Thursday 5 September 2019

مرد اور عورت کی نماز میں فرق

مردو عورت کی نماز میں فرق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت کا نماز کے مسائل میں ستر کا زیادہ اہتمام کرنا اور سمٹ کر نماز ادا کرنا صرف مسلک دیوبند یا صرف مذہب حنفی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام اہل سنت والجماعت اور ائمہ اربعہ کا متفقہ مسئلہ ہے، حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں کس طرح نماز پڑھتی تھیں َفرمایا پہلے چوکڑی مارکر بیٹھتی تھیں، پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز پڑھا کریں۔ (جامع مسانید الامام الاعظم أبی حنیفۃ- الباب الخامس فی الصلوۃ - ۱؍۴۰۰- ط: دائرۃ المعارف حیدر آباد الھند۔و مصورۃ المکتبۃ اسلامیہ سمندری لائل پور۔۱۳۹۶ھ۔)
حضرت عبداﷲ بن عمر 
رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ جب عورت نماز میں ایک ران دوسری پر ملاکر بیٹھتی ہے اور سجدہ کرتے وقت اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملالیتی ہے (یعنی ﷲ تعالی کی عبادت کے ساتھ ساتھ) اپنے پردے کا بھی خوب اہتمام کرتی ہے تو اللہ تعالی اس کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے فرشتوں گواہ رہوکہ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
إذا جلَستِ المرأةُ في الصَّلاةِ وضَعت فخِذَها على فخِذِها الأُخرى، وإذا سجَدت ألصَقت بطنَها في فخِذَيها كأستَرِ ما يَكونُ لَها، وإنَّ اللَّهَ تعالى يَنظرُ إليها ويقولُ: يا ملائِكَتي أشهدُكُم أنِّي قد غفرتُ لَها
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: ابن عدي - المصدر: السنن الكبرى للبيهقي - الصفحة أو الرقم: 2/223
(السنن الکبری لأبی بکر ابن حمد البیھقی کتاب الصلوۃ- باب مایستحب للمرأۃ من ترک التجافی فی الرکوع
والسجود - ۲؍۲۲۳-ط:نشرالسنۃ ملتان
وایضا کنز العمال فی احادیث السنن والاقوال لعلاء الدین علی المتقی ابن صالح الدین الھندی- کتاب الصلوۃ - صلوۃ المرأۃ -۷؍۲۲۳۔ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت۔

رسول اقدس صلی اﷲعلیہ وسلم نے دوعورتوں کو نماز پڑھتے دیکھ کرفرمایا جب سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصوں کو بعض سے ملا کر زمین کے ساتھ چمٹادو ،بیشک عورت اس میں مرد کی مانند نہیں ہے۔ (مراسیل ابی داؤد فی اخر سنن ابی داؤد للإمام ابی داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی،کتاب الصلوۃ ،باب جامع الصلاۃ ص۸ -ط: میر محمد کتب خانہ کراچی۔ ص: ۱۹۱ط: دار الصمعی الریاض ۱۴۲۲ھ ۔
السنن الکبری للبیھقی- کتاب الصلوۃ- باب مایستحب للمرأۃ من ترک التجافی …الخ- ۲؍۲۲۳۔ط:نشر السنۃ ملتان۔)
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مرَّ على امرأتَينِ تُصليان فقال : إذا سجدتُما فضُمَّا بعضَ اللَّحمِ إلى الأرضِ فإنَّ المرأةَ ليست في ذلك كالرجُلِ
الراوي: يزيد بن أبي حبيب المحدث: أبو داود - المصدر: المراسيل - الصفحة أو الرقم: 191
خلاصة حكم المحدث: أورده في كتاب المراسيل۔
حضرت علی سے مروی ہے کہ جب عورت سجدہ کرے (مردوں کے برخلاف) تو سمٹ کر بیٹھے رانوں سے مل کے
-عن عليٍّ إذا سجدَتِ المرأةُ فلتضُمَّ فَخِذَيها .
الراوي: الحارث الأعور المحدث: الذهبي - المصدر: المهذب - الصفحة أو الرقم: 2/662

حضرت وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز کا طریقہ سکھایا تو فرمایا کہ اے حجر جب تم نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھ کا نوں تک اٹھائو اور عورت کو بتادینا کہ وہ اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اٹھائے۔ (مجمع الزوائد لنور الدین علی بن ابی بکر - باب رفع الیدین فی الصلوۃ -۲؍۱۰۳۔ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت۔۱۴۰۸ھ بمطابق ۱۹۸۸)
حضرت مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ عورتوں کے لئے سنت یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھیں۔ (السعایۃ فی کشف ما فی شرح الوقایۃ للشیخ عبدالحی اللکنوی -کتاب الصلوٰۃ باب صفۃ الصلوٰۃ…۲؍۱۵۶- سھیل اکیڈمی لاہور،الطبعۃ الثانیہ ۱۴۰۸ھ۔)
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدسہ ومطہرہ بیویوں یا آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کی پاکباز بیٹیوں یا عشرہ مبشرہ میں سے کسی ایک صحابی کی بیوی، بیٹی یا کسی اور رشتہ دارعورت سے ہرگز ثابت نہیں کہ وہ احادیث مذکورہ کے خلاف مردوں کی طرح نماز پڑھتی ہوں بلکہ پورے تیئس سالہ دورِ نبوت میں کسی ایک بھی صحیح سند سے کسی ایک بھی صحابیہ سے مردوں کی طرح نماز پڑھنا ثابت نہیں، اس کے بعد دور خلافت راشدہ میں اور پورے دور صحابہ میں خلیفہ راشد حضرت علی کرم رضی اللہ عنہ 
مدینہ منورہ اور کوفہ میں اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں عورتوں کو نماز کا یہی طریقہ سکھاتے رہے کہ وہ خوب سمٹ کر اکٹھی ہوکر نماز پڑھیں (دیکھئے امام بخاری رحمة اللہ علیہ 
کے استاد امام ابوبکر ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ کی حدیث کی مشہور کتاب’’المصنف‘‘) (المصنف لابن ابی شیبۃ الکونی، باب فی المرأۃ کیف تکون فی سجودھا :۱؍۲۷۰-۲۷۱ ط: ادارۃ القرآن والعلوم كراتشي)
پورے دورِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ  کا زمانہ آتا ہے، اس زمانہ میں بھی مکہ مکرمہ میں حضرت مجاہد بصرہ میں اور کوفہ میں امام ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ برملا یہی فتوی دیتے رہے کہ عورت کانماز میں بیٹھنا اور سجدہ کرنا مرد کی طرح نہیں ہے۔  تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں ایک آواز بھی اس کے خلاف نہیں اٹھی اور حدیث پاک کی کسی بھی کتاب میں کسی تابعی یا تبع تابعین کا فتوی بھی ایسا نظرسے نہیں گزرا جس نے کسی عورت کو مجبور کیا ہو کہ وہ مردوں کی طرح نماز پڑھے، یہی وہ زمانہ ہے جس میں چاروں اماموں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقوں کو فقہ اسلامی کی شکل میں مرتب اور مدون فرمایا۔
چاروں ائمہ کی فقہ کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت سمٹ کر سجدہ کرے چنانچہ غیر مقلدین کے امام مولانا عبدالجبار بن عبد اللہ الغزنوی (جوبانی جامعہ ابی بکر گلشن اقبال کراچی کے دادا ہیں) اپنے فتاوی میں حدیث نقل کرکے (جومیں نے کنزالعمال کے حوالہ سے نقل کی ہے) فرماتے ہیں اور اسی پر تعامل اہل سنت مذاہب اربعہ وغیرہ سے چلا آیا ہے۔
اس کے بعد حافظ ابن القیم حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کی زادالمعاد، فقہ حنفی سے ھدایہ اور شرح وقایہ، ابن ابی زید مالکی کی کتاب رسالہ فقہ مذہب مالک، شافعیوں کی کتاب منہاج نووی اورنہایۃ المحتاج للرملی اور حنبلیوں کی کتاب شرح اقناع سے یہی نقل کیا ہے کہ عورت سمٹ کر بیٹھے اورسجدہ کرے اور آخر میں لکھتے ہیں:
’’غرض کہ عورتوں کا انضمام (اکٹھی ہوکر) وانخفاض (سمٹ اور چمٹ کر) نمازمیں احادیث وتعامل جمہور اہل علم از مذاہب اربعہ وغیرہم سے ثابت ہے، اس کا منکر (انکارکرنے والا) کتب ِحدیث اور تعامل اہل علم سے بے خبر ہے‘‘۔ (فتاوی علماء اھل حدیث ۳؍۱۴۹- بحوالہ فتاوی غزنویۃ ص ۲۷،۲۸- مکتبہ سعیدیہ خانیوال)
الغرض عورتوں کی نماز کا یہ طریقہ  رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک امت میں متفق علیہ اور عملاً متواتر ہے اس عملی تواتر کے خلاف غیرمقلدین نہ کوئی آیت قرآنی پیش کرتے ہیں نہ حدیث نبوی نہ کسی خلیفہ راشد کا فتوی۔ صرف یہ کہتے ہیں کہ ام درداء نماز میں مرد کی طرح بیٹھتی تھیں،
بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ وَكَانَتْ أُمُّ الدَّرْدَاءِ تَجْلِسُ فِي صَلَاتِهَا جِلْسَةَ الرَّجُلِ وَكَانَتْ فَقِيهَةً
827 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ كَانَ يَرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَتَرَبَّعُ فِي الصَّلَاةِ إِذَا جَلَسَ فَفَعَلْتُهُ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ فَنَهَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَقَالَ إِنَّمَا سُنَّةُ الصَّلَاةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ الْيُمْنَى وَتَثْنِيَ الْيُسْرَى فَقُلْتُ إِنَّكَ تَفْعَلُ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّ رِجْلَيَّ لَا تَحْمِلَانِي
صحيح البخاري. أبواب صفة الصلوة
اس حدیث میں کہیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کا ذکر نہیں ہے۔بلکہ ایک صحابیہ کا عمل ہے جس کا ذکر کرکے امام بخاری نے اشارہ بھی کردیا کہ وہ خود فقیھہ تھیں۔ وہ اپنے اجتھاد سے ایسا کرتی تھیں۔ پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ امام بخاری نے اسے تعلیقا ذکر فرمایا ہے کوئی سند ذکر نہ فرمائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں اس میں چند اہم امور بطور خاص قابل غور ہیں:
اول: اس روایت کی سند میں کلام ہے ۔
دوم: علمائے اسماء الرجال میں یہ اختلاف ہے کہ یہ ام درداء صحابیہ تھیں یا تابعیہ۔
سوم: پھر ان کے پاس بھی اس کے ثبوت میں نہ کوئی آیت قرآنی تھی نہ کوئی حدیث نبوی، نہ کسی خلیفہ راشد کا فتوی، صرف یہ کہ "انھا فقیھۃ"، یہ ان کی قیا سی رائے تھی جس پر عمل کرنے کی انہوں نے کبھی کسی دوسری عورت کو دعوت نہیں دی۔
چہارم: اگر یہ سنداََ صحیح بھی ہوتی تو عملی تواتر کے خلاف اس رائے کی پوزیشن ایسی ہی ہے جیسے قرآن کے خلاف کوئی شاذ قرات، کوئی مسلمان بھی کسی شاذ قرات کے لئے متواتر قرآن پاک کی تلاوت نہیں چھوڑتا، نہ ہی کسی دوسرے مسلمان کو ایسی دعوت دیتا ہے۔
جو حضرات مرد وعورت کی نماز کی کیفیات میں برابری کے قائل ہیں وہ ان تمام صحیح احادیث رسول کا انکار کرتے ہیں جن میں مردوں اور عورتوں کی نماز کے درمیان فرق کا بیان موجود ہے۔
بطور نمونہ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
(١) اَخْرَجَ الْبُخَارُِّ عَنِ النَّبِِّ عَلَےْہِ السَّلَامُ اَنَّہ قَالَ: یَااَیُّھَاالنَّاسُ ! مَالَکُمْ حِیْنَ نَابَکُمْ شَیْئ فِی الصَّلَاةِ ،أَخَذْتُمْ فِی التَّصْفِیْقِ، اِنَّمَا التَّصْفِیْقُ لِلنِّسَائِ (بخاری شریف رقم الحدیث: ٦٨٤)
(٢) عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ لِْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَاوَائِلَ بْنَ حُجْرٍ! ِذَاصَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَائَ أُذُنَیْکَ وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ یَدَیْھَاحِذَائَ ثَدَیَیْھَا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
(٣) عَنْ یَّزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَی امْرَأَتَیْنِ تُصَلِّیَانِ فَقَالَ : ِذَا سَجَدْتُّمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ ِلَی الْاَرْضِ فَاِنَّ الْمَرْأَةَ لَیْسَتْ فِْ ذٰلِکَ کَالرَّجُلِ ۔(اخرجہ اَبوداودمرسلًا والبیہق موصولًا)
(٤) سُئِلَ بْنُ عُمَرَ کَیْفَ کُنَّ النِّسَائُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ قَالَ کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ یَّتَحَفَّزْنَ۔ (جامع المسانید والسنن)

پھر  کم علمی کی داد دیجئے کہ بخاری کی جس روایت سے مردو عورت کی نماز میں برابری پہ عامیانہ استدلال کیا جاتا ہے مسلم شریف کی روایت نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا کہ یہ کیفیت مردوں کے لئے ہے
بخاری کی روایت دیکھیں بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ وَكَانَتْ أُمُّ الدَّرْدَاءِ تَجْلِسُ فِي صَلَاتِهَا جِلْسَةَ الرَّجُلِ وَكَانَتْ فَقِيهَةً
827 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ كَانَ يَرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَتَرَبَّعُ فِي الصَّلَاةِ إِذَا جَلَسَ فَفَعَلْتُهُ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ فَنَهَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَقَالَ إِنَّمَا سُنَّةُ الصَّلَاةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ الْيُمْنَى وَتَثْنِيَ الْيُسْرَى فَقُلْتُ إِنَّكَ تَفْعَلُ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّ رِجْلَيَّ لَا تَحْمِلَانِي
صحيح البخاري. أبواب صفة الصلوة

اب دیکھئے کہ مسلم شریف کی روایت کسطرح بخاری کی مذکورہ روایت کا محمل متعین کرتی ہے
498 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي الْأَحْمَرَ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ قَالَ ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةَ بِ (الْحَمْد لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ [ص: 358] مِنْ السَّجْدَةِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ عَنْ أَبِي خَالِدٍ وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ
صحيح مسلم. باب مايجمع صفة الصلوة وما يفتتح به وما يختم.
"ان یفترش الرجل" صاف بتارہی ہے کہ یہ کیفیت مردوں کے لئے ہے۔
عورتوں کو اس حکم میں برابر کرنا حدیث رسول میں اپنی جانب سے اضافہ کرنا ہے۔ جو ناقابل معافی جرم ہے۔
قرآن وحدیث پہ عمل کرنے کا پابند ہر مسلمان ہے۔
لیکن قرآن وسنت کے فہم میں اختلاف ہو تو ہمیں فقہاء کرام کے فہم پر اعتماد کرنے کا حکم خود اللہ نے "لیتفقھوا فی الدین" کے ذریعہ دیا یے۔ نفس مسئلہ میں تمام ہی فقہاء کا اتفاق ہے کہ عورت سمٹ کر بیٹھے اور سمٹ کر سجدہ کرے۔ جبکہ مرد ہر عضو کو الگ الگ رکھے سجدہ میں کہنیوں کو اٹھاکے رکھے
سفیان بن عیینہ کی بات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے
"التسليم للفقهاء سلامة في الدين" (تاریخ بغداد للخطیب 82/2۔ دارالکتاب۔ بیروت)
"دین کی سلامتی کے لئے فقہاء کی رہنمائی ضروری ہے."
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی البھاری
٢٠\٤\١٤٣٨هجري

https://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_83.html


No comments:

Post a Comment