لیتیں مگر پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آتی۔ ابوجہل ہر روز نئے نئے طریقوں سے مظالم کرتا۔ کبھی کئی کئی دن تک کھانے کا ایک لقمہ بھی نہ دیتا۔ کبھی سونے پر پابندی لگادیتا اور اونگھ آتے ہی کھال تک نوچ لینے والی چرمی چھڑی سے مارمارکر لہولہان کردیتا۔ حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کا پورا جسم زخم زخم رہتا اور اس میں سے خون و پیپ رسنے لگتا مگر اب وہ روح کے اس سفر پر گامزن تھیں جہاں مادّی جسم کو آدمی روح کے خول یا لباس کی صورت میں دیکھتا ہے۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کے اوپر ہونے والے مظالم کی خبر پہنچتی تو غمگین ہوجاتے۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ابوجہل کے پاس گئے تا کہ انہیں خرید کر آزاد کردیں اور اس سے کہا کہ زنیرہ رضی اللہ عنہا کو فروخت کردو مگر وہ ایک کینہ پرور شخص تھا لہٰذا اس نے حقارت سے انکار کردیا۔ اس کا ظلم و جبر یہاں تک بڑھا کہ حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کی بینائی جاتی رہی اور آنکھیں بے نور ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر ابوجہل نہایت طنزیہ لہجے میں بولا: ’’دیکھ لات و عزیٰ نے تجھے اندھا کردیا۔ اب تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دین کو چھوڑدے۔‘‘ اس جملے نے زخم زخم حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کے دل کو تڑپا کر رکھ دیا مگر وہ خاموش رہیں۔ یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ مشرکین حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کی مثال دے دے کر مسلمانوں پر جملے کسنے لگے کہ:
’’دیکھو زنیرہ (رضی اللہ عنہا) کو لات اور عزیٰ نے اندھا کردیا ہے۔‘‘
ایک روز چند مشرکین نے یہ بات حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کہی تو حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا نے تڑپ کر کہا: ’’خدا کی قسم! لات و عزیٰ لکڑی و پتھر کے بت ہیں وہ کیا جانیں کہ کون انہیں پوج رہا ہے اور کون نہیں پوجتا۔ اگر میری بینائی زائل ہوگئی ہے تو یہ مصیبت میرے لئے اﷲ کا ایک امتحان ہے۔ اگر وہ چاہے تو میری بینائی واپس بھی دے سکتا ہے۔‘‘ حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کی بات سن کر سارے مشرکین نے طنزیہ قہقہہ لگایا اور زیادہ مضحکہ خیز انداز میں حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات سب کو ہنس ہنس کر بتانے لگے۔ پورے دن حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کی اس بات کا تذکرہ کرکے شرک کے پیروکار قہقہے لگاتے رہے، مذاق اُڑاتے اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرتے رہے۔ اگلے روز حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا سوکر بیدار ہوئیں تو ان بے نور آنکھوں میں روشنی آچکی تھی۔ اب ان کی بینائی پہلے سے بھی کہیں زیادہ تیز تھی۔ (2) حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کی بینائی واپس لوٹنے کی خبر بھی مکہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کل تک جو لوگ حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کی بات کا مزے لے لے کر مضحکہ اور تمسخر اڑارہے تھے انہیں سانپ سونگھ گیا تھا۔ خصوصاً ابوجہل تو شرم کے مارے گھر سے ہی نہ نکلا۔ اسی روز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ابوجہل کے پاس دوبارہ آئے اور کہا کہ اگر تم زنیرہ رضی اللہ عنہا کو فروخت کردو تو میں اس کے دگنے دام دوں گا اور تم اس سے زیادہ طاقتور اور محنتی کنیز خرید سکوگے۔ ابوجہل زنیرہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پاس اب مزید نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی اپنی ہی بات کی وجہ سے اسے سبکی اٹھانی پڑی تھی اِس لئے اُس نے کئی گنا زیادہ دام پر حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کو فروخت کردیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا نے ان کو آزاد کردیا۔
(ایس اے ساگر)
(ایس اے ساگر)
-----------------------------------
(1) مجھے درج ذیل ناموں کا مطلب معلوم کرنا ہے، براہ کرم، ان ناموں کے معنی بتائیں نیز بتائیں کہ یہ نام رکھنے میں کوئی قباحت تو نہیں؟: (۱) زنیرہ (۲) عاتکہ (۳) اریبہ، (۴) یسری (۵) انابیہ، (۶) ہانیہ ، (۷) منیرہ، (۸) اسحال۔
سوال
مجھے درج ذیل ناموں کا مطلب معلوم کرنا ہے، براہ کرم، ان ناموں کے معنی بتائیں نیز بتائیں کہ یہ نام رکھنے میں کوئی قباحت تو نہیں؟:
(۱) زنیرہ(۲) عاتکہ (۳) اریبہ، (۴) یسری (۵) انابیہ، (۶) ہانیہ ، (۷) منیرہ، (۸) اسحال۔
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی (ل): 1073=663-7/1432
(۱) ”زِنِّیْرَہ“ کے معنی ہیں ”چھوٹی کنکری“ کے، یہ ایک صحابیہ محترمہ رضی اللہ عنہا کا نام ہے، اس نام کو رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
(۲) ”عاتکہ“ کے معنی آتے ہیں: زیادہ خوشبو استعمال کرنے والی عورت، یہ بھی صحابیہ کے ناموں میں سے ہے، اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔
(۳) ”اریبہ“ اس کے معنی ہیں: عقل مند، دانا، اس میں بھی قباحت نہیں۔
(۴) ”یُسری“ بائیں جانب، یہ کوئی اچھا نام نہیں، اس کی جگہ ”یُمنیٰ“ نام رکھ سکتے ہیں۔
(۵) ”اِنابیہ“ رجوع ہونے والی، جھکنے والی، معنی صحیح ہے، کوئی قباحت نہیں۔
(۶) ”ہانیہ“ خوش رہنے والی، خادمہ، اس میں بھی قباحت نہیں۔
(۷) ”مُنیرہ“ روشن، چمک دار، روشنی دینے والی، اس میں بھی قباحت نہیں ہے۔
(۸) ”ایشال“ انگریزی ڈکشنری میں اس کے معنی جنت کے پھول کے لکھے ہیں؛ تاہم یہ معنی معتبر معلوم نہیں ہوتے ہیں؛ لہٰذا اس نام کو رکھنا مناسب نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ : دار الافتاء دار العلوم دیوبند
------------------------------------------
اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعا سے پھر ان کی آنکھوں میں روشنی عطا فرما دی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے جادو کا اثر ہے۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۷۰)
(ایس اے ساگر)
No comments:
Post a Comment