استغفار کرنا افضل ہے یا "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" کہنا افضل ہے؟
سوال: میں نے کافی عرصہ قبل استغفار کی فضیلت کے بارے میں متعدد کتابیں پڑھی تھیں، اور مجھے "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" کے بارے میں متعدد احادیث بھی پڑھنے کو ملیں کہ یہ مخلوق کی نماز ہے، اس کے ذریعے مخلوق کو رزق بھی عنایت ہوتا ہے، یہ اللہ کے ہاں پسندیدہ ترین جملہ ہے، اسی طرح مجھے یہ بھی پڑھنے کو ملا کہ: گناہوں کی وجہ سے انسان کو رزق سے محروم کردیا جاتا ہے، اور استغفار سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اس لئے استغفار کرنا حصولِ رزق کا باعث ہے، اب سوال یہ ہے کہ کثرت سے استغفار کرنا افضل ہے یا "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" کو گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بناکر اسے کثرت کے ساتھ کہنا افضل ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
الجواب وباللہ التوفیق:
تمام مسنون اذکار کو روز مرہ وظائف میں شامل رکھنا، اور بعض کا ضرورت کےمطابق انتخاب کرنا ہے،
اول:
ذکر کی فضیلت اور اسکا شرف دین اسلام میں بالکل واضح ہے، اور اس کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی ذکر الہی میں مشغول لوگوں کا ذکر اپنے پاس فرماتا ہے، اور ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب: "الوابل الصيب من الكلم الطيب" میں ذکر کرتے ہیں کہ ذکر الہی کے سو سے زیادہ فوائد ہیں، پھر آپ نےبہت سے فوائد شمار کروائے۔
دوم:
شرعی عمل یہ ہے کہ ذکر الہی کرنے والا شخص اذکار کے تمام الفاظ کو وقتا فوقتا اپنے اذکار میں شامل کرتا رہے، اور کسی ایک پر پابندی کرکے دوسرے اذکار کو نظر انداز مت کرے، تا کہ انسان اللہ کی طرف سے احسان کردہ تمام اذکار کا اجر و ثواب سمیٹ سکے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
" کسی شخص کو فضائل اعمال کے بارے میں کوئی حدیث معلوم ہو تو اس پر کم از کم ایک بار ضرور عمل کرے، تا کہ اپنا شمار اس پر عمل کرنے والوں میں کروا سکے، اور مطلق طور پر ترک کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ قدر امکان اس پر عمل کرنا چاہئے."انتہی "الأذكار" (ص: 8)
سوم:
یہ بات ثابت ہے کہ: "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" ہر چیز کی نماز ہے، اور اسی کی وجہ سے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے؛ چنانچہ امام احمد نے مسند: (6583) میں روایت کیا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (بیشک اللہ کے نبی نوح صلی اللہ علیہ وسلم جب قریب المرگ تھے، تو انہوں نے اپنے بیٹے کیلئے کہا: "میں تمہیں وصیت کرنے والا ہوں: تمہیں دو چیزوں کا حکم دونگا، اور دو چیزوں سے روکوں گا: میں تمہیں "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" کا حکم دیتا ہوں؛ کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں ہوں، اور "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" دوسرے پلڑے میں ہو تو "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" والا پلڑا بھاری ہوجائے گا، اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک ٹھوس حلقے کی طرح ہوں تو انہیں "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" پاش پاش کردے، اور "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" ہر چیز کی نماز ہے، اور اسی کے ذریعے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔۔۔ ") البانی رحمہ اللہ نے اسے "سلسلہ صحیحہ": (134) میں صحیح کہا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین کلام یہی ذکر ہے، چنانچہ مسلم: (2731) میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین کلام کے بارے میں نہ بتلاؤں؟) میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! مجھے اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین گفتگو کے بارے میں بتلائیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ("سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین چیز ہے)
سائل بھائی کا یہ کہنا کہ: "گناہوں کی وجہ سے انسان کو رزق سے محروم کردیا جاتا ہے، اور استغفار سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اس لئے استغفار کرنا حصولِ رزق کا باعث ہے." یہ بات مفہوم کے اعتبار سے اجمالی طور پر درست ہے، چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ
ترجمہ: اور تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو، اور اسی کی طرف رجوع کرو، وہ تمہیں ایک وقت مقررہ تک اچھا فائدہ دے گا، اور ہر فضیلت والا کام کرنیوالے کو فضیلت بھی بخشے گا [هود : 3]
اسی طرح قوم ہود کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ
ترجمہ: اے میری قوم! تم اپنے رب سے مغفرت مانگو، اور اسی کی طرف توبہ کرو، وہی تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا، اور تمہاری موجودہ قوت میں اضافہ بھی فرمائے گا، لہذا تم مجرم بن کر رو گردانی مت کرو [هود : 52]
بلاشبہ استغفار گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتا ہے، اور جب گناہ مٹ جائیں تو اس پر مرتب ہونے والے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں، اور اس طرح انسان وافر رزق، اور ہر مصیبت و پریشانی سے نجات پا لیتا ہے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (3/299) - ترتیب مکتبہ شاملہ
جبکہ یہ حدیث کہ: (آدمی کو گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے) اسے ابن ماجہ: (4022) نے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف ابن ماجہ" میں ضعیف قرار دیا ہے۔
چہارم:
بخاری: (6405) اور مسلم: (2691) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" ایک دن میں سو مرتبہ کہے تو اس کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں، چاہے سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں)
چنانچہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ یہ ذکر گناہوں کو مٹا تا ہے، تاہم یہ استغفار کے قائم مقام نہیں ہوسکتا، لہذا توبہ، گناہوں کی بخشش، اور اللہ تعالی سے معافی مانگنے کے موقع پر استغفار کرنا اس ذکر سے افضل ہوگا؛ کیونکہ استغفار کرتے وقت انسان اپنے گناہوں کو تصور میں ضرور لاتا ہے، اسی طرح خوف الہی دل میں محسوس کرتا ہے، اورساتھ میں اللہ سے معافی کی امید بھی ہوتی ہے، چنانچہ یہ ذکر استغفار کی جگہ نہیں لے سکتا؛' یہی وجہ ہے کہ مسلم : (484) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ" [ترجمہ: اللہ تعالی پاک ہے اور اس کی حمد کے ذریعے اسی کی پاکی بیان کرتا ہوں، اللہ تعالی سے بخشش چاہتا ہوں، اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں] بہت ہی کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے" عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : "میں آپ سے عرض کیا: "یا رسول اللہ! میں آپکو دیکھتی ہوں کہ آپ کثرت کے ساتھ "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ" کہتے رہتے ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے میرے رب نے خبر دی ہے کہ میں اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا، چنانچہ جب میں نے وہ علامت دیکھ لی تو میں نے کثرت سے:
"سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ"
کہنا شروع کر دیا، میں نے یہ دیکھا تھا کہ:
(إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ)
[ترجمہ؛ جب اللہ کی مدد اور فتح آئے گی] سے مراد فتح مکہ ہے، اور
(وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا)
[ترجمہ: اور آپ لوگوں کو دینِ الہی میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھیں گے تو اب اپنے رب کی حمد بیان کر، اور اسی سے بخشش طلب کر، بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا ہے]"
چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" کیساتھ استغفار بھی ملایا، لہذا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محض تسبیح کرتے رہنا استغفار کا قائم مقام نہیں بن سکتا، اور نہ ہی استغفار تسبیح کا قائم مقام بن سکتا ہے؛ بلکہ بندے سے ہر دو امر مطلوب ہیں، ہاں یہ الگ بات ہے کہ حالات کے مطابق ایک دوسرے کو فوقیت مل سکتی ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بہت ہی مفید نکتہ ہے، جس کیلئے انسان کو انتہائی حاذق اور دانشمند ہونا چاہیے، اسی طرح انسان کو اس بات کا ادراک ہو کہ کسی چیز کی مخصوص فضیلت، اور چند حالات کی وجہ سے اسے حاصل ہونے والی عارضی فضیلت میں فرق ہے، اس لئے ہر چیز کو اس کا پورا پورا حق دے، اور ہر عمل مناسب وقت و حالت میں کرے؛ بالکل ایسے ہی جیسے آنکھ کا اپنا مقام ہے، تو پاؤں کا اپنا ہے، اسی طرح پانی کیلئے مخصوص حالت ہے، تو گوشت کیلئے کوئی اور حالت ہے!!
اور مختلف اشیاء کے ماتب کا خیال رکھنے سے ہی امر و نہی کا نظام کامل ترین صورت اختیار کرتا ہے، اللہ تعالی ہمیں توفیق دے۔
بالکل ایسے ہی جیسے صابن اور اشنان وغیرہ سے کپڑے کو دھونا مخصوص وقت میں مفید ثابت ہوتا ہے، جبکہ خوشبو والی دھونی اور عرق گلاب لگانے کا اپنا ایک وقت ہے، ۔
میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ایک دن کہا: "کسی اہل علم سے پوچھا گیا ہے کہ: انسان کیلئے تسبیح افضل ہے یا استغفار؟" (آپ کیا فرماتے ہیں)، تو انہوں نے فرمایا: اگر کپڑا پہلے ہی پاک صاف ہو تو خوشبو والی دھونی، اور عرق گلاب اس کیلئے مفید ہوتا ہے، اور اگر کپڑا میلا کچیلا ہو تو صابن وگرم پانی اس کیلئے زیادہ مفید ہیں!!
پھر مجھے انہوں نے فرمایا: "جب ہمارے کپڑے ہی میلے ہیں تو [تسبیح کا کیا فائدہ، ہمیں استغفار ہی کرنا پڑے گا]" انتہی
"الوابل الصیب" (232-233)
-واللہ اعلم -
آپ رحمہ اللہ کا مقصد یہ تھا کہ: انسان کو ہر وقت و ہر لمحے استغفار کی ضرورت رہتی ہے۔
اس طرح سائل کو چاہئے کہ تسبیح و تحمید سے کنارہ کشی نہ کرے، جیسے کہ پہلے بھی اس بات کا ذکر ہوچکا ہے، وہ انہیں بھی ساتھ میں ملا کر چلے، اور مخصوص حالات کے پیش نظر کسی ایک ذکر کو ترجیح بھی دے سکتا ہے، یہاں سے فقہ العبودیت، اور اعمال کی درجہ بندی کا باب شروع ہوجائے گا۔
واللہ اعلم
اول:
ذکر کی فضیلت اور اسکا شرف دین اسلام میں بالکل واضح ہے، اور اس کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی ذکر الہی میں مشغول لوگوں کا ذکر اپنے پاس فرماتا ہے، اور ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب: "الوابل الصيب من الكلم الطيب" میں ذکر کرتے ہیں کہ ذکر الہی کے سو سے زیادہ فوائد ہیں، پھر آپ نےبہت سے فوائد شمار کروائے۔
دوم:
شرعی عمل یہ ہے کہ ذکر الہی کرنے والا شخص اذکار کے تمام الفاظ کو وقتا فوقتا اپنے اذکار میں شامل کرتا رہے، اور کسی ایک پر پابندی کرکے دوسرے اذکار کو نظر انداز مت کرے، تا کہ انسان اللہ کی طرف سے احسان کردہ تمام اذکار کا اجر و ثواب سمیٹ سکے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
" کسی شخص کو فضائل اعمال کے بارے میں کوئی حدیث معلوم ہو تو اس پر کم از کم ایک بار ضرور عمل کرے، تا کہ اپنا شمار اس پر عمل کرنے والوں میں کروا سکے، اور مطلق طور پر ترک کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ قدر امکان اس پر عمل کرنا چاہئے."انتہی "الأذكار" (ص: 8)
سوم:
یہ بات ثابت ہے کہ: "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" ہر چیز کی نماز ہے، اور اسی کی وجہ سے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے؛ چنانچہ امام احمد نے مسند: (6583) میں روایت کیا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (بیشک اللہ کے نبی نوح صلی اللہ علیہ وسلم جب قریب المرگ تھے، تو انہوں نے اپنے بیٹے کیلئے کہا: "میں تمہیں وصیت کرنے والا ہوں: تمہیں دو چیزوں کا حکم دونگا، اور دو چیزوں سے روکوں گا: میں تمہیں "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" کا حکم دیتا ہوں؛ کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں ہوں، اور "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" دوسرے پلڑے میں ہو تو "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" والا پلڑا بھاری ہوجائے گا، اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک ٹھوس حلقے کی طرح ہوں تو انہیں "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" پاش پاش کردے، اور "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" ہر چیز کی نماز ہے، اور اسی کے ذریعے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔۔۔ ") البانی رحمہ اللہ نے اسے "سلسلہ صحیحہ": (134) میں صحیح کہا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین کلام یہی ذکر ہے، چنانچہ مسلم: (2731) میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین کلام کے بارے میں نہ بتلاؤں؟) میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! مجھے اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین گفتگو کے بارے میں بتلائیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ("سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین چیز ہے)
سائل بھائی کا یہ کہنا کہ: "گناہوں کی وجہ سے انسان کو رزق سے محروم کردیا جاتا ہے، اور استغفار سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اس لئے استغفار کرنا حصولِ رزق کا باعث ہے." یہ بات مفہوم کے اعتبار سے اجمالی طور پر درست ہے، چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ
ترجمہ: اور تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو، اور اسی کی طرف رجوع کرو، وہ تمہیں ایک وقت مقررہ تک اچھا فائدہ دے گا، اور ہر فضیلت والا کام کرنیوالے کو فضیلت بھی بخشے گا [هود : 3]
اسی طرح قوم ہود کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ
ترجمہ: اے میری قوم! تم اپنے رب سے مغفرت مانگو، اور اسی کی طرف توبہ کرو، وہی تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا، اور تمہاری موجودہ قوت میں اضافہ بھی فرمائے گا، لہذا تم مجرم بن کر رو گردانی مت کرو [هود : 52]
بلاشبہ استغفار گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتا ہے، اور جب گناہ مٹ جائیں تو اس پر مرتب ہونے والے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں، اور اس طرح انسان وافر رزق، اور ہر مصیبت و پریشانی سے نجات پا لیتا ہے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (3/299) - ترتیب مکتبہ شاملہ
جبکہ یہ حدیث کہ: (آدمی کو گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے) اسے ابن ماجہ: (4022) نے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف ابن ماجہ" میں ضعیف قرار دیا ہے۔
چہارم:
بخاری: (6405) اور مسلم: (2691) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" ایک دن میں سو مرتبہ کہے تو اس کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں، چاہے سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں)
چنانچہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ یہ ذکر گناہوں کو مٹا تا ہے، تاہم یہ استغفار کے قائم مقام نہیں ہوسکتا، لہذا توبہ، گناہوں کی بخشش، اور اللہ تعالی سے معافی مانگنے کے موقع پر استغفار کرنا اس ذکر سے افضل ہوگا؛ کیونکہ استغفار کرتے وقت انسان اپنے گناہوں کو تصور میں ضرور لاتا ہے، اسی طرح خوف الہی دل میں محسوس کرتا ہے، اورساتھ میں اللہ سے معافی کی امید بھی ہوتی ہے، چنانچہ یہ ذکر استغفار کی جگہ نہیں لے سکتا؛' یہی وجہ ہے کہ مسلم : (484) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ" [ترجمہ: اللہ تعالی پاک ہے اور اس کی حمد کے ذریعے اسی کی پاکی بیان کرتا ہوں، اللہ تعالی سے بخشش چاہتا ہوں، اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں] بہت ہی کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے" عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : "میں آپ سے عرض کیا: "یا رسول اللہ! میں آپکو دیکھتی ہوں کہ آپ کثرت کے ساتھ "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ" کہتے رہتے ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے میرے رب نے خبر دی ہے کہ میں اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا، چنانچہ جب میں نے وہ علامت دیکھ لی تو میں نے کثرت سے:
"سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ"
کہنا شروع کر دیا، میں نے یہ دیکھا تھا کہ:
(إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ)
[ترجمہ؛ جب اللہ کی مدد اور فتح آئے گی] سے مراد فتح مکہ ہے، اور
(وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا)
[ترجمہ: اور آپ لوگوں کو دینِ الہی میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھیں گے تو اب اپنے رب کی حمد بیان کر، اور اسی سے بخشش طلب کر، بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا ہے]"
چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" کیساتھ استغفار بھی ملایا، لہذا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محض تسبیح کرتے رہنا استغفار کا قائم مقام نہیں بن سکتا، اور نہ ہی استغفار تسبیح کا قائم مقام بن سکتا ہے؛ بلکہ بندے سے ہر دو امر مطلوب ہیں، ہاں یہ الگ بات ہے کہ حالات کے مطابق ایک دوسرے کو فوقیت مل سکتی ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بہت ہی مفید نکتہ ہے، جس کیلئے انسان کو انتہائی حاذق اور دانشمند ہونا چاہیے، اسی طرح انسان کو اس بات کا ادراک ہو کہ کسی چیز کی مخصوص فضیلت، اور چند حالات کی وجہ سے اسے حاصل ہونے والی عارضی فضیلت میں فرق ہے، اس لئے ہر چیز کو اس کا پورا پورا حق دے، اور ہر عمل مناسب وقت و حالت میں کرے؛ بالکل ایسے ہی جیسے آنکھ کا اپنا مقام ہے، تو پاؤں کا اپنا ہے، اسی طرح پانی کیلئے مخصوص حالت ہے، تو گوشت کیلئے کوئی اور حالت ہے!!
اور مختلف اشیاء کے ماتب کا خیال رکھنے سے ہی امر و نہی کا نظام کامل ترین صورت اختیار کرتا ہے، اللہ تعالی ہمیں توفیق دے۔
بالکل ایسے ہی جیسے صابن اور اشنان وغیرہ سے کپڑے کو دھونا مخصوص وقت میں مفید ثابت ہوتا ہے، جبکہ خوشبو والی دھونی اور عرق گلاب لگانے کا اپنا ایک وقت ہے، ۔
میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ایک دن کہا: "کسی اہل علم سے پوچھا گیا ہے کہ: انسان کیلئے تسبیح افضل ہے یا استغفار؟" (آپ کیا فرماتے ہیں)، تو انہوں نے فرمایا: اگر کپڑا پہلے ہی پاک صاف ہو تو خوشبو والی دھونی، اور عرق گلاب اس کیلئے مفید ہوتا ہے، اور اگر کپڑا میلا کچیلا ہو تو صابن وگرم پانی اس کیلئے زیادہ مفید ہیں!!
پھر مجھے انہوں نے فرمایا: "جب ہمارے کپڑے ہی میلے ہیں تو [تسبیح کا کیا فائدہ، ہمیں استغفار ہی کرنا پڑے گا]" انتہی
"الوابل الصیب" (232-233)
-واللہ اعلم -
آپ رحمہ اللہ کا مقصد یہ تھا کہ: انسان کو ہر وقت و ہر لمحے استغفار کی ضرورت رہتی ہے۔
اس طرح سائل کو چاہئے کہ تسبیح و تحمید سے کنارہ کشی نہ کرے، جیسے کہ پہلے بھی اس بات کا ذکر ہوچکا ہے، وہ انہیں بھی ساتھ میں ملا کر چلے، اور مخصوص حالات کے پیش نظر کسی ایک ذکر کو ترجیح بھی دے سکتا ہے، یہاں سے فقہ العبودیت، اور اعمال کی درجہ بندی کا باب شروع ہوجائے گا۔
واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment