Thursday, 12 September 2019

قنوت نازلہ کسے کہتے ہیں؟ اسے کب پڑھتے ہیں اور کیوں پڑھتے ہیں؟

قنوت نازلہ کسے کہتے ہیں؟ اسے کب پڑھتے ہیں اور کیوں پڑھتے ہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
مسلمان اس وقت جن حالات سے دو چار ہیں، حلب و شام میں خصوصاً اور پورے عالم میں عموماً، ضروری معلوم ہوا کہ ایسے وقت میں نبوی علاج کی رہنمائی کی جائے، جس میں اصل تو گناہوں سے توبہ و تعلق مع اللہ ہے، اور من جملہ ان کے قنوتِ نازلہ کا اہمتام بھی ہے، جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔ آقاے دو جہاں، رحمة للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اسوہٴ حسنہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی عام اور عالم گیر مصیبت نازل ہو، مثلاً غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے حملہ اور تشدد ہونے لگے اور دنیا کے سر پر خوف ناک جنگ چھا جائے یا دیگر بلاوٴں اور بربادیوں اور ہلاکت خیزیوں میں مبتلا ہوجائے، تو ایسی مصیبت کے دفعیے کے لیے فرض نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھتے تھے، اور جب تک وہ مصیبت دفع نہ ہو جائے، یہ عمل برابر جاری رہتا تھا اور اس کا جواز عموماً جمہور ائمہ اور خصوصاً حنفیہ کے نزدیک باقی ہے اور منسوخ نہیں ہے؛ بلکہ جب کوئی عام مصیبت پیش آئے تومصیبت کے زمانے تک قنوتِ نازلہ پڑھنا جائز ہے، لہٰذا مسلمانوں کو ضرورت کے وقت اس سنت پر عمل کرنا چاہیے اور قنوتِ نازلہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت، ظلم و زیادتی اور فسق و فجور اور ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مسلمان حقوق العباد کی ادایگی کا پورا پورا لحاظ رکھیں، آپس میں محبت و ہمدردی اور اتفاق پیدا کریں، لہو و لعب سے پرہیز کریں اور اپنے خالق بزرگ و برتر کی بارگاہ میں گریہ و زاری کے ساتھ مناجات و دعا کریں؛ غرض یہ کہ ہر قسم کے اوامر واخلاقِ حسنہ پر عمل کی کوشش کریں اور ہر قسم کی منکرات و برائی سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ سے امید ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعائیں قبول اور ان کو اس گردابِ بلا سے نجات و خلاصی عطا فرمائے گا۔ (عمدة الفقہ: ۲/۲۹۵ بترمیم)
چند احادیث
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مہینے تک نمازِ فجر میں قنوت پڑھی، جس میں آپ نے عرب کے بعض قبیلوں؛ رِعْل، ذکوان، عُصَیَّہ اور بنی لِحیان کے خلاف بددعا فرمائی۔(بخاری:۱۵۷۹) حضرت انس بن مالک رحمة اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ماہ تک قنوتِ نازلہ پڑھی اور اس کے بعد چھوڑ دی۔ (ابوداود:۱۴۴۵) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیاکہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر پوچھا گیا کہ رکوع سے پہلے پڑھی ہے یا رکوع کے بعد؟ فرمایا: رکوع کے بعد۔ (ابوداوٴد:۱۴۴۴)
تین قنوت
 لفظ قنوت کے معنی ہیں دعا، اور قنوت تین ہیں؛
(۱) ایک وہ جو وتر میں پڑھی جاتی ہے 
(۲) دوسری قنوتِ نازلہ ہے، یعنی وہ قنوت جو دشمن کی طرف سے آنے والی اُفتاد کے وقت میں پڑھی جاتی ہے، یہ قنوت اجتماعی ہے جب مسلمانوں کو دشمن کی طرف سے کسی آفت کا سامنا ہو تو انھیں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہیے۔ پھر امامِ اعظم رحمة اللہ علیہ  کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ قنوت صرف نمازِ فجر کی دوسری رکعت کے قومے میں پڑھی جائے اور دوسرا قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں پڑھ سکتے ہیں، اور امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھ سکتے ہیں 
(۳) تیسری قنوت قنوتِ راتبہ یعنی ہمیشہ پڑھا جانے والی قنوت اس کے صرف امام مالک اور امام شافعی رحمة اللہ علیہ قائل ہیں۔ پھر امام مالک رحمہ اللہ اس کو مستحب گردانتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ سنت، باقی دو امام اس قنوت کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ قنوت صرف فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے قومے میں پڑھتے ہیں۔ (تحفة الالمعی:۲/۲۳۶)
نیز درست یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ جنگ کے ساتھ مخصوص نہیں؛ بلکہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آجائے یا فتنے میں مبتلا ہوں تو اسے پڑھا جائے۔ (خیر الفتاویٰ:۲/۲۸۸) جب طاعون یا ہیضے وغیرہ کی وبا پھیل جائے جس سے لوگ مضطرب اور پریشان ہوں، تو قنوتِ نازلہ پڑھی جا سکتی ہے؛ تاآں کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کردے ۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۱ صالح)
قنوتِ نازلہ سب کے لیے
قنوتِ نازلہ کا حکم عام ہے، مرد، عورت، امام، منفرد ہر ایک کو شامل ہے ۔ جماعت کی قید اور مَردوں کی تخصیص اور منفرد یا عورتوں کے لیے ممانعت کی صریح اور صحیح دلیل منقول نہیں ہے۔ ”قَنَتَ الامامُ“ اس کے لیے کامل دلیل نہیں ہے ۔(حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی نظریہ ہے) لہٰذا منفرد اور عورتیں اپنی نماز میں دعاے قنوت پڑھ سکتی ہیں؛ مگر عورتیں زور سے نہ پڑھیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۳)
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ
اس لیے عام مصیبت کے وقت بالاتفاق نماز ِفجرکی جماعت میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون ومستحب ہے، جس میں نہ قنوتِ وتر کی طرح ہاتھ اٹھائیں نہ تکبیر کہیں۔(جواہر الفقہ:۶/۱۲۶) یعنی قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر امام قومہ کرے،اور اسی حالت میں دعاے قنوت پڑھے اور جہاں جہاں وہ ٹھہرے، وہاں سارے مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں، پھر دعا سے فارغ ہوکر اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں اور بقیہ نماز امام کی اقتدا میں معمول کے مطابق ادا کریں۔’عمدة الفقہ‘ میں ہے کہ بہ اعتبارِ دلیل کے قوی یہ ہے کہ (قنوتِ نازلہ) رکوع کے بعد پڑھی جائے، یہی اولیٰ اور مختار ہے۔ دعا سے فارغ ہو کر اللّٰہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائیں۔ اگر یہ دعا مقتدیوں کو یاد ہو، تو بہتر ہے کہ امام بھی آہستہ پڑھے اور سب مقتدی بھی آہستہ پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو، جیسا کہ اکثر تجربہ اس کا شاہد ہے تو بہتر یہ ہے کہ امام زور سے پڑھے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔ (عمدة الفقہ:۲/۲۹۶بترمیم)
قنوتِ نازلہ مختلف روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے، ایک جامع دعا یہ ہے:
اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، اِنَّہ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، وَ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَلِلْمُوٴمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَ أَصْلِحْھُمْوَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةََ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ، وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ، لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ، الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔
----------------------------------------------------------------------
۱۔ قنوت نازلہ کسے کہتے ہیں یعنی کیا معنی ہیں؟
۲۔ قنوت نازلہ کب پڑھتے ہیں اور کیوں پڑھتے ہیں؟ اور کیا دعا قنوت کو قنوت نازلہ کہتے ہیں؟ وضاحت سے جواب دیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
 (۱تا ۳) قنوت دعا کو کہتے ہیں اور نازلة کے معنی مصیبت کے ہیں، جب مسلمانوں پر کوئی عام مصیبت آجائے، مثلا: کفار کی طرف سے مسلمانوں پر عمومی طور پر ظلم و ستم ہونے لگے، تو ایسے موقع پر قنوت نازلہ کا پڑھنا صحیح اور معتبر روایات سے ثابت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ میں ظالموں کے نام لے کر کے بد دعا فرمائی اور مظلوموں کے نام لے کر دعا فرمائی، بیر معونہ کے موقع پر جب ستر صحابہ کو دھوکہ دے کر شہید کر دیا گیا، تو اس وقت ایک مہینہ تک مسلسل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ پڑھی، قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سَمِعَ اللّٰہ ُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر ہاتھ اٹھائے بغیر امام کھڑا ہوجائے اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پرآہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، پھر دعا سے فارغ ہوکر اللہ اکبرکہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں، بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں۔ دعائے قنوت یہ ہے:
اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، اِنَّہ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، وَ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوْمِنِیْنَ وَلِلْمُومِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَ أَصْلِحْھُمْوَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةََ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ، وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ، لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ، الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔
ترجمہ: یا اللہ ! ہمیں راہ دکھلا اُن لوگوں میں جن کو آپ نے راہ دکھلائی، اور عافیت دے اُن لوگوں میں جن کو آپ نے عافیت عطا فرمائی، اور کارسازی فرمائیے ہماری ان لوگوں میں جن کے آپ کارسازہیں، اور برکت دے اُس چیز میں جو آپ نے ہم کو عطا فرمائی اور بچا ہم کو اُس چیز کے شر سے جس کو آپ نے مقدر فرمایا؛ کیوں کہ فیصلہ کرنے والے آپ ہی ہیں، آپ کے خلاف فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، بے شک آپ کا دشمن عزت نہیں پاسکتا اور آپ کا دوست ذلیل نہیں ہوسکتا، برکت والے ہیں آپ اے ہمارے پروردگار!اور بلند و بالا ہیں۔ یا اللہ ! مغفرت فرما مومن مردوں اور عورتوں کی اور مسلمان مَرد اور مسلمان عورتوں کے گناہ معاف فرما اور اُن کے حالات کی اصلاح فرمااور ان کے باہمی تعلقات کو درست فرمادے اور اُن کے دلوں میں الفت باہمی اور محبت پیدا کردے اور ان کے دلوں میں ایمان و حکمت کو قائم فرما دے اور ان کو اپنے رسول کے دین پر ثابت قدم فرما، اور توفیق دے انہیں کہ شکر کریں تیری اُس نعمت کا جو تو نے انھیں دی ہے اور یہ کہ وہ پورا کریں تیرا وہ عہدجو تو نے ان سے لیا ہے، اور غلبہ عطا کر اُن کو اپنے دشمن پر اور اُن کے دشمن پر اے معبود برحق! تیری ذات پاک ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ یا اللہ! مسلم افواج کی مدد فرماا اور کفار و مشرکین پر اپنی لعنت فرما جو ٓپ کے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کے دوستوں سے مقاتلہ کرتے ہیں، یا اللہ !اُن کے آپس میں اختلاف ڈال دے اور اُن کی جماعت کو متفرق کردے اور اُن کی طاقت کو پارہ پارہ کردے اور اُن کے قدم اکھاڑ دے اور اُن کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دے اور اُن کو ایسے عذاب میں پکڑ لے جس میں قوت و قدرت والا پکڑتا ہے اور اُن پر وہ عذاب نازل فرما جس کو آپ مجرم قوموں سے اٹھایا نہیں کرتے۔ (جواہر الفقہ : ۴۴۵/۲، ۴۴۶، ۴۴۷، ط: زکریا ، جدید )
و عن سالم عن أبیہ أنہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع من الرکعة الآخرة من الفجر یقول: ”اللہم العن فلانا وفلانا وفلانا“ بعد ما یقول: سمع الله لمن حمدہ ربنا ولک الحمد، کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یدعو علی صفوان بن أمیة، وسہیل بن عمرو، والحارث بن ہشام۔ (بخاری شریف، کتاب المغازی، باب قولہ ثم انزل علیکم من بعد الغم الآیة، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۲، رقم: ۳۹۲۲، ف: ۴۰۶۹)إن نبی الله صلی الله علیہ وسلم قنت شہرا فی صلاة الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان وعصیة، وبنی لحیان، … أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونة۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع، ورعل وذکوان، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۶، رقم: ۳۹۴۳) ان قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة أو السریة (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۴۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند) وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعی علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماونا علی القنوت للنازلة، ثم رأیت الشرنبلالی فی مراقی الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموی أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب: فی القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
واضح رہے کہ دعائے قنوت پڑھنے کے ایام میں مسلمانوں کو توبہ و استغفار کی کثرت ، ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز اور فرائض کا بھی خاص اہتمام رکھنا چاہیے ۔
(۳) دعائے قنوت کو قنوت نازلہ نہیں کہا جاتا۔


No comments:

Post a Comment