عورت سجدہ کس طرح کرے؟
حضرت سجدہ کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
حضرت سجدہ کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُکُمْ ذِرَاعَيْهِ کَالْکَلْبِ وَإِذَا بَزَقَ فَلَا يَبْزُقَنَّ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ وَقَالَ سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ لَا يَتْفِلُ قُدَّامَهُ أَوْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَکِنْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمَيْهِ وَقَالَ شُعْبَةُ لَا يَبْزُقُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ وَلَکِنْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ وَقَالَ حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَبْزُقْ فِي الْقِبْلَةِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ وَلَکِنْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ
بخاری شریف ابو داود شریف مسند احمد
علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ "سجدہ میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ پشت کو ہموار رکھا جائے۔ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے جائیں، کہنیاں زمین سے اوپر اٹھی رہیں اور پیٹ زانوں سے الگ رہے۔
از شرح مشکوۃ
الجواب وباللہ التوفیق:
عورت کے لیے سجدے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سجدے میں پیٹ کو رانوں سے اور بازوٴوں کو پہلوٴوں سے اچھی طرح ملادے اور خوب دب کر اور سمٹ کر سجدہ کرے (نور الایضاح مع حاشیة الطحطاوی علی المراقی ص ۲۶۸، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت، درمختار وشامی ۲۱۱۲، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)، لیکن عذر کی حالت اس سے مستثنیٰ ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر عورت سات ماہ کے حمل کی وجہ سے مسنون طریقہ پر سجدہ نہیں کرسکتی تو جس طرح بآسانی وسہولت اس کی ناک اور پیشانی زمین پر پہنچ سکتی اور ٹک سکتی ہو، اس طرح سجدہ کرلے، صورت مسئولہ میں عذر کی وجہ سے اس طرح اس کا سجدہ بلا کسی کراہت ادا ہوجائے گا۔
---------------------------------------------------------------------------------------------
سوال: میں چند سالوں سے سعودی عرب میں مقیم ہوں، یہاں خواتین نماز میں مردوں کی طرح سجدہ کرتی ہیں، وضاحت فرمائیں کہ خواتین کے لیے کس طرح سجدہ کرنے کا حکم ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
مردوں اور خواتین کی نماز میں سجدہ سمیت اور بھی متعدد مواقع میں فرق ہے، اور یہ فرق احادیث سے ثابت ہے، خود نبی کریمﷺ نے مردو عورت کی نماز میں فرق بیان کیا ہے ، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اِس فرق کا لحاظ رکھا کرتےاور بیان کیا کرتے تھے اور یہی تابعین ، تبعِ تابعین ، اَسلاف اور اُمت کے ائمہ مجتہدین کا مسلک تھا جیسا کہآگےآنے والی احادیث سے یہ واضح ہوجائے گا۔
مرد و عورت کی نماز میں عمومی فرق پر مشتمل احادیث:
’’عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، صَاحِبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ الْأَوَّلُ، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ الصَّفُّ الْآخِرُ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافَوْا فِي سُجُودِهِمْ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِي سُجُودِهِنَّ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِي التَّشَهُّدِ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ وَقَالَ:يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ! لَا تَرْفَعْنَ أَبْصَارَكُنَّ فِي صَلَاتِكُنَّ تَنْظُرْنَ إِلَى عَوْرَاتِ الرِّجَالِ‘‘. (سنن کبریٰ بیہقی:3198)
ترجمہ: صحابیِ رسول حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: مردوں کی سب سے بہترین صف پہلی اور عورتوں کی سب سے بہترین آخری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کوکھل کر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور عورتوں کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو اِس بات کا حکم دیاکرتے تھےکہ وہ تشہد کی حالت میں اپنے بائیں پاؤں کو بچھاکر دایاں پاؤں کھڑا کریں، اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر(یعنی تورّک کےساتھ زمین پر سرین رکھ کر) بیٹھیں، اور فرماتے: اے عورتوں کی جماعت! تم لوگ نماز میں اپنی آنکھوں کو مت اٹھایا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نگاہ مردوں کے ستر پر پڑجائے۔
’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ؟ فَقَالَ: «تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ»‘‘. (مصنّف ابن ابی شیبہ:2778)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: ”تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ“ خوب اچھی طرح اکٹھے ہوکر اور سمٹ کر نما زپڑھے۔
’’عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: تَجْتَمِعُ الْمَرْأَةُ إِذَا رَكَعَتْ تَرْفَعُ يَدَيْهَا إِلَى بَطْنِهَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ، فَإِذَا سَجَدَتْ فَلْتَضُمَّ يَدَيْهَا إِلَيْهَا، وَتَضُمَّ بَطْنَهَا وَصَدْرَهَا إِلَى فَخِذَيْهَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ‘‘. (عبد الرزاق:5069)
ترجمہ:حضرت ابن جریج حضرت عطاء سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: عورت رکوع کرتے ہوئے سمٹ کر رکوع کرے گی؛ چناں چہ اپنے ہاتھوں کواُٹھاکر اپنے پیٹ کے ساتھ ملالے گی، اور جتنا ہوسکے سمٹ کررکوع کرے گی، پھر جب سجدہ کرے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے (جسم کے) ساتھ ملالے گی، اور اپنے پیٹ اور سینہ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملالے گی اور اور جتنا ہوسکے سمٹ کر سجدہ کرے گی۔
اِس حدیث سے عورت کی نماز کا اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی پوری نماز میں شروع سے آخر تک اِس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ وہ نماز میں زیادہ سے زیادہ سمٹ کر ارکان کی ادائیگی کرے، چناں چہ حدیثِ مذکور میں بار بار ” وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ “ کے الفاظ اِسی ضابطہ کو بیان کررہے ہیں ۔خلاصہ یہ ہوا کہ مرد اور عورت کی نماز کا طریقہ ایک جیسا نہیں ہے، بلکہ کئی جگہوں میں فرق ہے جن میں سے ایک سجدہ بھی ہے، چناں چہ مرد کے لیے سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ:
۱- تمام اعضا جداجداہوں، ہاتھ بغلوں سے اوررانیں پیٹ سے الگ ہوں۔
۲- سرین کا حصہ اوپرکی طرف ہو۔
۳- ہاتھ زمین پرنہ بچھائے؛ بل کہ اٹھائے رکھے۔
۴- پیروں کے پنجے کھڑے کرکے ان کی انگلیاں قبلہ کی طرف کردے۔
اورعورت ان تمام امورمیں مرد سے مختلف ہے؛ چناں چہ اس کو چاہیے کہ وہ سجدہ اس طرح کرے کہ:
۱- اس کے تمام اعضا ملے ہوئے ہوں، ہاتھ بغلوں سے ،رانیں پیٹ سے ملی ہوئی ہوں۔
اس کی وجہ علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے درمختارمیں یہ لکھی ہے کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ پردہ ہے۔
۲- سرین کے حصے کواوپرکی طرف نہ اٹھائے؛ بل کہ اپنے جسم کوحتی الامکان زمین سے ملاکر پست رکھے ۔
۳- اپنے ہاتھوں کوزمین پر بچھاکر رکھے، مردکی طرح اٹھاکرنہ رکھے۔
۴- اپنے دونوں پیرایک طرف(دا ہنی طرف کو) نکال دے اوراپنے پیروں کوکھڑا نہ کرے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 504):
’’(والمرأة تنخفض) فلا تبدي عضديها (وتلصق بطنها بفخذيها)؛ لأنه أستر، وحررنا في الخزائن: أنها تخالف الرجل في خمسة وعشرين.‘‘.
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
No comments:
Post a Comment