Sunday, 8 September 2019

مسجد میں داخل ہونے کے آداب کیا ہیں؟

مسجد میں داخل ہونے کے آداب کیا ہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
امام قرطبــــی رحمۃاللہ علیہ نے مسجدمیں داخل ہونے کے پندرہ ۱۵ آداب نقل کیے ہیں اور وہ یہ ہیں...
(۱) اگر لوگ مسجد کے اندر بیٹھے ہوں،تو اُن کو سلام کرے اورکوئی نہ ہو، توکہے: "اَلسّـَـلامُ عَلَیــناَ وَعلیٰ عباَدِاللہِ الصّالحین" لیکن یہ اس وقت ہے جب کہ کوئی نفل نمازتلاوت تسبیحات میں مشغول نہ ہو...
(۲) مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃالمسجد پڑھے، جب کہ وقت مکروہ نہ ہو...
(۳) مسجد میں خرید و فروخت نہ کرے...
(۴) وہاں تیر و تلوار نہ نکالے...
(۵) مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان نہ کرے...
(۶) مسجد میں آواز بلند نہ کرے...
(۷) وہاں دنیا کی باتیں نہ کرے...
(۸) مسجد میں بیٹھنے کی جگہ پر کسی سے جھگڑا نہ کرے...
(۹) جہاں صف میں پوری جگہ نہ ہو،وہاں گھس کر لوگوں میں تنگی پیدا نہ کرے...
(۱۰) کسی نمازی کے سامنے سے نہ گزرے...
(۱۱) مسجد میں تھوکنے، ناک صاف کرنے سے پرہیز کرے...
(۱۲) انگلیاں نہ چٹخائے...
(۱۳) اپنے بدن کے کسی حصہ سے نہ کھیلے...
(۱۴) نجاستوں سے پاک و صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ ناسمجھ بچوں کو بھی مسجد سے دور رکھے...
(۱۵) وہاں ذکر اللہ میں مشغول رہے، غفلت نہ برتے...
صاحبِ تفسیر قرطبــی نے یہ پندرہ ۱۵ آداب لکھنے کے بعد فرمایا کہ جس نے ان آداب پر عمل کیا، گویا کہ اُس نے مسجد کا حق ادا کردیا، اور مسجد اُس کے لئے شیطان سے حفاظت کا ذریعہ اور اَمن گاہ ہوگی...
(الجامع الاخلاق القرآن ۶/ ۱۸۳)
--------------------------------------------
مساجداﷲ کا گھر ہیں اور توحید کا گہوارہ ہیں۔مساجد کی عزت اور تعظیم کے لیے کچھ آداب کو پیش رکھنا ضروری ہے۔
١۔ مساجد میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے اندر رکھنا چاہیے اور یہ دعاپڑھنی چاہے۔
"اللَّهُمَّ افْتَحْ لي أبْوابَ رَحْمَتِك"
یااﷲ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ﴿مسلم﴾
۲۔ مسجد میں فضول باتوں سے پرہیز کیا جائے، بدن لباس پاک صاف ہو، بہتر ہے کہ گھر سے مسجد میں باوضو ہوکر جائیں۔
۳۔ مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا سنت ہے، اس کو تحیتہ المسجد کہتے ہیں۔ فرض نماز مسجد میں پڑھنا واجب ہے، بلاعذر گھر میں نماز قبول نہیں ہوتی۔
۴۔ جب لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو ان کے سامنے سے گزرنا منع ہے۔ اس کے بارے میں میں حدیث میں وعید آئی ہے۔
۵۔ سجدوں کو پاک صاف رکھنا اور گردوغبار جھاڑنا مسلمانوں کے ذمہ ہے۔
٦۔ مسجد میں بدبو دار چیزیں لے کر آنا اور کھا کر جانا منع ہے،اگر کوئی ناگوار بدبودار چیز کھائی ہو پیاز،لہسن وغیرہ توٹھ پیسٹ یا مسواک کے زریعہ منہ صاف کرکےجانا چاہے،مسجد میں خوشبو لگا کر جانا چاہے۔
۷۔ مسجد میں خریدؤفروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
۸۔ مسجد میں تھوکنا یا ناک کا فضلہ پھیکنا منع ہے
9۔ مسجد میں دیر سے آنے والوں کو اگلی صف میں جانے کے لیے لوگوں کے کندھے پھلانگ کرجانامنع ہے کیونکہ اس سے پہلے آنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
١۰۔ جب دوسرے لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو بلند آواز سے ذکر کرنا حتی کہ تلاوت قرآن مجید بھی منع ہے کیونکہ اس سے دوسروں کی عبادت میں خلل پڑتاہے۔
١١۔ مسجدوں میں کوئی ایسی گفتگو نہ کی جائے جس سے دوسروں کی تحقیر ہوتی ہو، نہ ہی کوئی ایسی حرکت کی جائے جو دوسروں کی اذیت کا باعث ہو۔
١۲۔ مسجد کا امام تقویٴ،علم اور عمل کی بناء پر مقرر کیاجاناچاہیے جو علم،تقوئ و دینداری میں سب سے برتر ہو۔
١۳۔ مسجد میں جاتے ہوئے وقار اور ادب سے مدنظر رکھا جاہے،خاموشی سے داخل ہوجائے اگر کوئی بات کرنی پڑے تو آہستہ سے کی جائے۔ذیادہ وقت تلاوت قرآن، نوافل، اور نماز میں صرف کیا جائے۔
١۴۔ مسجد سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھنی چائیے:
"اللَّهُمَّ إِني أسألُك مِنْ فَضْلك" "الہی! میں تیرے فضل کا سائل ہوں" (مسلم)
--------------------------------------------------------------------------------------------
سوال: میرا سوال یہ ہے کیا مسجد میں داخل ہونے کے وقت سلام کرنا چاہیے یا نہیں جس طرح گھر میں داخل ہونے پر سلام کرنا چاہیے ہمارے امام صاحب کا کہنا ہے کہ مسجد میں داخل ہونے کی دعا ہی اسکا بدل ہے، حدیث کے حوالہ سے جواب مرحمت فرمائیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
(۱) اگر مسجد میں حاضر لوگ نماز، تلاوت، وعظ، ذکر وغیرہ میں مشغول نہ ہوں تو سلام کرے اگر کسی مشغول آدمی کی نماز تلاوت وغیرہ میں خلل کا اندیشہ ہو تو اس وقت سلام نہ کرے (قولہ ذاکر) فسرہ بعضہم بالواعظ لانہ یذکر اللہ تعالی ویذکر الناس بہ والظاہر أنہ اعم فیکرہ السلام علی مشتغل بذکر اللہ تعالی بأی وجہ کان (فتاوی رد المحتار: ۱/۴۱۴، مطبوعہ نعمانیہ دیوبند)
ایسی کوئی حدیث ہماری نظر سے نہیں گذری۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
----------------------------------------------------------------------------------------------------
سوال: ایک آدمی مسجد میں آکر پہلی صف میں اپنا رومال/ ڈیکس رکھ دے، تاکہ اس کی جگہ رک جائے اور وہ موجود نہ ہو اور جو جلدی آئے وہ پہلی صف میں بیٹھ نہ سکے، تو کیا یہ جگہ روکنا صحیح ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
مسجد اللہ جل شانہ کا گھر ہے، جس میں تمام مسلمان برابر کے حق دار ہوتے ہیں، اس پر کسی کی ذاتی ملکیت  نہیں ہوتی، لہذا مسجد میں کسی جگہ کو ڈیکس، رومال، چادر، مصلی، تسبیح وغیرہ رکھ  کر اپنے لیے متعین کرکے چلے جانا اور جماعت کے وقت آکر اس جگہ پر اپنا حق جتانا اور بیٹھے ہوئے شخص کو اس جگہ سے ہٹنے پر مجبور کرنا یا اس جگہ پر کسی کو بیٹھنے نہ دینا، یہ سب ناجائز ہے، البتہ پہلے سے مسجد میں آکر کسی جگہ بیٹھنے کے بعد بغرضِ وضو  یا قرآنِ مجید لینے کے لیے اٹھتے ہوئے اس جگہ پر رومال، تسبیح وغیرہ رکھ کر جانا، یا آس پڑوس میں بیٹھے شخص کو کہہ کر جانا جائز ہے، اور اس طرح کرنے سے وہ جگہ اس شخص کے لیے مخصوص رہے گی، جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:
(قَوْلُهُ: وَتَخْصِيصُ مَكَان لِنَفْسِهِ) لِأَنَّهُ يُخِلُّ بِالْخُشُوعِ، كَذَا فِي الْقُنْيَةِ: أَيْ لِأَنَّهُ إذَا اعْتَادَهُ ثُمَّ صَلَّى فِي غَيْرِهِ يَبْقَى بَالُهُ مَشْغُولًا بِالْأَوَّلِ، بِخِلَافِ مَا إذَا لَمْ يَأْلَفْ مَكَانًا مُعَيَّنًا. (قَوْلُهُ: وَلَيْسَ لَهُ إلَخْ) قَالَ فِي الْقُنْيَةِ: لَهُ فِي الْمَسْجِدِ مَوْضِعٌ مُعَيَّنٌ يُوَاظِبُ عَلَيْهِ وَقَدْ شَغَلَهُ غَيْرُهُ. قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: لَهُ أَنْ يُزْعِجَهُ، وَلَيْسَ لَهُ ذَلِكَ عِنْدَنَا اهـ أَيْ لِأَنَّ الْمَسْجِدَ لَيْسَ مِلْكًا لِأَحَدٍ بَحْرٌ عَنْ النِّهَايَةِ. قُلْت: وَيَنْبَغِي تَقْيِيدُهُ بِمَا إذَا لَمْ يَقُمْ عَنْهُ عَلَى نِيَّةِ الْعَوْدِ بِلَا مُهْلَةٍ، كَمَا لَوْ قَامَ لِلْوُضُوءِ مَثَلًا وَلَا سِيَّمَا إذَا وَضَعَ فِيهِ ثَوْبَهُ؛ لِتَحَقُّقِ سَبْقِ يَدِهِ تَأَمَّلْ". (باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، مطلب في الغرس في المسجد، ١/ ٦٦٢)

No comments:

Post a Comment