شخصیات نہیں نظریات
ابوسفیان نے جنگ احد کے ختم ہونے کے بعد ایک ٹیلے پر چڑھ کر آواز دی:
هل فیکم محمد؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جواب دینا چاہا....
پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی کا حکم دیا ...
ابوسفیان نے دوسری پهر تیسری مرتبہ یہی آواز لگائی
لیکن خاموشی ..
پھر آواز دی:
هل فیکم ابن ابی قحافہ؟
کیا تم میں ابوبکر ہے؟ ..
جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے خاموشی ..
اسے تین دفعہ پورا کرنے کے بعد پهر تین دفعہ آواز دی:
هل فیکم ابن الخطاب؟
جواب: خاموشی ..
اپنے ساتھیوں کی طرف منہ کر کے خوشی سے کہا کہ بهئ یہ لوگ تو (گیو) گئے
زندہ ہوتے تو اب تک جواب آچکا ہوتا ..
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جنگ میں اس قسم کی باتیں اور وہ بھی دشمن کے سربراہ کی طرف سے، تلوار سے زیادہ سخت ہوتی ہیں کیونکہ یہاں غیرت بہت زیادہ جوش مارتی ہے
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کروائی ..
ابوسفیان (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے .. رضی اللہ عنہ) نے کچھ باتیں کیں پهر نعرے لگانے شروع کئے:
هبل زندہ باد هبل زندہ باد ..
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جواب (کیوں) نہیں دیتے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ کیا جواب دیں ..
فرمایا:
اللہ اعلیٰ و اجل ..
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دے دیا ..
ابوسفیان (رضی اللہ عنہ بعد میں بنے) نے ایک اور نعرہ لگایا:
لنا العزی ولا عزی لکم ..
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے جوابی نعرہ لگوایا:
اللہ مولانا ولا مولی لکم ..
الی آخره
اپنے اس طرزِ عمل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سبق دیا؟
سبق یہ دیا کہ:
شخصیات نہیں نظریات ..
جب شخصیات کے نام لئے جا رہے تھے ..
اس امت کی پہلی تین بزرگ ترین اور مقدس ترین شخصیات ..
تب خاموشی اختیار کروائی .. حالانکہ اس وقت کی خاموشی صحابہ خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بہت سخت تهی لیکن جب بات نظریات کی آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا :
الا تجیبونه؟
جواب کیوں نہیں دیتے ...
شخصیات خواہ کتنی ہی اہم ہوں آتی ہیں اور جاتی ہیں پر نظریات نہیں مرتے:
وما محمد الا رسول والی آیت بھی یہی سبق دیتی ہے کہ:
شخصیات نہیں نظریات
شخصیات کا احترام اپنی جگہ بالکل بجا بالکل درست لیکن یوں نہیں کرنا چاہئے کہ فلاں چلاگیا تو ہمارا کیا ہوگا ہم کیا کریں گے ..
یہ دین اللہ کا ہے اللہ ہی اسے چلائے گا ..
ہمارے ذمے جو کام ہے بس وہی کرنا چاہئے
قربان جائیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ..
رسول الله صلى الله عليه وسلم کے سانحہ ارتحال کے وقت کس خوبصورتی سے امت کو سنبھالا:
من کان منکم یعبد محمدا فان محمدا قد مات ومن کان منکم یعبد الله فان الله حی لا یموت
سلطان نور الدين زنگی رحمہ اللہ اپنے شہید باپ کی لاش پر کهڑے ہوئے تو انتہائی وقار کے ساتھ
انا للہ پڑهی
مردوں کی طرح صبر کیا ..
انتہائی سادگی کے ساتھ اور بغیر وقت ضائع کئے اپنے والد کی تدفین کی
اور اگلی ہی لڑائی میں خود گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر ثابت کردیا کہ اگر
عماد الدین گیا تو کوئی بات نہیں اس سے بڑا آگیا ..
سمجھا یہ جارہا تھا کہ بس اب مسلمانوں کا قصہ ختم ہوجائے گا .. عماد الدین زنگی جیسا تو کوئی بھی نہیں ..
لیکن حضرت نے تمام اندازوں کو غلط کر دکھایا اور بالآخر یہ قافلہ بیت المقدس کو فتح کرکے ہی رہا ..
ومن یتوکل علی الله فهو حسبه ..
الله تعالی سے جلد از جلد بڑی خوشیوں کی توقع اور سوال ہے
اپنے ایمان کا خیال رکھئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جواب دینا چاہا....
پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی کا حکم دیا ...
ابوسفیان نے دوسری پهر تیسری مرتبہ یہی آواز لگائی
لیکن خاموشی ..
پھر آواز دی:
هل فیکم ابن ابی قحافہ؟
کیا تم میں ابوبکر ہے؟ ..
جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے خاموشی ..
اسے تین دفعہ پورا کرنے کے بعد پهر تین دفعہ آواز دی:
هل فیکم ابن الخطاب؟
جواب: خاموشی ..
اپنے ساتھیوں کی طرف منہ کر کے خوشی سے کہا کہ بهئ یہ لوگ تو (گیو) گئے
زندہ ہوتے تو اب تک جواب آچکا ہوتا ..
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جنگ میں اس قسم کی باتیں اور وہ بھی دشمن کے سربراہ کی طرف سے، تلوار سے زیادہ سخت ہوتی ہیں کیونکہ یہاں غیرت بہت زیادہ جوش مارتی ہے
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کروائی ..
ابوسفیان (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے .. رضی اللہ عنہ) نے کچھ باتیں کیں پهر نعرے لگانے شروع کئے:
هبل زندہ باد هبل زندہ باد ..
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جواب (کیوں) نہیں دیتے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ کیا جواب دیں ..
فرمایا:
اللہ اعلیٰ و اجل ..
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دے دیا ..
ابوسفیان (رضی اللہ عنہ بعد میں بنے) نے ایک اور نعرہ لگایا:
لنا العزی ولا عزی لکم ..
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے جوابی نعرہ لگوایا:
اللہ مولانا ولا مولی لکم ..
الی آخره
اپنے اس طرزِ عمل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سبق دیا؟
سبق یہ دیا کہ:
شخصیات نہیں نظریات ..
جب شخصیات کے نام لئے جا رہے تھے ..
اس امت کی پہلی تین بزرگ ترین اور مقدس ترین شخصیات ..
تب خاموشی اختیار کروائی .. حالانکہ اس وقت کی خاموشی صحابہ خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بہت سخت تهی لیکن جب بات نظریات کی آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا :
الا تجیبونه؟
جواب کیوں نہیں دیتے ...
شخصیات خواہ کتنی ہی اہم ہوں آتی ہیں اور جاتی ہیں پر نظریات نہیں مرتے:
وما محمد الا رسول والی آیت بھی یہی سبق دیتی ہے کہ:
شخصیات نہیں نظریات
شخصیات کا احترام اپنی جگہ بالکل بجا بالکل درست لیکن یوں نہیں کرنا چاہئے کہ فلاں چلاگیا تو ہمارا کیا ہوگا ہم کیا کریں گے ..
یہ دین اللہ کا ہے اللہ ہی اسے چلائے گا ..
ہمارے ذمے جو کام ہے بس وہی کرنا چاہئے
قربان جائیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ..
رسول الله صلى الله عليه وسلم کے سانحہ ارتحال کے وقت کس خوبصورتی سے امت کو سنبھالا:
من کان منکم یعبد محمدا فان محمدا قد مات ومن کان منکم یعبد الله فان الله حی لا یموت
سلطان نور الدين زنگی رحمہ اللہ اپنے شہید باپ کی لاش پر کهڑے ہوئے تو انتہائی وقار کے ساتھ
انا للہ پڑهی
مردوں کی طرح صبر کیا ..
انتہائی سادگی کے ساتھ اور بغیر وقت ضائع کئے اپنے والد کی تدفین کی
اور اگلی ہی لڑائی میں خود گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر ثابت کردیا کہ اگر
عماد الدین گیا تو کوئی بات نہیں اس سے بڑا آگیا ..
سمجھا یہ جارہا تھا کہ بس اب مسلمانوں کا قصہ ختم ہوجائے گا .. عماد الدین زنگی جیسا تو کوئی بھی نہیں ..
لیکن حضرت نے تمام اندازوں کو غلط کر دکھایا اور بالآخر یہ قافلہ بیت المقدس کو فتح کرکے ہی رہا ..
ومن یتوکل علی الله فهو حسبه ..
الله تعالی سے جلد از جلد بڑی خوشیوں کی توقع اور سوال ہے
اپنے ایمان کا خیال رکھئے۔
No comments:
Post a Comment