نام نہاد مہدی محمد بن عبد اللہ قحطانی کی ہلاکت
حج ختم ہوئے ابھی صرف 20 دن ہی گزرے تھے اور نئے اسلامی سال بلکہ نئی اسلامی صدی یعنی 1400 ہجری کا پہلا دن تھا۔ گویا یہ یکم محرم الحرام سن 1400 ہجری بمطابق 20 نومبر 1979، منگل کی صبح تھی جب امام حرم کعبہ شیخ عبد اللہ بن سبیل نے نماز فجر کا سلام پھیرا ہی تھا کہ چند آدمیوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا ان میں سے کچھ لاؤڈ سپیکر پر قابض ہو گئے۔ کچھ مسجد الحرام کے میناروں پر چڑھ گئے اور کچھ مسلح افراد نے مسجد کے دروازوں کا کنٹرول سنبھال لیا- حج ختم ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے اور اس وقت حرم شریف میں ایک لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔
ان حملہ آور خوارج کا سرغنہ جہیمان بن سیف تھا جس کا تعلق سعودی عرب کے علاقے ”نجد” سے تھا۔ اس کا دست راست 27 سالہ محمد بن عبد اللہ قحطانی تھا۔ جس نے مکہ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کی چار سالہ تعلیم حاصل کی تھی-
ان لوگوں نے بڑی باریک بینی سے پلاننگ کرکے جنازوں کا بہروپ بناکر تابوتوں کے ذریعے اسلحہ کی بڑی مقدار حرم پاک کے تہہ خانوں میں جمع کرلی تھی۔ اسلحے کے ساتھہ خشک کھجوروں اور دیگر اشیا خرد و نوش کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ تہ خانوں میں چھپادیا گیا تھا۔ امام کو گھیرنے کے بعد اچانک حرم کے تمام دروازے بند کرکے ان پر اپنے مسلح افراد کھڑے کردئیے گیے۔ حرم میں موجود تمام نمازی یرغمال بنا لیے گیے۔ جو اپنی تھوڑی بہت کوشش سے حرم سے نکل گئے، بس وہی نکل سکے۔ باقی سب معصوم حاجی اور نمازی جن میں خواتین، بوڑھے اور بچے بھی تھے محصور ہو کر رہ گئے۔ ایک حملہ آور نے عربی میں حرم پاک کے اسی مائک سے جس پر چند لمحوں پہلے نماز فجر کی تلاوت ہورہی تھی، اعلانات کرنا شروع کر دیے کہ ”مہدی موعود جس کا نام محمد بن عبدا للہ ہے آ چکا ہے۔”
نام نہاد مہدی ”محمد بن عبد اللہ قحطانی” جسکی تصویر نیچے دی گئی ہے اس نے بھی مائیک پر آ کر اعلان کیا کہ
”میں نئی صدی کا مہدی ہوں، میرے ہاتھ پر سب لوگ بیعت کرینگے.”
اس کے بعد اس گمراہ ٹولے نے مقام ابراہیم کے پاس جاکر گولیوں، سنگینوں اور بندوقوں کے سائے میں لوگوں کو دھمکاتے ہوئے بیعت شروع کروانی شروع کر دی۔
محاصرے کے فوراً بعد سعودی وزارت داخلہ کے تقریباً ایک سو (100) اہلکاروں نے دوبارہ مسجد حرام پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن مرتدین حملہ آوروں نے ان فوجیوں کی کوشش ناکام بنا دی۔ اس کوشش میں بہت سا جانی نقصان بھی ہوا۔ اس کے بعد سعودی فوج اور سعودی نیشنل گارڈ نے بھی حرم پاک کو ناپاک لوگوں سے آزاد کرانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ شام ہوتے ہوتے پورے شہر مکّہ مکرمہ کو رہاشیوں سے خالی کروالیا گیا۔
سعودی فرمانروا شاہ خالد نے 32 علماء پر مشتمل سپریم کونسل کا اجلاس فوری طور پر طلب کر لیا۔ علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ مسلح گمراہ افراد کیخلاف کارروائی شریعت کے عین مطابق ہے۔تاہم اس فتوے کی روشنی میں بیت اللہ کے تقدس کے پیش نظر بھاری اسلحہ استعمال کرنے سے گریز کیا گیا۔
بعد ازیں سعودی آرمی اور فرنچ آرمی کا خوارج سے مقابلہ ہوا جن کے پاس ٹیلی سکوپ رائفل والے فائرر(Snipers) اور ماہر نشانہ باز(Sharp Shooters) تھے اور انہوں نے مسجد الحرام میں جگہ جگہ پوزیشنز سنبھال لیں تھیں۔ دو دن تک مقابلہ ہوا لیکن سعودی فوجی ہلاکتوں کے باوجود سعودی اور فرنچ آرمی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ مسجد الحرام دو دنوں سے اذانوں اور نمازوں کی تکبیرت کی گونج سے محروم تھی۔ گویا نہ اذانیں دی جارہی تھیں نہ نمازوں کا باقاعدہ اہتمام ہو پارہا تھا، نہ طواف ممکن تھا۔
اللہ نے گویا مملکت پاکستان کو یہ سعادت بخشنی تھی اس لئے بلا آخر پاکستان کی فوج کو بلایا گیا۔اس فوج کا جو گوریلا دستہ اس ایکشن کے لئے آیا تھا اس کا سربراہ میجر پرویز مشرف تھا جو بعد ازاں پاکستان آرمی چیف اور صدر بنا اور اسے بیت اللہ کی چھت پر چڑھ کر اللہ اکبر کہنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی- نیز اس وقت پاکستان کا صدر جنرل ضیا الحق تھا جسے بعد ازاں حرم شریف کے امام نے مصلے سے پیچھے ہٹ کر مسجد حرام میں نماز کی امامت کے لئے درخواست کی-
بہرحال فوج نے نہایت کم وقت میں آپریشن کی منصوبہ بندی کی. کمانڈوز نے دہشت گردوں کے اسنائپرز سے نمٹنے کے لئے پوری مسجدالحرام میں پانی چھوڑا گیا اور پوری مسجد کی گیلی زمین میں کرنٹ دوڑانے کی دھمکی دی گئی جس کی وجہ سے خوارج کے شارپ شوٹرز اور سنائپرز کچھ دیر کے لئے غیر مؤثر ہوگئے۔
فوج نے غیر معمولی سرعت سے تمام خوارج پر قابو پالیا۔ بغیر کسی جانی نقصان کے سب حملہ آوروں کو فوری طور پر گرفتار کرلیا۔ تمام یرغمالیوں کو رہائی دلائی گئی۔ اللہ ہمارے ان روحانی مراکز مکہ و مدینہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور انہیں حاسدوں کے شر سے محفوظ و مامون رکھے. (آمین)
خوارج کا مکمل صفایا کرنے کے بعد 7 دسمبر 1979 کو دوبارہ حرم شریف کو عبادت کیلئے کھولا گیا۔ گویا سولہ دن حرم پاک میں اذانیں نمازیں اور طواف ممکن نہ ہوسکا۔
اس لڑائی میں 75 باغی مارے گئے جس میں نام نہاد مہدی ”محمد بن عبد اللہ قحطانی” بھی شامل تھا جسکی ہلاکت کے بعد کی تصویر نیچے پیش کی گئی ہے اور اس ناپسندیدہ انسان کی تصویر اور اس واقعہ کی تفصیل صرف اس لئے پیش کی جارہی ہے کہ آپ اور خاص طور سے آج کی نوجوان نسل اسلامی تاریخ کے اس لرزہ خیز ایونٹ سے آشنا ہو سکے۔
خوارج کے علاوہ نیشنل گارڈز کے 60 فوجی، چار پاکستانیوں سمیت 26 حاجی شہید اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ خوارج کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا جس میں اس کا سرغنہ ”جہیمان بن سیف العتیبی” بھی شامل تھا۔
سزائے موت پانے والے مرتدین میں سے 41 سعودی عرب، 10 مصر، 6 جنوبی یمن، اور 3 کویت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ عراق، سوڈان اور شمالی یمن کا بھی ایک ایک مرتد شامل تھا۔ کیس کے بعد ان تمام ملزموں کے سعودی قوانین کے تحت سر قلم کر دیے گئے۔
اللہ ہمیں ایسے فتنہ اور شرانگیر لوگوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے. (آمین)
https://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_53.html?m=1
No comments:
Post a Comment