Sunday, 1 September 2019

واقعہ کربلا: منظر پس منظر

واقعہ کربلا: منظر پس منظر

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز ہی سے مسلمانوں  میں جو خانہ جنگی پیدا ہوگئی، اس کا خاتمہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جانشین حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہوا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہردلعزیز نواسہ کے بارے میں یہ بشارت سنائی تھی:
ان ابني هذا سید ولعل الله ان یصلح به بین فئتین عظیمتین من المسلمین (بخاری:۲۵۰۵)
’’میرا یہ بیٹا سردار ہے امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کروائے.‘‘
چناں چہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد جب خلافت کے مسئلہ میں اختلاف ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کرکے خود کو اس نزاع سے دست بردار کرلیا، تاریخ اسلامی کا یہی وہ سال ہے جسے ’عام الجماعۃ‘ (اجتماعیت واپس آجانے کا سال) کہا گیا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اختلاف ختم کرنے کے لئے گرچہ خود کو دستبردار کرکے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کی ذمہ داری سونپ دی، لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس فیصلے سے راضی نہ تھے، پھر بھی اپنے بھائی کے اس فیصلے کا احترام کرتے رہے اور پھر رفتہ رفتہ حضرت معاویہ سے تعلقات بھی خوشگوار ہوگئے، اور کیوں نہ ہوتے کہ تعلقات کی خوشگواری میں جو چیزیں اصل محرک ثابت ہوتی ہیں وہ حضرت امیر معاویہ اور حضرت حسن وحضرت حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اچھی طرح موجود تھیں، مصالحت اور خوشگواری کی یہ فضا مسلسل چلتی رہی اور ہر طرف فتوحات کا جو سلسلہ خلافت عمری اور خلافت عثمانی میں شاندار طریقہ پر چل رہا تھا، درمیان میں اختلافات کی وجہ سے کچھ ماند پڑجانے کے بعد پھرسے اپنی پرانی شان پر شروع ہوگیا اور اسلامی سلطنت کا دائرہ سرداری کی اعلی ترین خصوصیات کے حامل امیر المؤمنین کی حکمت وتدبیر کے نتیجے میں مزید وسیع ہوتا چلاگیا، اورمسلمان اپنے اس حلم وبردباری کے پیکرامیر کے ساتھ آرام وسکون، انصاف اور عفوودرگذر کی فضا میں زندگی گذارتے رہے۔ (البدایہ والنہایۃ: ۸؍۱۲۹)
   لیکن اختلاف پھر اس وقت پیدا ہوگیا جبکہ سن ۵۶ ہجری میں حضرت امیر معاویہ نے اپنی پیرانہ سالی اور ضعیف العمری کی وجہ سے کسی کو اپنا جانشین بنانا چاہا اور اس کے لئے اپنے بیٹے یزید کو موزوں قرادیا، چناں چہ یزید کی جانشینی پر بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا، جن میں حضرت حسین، حضرت ابوبکر صدیق کے فرزند حضرت عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین سرفہرست ہیں۔
ان حضرات کا اختلاف عہدہ طلبی یا کسی دنیوی مصلحت کے پیش نظر نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے یہ نیک خیال کار فرما تھا کہ باپ کا اپنے بعد اپنے بیٹے کو عہدۂ خلافت پر فائز کرنا اسلامی خلافت کا دستور نہیں ہے بلکہ شاہی طرز حکومت کا دستور ہے، جس میں رعایا کو کوئی اختیار نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک خاندان کے ماتحت رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ہر طرح کے ظلم وشدت کو برداشت کرنا ہی ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نیز ان حضرات کے پیش نظر یہ بات تھی کے ابھی جبکہ جلیل القد ر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود ہیں تو ان کی موجودگی میں ان ہی میں سے کوئی منصب خلافت کے لئے موزوں ہوسکتا ہے، ان کی موجودگی میں ایک نوعمر اور جواں سال انسان جو کہ صحابی بھی نہیں کیسے خلیفہ بن سکتا ہے؟ گویا یہ اختلاف ایک اصولی اور اخلاص پر مبنی اختلاف تھا، جس کا مقصد حق کی ترجیح اور عہدۂ خلافت کی عظمت واہمیت کا تحفظ تھا۔
ادھر حضرت امیر معاویہؓ کی جانب سے یزید کے انتخاب میں بھی کوئی فاسد نیت نہیں تھی، چونکہ حضرت امیر معاویہ یزید کو حکومت وسلطنت کے مسائل اور جنگ و نظم مملکت کے اصول وضوابط سے اچھی طرح واقف سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے یزید کا انتخاب مناسب سمجھا، تاکہ ادارۂ خلافت مضبوط رہے اور افراتفری پیدا نہ ہونے پائے، کیونکہ خلافت کے سلسلہ میں سب سے زیادہ قابل لحاظ چیز مضبوط انتظامی اہلیت اور گرفت ہے ،جوکہ حضرت امیر معاویہ یزید میں محسو س کررہے تھے، اس لئے بجا طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ’محبت پدری‘ اور’جذبہ فرزندنوازی‘ کی بجائے یہاں بھی عہدۂ خلافت کی پاسداری، وقت وحالات کے موافق خلیفہ کے انتخاب کا جذبہ اور اجتماعی مصلحت کا شعور اصل محرک اوربنیاد تھا، جیساکہ حضرت معاویہؓ  کی اس دعا سے اس کا بخوبی اندازہ لگتا ہے، فرمایا:
اللهم ان کنت تعلم انی ولیته لانه فیما اراه اهل لذلک فاتمم له وان کنت ولیته لانی احبه فلا تتمم له ما ولیته (البدایہ والنہایۃ: ۸؍۸۷)
’’اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اس کو اس کی اہلیت کی بناپر ولی عہد بنایا ہے تو اس کی ولایت کو تو تکمیل تک پہنچادے اور اگرمیرا یہ کام اس لئے ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے تو پھر اسے تو پورا نہ ہونے دے-‘‘
امیر معاویہؓ  کی اسی نیک نیتی کو علامہ ابن خلدون بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’امیر معاویہ کے پیش نظر اس کے علاوہ کچھ اور نہ تھا کہ امت میں اتحاد واتفاق قائم رہے اور اس کے لئے ضروری تھا کہ ارباب حل وعقد میں اتفاق ہو،اور ارباب حل وعقد صرف یزید ہی کو ولی عہد بنانے پر متفق ہوسکتے تھے، کیونکہ وہ عموما بنوامیہ میں سے تھے اور بنو امیہ اس وقت اپنے علاوہ کسی اور کی خلافت پر راضی نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ وہ قریش بلکہ پوری ملت کا سب سے بڑا با اثر اور طاقتور گروہ تھا، ان نزاکتوں کی وجہ سے معاویہؓ نے یزید کو ولی عہدی کے لئے ان حضرات پر ترجیح دی جو اس کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے تھے اور افضل کو چھوڑکر غیر افضل کو اختیار کیا، تاکہ امت میں جمعیت اور اتفاق باقی رہے، جس کی شریعت میں بڑی اہمیت ہے.‘‘ (مقدمہ ابن خلدون: ۱۷۵)
بہر حال چند بزرگوں کی جانب سے اختلاف کے باجود عمومی اتفاق کے ساتھ  ۵۶ھ میں حضرت امیر معاویہؓ نے یزید کو ولی عہد اور جانشیں مقر کردیا، جن لوگوں کو اس کی جانشینی سے اختلاف تھا وہ اپنے اختلاف اور اس کی ولی عہدی کو قبول کرنے سے انکار پر قائم رہے، بالآخر رجب ۶۰ھ میں حضرت امیر معاویہ کی وفات ہوگئی۔ 
یہی وہ اختلاف تھا جس سے واقعہ کربلا کی داغ بیل پڑی اور جو اس المناک حادثہ کا سبب بنا، اس میں کوفہ کے لوگوں نے بھی اپنی تلون مزاجی کا ثبوت خوب پیش کیا اور قابل حل مسئلہ کو میدان جنگ تک لانے میں کافی اہم رول ادا کیا، کوفہ چونکہ حضرت علیؓ کا دارالخلافۃ تھا، اس لئے حضرت حسینؓ سے قریبی تعلق رکھنے والے لوگ کوفہ میں موجود تھے، اسی طرح حضرت امیر معاویہؓ کی طویل عرصہ حکومت کی وجہ سے وہاں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ان کے خلاف محاذ آرائی کے لئے ہمہ وقت کوشاں تھے، مزید برآں عبد اللہ ابن سبا یہودی کی منافقانہ ریشہ دوانیوں سے ایسے عناصر بھی پیدا ہوگئے تھے جنہیں مرکز خلافت کے خلاف محاذ آرائی ہی اسلام کی خدمت نظر آتی تھی، چناں چہ یہ متعدد عوامل اور محرکات ہیں جنہوں نے اس مسئلہ میں خوب رول ادا کیا اور اسے ایک ناقابل فراموش اور المناک جنگ میں تبدیل کردیا۔
یزید نے اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد زمام خلافت ہاتھ میں لے کر حاکم مدینہ کو خط لکھا کہ مدینہ کے اہم لوگوں بالخصوص حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی جائے اور ان سے یزید کی خلافت تسلیم کروائی جائے، مدینہ کے حاکم نے اپنے احباب مشاورت سے مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ عبد اللہ بن عمرؓ کے بارے میں جلدی نہ کی جائے کیونکہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ نہیں، البتہ بقیہ دونوں حضرات سے جلد ازجلد اس مسئلہ کو حل کرلینا ضروری ہے، چناں چہ جب یہ بات ان حضرات کے سامنے آئی تو ان حضرات نے بیعت سے انکار کیا اور اپنی حکمت عملی سے مدینہ سے مکہ پہنچ گئے اورراستہ میں پیچھا کرنے کی بھی کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہوئی۔
حضرت حسین ؓ  ۴؍شعبان ۶۰ھ  کو اپنے پورے کنبہ کے ساتھ مکہ پہنچے، مکہ پہنچنے والے اس کنبہ میں صرف محمد بن حنفیہ نہیں تھے جو کہ حضرت حسین ؓ کے علاتی بھائی تھے، حضرت حسینؓ اپنے پورے کنبہ کے ساتھ ۸؍ ذی الحجہ تک مکہ میں ہی مقیم رہے، اس دوران اہل کوفہ کے متعدد وفود اور خطوط حضرت حسین کے پاس آئے جن میں حضرت حسین کو کوفہ آنے اور وہاں کے انتظام اور خلافت کو سنبھالنے کی دعوت اور درخواست تھی اور یہ یقین دلایا گیا تھا کہ سارا کوفہ آپ کے ساتھ ہے اور آپ کے آتے ہی اہل کوفہ یزید کی خلافت سے منہ موڑ کر آپ کی خلافت پر بیعت کرلیں گے، یہ دعوتی خطوط ایک دو نہیں بلکہ کم از کم ڈیڑھ سو اہل کوفہ نے حضرت حسن کے پاس مختلف وفود کے ذریعہ بھیجے، اور ان کے ذریعہ یہ ثابت کرنا چاہا کہ آپ کے جانثاران چشم براہ ہیں، طبری کی روایت کے مطابق ایک خط کا مضمون اس طرح تھا:
’’سلیما ن بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعہ بن شداد، حبیب بن مظاہر اور جملہ شیعان کوفہ کی طرف سے حسین بن علی کے نام ۔بعد ازسلام ! خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے آپ کے دشمن ِجابر کا قصہ پاک کیا جس نے ناحق حکومت پر قبضہ کررکھا تھا، اب اس وقت ہمارا کوئی امام نہیں ہے، آپ تشریف لے آئیے کہ شاید اللہ آپ کے ذریعہ ہم لوگوں کو حق پر جمع کردے، یہاں جو اموی گورنر نعمان بن بشیر ہیں ہم ان کے پیچھے جمعہ اور عید تک نہیں پڑھتے اور اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ آپ ادھر کے لئے روانہ ہوگئے ہیں تو ہم انشاء اللہ ان کا بستر باندھ کر انہیں شام بھیج دیں گے-‘‘ (طبری:۶؍۱۹۷)
ایک طرف یہ دعوتی خطوط تھے تو دوسری جانب کوفہ اور اہل کوفہ کے حالات اور تلون مزاجی کے پیش نظر مخلصین کا مشورہ یہ تھا کہ ان خطوط پر اعتماد نہ کیا جائے اور کوفہ کی روانگی کا پروگرام نہ بنایا جائے، مثلا خاندان کے بزرگ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایاکہ: ’’خدا کے واسطے عراق کا ارادہ نہ کرو اور اپنی جان کھونے کیلئے وہاں نہ جاؤ اور اگر جانا ہی ہے تو کم از کم اتنی بات مانو کہ موسم حج گذر جانے دو، حج میں آنے والے لوگوں سے مل کر وہاں کے حالات کا اندازہ کرلواور پھر جو کچھ طے کرنا ہے کرو‘‘ (البدایہ والنہایۃ: ۸؍۱۶۴)
حضرت محمد بن حنفیہ کی ملاقات حضرت حسینؓ سے مکہ میں ہوئی تو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ اس وقت کوفہ روانہ ہونا بالکل مناسب نہیں (البدایہ والنہایۃ:۸؍۱۶۵)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مطیع  ؓ نے جوکہ ان دنوں مکہ ہی میں تھے، حضرت حسینؓ سے بصد ادب اور بڑی عاجزی سے کہا کہ ہر گز کوفہ کا رخ نہ کیجئے اور ان لوگوں کا کردار مت بھولئے. (طبری:۶؍۱۹۶)
ان کے علاوہ حضر ت ابو سعید خدری، حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت واثلہ بن واقد اللیثی اور حضرت مسور بن مخرمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی نہ جانے کا مشورہ دیا۔
لیکن دعوتی خطوط کے اصرار اور عہد وپیمان نے نیز حق کی اشاعت اور عہدۂ خلافت کے تحفظ کے ’جذبۂ بے پناہ‘ نے ان حضرات کے مشوروں، خواہشوں اور منتوں کو بے اثر کردیا اور حضرت حسین ؓنے کوفہ روانگی کا فیصلہ کرلیا البتہ آپ نے اپنے سفر سے پہلے اپنا ایک آدمی کوفہ بھیج کر حالات معلوم کرنا ضروری سمجھا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ وہ لوگ اپنے وعدوں اور اپنے خطوط میں لکھے ہوئے عہد وپیمان میں کس حد تک سچے ہیں، چناں چہ آپ نے اس کے لئے حضرت مسلم بن عقیل کو منتخب کرکے کوفہ روانہ کیا، اور ان کے ساتھ اہل کوفہ کے نام ایک خط بھی روانہ کیا جس کا مضمون یہ تھا:
’’میں اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل کو آپ لوگوں کے پاس بھیج رہا ہوں کہ یہ میرے قائم مقام بن کر حالات کو دیکھیں اور مجھے اطلاع دیں،اگر انہوں نے اطمینان ظاہر کیا اور لکھا کہ آپ لوگ جو کچھ مجھے لکھ رہے ہیں اس پر آپٖ کے تمام معززین، اہل رسوخ اور اہل رائے کا اتفا ق ہے تو میں بلاتاخیر چلا آؤںگا، اس لئے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، امام تو وہی ہے جو کتاب اللہ پر عامل، انصاف کا خوگر، حق کا تابع اور خود کو حق سے وابستہ رکھنے والا ہو۔ والسلام‘‘ (طبری: ۶؍۱۹۸)
مسلم بن عقیل نے وہاں پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا اور حالات کو موافق محسوس کیا اور کیوں نہ کرتے کہ ان کے پہنچتے ہی کوفیوں نے جوش عقیدت کا اظہار کیا اور گروہ در گروہ تقریبا اٹھارہ ہزار آدمیوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر حضرت حسینؓ کی خلافت وامامت کی بیعت کرلی، ان حالات اور جوش عقیدت کو دیکھ کر مسلم بن عقیل نے حالات کے موافق ہونے کی اطلاع حضرت حسین کو دی (تاریخ اسلام)
لیکن افسوس کہ یہ جوش عقیدت پائیدار ثابت نہ ہوسکا، اور حالات کے بدلنے میں بھی کوئی زیادہ وقت نہ لگا، اور ساتھ ہی کوفہ کے بااعتماد لوگوں کے اعتماد نے بھی بہت ہی جلد اپنی حقیقت اور اپنی بے بسی کو ظاہر کردیا، چناں چہ ادھر جبکہ اہل کوفہ کی تائید میں حضرت مسلم بن عقیل کا خط روانہ ہوا، کوفہ کے حالات حضرت مسلم بن عقیل کے لئے ناموافق ہوگئے اور جن لوگوں کے اعتماد پر یہاں آئے تھے ان کے وعدوں اور ان کی باتوں کا ان حالات نے کھوکھلا پن بھی ظاہر کردیا،تاریخ کربلا کا یہ انتہائی تعجب خیزموڑ ہے کہ کوفہ کے وہ لوگ جو پہلے بہت جوش وخروش کا مظاہرہ کررہے تھے، اب جبکہ کوفی ارباب اقتدار کی جانب سے انتباہ اور وارننگ سنائی گئی تو مسلم بن عقیل جو اصرار اور فرمائش کے بعد آئے تھے ایک بے کس اور اجنبی کی طرح اپنی جائے پناہ کی تلاش پر مجبور ہوگئے اور اپنے میزبان مختار بن ابی عبید کے گھرسے بے یار ومدد گارہانی بن عروہ کے مکان منتقل ہوگئے، ہانی بن عروہ جو کہ پہلے خاندان علی ؓ سے بہت قریب تھے ،اب حالات کی ناموافقت نے ان سے بھی احساس قربت کو چھین لیا،اور انہوں نے مسلم بن عقیل کا والہانہ استقبال کرنے کی بجائے انہیں ایک آفت ومصیبت سمجھ کر ان کا استقبال کیا، ابن جریر طبری، ابن اثیر اور ابن خلدون اس واقعہ اس انداز میں ذکر کیا ہے:
’’مسلم کے کان تک جب ابن زیاد کی تقریر پہنچی تو وہ مختار کے مکان سے نکل کر ہانی ابن عروہ کے مکان پہنچے، ہانی نکل کر آئے اور مسلم کو دروازے پر دیکھا تو بہت برا منہ بنایا، مسلم نے کہا کہ میرے بھائی میں تمہارے پاس پناہ کے لئے آیا ہوں، تمہارا مہمان ہونا چاہتا ہوں، ہانی نے جواب دیا: ’’تم نے مجھے بڑی مصیبت میں ڈال دیا، اگر تم میرے احاطہ میں نہ آئے ہوتے تو میں کہتا کہ مجھے معاف کردو، لیکن اب کچھ نہیں کہہ سکتا، آجاؤ‘‘ (طبری :۶؍۲۰۳)
مسلم بن عقیل کی اس بے بسی سے کوفیوں کی ناوفاداری کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ان حالات سے مطلع کرکے سفر سے روکا جاسکتا تھا، لیکن قضاء الہی میں کچھ اور ہی لکھا تھا، اس لئے ان حالات کی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کواطلاع نہ ہوسکی اورحضرت مسلم بن عقیل نے دشمنوں کی گرفت میں آکر جام شہادت نوش کرلیا، ادھر حضرت حسین نے شہید حق حضرت مسلم کی تائید ی تحریر کو پاکراپنے پورے کنبہ کے ساتھ سوئے کوفہ رخت سفر باندھ لیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ سفر کا آغاز اور حضرت مسلم کی گرفتاری کا واقعہ ایک ہی دن یعنی ۸؍ ذی الحجہ کو پیش آیا اور دوسرے دن حضرت مسلم کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس کا پتہ راستہ کی کافی منزلیں طے کرنے کے بعد چلا، اس پر آپ نے واپسی کا ارادہ فرمایا، مگر برادران مسلم کے جذبات انتقام آڑے آگئے، جو یہ چاہتے تھے کہ یا توبدلہ لیں یا مرجائیں، چناں چہ آپ سفر جاری رکھنے پر مجبو رہوگئے اور پھر دوسری بار جب آپ نے یہی ارادہ کوفہ سے کچھ قریب پہنچ کر اس وقت کیا جب آپ کو اس بات کی مزید شہادت ملی کہ کوفہ پوری طرح حاکم کوفہ عبد اللہ بن زیاد کی گرفت میں ہے اور آپ صرف گرفتار ہوکر ہی اندر جاسکتے ہیں، تب واپسی کے لئے کوئی گنجائش اور کوئی راہ باقی نہیں رہی تھی، آپ کی گرفتاری کے لئے فوجی دستے حرکت میں آچکے تھے، آپ نے اس وقت فوری طور پرایک غیر معمولی فیصلہ کیا، یعنی اپنا رخ یزید کے دار الخلافۃ دمشق کی طرف موڑدیا، مگر ان فوجی دستوں نے پیچھا کرکے آپ کو جلد ہی رک جانے پر مجبورکردیا، جو ابن زیاد کے حکم کی تابعداری میں یہ چاہتے تھے کہ آپ کوفہ چلیں، یہی ’کربلا‘ کے نام سے موسوم وہ جگہ ہے جہاں آپ کو قدم روک لینے پڑے اور جو آپ کی جائے شہادت بنی۔
کربلا میں بے بس مسافروں کے قافلہ کوابن زیاد کے فوجی دستوں نے گھیر رکھا تھا، دونوں جماعتوں کے مابین صلح ومصالحت کی باتیں ہوتی رہیں، فوجی دستوں کے سردار عمر بن سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص جن کے بارے میں روایتیں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ان کے دل میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لئے نہایت نرم گوشہ تھا، انہوں نے اندھا دھند کوئی کارروائی کرنے کی بجائے معاملے کو پرامن طریقے سے سلجھانے کی کوشش میں حضرت حسینؓ سے رابطہ قائم کیا اور آپ کی طرف سے یہ خواہش سامنے آنے پر کہ آپ کی تین باتوں میں سے کوئی ایک قبول کرلی جائے
(۱) اپنے وطن واپس ہونے دیا جائے
(۲) یزید کے پاس چلا جانے دیا جائے یا لے چلا جائے 
(۳) کسی مملکت کی سرد پر بھیجدیا جائے جہاں آپ مقیم ہو جائیں اور جہادی مہمات میں حصہ لے کر عمر گذاریں۔
عمر بن سعد نے ابن زیاد (حاکم کوفہ) کو اس کی اطلاع اس طور سے بھیجی کہ جیسے یہ ایک نہایت عمدہ اور قابل قبول بات ہو،روایتوں کے مطابق ابن زیاد کو بھی اس صورت حال سے خوشی ہوئی، مگر شمر جیسے مشیران نے اس کی رائے پلٹ دی ،بلکہ عمرو بن سعد سے بھی اس کو کچھ بدگمان کردیا جس کے نتیجے میں شمر ہی کو بھیجا گیا کہ وہ عمر سے اصل حکم کی تعمیل کرائے۔ یعنی مفاہمت سے یاطاقت سے، جس طرح بھی ممکن ہو حسینؓ اور ان کے ہمراہیوں کو زندہ یا مردہ گرفتار کرکے کوفہ لایا جائے اور یہی چیز اس قتل و قتال کا موجب بن گئی۔ ابن زیاد نے حضرت حسین ؓ کی ان تین مصالحتی نکات کا یہ جواب دیا کہ اس طرح بات نہیں بنے گی، پہلے انہیں میرے ہاتھ میں ہاتھ رکھنا ہوگا اور بیعت کرنی ہوگی، جب حضرت حسینؓ کے پاس یہ بات پہنچی تو حضرت حسین ؓ نے فرمایا:
لا والله لا یکون هذا ابدا ’’بخدا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا‘‘ (طبری:۶؍۲۲۰)
اب سوائے جنگ کے کوئی اور راستہ نہ تھا، اس موقع پر جب کہ صورت حال مزید سنگین ہوتا جارہا تھا اور حضرت حسینؓ کی اس پیش کو مکمل رد کیا جاچکا تھا اور حضرت حسین ؓ کو ہرچند یقین نہ تھا کہ کوئی کوشش کارگر ہوگی، تاہم آپ نے اتمام حجت کے لئے کوفیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے لوگو اذرا ٹھہرو، میری بات سنو، میں اپنی ذمہ داری پوری کردوں، اگر تم نے میری بات سن کر میرے ساتھ انصاف کیا تو تم سے زیادہ کوئی خوش نصیب نہیں، لیکن اگر تم اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی، معاملہ کا ہر پہلو تمہارے سامنے ہے اور تمہیں اختیار ہے کہ جو چاہو کرواور میرے ساتھ کوئی کسر نہ اٹھارکھو اللہ میرا مددگار ہے‘‘(خلافت بنوامیہ:۷۳)
آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی اس تقریر میں اپنا مقام ومرتبہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے اپنی قربت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ سے محبت کا بھی تذکرہ کیا اور جنگ بندی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے آپ نے ان سرداران کوفہ سے جنہوں نے آپ کو خطوط بھیجے تھے، مخاطب ہو کر کہاکہ کیا تم لوگوں نے مجھے نہیں بلایا ہے؟ تم نے مجھے ضرور بلایا ہے لیکن اگر اب تمہیں میری آمد ناپسند ہے تو مجھے اپنی پناہ کی جگہ واپس جانے دو،آپ کی اس تقریر سے اتنا تو ضرور ہوا کہ ابن زیاد کے فوجی دستہ میں شامل حر بن یزید حنظلی نے مداخل کرتے ہوئے فوجیوں کی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا:
والله لو سألکم هذا الترک والدیلم ماحل لکم ان ترده (طبری:۶؍۲۲۲)
 ’’بخدا یہ بات اگر تم سے ترک اور دیلم (کے غیر مسلم) بھی مانگتے تو ان کا سوال رد کرنا تمہارے لئے روانہ ہوتا.‘‘
او ر یہ کہہ کر وہ فوجی دستہ سے نکل کر قافلہ حسینی میں شامل ہوگئے اورانہوں نے حضرت حسینؓ کے پاس آکر اپنی معافی کی درخواست کرتے ہوئے کہا:
’’اے فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی وہ شخص ہوں جس نے سب سے پہلے آپ کو روکا ،مگر مجھے خبر نہ تھی کہ میری قوم بدبختی کی اس حد تک پہنچ جائے گی ،اور جنگ کے سوا کوئی مناسب تجویز کو قبول نہ کرے گی، اب میں آٖ پ کے قدموں میں حاضر ہوں اور جب تک جسم کا جان سے تعلق ہے آپ کا حق رفاقت ادا کروں گا-‘‘ (تاریخ بنو امیہ)
بالآخر جنگ جو ہونی تھی ہوکررہی اور حضرت حسین ؓ اور ان کے قافلہ میں شامل افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ اس جنگ کے واقعہ میں بے بنیاد باتیں اتنی زیادہ اضافہ کردی گئی ہیں کہ میدان جنگ کے واقعات میں سے صحیح اور غیر صحیح کا امتیاز مشکل بن گیا ہے اور ان تمام واقعات کو ماننے میں یہ رکاوٹ پیش آتی ہے کہ ایک واقعہ دوسرے واقعہ سے ٹکڑاتا ہوانظر آتا ہے، اس لئے بس یہ کہہ لیا جائے کہ ابتدائی مصالحتی کوششوں کی ناکامی نے جنگ کا ماحول پیدا کردیا اور۱۰؍ محرم ۶۱ھ، جمعہ کو جنگ ہوئی اور قافلہ حسین ؓ کے مجاہدین حق نے ایک ایک کرکے اپنی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواسہ رسول اور ترجمان حق کے دفاع کے لئے خود کو پیش کرکے جام شہادت نوش کیا اور بالآخر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی دشمنوں نے حملہ کرکے شہید کردیا اور آپ کی گردن کو آپ کے تن مبارک سے جدا کرکے یزید کے دربار میں پیش کیا اور اس قافلہ کی خواتین ِپردہ شعار کودربار خلافت میں پہنچادیا ۔
شہاد ت عظمی کے اس واقعہ اور حادثہ کبری کے دوسرے دن غاضریہ کے لوگوں نے نماز جنازہ ادا کرکے شہداء کی لاشوں کو اسی میدان میں سپرد لحد کیا اور حضرت حسین ؓ اور بعض دیگر شہداء کے سر مبارک چونکہ وہاں موجود نہ تھے بلکہ دشمن اپنے ساتھ لے گئے تھے اس لئے ان حضرات کے جسم کو بغیر سر کے سپر د لحد کیا گیا، رحمہم اللہ ورضی عنہم۔
جو لوگ حضرت حسین ؓ کی اس شہادت پر ماتم کرتے ہیں کاش کہ وہ ماتم کرنے کی بجائے اس اسوۂ حسینی پر عمل کرتے کہ حق کی اشاعت اور تحفظ شریعت کی راہ میں اگر اپنی جان بھی چلی جائے تو گوارہ ،لیکن باطل کی تائید کو ہرگز گوارہ نہیں کیا جاسکتا ہے، غور کیجئے کہ اگر حضر ت حسین ابن زیاد کی بات کو مان کر اس سے بیعت لے لیتے تو یہ جنگ پیش ہی نہ آتی لیکن حضرت حسین ؓنے جنگ کو گوارہ کرکے اس کے ہاتھ میںہاتھ نہ ڈالا،درحقیقت حضرت حسین ؓنے اس کے ذریعہ اپنے بعد والوں کوایک سبق دیا کہ باطل کی تائید نہ کرنا ہی اسوۂ حسینی ہے ،ماتم کرکے اس اسوہ کو زندہ نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ باطل کی مخالفت کرکے اسے زندہ کیا جاسکتا ہے ،اگر کسی کے مرنے پر ماتم کرنے سے ہی اس کا حق ادا ہوتا ہے تو پھر سال کا کوئی دن ایسا نہیں بچے گا جس دن اس روئے زمین پر کسی بڑی قابل قدر شخصیت کی وفات نہ ہوئی ہو، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات قابل افسوس نہیں؟ کیا ازواج مطہرات، صحابہ کرام، عشرہ مبشرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بیٹیوں نیز تمام پیکر للہیت صحابیات کی وفات ہمارے لئے افسوس کا باعث نہیں؟ بلاشبہ ان تما م کی وفات ہمارے لئے باعث افسوس ہے، لیکن ہم ان تمام کی وفات پر اس لئے ماتم نہیں کرتے کہ یہ دین محمدی دین ماتم نہیں بلکہ دین تعلیم وعمل ہے، کسی کی اچھی تعلیم کو اپنی زندگی میں نقوش راہ بنا ناہی درحقیقت اس کی تعظیم ہے اور اسی سے اس کے بعداس کی یاد زندہ رہتی ہے۔
مفتی محمد عارف باللہ القاسمی
https://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_50.html


No comments:

Post a Comment