کیا بینٹیم Bantam نسل کے بکروں کو پالنا، بیچنا اور قربانی کرنا جائز ہے؟
بکروں کی نسلوں میں ایک نسل "بینٹیم" Bantam ہے یہ نسل دیکھنے میں بہت ناٹی لگتی ہے کچھ لوگوں کا اس نسل کے بارے میں خیال ہے کہ یہ پہلی نسل بکری پر خنزیر لگانے سے ہوئی ہے کیا اگر اس بات کو صحیح مان لیا جائے تو اس نسل کے بکروں کو پالنا، بیچنا اور قربانی کرنا جائز ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
بچہ ماں کے تابع ھوتا ھے۔ خواہ مذکر کوئی بھی ھو۔اسلئے سب کچھ جائز ھے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ جبتک خنزیر کے نسل ہونے کا یقین نہ ہو اسوقت تک اسکو حلال ہی کہا جائیگا.
الیقین لا یزول با الشک
قاعدہ کے تحت
لیعلم ان حکم الولد حکم امہ فی الحل والحرمۃ دون الفحل) فلو کانت امہ حلالا لکان ھو حلالا ایضاً لان حکم الولد حکم امہ لانھا منھا وھو کبعضھا (بدائع الصنائع جلد ۵صفحہ ۵۵)
بچہ ماں کے تابع ھوتا ھے۔ خواہ مذکر کوئی بھی ھو۔اسلئے سب کچھ جائز ھے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ جبتک خنزیر کے نسل ہونے کا یقین نہ ہو اسوقت تک اسکو حلال ہی کہا جائیگا.
الیقین لا یزول با الشک
قاعدہ کے تحت
لیعلم ان حکم الولد حکم امہ فی الحل والحرمۃ دون الفحل) فلو کانت امہ حلالا لکان ھو حلالا ایضاً لان حکم الولد حکم امہ لانھا منھا وھو کبعضھا (بدائع الصنائع جلد ۵صفحہ ۵۵)
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سوال: آج کل جانوروں کی پیوند کاری کی جاتی ہے جس طرح گھوڑے کی ایک نسل کی دوسری نسل کے اختلاط سے خچر تخلیق کی گئی ہے۔ اس طرح ایک بھیانک اور ناپاک درندے خنزیر کے اختلاط سے گائے کی ایک نسل پیدا کی گئی ہے چونکہ مذکورہ گائے دودھ بہت دیتی ہے اس لیے عوام الناس میں کافی مقبول ہو رہی ہے کیا یہ حقیقت پر مبنی ہے اگر صحیح ہے تو کیا اس طرح کے جانور کا دودھ گوشت حلال ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگرچہ اس سوال کا تعلق جدید سائنس سے ہے۔ کتاب و سنت سے نہیں ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ جو حضرات کتاب و سنت کے حاملین ہیں وہ جدید سائنس کے متعلق معمولی سی معلومات رکھتا ہے تاہم اس سوال کے حوالہ سے میں نے محکمہ لائیوسٹک کے عملہ سے رابطہ کیا۔ ماہرین سائنس سے بھی معلومات حاصل کی ہیں ۔ ان معلومات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو جوڑا پیدا کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿وَمِن كُلِّ شَىءٍ خَلَقنا زَوجَينِ لَعَلَّكُم تَذَكَّرونَ ﴿٤٩﴾... سورة الذاريات
"اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کر دئیے ہیں شاید تم سبق حاصل کرو۔"
اس آیت کے کئی ایک مفہوم بیان کیے جاتے ہیں ہمارے رجحان کے مطابق درج ذیل مفہوم قرین قیاس ہے زوجین سے مراد نر اور مادہ ہے ہر نر مادہ کا زوج ہے اور ہر مادہ نر کا زوج ہے۔ جانداروں میں ایک دوسرے کا زوج تو سب کے مشاہدہ میں آچکا ہے۔ نباتات میں بھی یہ سلسلہ قائم ہے۔ باربرادری ہوائیں نر درختوں کا تخم مادہ پر ڈال دیتی ہیں تو انہیں پھل لگتا ہے جس علاقے میں کھجوریں زیادہ ہوتی ہیں وہاں کے باشندے خود نر کھجوروں کا تخم مادہ کھجوروں پر ڈال دیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کے موقع پر اہل مدینہ کھجوروں پر یہی عمل کرتے تھے جس سے آپ نے منع فرمایا تو اگلے سال پھل بہت کم ہوا۔ اس کے بعد آپ نے اس کی اجازت دے دی. شرعی اصطلاح میں اس عمل کو"تابیر نخل" کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی مقام پر تن تنہا درخت پھل نہیں لاتا۔ جدید تحقیق کے مطابق یہ سلسلہ جمادات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بجلی نیوٹرل اور فیس ہونا ایک حقیر ذرہ میں الیکٹرون اور پروٹون کا مثبت اور منفی ہونا انسان کے علم میں آچکا ہے جمادات تو کیا کائنات کی ہر چیز ذرات ہی کا مجموعہ ہوتی ہے اس نر مادہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ چلایا کہ ان دونوں نر ومادہ کے ملاپ سے ایک تیسری چیزوجود میں آتی ہے۔ جس میں اصل نر ومادہ کے خواص موجود ہوتے ہیں اسے سائنسی اصطلاح میں اس طرح تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر جاندارکی نسل باقی رکھنے اور اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کا ایک نظام بنا رکھا ہے اس نے ہر جاندار میں جرثومے پیدا کیے ہیں جنہیں کرو موسوم کہا جاتا ہے پھر ہر جنس میں کرو موسوم کی تعداد شکل و صورت اور ان کی ترتیب مختلف ہے مثلاً انسان کے اندر چھیالیس کروموسوم ہیں جن کے تئیس (23) جوڑے بنتے ہیں جنسی ملاپ کی صورت میں بائیس جوڑے جسم کی نشو ونما کے لیے اور تئیسواں جوڑا افزائش نسل کے لیے ہوتا ہے قرآن کریم نے نطفہ امشاج سے انسان کو آگے چلایا ہے، اگر ان کی تعداد، شکل وصورت اور ترتیب میں فرق ہوجائے تو کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی، اگر پیدا ہوجائے تو وہ افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتی ہمارے ہاں اس کی مثال گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے خچر پیدا کرنا ہے، اگرچہ شریعت نے اس سے منع کیا ہے تاہم فوجی حضرات اپنی ضرورت کے لیے مصنوعی بارآوری کے ذریعے خچر کو پیدا کرتے ہیں یہ خچر خود آگے افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتا خواہ نر ہو یا مادہ، اس کی پیدائش صرف اس کی ذات تک محدود رہتی ہے۔ اس کے آگے نسل نہیں چلتی ہے، اس وضاحت کے بعد ہم صورت مسئولہ کا جائزہ لیتے ہیں کہ سائنسی اعتبار سے یہ ناممکن ہے کہ خنزیر اور گائے کے ملاپ سے کوئی نسل پیدا کی جائے جس میں گائے کی خصوصیات ہوں اور دودھ دینے کے اعتبار سے وہ خنزیر کی خصوصیات کی حامل ہو۔ موجودہ آسٹریلین گائے مستقل ایک جنس ہے جس کی آگے نسل چلتی ہے، ان میں نر ومادہ دونوں جوڑے رہتے ہیں، جب اس نسل کی پہلی کھیپ آئی تو بلوچستان کے ٹھنڈے علاقہ میں رکھا گیا۔ اس کھیپ میں نر اور مادہ دونوں قسم کے جانور تھے، ان کے ملاپ سے آگے نسل بھی چلائی گئی۔ میں نے اس سلسلہ میں اس وقت کے محکمہ لائیو اسٹاک کے ڈایئرکٹر سے ملاقات کی، اگر یہ گائے خنزیر کے ملاپ سے پیدا ہوئی تو اس کی نسل آگے نہ چلتی جیسے خچر کی نسل آگئے نہیں چلتی ہے، دودھ زیادہ دینے کی اور کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، اس سلسلہ میں غذائیں اور چارہ بھی کافی معاون ہوتا ہے۔ میں نے رینالہ فارم میں ایسی گائیں خود دیکھی ہیں جن کے پیٹ پر ایک پیچدار پائپ لگا ہے ان کے معدے تک پہنچتا ہے۔ انہیں چارہ کھلانے کے بعد پائپ کھول کر پتہ چلایا جاتا ہے کہ یہ چارہ کتنی مدت میں ہضم ہوتا ہے پھر زودہضم چارے کا انتخاب کرکے دودھ زیادہ حاصل کیا جاتا ہے، چارے کے علاوہ دیگر غذائی مواد بھی کھلایا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ دودھ دیں، بہرحال اس مفروضے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ یہ نسل گائے اور خنزیر کے ملاپ سے پیدا کی گئی ہے. واقعاتی اعتبار سے ایسا ہونا اس لیے بھی ناممکن ہے کہ گائے کہ کروموسوم ساٹھ اور خنزیر کے صرف اڑتیس ہوتے ہیں، ان دونوں کی تعداد میں بائس کروموسوم کا فرق ہے پھر ان کی شکل وصورت میں واضح فرق ہے کہ مادہ خنزیر کے سولہ تھن ہوتے ہیں جبکہ گائے کے صرف چار تھن ہیں۔ خصوصیات کے اعتبار سے بھی فرق ہے ہے کہ خنزیر انتہائی بے حیا جانور ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کیا ہے پھر جن ممالک میں اس کا گوشت کھا یا جاتا ہے وہ انتہائی بے حیا اور بے شرم ہیں، اگرایسا ممکن ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کو یہ حکم نہ دیتا کہ ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلو، صرف ایک ایک جوڑا ہی کافی تھا پھر ان کے باہمی ملاپ سے آگے نسل چلائی جاسکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کوحکم دیا:
﴿قُلنَا احمِل فيها مِن كُلٍّ زَوجَينِ اثنَينِ ...﴿٤٠﴾... سورةهود
"ہم نے نوح سے کہا کہ اس کشتی میں ہرقسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا نر مادہ رکھ لو۔"
بہرحال خنزیر ایک الگ جنس ہے اور گائے ایک دوسری جنس ہے، ان کا باہمی ملاپ ناممکن تو نہیں البتہ اس سے کسی جنس کا پیدا ہونا ناممکن ہے، یوروپ میں فرنگی تہذیب سے وابستہ خواتین کتوں سے بدکاری کرواتی ہیں لیکن کبھی اس کے نتیجہ میں کوئی نسل پیدا ہوئی ہے؟ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس حوالہ سے اپنے فقہاء کرام کا ایک مفروضہ ملاحظہ فرمائیں۔ اگر بکری اور کتے کے ملاپ سے ایسا بچہ پیدا ہو جس کا سر کتے جیسا اور باقی دھڑ بکرے کا ہوتو اس کے حلال وحرام ہونے کے متعلق فقہاء احناف نے حسب ذیل وضاحت کی ہے۔ اس کے سامنے گوشت اور چارہ ڈالا جائے، اگر وہ گوشت کھائے تو اس کا گوشت حرام ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ کتا ہے اگر وہ چارہ کھائے تو ذبح کرنے کے بعد اس کا سرکاٹ کر پھینک دیا جائے اور باقی گوشت استعمال کرلیا جائے کیونکہ وہ بنیادی طور پر بکرا ہے اور اگر وہ چارہ اور گوشت دونوں کھائے تو پھر اسے مارا جائے، اگر بھونکتا ہے تو اس کا گوشت استعمال کے قابل نہیں کیونکہ وہ کتا ہے اور اگر وہ بکری کی طرح ممیاتا ہے تو ذبح کرکے اس کا سر پھینک دیاجائے اور باقی حصہ کھالیا جائے کیونکہ وہ بنیادی طور پر بکرا ہے، اگر مارنے سے دونوں قسم کی آوازیں برآمد ہوں تو اس کا پیٹ چاک کیا جائے اگر اس سے اوجھڑی نکلےتو اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے اور باقی حصہ قابل استعمال ہے اور اوجھڑی کی بجائے صرف انتڑیاں ہی برآمد ہوں تو وہ کتا ہے اور اسے استعمال نہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں بکریوں کی ایک قسم ہرن سے ملتی جلتی ہے، اس کے سینگ، سر، منہ اور آنکھیں بالکل ہرن جیسی ہوتی ہیں، اس کے متعلق بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنس بکری ہرن کے ملاپ کا نتیجہ ہے، اس طرح برائلر مرغی کے متعلق مشہور ہے کہ اس کی پیدائش باپ کے بغیر ہوتی ہے لہذا اس کا گوشت جائز نہیں ہے۔ یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے جہاں مرغی فارم ہیں وہاں مرغ بھی رکھے جاتے ہیں وہ مرغیاں جو انڈے دیتی ہیں ان کے بچے نکالے جاتے ہیں لیکن وہ بچے مشینی ہوتے ہیں اگرچہ وہ اکیس دن کے بعد ہی نکلتے ہیں تاہم وہ مرغیوں کے محتاج نہیں ہوتے، ان بچوں کوایک خاص طریقہ سے نر اور مادہ کی چھانٹی کی جاتی ہے جو مرغ ہوتے ہیں انہیں برائلر کے طور پر مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ اور مرغیوں کو انڈوں کے لیے رکھا جاتا ہے، ان کو کیمیاوی غذا کھلاکر انڈے حاصل کیے جاتے ہیں، ان انڈوں سے بچے نہیں نکلتے کیونکہ یہ انڈے صرف غذا سے حاصل کیے جاتے ہیں، ان میں مرغ کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، جو مرغی انڈے دے دے کر تھک جائے پھر انڈے نہ دے اور غذا زیادہ کھائے اسے لیر کے نام سے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے، اس کا گوشت برائلر کے مقابلہ میں سستا ہے۔ بہرحال برائلر گوشت کے استعمال میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، اگر کسی کا دل نہ کرے تو یہ الگ مسئلہ ہے، بہرحال صورت مسئولہ کےمتعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ آسٹریلین گائے جو دودھ بہت دیتی ہے، اس میں خنزیر کا کوئی حصہ نہیں ہے، اور نہ ہی خنزیر کے ملاپ سے یہ پیدا ہوئی ہے اور ایسا ہونا ممکن نہیں ہے جب کہ ہم نے واضح کہا ہے کہ جنس کو آگے چلانے کے لیے کروموسوم کی تعداد، شکل وصورت اور ان کی ترتیب میں یکسانیت ہونا ضروری ہے، گائے اور خنزیر میں ایسا ہونا ناممکن ہے، اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ روایات بھی ہیں جو آپ نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمائی تھی، جنھیں ہم نے شرح بخاری میں تفصیل سے بیان کیا ہے اور جو آج کل آخری مراحل میں ہے۔ قارئین کرام سے اپیل ہے کہ وہ اس کی تکمیل کے لیے ضروردعا کریں اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین
فتاویٰ قاضی خان برحاشیہ عالمگیری، ص:537، ج 3۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
Male Bantam Goat Kid |
No comments:
Post a Comment