ٹورآپریٹر کے لئے حج کا ویزا اور تصریح کی خریدوفروخت جائز نہیں
قابل احترام حضرت مولانا مفتی جنید صاحب پالنپوری حفظہ اللہ،
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ ۔۔۔
سوال: حج اور عمرہ ٹورز چلانے والوں کو ہر سال حکومت ویزوں کی تعداد طے کرتی ہے۔ اور بہت سے جو نںٔے ٹور آپریٹرز ہوتے ہیں انکو اجازت ہی نہیں ہوتی۔
حکومت ویزوں کے بیچنے کی بھی اجازت نہیں دیتی، اور جس ٹور آپریٹر کو ویزا دیا جاتا ہے اسی کے نام سے پاسپورٹ میں اسٹامپنگ ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اجازت یافتہ ٹورز حج ویزوں کو بیچ سکتے ہیں؟ اسی طرح کیا ان ویزوں کا خریدنا جائز ہے؟
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ ۔۔۔
سوال: حج اور عمرہ ٹورز چلانے والوں کو ہر سال حکومت ویزوں کی تعداد طے کرتی ہے۔ اور بہت سے جو نںٔے ٹور آپریٹرز ہوتے ہیں انکو اجازت ہی نہیں ہوتی۔
حکومت ویزوں کے بیچنے کی بھی اجازت نہیں دیتی، اور جس ٹور آپریٹر کو ویزا دیا جاتا ہے اسی کے نام سے پاسپورٹ میں اسٹامپنگ ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اجازت یافتہ ٹورز حج ویزوں کو بیچ سکتے ہیں؟ اسی طرح کیا ان ویزوں کا خریدنا جائز ہے؟
یہ سوال اس لئے پوچھا جارہا ہے کہ کچھ ٹور آپریٹرز بغیر کسی محنت کے دوسرے ٹور آپریٹرز کو جنہیں ویزا نہیں ملا ہوا ہوتا ہے، بھاری رقم میں بیچ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ٹور آپریٹر کو 100 ویزے جاری کئے گئے، اور ان کو فی ویزہ ایک لاکھ روپے میں دوسروں کو بیچ دیتے ہیں۔ محنت کچھ نہیں کی گئی اور آسانی سے ایک کروڑ روپے مل گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا درست اور جائز ہے؟
گزارش ہے کہ حوالوں کے ساتھ جواب دینے کی زحمت فرمائیں۔۔ جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔
میسور فقہ اکیڈمی
الجواب وباللہ التوفیق:
گورنمنٹ آف انڈیا (Government of india) کی طرف سے انہی ٹورس اینڈ ٹراویلس (tours & travels) والوں کو حاجی لےجانے کی اجازت ہوتی ہے جو گورنمنٹ کے فورین افیرس کے حج سیل میں رجسٹرڈ ہوں، شاید اسکی وجہ یہ ہوگی کہ حاجیوں کو وہی ٹورس اینڈ ٹراویلس حج کے لئے لےجاسکیں جو صحیح طریقہ سے اس ذمےداری کو نبھانے کی صلاحیت رکھتےہوں، تاکہ وہاں جاکر حاجیوں کو کسی پریشانیوں کا سامنا نہ ہوں، نیز سعودی گورنمنٹ کی طرف سے ہر ملک کے واسطے حاجیوں کی ایک مخصوص تعداد مقرر ہوتی ہے جن کو حج کا ویزا دیا جاتا ہے، تاکہ سعودی حکومت کے لئے حاجیوں کا انتظام کرنے میں دشواری نہ ہو، اسی کو حج کے کوٹے کا نام دیا گیا ہے، اس کوٹے میں ایک بڑا حصہ تو وہ ہوتا ہے جن کو انڈین گورنمنٹ اپنے ایک شعبہ یعنی حج کمیٹی کی طرف سے انتظام کرکے حج کے لئے بھیجتی ہے، اور ایک مخصوص تعداد جو ٹورس اور ٹاویلس کمپنیاں حج کے لئے حاجی لے جاتی ہیں ان کے حوالہ کرتی ہے، اور وہ ان حاجیوں کو اپنے انتطام میں حج کرواتی ہیں، اس مخصوص مقدار میں سے ایک مقررہ تعداد ہر ٹور والے کو اس کی گذشتہ سالوں کی کارکردگی کی بنیاد پر لےجانے کی اجازت دیتی ہے. اسی اجازت کو تصریح کے نام سے جانا جاتا ہے، اور پھر اسی کے مطابق سعودی کونسیولیٹ (Consulate) کی طرف سے اس ٹور والے کو ویزا جاری کیا جاتا ہے، گویا یہ ایک حق ہے جو اس ٹور والے کو اس کی سابقہ کارکردگی کو سامنے رکھ کر دیا گیا ہے، اور اس حق کو حاصل ہونے میں اس سابقہ کارکردگی کو دخل ہے نیز اس تصریح پر کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا گیا، شرعی اعتبار سے یہ خالص ایک حق ہے جس کو صاحب حق خود تو استعمال تو کرسکتا ہے لیکن کسی کو معاوضہ لے کرو اسکا بیچنا جائز نہیں، ویسے بھی ویزا جاری کرنے والے اور حکومت اس حق کے خریدوفروخت کی قطعا اجازت نہیں دیتے، لہذا ویزا کسی تور آپریٹر کو فروخت کرنا قطعا جائز نہیں،اس سے حاصل آمدنی بھی حرام ہے، اور لینے والا اور بیچنے والا دونوں شریعت کی نگاہ میں گنہ گار ہیں.
اس طرح کے امور میں آدمی جس گورنمنٹ کے ماتحت رہتا ہو اس کا حکم ماننا ضروری ہوجاتا ہے اور اس کے خلاف ورزی کرنے کی صورت میں چوں کہ جیل یا جرمانہ کا اندیشہ ہے، اس لئے بھی ایسا کرنا جائز نہیں، وہ کام جس سے جان یا مال کو خطرہ لاحق ہوتا ہو اور شرعی اعتبار سے بھی قباحت نہ ہو اس کا ارتکاب شرعا جائز نہیں، چہ جائیکہ شرعا بھی یہ عمل درست نہیں.
حاصل یہ کہ اس طرح کی خرید وفروخت قطعا جائز نہیں. (مستفاد محمودالفتاوی)
إن المسلمین یجب علیہ أن یطیع أمیرہ في الأمور المباحۃ، فإن أمر الأمیر بفعل مباح وجبت مباشرتہ، وإن نہی عن أمر مباح حرم ارتکابہ، ومن ہنا صرح الفقہاء بأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ واجبۃ۔ (تکملۃ فتح الملہم، باب وجوب طاعۃ الأمراء، أشرفیہ دیوبند ۳/ ۳۲۳)
ما في ’’الدر المختار مع الشامیۃ‘‘: طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ فرض ۔
(۶/۳۱۹ ، کتاب الجہاد، مطلب في وجوب طاعۃ الإمام)
(۳) ما في ’’القرآن الکریم‘‘: {یٰٓاَیہا الذین اٰمنوا أوفوا بالعقود} ۔ (سورۃ المائدۃ :۱)
ما في ’’القرآن الکریم‘‘: {وأوفوا بالعہد إن العہد کان مسؤلا} ۔ (سورۃ الإسراء :۳۴).
اسی خریدوفروخت کا نتیجہ ہے کہ حج بہت ہی زیادہ مہنگا ہوگیا ہے، ایک معمولی نوکری پیشہ اور ہلکے پھلکے کاروباری کے بس کا رہ ہی نہیں، ایک ایک تصریح اور ویزا ڈیڑھ لاکھ روپیے میں بیچا جارہا ہے، اب تصریح اور ویزا خرید کر حجاج لے جانے والا رہائش اور کھانے پر ہی منافع کماتا ہے، لہذا حج کا مہنگا ہونا لازم ہے، اور جن حضرات کا لائسنس ہے وہ ویزا کا دیڑھ لاکھ وصول کرکے رہائش اور کھانے پر بھی منافع کماتا ہے جس سے ان کے نفع میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے جو ایک اعتبار سے حجاج کا استحصال ہے.
فقط واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم.
کتبہ: مفتی جنید بن محمد پالنپوری
دارالافتاءوالإرشاد، مجلس البرکہ (کولابہ،ممبئی)
مورخہ ٨ صفرالمظفر ١٤٤٠ ہجری.
muftijunaid1979@gmail.com
9820992292 /9820982844
گزارش ہے کہ حوالوں کے ساتھ جواب دینے کی زحمت فرمائیں۔۔ جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔
میسور فقہ اکیڈمی
الجواب وباللہ التوفیق:
گورنمنٹ آف انڈیا (Government of india) کی طرف سے انہی ٹورس اینڈ ٹراویلس (tours & travels) والوں کو حاجی لےجانے کی اجازت ہوتی ہے جو گورنمنٹ کے فورین افیرس کے حج سیل میں رجسٹرڈ ہوں، شاید اسکی وجہ یہ ہوگی کہ حاجیوں کو وہی ٹورس اینڈ ٹراویلس حج کے لئے لےجاسکیں جو صحیح طریقہ سے اس ذمےداری کو نبھانے کی صلاحیت رکھتےہوں، تاکہ وہاں جاکر حاجیوں کو کسی پریشانیوں کا سامنا نہ ہوں، نیز سعودی گورنمنٹ کی طرف سے ہر ملک کے واسطے حاجیوں کی ایک مخصوص تعداد مقرر ہوتی ہے جن کو حج کا ویزا دیا جاتا ہے، تاکہ سعودی حکومت کے لئے حاجیوں کا انتظام کرنے میں دشواری نہ ہو، اسی کو حج کے کوٹے کا نام دیا گیا ہے، اس کوٹے میں ایک بڑا حصہ تو وہ ہوتا ہے جن کو انڈین گورنمنٹ اپنے ایک شعبہ یعنی حج کمیٹی کی طرف سے انتظام کرکے حج کے لئے بھیجتی ہے، اور ایک مخصوص تعداد جو ٹورس اور ٹاویلس کمپنیاں حج کے لئے حاجی لے جاتی ہیں ان کے حوالہ کرتی ہے، اور وہ ان حاجیوں کو اپنے انتطام میں حج کرواتی ہیں، اس مخصوص مقدار میں سے ایک مقررہ تعداد ہر ٹور والے کو اس کی گذشتہ سالوں کی کارکردگی کی بنیاد پر لےجانے کی اجازت دیتی ہے. اسی اجازت کو تصریح کے نام سے جانا جاتا ہے، اور پھر اسی کے مطابق سعودی کونسیولیٹ (Consulate) کی طرف سے اس ٹور والے کو ویزا جاری کیا جاتا ہے، گویا یہ ایک حق ہے جو اس ٹور والے کو اس کی سابقہ کارکردگی کو سامنے رکھ کر دیا گیا ہے، اور اس حق کو حاصل ہونے میں اس سابقہ کارکردگی کو دخل ہے نیز اس تصریح پر کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا گیا، شرعی اعتبار سے یہ خالص ایک حق ہے جس کو صاحب حق خود تو استعمال تو کرسکتا ہے لیکن کسی کو معاوضہ لے کرو اسکا بیچنا جائز نہیں، ویسے بھی ویزا جاری کرنے والے اور حکومت اس حق کے خریدوفروخت کی قطعا اجازت نہیں دیتے، لہذا ویزا کسی تور آپریٹر کو فروخت کرنا قطعا جائز نہیں،اس سے حاصل آمدنی بھی حرام ہے، اور لینے والا اور بیچنے والا دونوں شریعت کی نگاہ میں گنہ گار ہیں.
اس طرح کے امور میں آدمی جس گورنمنٹ کے ماتحت رہتا ہو اس کا حکم ماننا ضروری ہوجاتا ہے اور اس کے خلاف ورزی کرنے کی صورت میں چوں کہ جیل یا جرمانہ کا اندیشہ ہے، اس لئے بھی ایسا کرنا جائز نہیں، وہ کام جس سے جان یا مال کو خطرہ لاحق ہوتا ہو اور شرعی اعتبار سے بھی قباحت نہ ہو اس کا ارتکاب شرعا جائز نہیں، چہ جائیکہ شرعا بھی یہ عمل درست نہیں.
حاصل یہ کہ اس طرح کی خرید وفروخت قطعا جائز نہیں. (مستفاد محمودالفتاوی)
إن المسلمین یجب علیہ أن یطیع أمیرہ في الأمور المباحۃ، فإن أمر الأمیر بفعل مباح وجبت مباشرتہ، وإن نہی عن أمر مباح حرم ارتکابہ، ومن ہنا صرح الفقہاء بأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ واجبۃ۔ (تکملۃ فتح الملہم، باب وجوب طاعۃ الأمراء، أشرفیہ دیوبند ۳/ ۳۲۳)
ما في ’’الدر المختار مع الشامیۃ‘‘: طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ فرض ۔
(۶/۳۱۹ ، کتاب الجہاد، مطلب في وجوب طاعۃ الإمام)
(۳) ما في ’’القرآن الکریم‘‘: {یٰٓاَیہا الذین اٰمنوا أوفوا بالعقود} ۔ (سورۃ المائدۃ :۱)
ما في ’’القرآن الکریم‘‘: {وأوفوا بالعہد إن العہد کان مسؤلا} ۔ (سورۃ الإسراء :۳۴).
اسی خریدوفروخت کا نتیجہ ہے کہ حج بہت ہی زیادہ مہنگا ہوگیا ہے، ایک معمولی نوکری پیشہ اور ہلکے پھلکے کاروباری کے بس کا رہ ہی نہیں، ایک ایک تصریح اور ویزا ڈیڑھ لاکھ روپیے میں بیچا جارہا ہے، اب تصریح اور ویزا خرید کر حجاج لے جانے والا رہائش اور کھانے پر ہی منافع کماتا ہے، لہذا حج کا مہنگا ہونا لازم ہے، اور جن حضرات کا لائسنس ہے وہ ویزا کا دیڑھ لاکھ وصول کرکے رہائش اور کھانے پر بھی منافع کماتا ہے جس سے ان کے نفع میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے جو ایک اعتبار سے حجاج کا استحصال ہے.
فقط واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم.
کتبہ: مفتی جنید بن محمد پالنپوری
دارالافتاءوالإرشاد، مجلس البرکہ (کولابہ،ممبئی)
مورخہ ٨ صفرالمظفر ١٤٤٠ ہجری.
muftijunaid1979@gmail.com
9820992292 /9820982844
-----------------------------------------------------------------
ویزا کی خرید وفروخت کے بارے میں جدید فتویٰ
سعودی عرب میں کسی سعودی شخص کو عامل کی یا ڈرائیور کی یا کسی معلم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سعودی حکومت سے مبلغ 2000 ریال فیس دے کر ویزا لیتا ہے، پھر وہ آگے کسی آدمی کو دیتا ہے کہ مجھے عامل کی ضرورت ہے، کبھی تو ایسے ہوتا ہے کہ یہ سعودی شخص اس کو ویزا بیچ دیتا ہے، مثلا ً 5000 یا 8000 یا 10000 ریال میں۔ پھر وہ دوسرا آدمی اس کو مزید آگے بیچ دیتا ہے، کبھی وہ سعودی شخص ویز امفت میں دے دیتا ہے لیکن یہ شخص آگے اس کو جتنے کا چاہے بیچ دیتا ہے۔ کیا اس قسم کی بیع وشراء اجائز ہے؟ کچھ علماء فرماتے ہیں کہ وہ اس پر خرچہ کے بقدر لے سکتا ہے، زیادہ نہیں۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ تھوڑا سا منافع لے سکتا ہے ۔ آپ ہر دو صورتوں کی وضاحت فرمادیں کہ کس حد تک لیاجاسکتا ہے یا بالکل لینا دینا جائز نہیں ہے ؟ ایسے شخص کی آمدن کا کیا حکم ہے؟ وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب ویزا لینے والا راضی ہے تو پھر کیا اعتراض ہے؟
الجواب باسم ملہم الصواب
بعض ٹریول ایجنٹس (Travel Agents) جناب محمد حیان صاحب ، جناب محمد عثمان صاحب اورسعودی عرب میں کام کے لیے جانے والے بعض پاکستانی حضرات اس سلسلہ میں معلومات لی گئیں، جن کا حاصل یہ ہے:
سعودی حکومت کمپنیوں کو ویزوں کا کوٹا (Quota) دیتی ہے، کسی کمپنی کو سواور کسی کو پچاس ویزوں کا کوٹا (Quota) ملتا ہے، جس کو یہ کوٹا ملتا ہے حکومت کے پاس اس کا مکمل نام اورا یڈریس وغیرہ موجود ہوتا ہے اور ہر ویزے کا ایک انویٹیشن لیٹر (Invitation letter) ہوتا ہے، یہ کمنپنیز مختلف ممالک، مثلا ً پاکستان کے ٹریول ایجنٹس سے رابطہ کرکے ان کو یہ لیٹر فروخت کردیتی ہیں، پاکستانی ٹریول ایجنٹس اس لیٹر کو اپنا نفع رکھ کر آگے فروخت کرتا ہے، ہر لیٹر کی فیس مختلف ہوتی ہے۔ جو ویزے کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے، عام طور پردو ہزارریال ہوتی ہے۔ یہ لیٹر قونصلیٹ میں جمع کروانا پڑتا ہے، اس لیٹر پرسعودی حکومت ویزا جاری کرتی ہے، انویٹیسن لیٹر کی طرح ویزے کی فیس بھی مختلف ہوتی ہے، یہ طریقہ کار کمپنیوں میں رائج ہے۔
اسی طرح اگر کسی عرب شخص کو انفرادی طور پر کام وغیرہ کے لیے ایک یا زیادہ افراد کی ضرورت پڑے تووہ عامل کے حصول کے لیے حکومتی ارکان کو درخواست دیتا ہے حکومتی ارکان مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق پہلے انویٹیشن لیٹر جاری کرتے ہیں، پھر اس لیٹر پر غیر سعودی شخص (جس کو سعودی شخص بلاتا ہے ) کے نام پر ویزا جاری کیاجاتا ہے، اس ویزے پرا س کا مکمل نام اورایڈریس وغیرہ درج ہوتا ہے اوریہ ویزا پاسپورٹ پر لگایا جاتا ہے۔
آزاد ویزا کوئی علیحدہ ویزا نہیں ہوتا اس کا طریقہ کار بھی مکمل طور پر یہی ہوتا ہے، البتہ اس میں ایک عبارت لکھی ہوتی ہے کہ اس ویزا کے حامل کو ہر جگہ جانے کی اجازت ہے، باقی اس پر بھی نام اور ایڈریس وغیرہ سب درج ہوتا ہے۔
جو سعودی شخص انویٹیشن لیٹر جاری کرواتا ہے اس کا اس لیٹر پر نام، ایڈریس اور جس مقصد کے لیے اس کو ویزا چاہیے، مثلا ً: ڈرائیور یا گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازم وغیرہ تو اس کی بھی وضاحت ہوتی ہے گویا کہ ہر لیٹر پر تین چیزیں ہوتی ہیں:
سعودی شخص کا نام،
ایڈریس ا ور
جس کام کے لیے عامل چاہیے۔ یہ بات واضح رہے کہ سعودی عرب میں انویٹیشن لیٹر کی ہی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ جس کو عام طور پر لوگ ویزا کہہ دیتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر ویزا جاری نہیں ہوسکتا، باقی ویزا پاسپورٹ پرایک اسٹیمپ کی صورت میں لگایا جاتا ہے اور یہ کسی خاص شخص کے نام پر ہی جاری کیاجاتا ہے جس کا حکومت کے پا س مکمل ایڈریس وغیرہ موجود ہوتا ہے اس کی خرید وفروخت بالکل نہیں ہوتی نیز جب کوئی ویزا کسی فرد کے نام جاری کردیا جائے تو اس کو کسی اور کے نام پرتبدیل نہیں کروایا جاسکتا، کیونکہ ایک انویٹیشن لیٹر پر ایک ہی ویزا جاری ہوسکتا ہے ۔ دوسرے وہزے کے حصول کے لیے پیچھے ذکر کردہ کاروائی مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
سعودی عرب حکومت سے انویٹیشن لیٹر خرید کر آگے مختلف قیمت پر فروخت کرتے ہیں، سعودی عرب میں انویٹیشن لیٹر کی خرید وفروخت دو قسم کی ہوتی ہے: ایک یہ کہ سعودی شخص حکومت سے لیٹر لے کر آگے کسی سعودی شخص کوکچھ نفع لے کر فروخت کردے، حکومت کی طرف سے اس طرح لیٹر بیچنے پر بالکل پابندی ہے، خواہ اسی رقم پر بیچے یا اس سے زائد رقم پر بیچے، بلکہ وہ سعودی شخص یہ لیٹر خود ہی استعمال کرنے کا پابند ہوتا ہے، یعنی ا س لیٹر پر کسی شخص کو سعودی عرب میں بلا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر پولیس والوں کو اس بات کا علم ہوجائےکہ باہر سے آنے والا شخص اس سعودی شخص (جس کے نام پر لیٹر جاری کیا گیا تھا) کے علاوہ کسی اور آدمی (جس نے پہلے شخص سے ویزا خریدا ہے) کے پاس کام کررہا ہے تو وہ باہر سے آنے والے شخص کو گرفتار کرلیتے ہیں۔
دوسری صورت یہ کہ سعودی شخص حکومت سے انویٹیشن لیٹر لے کر بیرون ملک کے کسی غیرسعودی شخص کو فروخت کرے تو اس کی حکومت کی طرف سےاجازت ہے البتہ اضافی رقم پر بیچنا اس صورت میں بھی منع ہے۔
مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں انویٹیشن لیٹر کی خریدوفروخت کی دونوں صورتوں کا حکم یہ ہے:
پہلی صورت: اگر سعودی شخص حکومت سے انویٹیشن لیٹر لے کر آگے کسی اور سعودی شخص وفروخت کرے تو اس صورت میں یہ لیٹر آگے بیچنا دو وجہوں سے جائز نہیں: پہلی یہ کہ چونکہ لیٹر جاری کروانے والا شخص حکومتی اراکین کے سامنے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کو کام وغیرہ کے لیے عامل کی ضرورت ہے، جبکہ اس کو ضرورت نہیں تھی اسی لیے وہ اس کو آگے فروخت کرتا ہے، لہذا کسی دوسرے شخص کو فروخت کرنے کی صورت میں جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا ارتکاب لازم آتا ہے، دوسری یہ کہ حکومت کے جائز قانون کی خلاف ورزی کرنے کا گناہ لازم آتا ہے۔ ا س لیے کسی عرب شخص کو انویٹیشن لیٹر فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے، خواہ اسی رقم پر بیچا جائے یا اس سے کم وبیش رقم پر۔
دوسری صورت: اگر سعودی شخص حکومت سے انویٹیشن لے کر کسی غیرسعودی شخص کو فروخت کرے تاکہ وہ شخص سعودیہ میں آکر کام کرے تو اس صورت میں چونکہ سعودی حکومت کی طرف سے یہ لیٹر آگے بیچنے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے اس کا لیٹر فروخت کرنا فی نفسہ جائز تو ہے، البتہ چونکہ حکومت کی طرف سے اضافی رقم پر بیچنے کی اجازت دی گئی ہے
اس لیے اس کا لیٹر فروخت کرنا فی نفسہ جائز تو ہے البتہ چونکہ حکومت کی طرف سے اضافی رقم بیچنے کی اجازت نہیں ہے، ا س لیے اضافی رقم پر بیچنے کی صورت میں حکومت کے جائز قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا، باقی لیٹر خریدنے والے شخص کے راضی ہونے سے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جہاں تک انویٹیشن لیٹر کو بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تعلق ہے تو مذکورہ بالا دونوں صورتوں کا حکم یہ ہے کہ شرعی اعتبارسے چونکہ اس لیٹر پر مال کی تعریف صادق آتی ہے، کیونکہ اس کے حصول کے لیے آدمی کی محنت اور مال دونوں چیزیں صرف ہوتی ہیں اور آج کل اس کو ایک قیمتی چیز سمجھا جاتا ہے، لہذا وہ شخص جس کے نام پر یہ لیٹر جاری کیا گیا ہواگر وہ آگے کسی شخص (خواہ وہ سعودی ہو یا غیر سعودی) کو نفع کے ساتھ فروخت کرے تو اگرچہ وہ حکومت کے جائز قانون کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، لیکن اس کی آمدنی حرام نہیں ہوگی۔
فقہ البیوع للشیخ محمد تقی العثمانی (ج :1 ص 281) مکتبۃ معارف القرآن)
حاشیۃ ابن عابدین (4/501) دارالفکر للطباعۃ والنشر۔
واللہ سبحانہ وتعالیٰ
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
فتویٰ نمبر:618 عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں
-------------------------------------------------
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حج اور عمرہ ٹورز چلانے والوں کو ہر سال حکومت ویزوں کی تعداد طے کرتی ہے۔ اور بہت سارے جو نئے ٹور آپریٹرز ہوتے ہیں ان کو اجازت ہی نہیں ہوتی ۔ حکومت ویزوں کے بیچنے کی بھی اجازت نہیں دیتی ہے، اور جس ٹور آپریٹر کو ویزا دیا جاتا ہے اسی کے نام سے پاسپورٹ میں سٹامپنگ ہوتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اجازت یافتہ ٹور آپریٹرز حج ویزوں کو بیچ سکتے ہیں۔ اسی طرح کیا ان ویزوں کا خریدنا جائز ہے ؟یہ سوال اس لیے پوچھا جارہا ہے کہ کچھ ٹور آپریٹرز بغیر کسی محنت کے دوسرے ٹور آپریٹرز کو جنہیں ویزا نہیں ملا ہوا ہوتا ہے ،بھاری رقم میں بیچ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ٹور آپریٹر کو 100 ویزے جاری کیے گئے، اور ان کو فی ویزہ ایک لاکھ روپے میں دوسروں کو بیچ دیتے ہیں۔ محنت کچھ نہیں کی گئی اور آسانی سے ایک کروڑ روپے مل گیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا درست اور جائز ہے؟ گزارش ہے کہ حوالوں کے ساتھ جواب دینے کی زحمت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
الجواب وباللہ التوفیق:
مختلف ٹور آپریٹروں سے رابطہ کرنے پر احقر کو جو تفصیلات معلوم ہوئیں، اُن کا خلاصہ یہ تھا کہ کوئی ٹور آپریٹر، دوسرے ٹور آپریٹر کو حج کے ویزے فروخت نہیں کرتا اور نہ ہی قانونی طور پر فروخت کرنا ممکن ہے؛ البتہ بعض مرتبہ کوئی ٹور آپریٹر ضرورت مجبوری میں حجاج سے متعلق خدمات میں کسی دوسرے کا تعاون اور اس کی مدد لیتا ہے، جس پر دونوں کے درمیان فی حاجی متعینہ معاوضہ پر معاملہ طے ہوجاتا ہے اور یہ تعاون محض ضمنی ہوتا ہے اورقانونی تمام امور میں اصل ٹور آپریٹر یا اس کے وکیل کا موجود رہنا اور جملہ امور میں ذمہ دار ہونا اور ضرورت پر مختلف کاغذات پر دستخط کرنا ہوتا تھا اور سارا کام اصل ٹور آپریٹر ہی کے نام پر ہوتا ہے، پس اگر صورت حال یہی ہے تو بہ ظاہر اس کے جواز میں کچھ شبہ معلوم نہیں ہوتا بہ شرطیکہ دونوں فریق معاہدہ میں متعلقہ تمام باتیں واضح طور پر طے کرلیں اور نزاع کی تمام شکلوں سے پرہیز کریں اور اس طرح بالعوض کسی سے ضمنی تعاون ومدد لینے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہو۔
اور اگر حج کے ویزے فروخت کرنے کی شکل کچھ اور ہوتی ہو تو آپ معتبر ذرائع سے صحیح تحقیق حاصل کریں، پھر تفصیل کے ساتھ لکھ کر سوال کریں۔
No comments:
Post a Comment