Wednesday 4 September 2019

پرویز، یزید اور ان کے ساتھ ہمارا رویہ

پرویز، یزید اور ان کے ساتھ ہمارا رویہ

پرویز اور یزید دو مشہور شخصیات ہیں اور دونوں کا دور آس پاس۔ پرویز ایران کا بادشاہ تھا، جس کا مقامی لقب فارسی میں خسرو اور عربی میں کِسریٰ تھا۔ یہ ہُرمز کا بیٹا اور نوشیرواں عادل کا پوتا تھا۔ نہایت متکبر اور حد درجہ سرکش۔ یہ وہی بندہ ہے جس کی ملکہ کا نام شیریں تھا۔ ہاں وہی شیریں، جس پر فرہاد فدا ہوگیا تھا۔ سنہ 6 ہجری میں جب آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھے تو ایک خط اس کے نام بھی لکھا، جس کا متن تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، من محمد رسول اللہ الیٰ کسریٰ عظیم فارس، سلام علیٰ من اتبع الھدیٰ و آمن باللہ و رسولہ و شھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و ان محمداً عبدہ و رسولہ، ادعوک بدعایۃ اللہ، فانی انا رسول اللہ الی الناس کافۃ لینذر من کان حیاً و یحق القول علی الکافرین، اسلم تسلم، فان ابیت فعلیک اثم المجوس
فقہ السیرۃ، 358
یہ خط حضرت عبداللہ ابن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ بحرین کے بادشاہ کے پاس لے کر گئے، تاکہ عظیمِ بحرین اسے خسرو تک کسی طرح بھجوادیں۔ مکتوبِ گرامی جب خسرو پرویز کے پاس پہنچا اور اس نے پڑھا تو طاقت اور حکومت کے نشے میں وہ ایمان تو کیا لاتا، الٹا سخت غضبناک ہوا۔ کہنے لگا کہ: محمد کی یہ جرات کہ میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھ دے!! خط پڑھا اور اسی وقت اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ مشکل الآثار میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ: فلما قراہ خرقہ یعنی خط پڑھتے ہی پھاڑدیا۔ مشہور تابعی ابن مسیب رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: 
فدعا علیہم رسول اللہ ﷺ ان یمزقوا کل ممزق، 
یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تک جب اس شرمناک حرکت کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرویز کو یوں بد دعا دی کہ اللہ اس کے ملک کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ چناں چہ یہی ہوا۔ اس کے بیٹے شیرویہ نے ہی اسے مار ڈالا اور خود تخت نشیں ہوگیا۔ جب وہ بھی مرگیا تو اس کی بیٹی بوران وہاں کی حاکمِ اعلیٰ بنی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو فرمایا: 
لن یفلح قوم ولوا امرھم الی امراۃ 
وہ قوم کبھی کامیاب نہ ہوگی جس نے حکومتی معاملات ایک عورت کے سپرد کردیے۔
یزید کو تو تقریباً ہر پڑھا لکھا بندہ جانتا ہے اور اس پر ملامت بھی برساتا ہے۔ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا فرزند اور خسرِ رسولؑ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا پوتا تھا۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کے ظلم و ستم کی داستان سے کتبِ تاریخ بھری پڑی ہیں۔ یزید کے خلاف اتنا کچھ لکھا گیا کہ اس کا نام آتے ہی ظلم و عدوان کی تصویر ابھرنے لگتی ہے۔ مولانا منظور نعمانی رحمة اللہ علیہ نے واقعۂ کربلا میں اپنے مقدمے میں لکھا ہے کہ یزید کے خلاف نفرت میرے دل میں بچپن سے تھی، مگر جب قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے 
ولا یزید الظالمین
میری نظر سے گزرا تو میں نے سمجھا کہ اللہ تعالی بھی یزید کو ظالم کہہ رہے ہیں، اس کے بعد سے بغضِ یزید اور پختہ ہوگیا۔ یہ تو بہت بعد میں کھلا کہ یہاں یزید فعل ہے، نہ کہ اسم۔
شیعی روایات کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی ذریت کا خون اسی یزید کی گردن پر ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ دین نام کی کوئی چیز اس بندے میں نہیں تھی۔ وہ شرابی، کبابی اور بدترین فاسق و فاجر تھا۔ لائق باپ کا گیا گزرا بیٹا۔ مگر سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے محمد بن حنفیہؒ کی بات بھی سن لیجیے۔ ابنِ کثیر روایت کرتے ہیں کہ: عبداللہ ابنِ مطیع جو کہ عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے داعی تھے، وہ اور ان کے اصحاب مدینہ سے محمد ابن حنفیہ کے پاس گئے، انہوں نے ابنِ حنفیہ کو یزید سے جدا کرنا چاہا تو انہوں نے انکار کردیا۔ ابنِ مطیع نے کہا: یزید تو شراب پیتا ہے، نماز چھوڑتا ہے، کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ محمد ابن حنفیہ نے کہا: میں نے ان کے اندر وہ باتیں نہیں دیکھیں جو تم لوگ کہہ رہے ہو۔ میں ان کے پاس گیا۔ ان کے پاس قیام کیا۔ میں نے انہیں نماز کی پابندی کرتے دیکھا۔ بھلائی کے کاموں میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا۔ فقہ کے بارے میں دریافت کرتے اور سنت کا التزام کرتے ہوئے دیکھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ یزید کے یہ اعمال آپ کو محض دکھانے کے لیے تھے۔ اس پر ابنِ حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کس بات کا ڈر؟؟ ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: البدایہ و النہایہ۔
یزید ہی وہ بندہ ہے، جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پر عمل کیا اور اپنا نام تاریخ کے سنہرے اوراق میں لکھوایا۔ بخاری شریف میں امِ حرام رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
اول جیش من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفور لہم، فقلت انا فیہم یا رسول اللہ! قال لا۔
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ سب سے پہلے ملکِ قیصر، یعنی قسطنطنیہ پر جہادی حملہ کریں گے، ان کا گناہ معاف کر دیا جائے گا۔ آج کا استنبول اور کل کا قسطنطنیہ رومیوں کا دارالحکومت تھا۔ اس پر سب سے پہلا جہادی حملہ یزید کی سرکردگی میں ہوا تھا، جس میں مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شریک ہوئے تھے اور وہیں ان کی قبر بنی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہؓ بھی نے بھی شرکت فرمائی۔ یہ غزوہ سنہ 52 ہجری میں ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یزید مغفور ہے۔
اسی حدیث کے پیشِ نظر اہلِ حق علما یزید پر لعنت کے حق میں نہیں۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فرماتے تھے کہ اس پر خاموشی اختیار کی جائے اور معاملہ اللہ کے حوالے کیا جائے۔
ان دو شخصیات کا مختصر تذکرہ آپ کے سامنے آیا۔ ان میں پہلی شخصیت یقینی کافر تھی اور دوسری شخصیت یقینی مسلمان۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ جس سے ہمیں سخت نفرت کرنا چاہیے تھا، اس کے نام پر ہم اپنے بچوں کے نام دھڑلے سے رکھ رہے ہیں، اور جس کے بارے میں محمد ابن حنفیہ خیر کی گواہی دے رہے ہیں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم مغفرت کی بشارت سناتے ہیں آج ہمارے دیار میں اس سے اتنی نفرت کہ یزید نام رکھنا گویا فرعون اور ہامان رکھنا ہے۔ یہ انتہائی خراب ذہنیت اور جہالت سے عبارت طریقہ ہے۔ میری معلومات کے مطابق صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کیا، بعد کی نمایاں شخصیات بھی اس نام کی پائی گئی ہیں۔ علامہ ذہبی نے 18 ایسے محدثین کا تذکرہ کیا ہے، جن کا نام یزید ہے۔ یزید ابن ہارون، یزید ابن مہران، یزید ابن قبیس، یزید ابن محمد اور یزید ابن عبد ربہ کو کون نہیں جانتا! یہ سب یزید کی موت کے بعد پیدا ہوئے۔ یزید کی وفات 64 ہجری میں ہے۔
اس کے برعکس پرویز نامی کوئی محدث یا صحابی میری نظر سے ابھی تک نہیں گزرا۔ اسی لیے میرا مزاج ہے کہ میں پرویز نامی طلبہ کا نام فوراً بدل دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اپنی سرکاری دستاویزات کو اس گھٹیا نام سے پاک کرو۔ نام کا اثر ذات پر ضرور پڑتا ہے۔
✏ فضیل احمد ناصری
https://ur.wikipedia.org/wiki/یزید_بن_معاویہ

No comments:

Post a Comment